محدثین کے ابواب ’’پہلے اور بعد؟!‘‘تحریر: محدث العصر حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ |
سوال:
الجواب: گھمن صاحب کی مذکورہ بات کئی وجہ سے غلط ہے، تاہم سب سے پہلے تبویبِ محدثین کے سلسلے میں دس (10) حوالے پیشِ خدمت ہیں: 1) امام ابو داود نے باب باندھا:
اس کے بعد امام ابو داود نے دوسرا باب باندھا:
یعنی امام ابو داود نے پہلے بسم اللہ الرحمٰن الرحیم عدمِ جہر (سراً فی الصلوٰۃ) والا باب لکھا اور بعد میں بسم اللہ بالجہر والا باب باندھا تو کیا گھمن صاحب اور اُن کے ساتھی اس بات کے لئے تیار ہیں کہ سراً بسم اللہ کو منسوخ اور جہراً بسم اللہ کو ناسخ قرار دیں؟ اور اگر نہیں تو پھر اُن کا اُصول کہاں گیا؟! تنبیہ: امام ترمذی نے بھی ترکِ جہر کا پہلے اور جہر کا باب بعد میں باندھا ہے۔ دیکھئے سنن الترمذی (ص 67۔68 قبل ح 244، 245) 2) امام ترمذی رحمہ اللہ نے باب باندھا:
پھر بعد میں باب باندھا:
کیا گھمن صاحب اپنے خود ساختہ قاعدے و قانون کی رُو سے تین وتر کو منسوخ اور ایک وتر کو ناسخ سمجھ کر ایک وتر پڑھنے کے قائل و فاعل ہو جائیں گے؟! 3) امام ابن ماجہ نے پہلے کعبہ کی طرف پیشاب کرنے کی ممانعت والا باب باندھا:
اور بعد میں باب باندھا:
کیا گھمن صاحب! قبلہ رخ پیشاب کرنے کی ممانعت کو اپنے اصول کی وجہ سے منسوخ سمجھتے ہیں؟! 4) امام نسائی نے رکوع میں ذکر (یعنی تسبیحات) کے کئی باب باندھے۔ مثلاً:
اور بعد میں باب باندھا:
کیا گھمنی قاعدے کی رُو سے رکوع کی تسبیحات پڑھنا بھی منسوخ ہے؟! 5) امام ابن ابی شیبہ نے نماز میں ہاتھ باندھنے کا باب درج ذیل الفاظ میں لکھا:
اور بعد میں نماز میں ہاتھ چھوڑنے کا باب باندھا:
ان دونوں بابوں میں سے کون سا باب گھمن صاحب کے نزدیک منسوخ ہے؟ پہلا یا بعد والا؟ کیا خیال ہے، اب دیوبندی حضرات ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھا کریں گے یا پھر الیاس گھمن صاحب کے اصول کو ہی دریا میں پھینک دیں گے؟! 6) امام نسائی نے نمازِ عصر کے بعد نوافل پڑھنے سے منع والا باب باندھا:
اور بعد میں عصر کے بعد نماز (نوافل) کی اجازت، کا باب باندھا:
کیا گھمن صاحب کے اصول سے نمازِ عصر کے بعد نوافل پڑھنے سے ممانعت والی حدیث منسوخ ہے؟! 7) امام ابو داود نے تین تین دفعہ اعضائے وضوء دھونے کا باب باندھا:
اور بعد میں ایک دفعہ اعضائے وضوء دھونے کا باب باندھا:
کیا وضوء کرتے وقت تین تین دفعہ اعضائے وضوء دھونا منسوخ ہے؟ اگر نہیں تو پھر گھمن صاحب کا قاعدہ کہاں گیا؟! 8) امام نسائی نے سجدوں کی دعا (تسبیحات) کے کئی باب باندھے۔ مثلاً:
اور بعد میں باب باندھا:
کیا گھمنی قاعدے و قانون کی رُو سے سجدوں کی تسبیحات بھی منسوخ ہیں؟! 9) امام ابن ابی شیبہ نے ایک باب باندھ کر وہ روایات پیش کیں، جن سے بعض لوگ یہ استدلال کرتے ہیں کہ گاؤں میں جمعہ نہیں پڑھنا چاہئے۔
اور انھوں نے بعد میں دوسرا باب باندھ کر وہ صحیح روایات پیش کیں، جن سے گاؤں میں نماز جمعہ پڑھنے کا ثبوت ملتا ہے۔
