پانچ فرض نمازوں کی رکعتیں اور سنن و نوافلتحریر: محدث العصر حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ |
……… سوال ……… محترم حافظ صاحب! ایک دیوبندی ’’بھائی‘‘ نے ہم سے یہ سوال کیا ہے کہ آپ ہمیں نماز پنجگانہ کی رکعات کی تعداد احادیث صحیحہ سے دلیل کے ساتھ بتا دیں تو ہم مان جاتے ہیں کہ مسلک اہلحدیث صحیح مسلک ہے جبکہ ہمارے پاس فقہ حنفی میں نماز پنجگانہ کی رکعات کی تعداد موجود ہے۔ اور ہمارے امام ابو حنیفہ ؒ کی کاوشوں سے ہی ان رکعات کی تعداد علم میں آئی ہے اور پڑھی جاتی ہیں۔ (جن میں عشاء کی 17 رکعات بھی شامل ہیں) چنانچہ گزارش ہے کہ آپ صحیح حدیث کی روشنی میں مکمل تفصیل اور تخریج کے ساتھ یہ مسئلہ لکھ دیں۔ براہ کرم لکھتے وقت صرف حدیث نمبر نہ لکھیں بلکہ مکمل تخریج کے ساتھ لکھیں۔ نیز نفلی رکعات کی تعداد بھی لکھ دیں۔ ……… الجواب ……… رسول اللہ ﷺ نے سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے فرمایا:
سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا:
اس حدیث سے درج ذیل باتیں ثابت ہیں: 1- نمازِ فجر دو رکعت فرض ہے۔ 2- نمازِ ظہر اپنے علاقے میں چار رکعتیں اور سفر میں دو رکعتیں فرض ہے۔ 3- نمازِ عصر اپنے علاقے میں چار رکعتیں اور سفر میں دو رکعتیں فرض ہے۔ 4- نمازِ مغرب تین رکعتیں فرض ہے۔ 5- نمازِ عشاء اپنے علاقے میں چار رکعتیں اور سفر میں دو رکعتیں فرض ہے۔ دیوبندی نے نمازِ پنجگانہ کی رکعات کا جو مطالبہ کیا، وہ اس حدیث سے ثابت ہو گیا اور یاد رہے کہ ان رکعاتِ مذکورہ پر مسلمانوں کا اجماع ہے۔ دیکھئے مراتب الاجماع لابن حزم (ص 24۔25) اور میری کتاب توضیح الاحکام (ج 1 ص 408) دیوبندی کا یہ کہنا ’’ہمارے پاس فقہ حنفی میں نماز پنجگانہ کی رکعات کی تعداد موجود ہیں۔‘‘ غلط ہے، کیونکہ فقہ حنفی تو امام ابو حنیفہ کے اجتہاد کا نام ہے اور حنفیوں کے پاس فقہ میں امام ابو حنیفہ کی کوئی کتاب موجود نہیں ہے۔ ابن فرقد شیبانی اور قاضی ابو یوسف دونوں جمہور محدثین کے نزدیک ضعیف و مجروح تھے اور ان سے بھی یہ دیوبندی دعویٰ ثابت نہیں ہے۔ امام ابو حنیفہ کی وفات کے بہت بعد پیدا ہونے والے قدوری، سرخسی اور ملا مرغینانی وغیرہم کے حوالے فضول ہیں اور انھیں فقۂ حنفی کہنا غلط ہے۔ مذکورہ دیوبندی سے ہمارا یہ مطالبہ ہے کہ وہ صحیح سند کے ساتھ امام ابو حنیفہ سے پانچ نمازوں کے فرائض کی تعداد، سنن کی تعداد اور نوافل ثابت کر دیں، اور اگر نہ کر سکیں تو پھر اہلِ حدیث یعنی اہلِ سنت کے خلاف پروپیگنڈا کرنا چھوڑ دیں۔ جب امام ابو حنیفہ پیدا نہیں ہوئے تھے تو لوگ کتنی رکعتیں پڑھتے تھے؟ انھیں کہیں کہ وہ صحیح سند کے ساتھ امام ابو حنیفہ سے عشاء کی 17 رکعات بھی ثابت کریں۔ یہ لوگ امام ابو حنیفہ کا نام لے کر، اُن کی طرف جھوٹی باتیں منسوب کر کے اہلِ حدیث (اہلِ سنت) کو دھوکا دیتے ہیں۔ سنتوں کی تعداد درج ذیل ہے: 1- صبح کی نماز سے پہلے دو رکعتیں۔ (صحیح بخاری ج 1 ص 157 ح 1180، ابواب التطوع باب الرکعتیں قبل الظھر) 2- ظہر کی نماز سے پہلے دو رکعتیں۔ (صحیح بخاری، دیکھئے سابقہ فقرہ نمبر 1) ظہر کی نماز کے بعد دو رکعتیں (صحیح بخاری، دیکھئے سابقہ فقرہ نمبر 1) ظہر کی نماز سے پہلے چار رکعتیں بھی ثابت ہیں۔ دیکھئے صحیح بخاری (ج 1 ص 157 ح 1182، ابواب التطوع باب الرکعتیں قبل الظھر) 3- عصر سے پہلے دو رکعتیں۔ (سنن ابی داود: 1272، وسندہ حسن) عصر سے پہلے چار رکعتوں کی فضیلت بھی ثابت ہے۔ (دیکھئے سنن الترمذی، کتاب الصلوٰۃ باب ماجاء فی الأربع قبل العصر ح 430 وقال:’’ھذا حدیث حسن غریب‘‘ وسندہ حسن) 4- مغرب کے بعد دو رکعتیں (صحیح بخاری ج 1 ص 128 ح 937، کتاب الجمعہ باب الصلوٰۃ بعد الجمعۃ و قبلھا) 5- عشاء کے بعد دو رکعتیں۔ (صحیح بخاری، دیکھئے سابقہ فقرہ نمبر 4) ((إِلَّا أَنْ تَطَوَّعَ)) سوائے اس کے جو تم نفل پڑھو۔ (صحیح بخاری ج 1 ص 12 ح 46 کتاب الایمان باب الزکوٰۃ من الاسلام) کی رُو سے (دو دو کر کے) جتنے نوافل پڑھیں جائز ہے۔ دیوبندی کو کہیں کہ ہم نے آپ کے سوال کا جواب صحیح حدیث اور اجماع سے دے دیا ہے، لہٰذا آپ اب مسلک اہلِ حدیث قبول کر لیں۔ اگر وہ مسلکِ حق قبول نہیں کرتے تو پھر اپنے دعوے کے مطابق امام ابو حنیفہ سے صحیح سند کے ساتھ درج ذیل باتیں ثابت کریں: 1- نماز پنجگانہ کے فرائض کی تعداد 2- سُنن کی تعداد 3- نوافل 4- عشاء کی 17 رکعات یاد رہے کہ بے سند کتابوں مثلاً قدری، مبسوط، ہدایہ اور فتاویٰ شامی وغیرہ کے حوالوں کی کوئی ضرورت نہیں اور ضعیف و مجروح راویوں مثلاً قاضی ابو یوسف اور محمد بن الحسن بن فرقد الشیبانی وغیرہما کا کوئی حوالہ پیش نہ کریں۔ دیوبندیوں اور بریلویوں کا یہ کہنا کہ ’’ہماری نماز امام ابو حنیفہ سے ثابت ہے‘‘ بالکل غلط اور جھوٹ ہے۔ کیا امام ابو حنیفہ نے کہا تھا کہ اے بریلویو! اذان سے پہلے صلوٰۃ وسلام پڑھو اور اے دیوبندیو! تم نہ پڑھو۔ اے بریلویو! تم جنازے کے بعد دعا کرو اور اے دیوبندیو! تم یہ دعا نہ کرو۔ اے دیوبندیو! تم ولاالضالین ظاء کے ساتھ پڑھو اور اے بریلویو! تم ولا الضالین دال کے ساتھ پڑھو۔ اگر صحیح متصل سند ہے تو اسے پیش کرو ورنہ یاد رکھو کہ امام ابو حنیفہ تمھاری ان باتوں سے بَری ہیں، لہٰذا خواہ مخواہ اُن کا نام لے کر اہلِ حدیث یعنی اہلِ سنت کو دھوکا نہ دو۔ آخر ایک دن اللہ تعالیٰ کے دربار میں پیش بھی ہونا ہے، اُس دن کیا جواب دو گے؟! و ما علینا إلا البلاغ ……… اصل مضمون ……… اصل مضمون کے لئے دیکھئے فتاویٰ علمیہ المعروف توضیح الاحکام (جلد 3 صفحہ 91 تا 95) للشیخ ابو طاہر زبیر علی زئی رحمۃ اللہ علیہ |
ہماری موبائل ایپ انسٹال کریں۔ تحقیقی مضامین اور تحقیقی کتابوں کی موجودہ وقت میں ان شاء اللہ سب سے بہترین ایپ ہے، والحمدللہ۔
دیگر بلاگ پوسٹس:
Android App --or-- iPhone/iPad App
IshaatulHadith Hazro © 2024