کیا گھمن صاحب اور اُن کے ساتھی اپنے نرالے قاعدے کی ’’لاج‘‘ رکھتے ہوئے گاؤں میں نمازِ جمعہ کی مخالف تمام روایات کو منسوخ سمجھتے ہیں؟! اگرنہیں تو کیوں اور اُن کا قاعدہ کہاں گیا؟ 10) امام ابن ابی شیبہ نے نمازِ جنازہ میں چار تکبیروں کا باب باندھا:
اور اس کے فوراً بعد پانچ تکبیروں کا باب باندھا:
کیا گھمن صاحب کی پارٹی میں کسی ایک آدمی میں بھی یہ جرأت ہے کہ وہ اپنے اس گھمنی قاعدے، قانون اور اصول کی لاج رکھتے ہوئے جنازے کی چار تکبیروں کو منسوخ اور پانچ کو ناسخ کہہ دے؟! اس طرح کی اور بھی کئی مثالیں ہیں۔ مثلاً امام نسائی نے ایک باب میں: سجدہ کرنے سے پہلے گھٹنے زمین پر لگانے والی (ضعیف) حدیث لکھی اور پھر اس کے فوراً بعد دو حدیثیں لکھیں جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ پہلے دونوں ہاتھ لگائے جائیں۔ دیکھئے سنن النسائی (ص150۔151، قبل ح 1090، 1091، 1092) امام ابو داود نے آگ پر پکی ہوئی چیز کھانے سے وضو کے ترک کا باب پہلے باندھا ہے اور پھر دوسرے باب میں آگ پر پکا ہوا کھانا کھانے سے وضوء ٹوٹنے کی حدیثیں لائے ہیں۔ (دیکھئے سنن ابی داود ح 187۔193، اور ح 194۔195) معلوم ہوا کہ گھمن صاحب کا مزعومہ قاعدہ، قانون اور اصول باطل ہے، جس کی تردید کے لئے ہمارے مذکورہ حوالے ہی کافی ہیں اور دیوبندی حضرات میں سے کوئی بھی اس اصول کو من و عن تسلیم کر کے دوسرے ابواب والی مذکورہ روایات کو منسوخ نہیں سمجھتا، لہٰذا اہلِ حدیث یعنی اہلِ سنت کے خلاف یہ خود ساختہ قاعدہ و اصول پیش کر کے پروپیگنڈا کرنا غلط اور مردود ہے۔ بطورِ لطیفہ اور بطورِ عبرت و نصیحت عرض ہے کہ نیموی حنفی صاحب نے مسجد میں دوسری نماز باجماعت کے مکروہ ہونے کا باب باندھا:
اور اس کے فوراً بعد دوسری جماعت کرانے کے جواز کا باب باندھا:
کیا یہاں بھی گھمن صاحب اور آلِ گھمن جماعتِ ثانیہ کی تکرار کے بارے میں دعوئ کراہت منسوخ اور جواز کو ناسخ سمجھ کر جائز ہونے کا فتوی دیں گے۔؟! ایسا ہرگز نہیں ہونا چاہئے کہ ایک اصول و قاعدہ خود بنا کر پھر خود ہی اُسے توڑ دیا جائے، پاش پاش کر دیا جائے بلکہ ھَبآءً مَنْثُوْرًا بنا کر ہوا میں اُڑا دیا جائے۔ اس طرح سے تو بڑی جگ ہنسائی ہوتی ہے۔ کیا آلِ دیوبند میں کوئی بھی ایسا نہیں جو گھمن صاحب کو سمجھائے کہ اپنی اوقات سے پاؤں باہر نہ پھیلائیں اور اپنے خود ساختہ اصولوں کی بذاتِ خودتو مخالفت نہ کریں۔!؟ ثابت ہوا کہ اہلِ حدیث (یعنی اہلِ سنت) منسوخ روایات پر عمل نہیں کرتے، لہٰذا گھمن صاحب نے اپنی مذکورہ تقریر میں خطیبانہ جوش کا مظاہرہ کرتے ہوئے اہلِ حدیث کے بارے میں غلط بیانی سے کام لیا ہے، جسے دوسرے الفاظ میں دروغ گوئی کہا جاتا ہے اور ایسا کرنا شریعتِ اسلامیہ میں ممنوع ہے۔ منسوخ روایات پر دیوبندی علماء و عوام کے عمل کی دو مثالیں درج ذیل ہیں: 1: صبح کی نماز روشنی میں پڑھنا بھی ثابت ہے اور اندھیرے میں پڑھنا بھی ثابت ہے۔ ایک صحیح حدیث میں آیا ہے کہ ’’مَا صَلَّی رَسُولُ اللہِ ﷺ الصَّلَاۃَ لِوَقْتِہَا الْآخِرِ حَتَّی قَبَضَہُ اللہُ‘‘ رسول اللہ ﷺ نے وفات تک آخری وقت میں کبھی نماز نہیں پڑھی۔ (المستدرک للحاکم 1/ 190 ح 682 وسندہ حسن، وصححہ الحاکم علی شرط الشیخین ووافقہ الذہبی) اس روایت سے معلوم ہوا کہ صبح کی نماز روشنی میں پڑھنا منسوخ ہے۔ نیز دیکھئے الناسخ والمنسوخ للحازمی (ص 77) اور میری کتاب ہدیۃ المسلمین (حدیث نمبر 8 ص 29۔31 جدید ایڈیشن) عام دیوبندیوں کا عمل یہ ہے کہ وہ رمضان کے علاوہ باقی مہینوں میں نمازِ فجر خوب روشنی کر کے یعنی منسوخ وقت میں پڑھتے ہیں۔ 2: ایک روایت میں ’’وَإِذَا قَرَأَ فَأَنْصِتُوْا‘‘ یعنی جب امام قراءت کرے تو تم خاموش ہو جاؤ، کے الفاظ آئے ہیں۔ دیکھئے صحیح مسلم (404، ترقیم دارالسلام: 905) چونکہ اس حدیث کے ایک راوی سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ تھے۔ (صحیح مسلم: 404، دارالسلام: 905) اور سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے فاتحہ خلف الامام کا حکم ثابت ہے۔ دیکھئے جزء القراءۃ للبخاری (153، وسندہ صحیح) آثار السنن (358 وقال: و اسنادہ حسن) اور میری کتاب: علمی مقالات (ج 2 ص 263) حنفیوں کا مشہور اُصول ہے کہ اگر راوی اپنی روایت کے خلاف فتویٰ دے تو وہ روایت منسوخ ہوتی ہے، لہٰذا اس فتوے کی رُو سے ’’وَإِذَا قَرَأَ فَأَنْصِتُوْا‘‘ والی روایت منسوخ ہے، لیکن دیوبندی حضرات فاتحہ خلف الامام کے مسئلے پر اپنی کتابوں اور مناظروں میں اس منسوخ حدیث کو بطورِ حجت پیش کرتے ہیں۔ اپنے ہی اصول خود توڑ کر پاش پاش کر دینا مذہبی خود کُشی کی بدترین مثال ہے۔ ٭ فاتحہ خلف الامام کا منسوخ ہونا تو بہت دُور کی بات ہے، کسی ایک بھی صحیح حدیث میں صراحت کے ساتھ فاتحہ خلف الامام کی مخالفت ثابت نہیں۔ دیوبندیوں کے پیارے عبدالحئ لکھنوی صاحب نے علانیہ لکھا ہے:
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ، سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ، سیدنا عبادہ بن الصامت رضی اللہ عنہ اور دیگر صحابۂ کرام فاتحہ خلف الامام کے قائل و فاعل تھے۔ دیکھئے میری کتاب الکواکب الدریہ (ص 24۔27) کیا یہ جلیل القدر صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین منسوخ پر عمل پیرا تھے؟ حافظ ابن عبدالبر رحمہ اللہ نے فرمایا:
٭ نماز میں رفع یدین قبل الرکوع و بعدہ کو منسوخ کہنا کئی وجہ سے باطل ہے، جس کی تفصیل میری کتاب نور العینین فی اثبات رفع الیدینمیں دیکھی جا سکتی ہے، فی الحال گھمن صاحب کے دعوئ منسوخیت کے ابطال کے لئے دس دلیلیں اور حوالے پیشِ خدمت ہیں: 1: رفع یدین کا متروک یا منسوخ ہونا نبی کریم ﷺ سے، آپ کی ساری زندگی میں کسی ایک نماز کی کسی ایک رکعت میں بھی باسند صحیح و مقبول ثابت نہیں ہے۔ تنبیہ: اس سلسلے میں امام سفیان ثوری (مدلس) کی عاصم بن کلیب سے روایت اُن کے ’’عن‘‘ یعنی تدلیس کی وجہ سے ضعیف ہے۔ تفصیل کے لئے دیکھئے نور العینین اور الحدیث حضرو: ص 67 2: رفع یدین کا منسوخ یا متروک ہونا کسی ایک صحابی سے بھی با سند صحیح و مقبول ثابت نہیں ہے۔ تنبیہ: سیدنا عمر رضی اللہ عنہ، سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ تینوں صحابیوں میں سے کسی ایک سے بھی ترکِ رفع یدین ثابت نہیں ہے۔ دیکھئے میری کتاب: نور العینین فی اثبات رفع الیدین اب آلِ دیوبند کے پسندیدہ علماء کے حوالے پیشِ خدمت ہیں: 3: عبدالحئ لکھنوی نے دعوئ منسوخیت کو بے دلیل قرار دیا ہے۔ (دیکھئے التعلیق الممجد ص 91) 4: انور شاہ کشمیری دیوبندی نے کہا:
یاد رہے کہ یہ قول بطورِ الزامی دلیل پیش کیا گیا ہے، ترکِ رفع یدین کے سلسلے میں انور شاہ صاحب وغیرہ کے نظریات سے ہم پر رد کرنا غلط ہے۔ 5: ابو الحسن سندھی حنفی نے رفع یدین کے منسوخ ہونے کا انکار کیا ہے۔ دیکھئے شرح سنن ابن ماجہ (ج 1 ص 282 تحت ح 858) 6: بدر عالم میرٹھی نے بھی یہی کہا کہ رفع یدین منسوخ نہیں ہے۔ (البدر الساری 2/ 255) 7: شاہ ولی اللہ دہلوی صاحب نے رفع یدین کے بارے میں فرمایا:’’اور جو شخص رفع یدین کرتا ہے میرے نزدیک اس شخص سے جو رفع یدین نہیں کرتا اچھا ہے……‘‘ (حجۃ اللہ البالغہ اردو ج 1 ص 361، عربی ج 2 ص 10) معلوم ہوا کہ شاہ ولی اللہ صاحب رفع یدین کو منسوخ نہیں سمجھتے تھے۔ سرفراز خان صفدر صاحب نے ایک بریلوی کو مخاطب کر کے لکھا ہے:
عرض ہے کہ دیوبندی حضرات اپنے تسلیم کردہ بزرگ کی بات تو مان لیں۔! 8: صوفی عبدالحمید سواتی صاحب نے کہا: ’’رکوع جاتے وقت اور اس سے اٹھتے وقت رفع یدین نہ کرنا زیادہ بہتر اور کر لے تو جائز ہے۔‘‘ (نمازمسنون ص 349) معلوم ہوا صوفی عبدالحمید صاحب رفع یدین کو منسوخ نہیں سمجھتے تھے۔ رہا اُن کا ترکِ رفع یدین کو زیادہ بہتر کہنا تو یہ اُن کی دیوبندیت ہے اور اس پر کوئی صحیح دلیل وارد نہیں ہے، لہٰذا زیادہ بہتر والی بات مردود ہے۔ 9: اشرفعلی تھانوی صاحب سے پوچھا گیا: ’’رفع الیدین فی الصلوٰۃ جائز ہے یا نہیں۔؟‘‘ تو انھوں نے جواب دیا: ’’جائز ہے جیسا کہ عدم رفع بھی جائز ہے…‘‘ (امداد الفتاویٰ ج1ص 148، سوال نمبر 208) معلوم ہوا کہ تھانوی صاحب رفع یدین کو منسوخ نہیں سمجھتے تھے، ورنہ کبھی جواز کا فتویٰ نہ دیتے۔ 10: رفع یدین اور ترک رفع یدین کے بارے میں محمد منظور نعمانی دیوبندی نے کہا: ’’دونوں طریقوں کے جائز اور ثابت ہونے میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔‘‘ (معارف الحدیث ج 3 ص 265) عرض ہے کہ ترک تو ثابت نہیں، لہٰذا جائز کس طرح ہوا؟ تاہم اس عبارت سے ظاہر ہے کہ نعمانی صاحب کے نزدیک رفع یدین منسوخ نہیں ہے۔ احادیثِ صحیحہ، آثارِ صحابہ اور اپنے تسلیم کردہ اکابر کے مذکورہ حوالوں کے مقابلے میں محمد الیاس گھمن صاحب کا رفع یدین کو منسوخ قرار دینا غلط و مردود بھی ہے اور دیوبندی اکابر کے خلاف بغاوت بھی ہے۔ اُمید ہے کہ آلِ دیوبند انھیں سمجھانے کی کوشش کریں گے۔ واللہ اعلم تنبیہ: ابواب (پہلے یا بعد)کے سلسلے میں ہمارے شاگرد سلیم اختر صاحب حفظہ اللہ (کراچی) نے بھی آلِ دیوبند(کے عبدالغفار…) کا بہترین رد لکھا ہے۔ ……………… اصل مضمون ……………… اصل مضمون کے لئے دیکھئے فتاویٰ علمیہ المعروف توضیح الاحکام (جلد 3 صفحہ 250 تا 259) تحقیقی و علمی مقالات (جلد 4 صفحہ 482 تا 488) للشیخ حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ |
ہماری موبائل ایپ انسٹال کریں۔ تحقیقی مضامین اور تحقیقی کتابوں کی موجودہ وقت میں ان شاء اللہ سب سے بہترین ایپ ہے، والحمدللہ۔
دیگر بلاگ پوسٹس:
Android App --or-- iPhone/iPad App
IshaatulHadith Hazro © 2024