تمام مساجد میں اعتکاف جائز ہے |
محدث العصر الشیخ حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ سے کسی نے سوال کیا کہ ’’کیا تین مساجد: مسجد حرام، مسجد نبوی اور مسجد اقصیٰ کے علاوہ دوسری مساجد میں اعتکاف بیٹھنا جائز ہے؟‘‘ الجواب للشیخ حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ: ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
اس آیت کریمہ سے معلوم ہوا کہ ہر مسجد میں اعتکاف جائز ہے۔ جمہور علماء نے اس آیت کریمہ سے استدلال کر کے ہر مسجد میں اعتکاف کو جائز قرار دیا ہے۔ دیکھئے شرح السنۃ للبغوی (ج 6 ص 394) مرعاۃ المفاتیح (ج 7 ص 165) اس کے مقابلے میں بعض لوگوں کا یہ مؤقف ہے کہ صرف تین مساجد میں ہی اعتکاف جائز ہے: مسجد حرام، مسجد نبوی اور مسجد اقصیٰ! ان کے نزدیک دیگر مساجد میں اعتکاف جائز نہیں ہے۔ یہ لوگ اپنے دعویٰ کی تائید میں ایک روایت پیش کرتے ہیں:
یہ روایت بلحاظ سند ضعیف ہے۔ اس کی تمام اسانید میں سفیان بن عیینہ راوی موجود ہیں جو کہ عن سے روایت کرتے ہیں۔ کسی ایک سند میں بھی ان کے سماع کی تصریح موجود نہیں ہے، سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ ثقہ حافظ اور مشہور مدلس تھے۔ حافظ ابن حبان لکھتے ہیں:
امام ابن حبان کے شاگرد امام دارقطنی وغیرہ کا بھی یہی خیال ہے۔ (دیکھئے سوالات الحاکم للدارقطنی ص 175) امام سفیان بن عیینہ درج ذیل ثقات سے بھی تدلیس کرتے تھے:
ایک دفعہ سفیان (بن عیینہ) نے (امام) زہری سے حدیث بیان کی بعد میں پوچھنے والوں کو بتایا کہ میں نے یہ زہری سے نہیں سنی اور نہ اس سے سنی ہے جس نے زہری سے سنا ہے۔
[تنبیہ: اس روایت کی سند ابراہیم بن محمد السکونی السکری کے مجہول الحال ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے۔] ایک دفعہ آپ نے عمرو بن دینار (ثقہ) سے ایک حدیث بیان کی۔ پوچھنے پر بتایا کہ:
[یہ روایت صحیح سند کے ساتھ الکفایہ ص 359۔360 میں مطولاً موجود ہے۔] حدیث اور اصول حدیث کے عام طالب علموں کو بھی معلوم ہے کہ یہ سند ابن جریج کے عنعنہ کی وجہ سے ضعیف ہے۔ ابن جریج کا ضعفاء سے تدلیس کرنا بہت زیادہ مشہور ہے۔ (دیکھئے الفتح المبین فی تحقیق طبقات المدلسین ص 55، 56) اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ابن عیینہ جن ثقہ شیوخ سے تدلیس کرتے تھے ان میں سے بعض بذاتِ خود مدلس تھے مثلاً ابن جریج وغیرہ۔ ابن عیینہ کے اساتذہ میں امام زہری، محمد بن عجلان اور سفیان ثوری وغیرہم تدلیس کرتے تھے لہٰذا امام سفیان بن عیینہ کا عنعنہ مشکوک ہے۔ رہا یہ مسئلہ کہ آپ صرف ثقہ سے ہی تدلیس کرتے تھے، محل نظر ہے۔ سفیان (بن عیینہ) نے محمد بن اسحاق کے بارے میں امام زہری کا قول نقل کیا کہ:
اس روایت میں سفیان کے سماع کی تصریح نہیں ہے۔ سفیان نے یہ قول ابوبکر الہذلی سے سنا تھا۔ (الجرح والتعدیل ج 7 ص 191) لہٰذا یہ ثابت ہوا کہ سفیان بن عیینہ نے الہذلی سے تدلیس کی ہے۔ یہ الہذلی متروک الحدیث ہے۔ (دیکھئے تقریب التہذیب 397) سفیان بن عیینہ نے حسن بن عمارہ (متروک / تقریب التہذیب ص 71) سے بھی تدلیس کی ہے جیسا کہ آگے آ رہا ہے۔ (ص 151) خلاصہ یہ کہ امام سفیان بن عیینہ کا صرف ثقہ سے ہی تدلیس کرنا محل نظر ہے، یہ اکثریتی قاعدہ تو ہو سکتا ہے کلی قاعدہ نہیں ہو سکتا۔ محدثینِ کرام نے ثقہ تابعی کی مرسل روایت اس خدشہ کی وجہ سے رد کر دی ہے کہ ہو سکتا ہے، اس نے غیر صحابی سے سنا ہو۔ اگر غیر صحابی (یعنی تابعی وغیرہ) سے سنا ہے تو ہو سکتا ہے کہ راوی ثقہ ہو یا ضعیف، لہٰذا مرسل روایت ضعیف ہوتی ہے۔ بعینہ اسی طرح ’’لا اعتکاف‘‘ والی روایت دو وجہ سے ضعیف ہے: 1) ہو سکتا ہے کہ سفیان عیینہ نے یہ روایت ثقہ سے سنی تھی یا غیر ثقہ سے؟ اگر غیر ثقہ سے سنی ہے تو مردود ہے۔ 2) اگر ثقہ سے سنی تھی تو ہو سکتا ہے یہ ثقہ بذات خود مدلس ہوں، جیسا کہ اوپر واضح کر دیا گیا ہے۔ جب سفیان کا استاد بذات خود مدلس ہے تو اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ اس نے ضرور بالضروریہ روایت اپنے استاد سے ہی سنی تھی؟ جب اس کے سماع کی تصریح معلوم کرنا ناممکن ہے تو یہ خدشہ قوی ہے کہ اس کی بیان کردہ روایت اس کے ضعیف استاد کی وجہ سے ضعیف ہو۔ لہٰذا اس روایت کو شیخ ابو عمر عبدالعزیز نورستانی حفظہ اللہ کا حافظ ذہبی کی پیروی کرتے ہوئے، ’’صحیح عندي‘‘ کہنا صحیح نہیں ہے بلکہ اصول حدیث کے سراسر خلاف ہے۔ جناب نورستانی صاحب اور جناب نجم اللہ سلفی صاحب حفظہما اللہ کی طرف راقم الحروف نے اردو زبان میں ایک خط لکھا تھا جس کا جواب کافی عرصے کے بعد عربی زبان وغیرہ میں ملا۔ اس جواب کے ملتے ہی راقم الحروف نے اس کا اردو میں جواب لکھ کر جناب نورستانی صاحب، جناب نجم اللہ صاحب اور بذریعہ خط کتابت جناب ڈاکٹر شجاع اللہ صاحب (لاہوری) کی خدمت میں ارسال کر دیا تھا۔ بعد میں شیخ نورستانی صاحب کی کتاب ’’نعمۃ الأ ثاثۃ لتخصیص الإعتکاف بالمساجد الثلاثۃ‘‘ ملی جس میں میرے پہلے خط کو ٹوٹی پھوٹی عربی میں ترجمہ کر کے مع جواب شائع کر دیا اور میرا دوسرا (تازہ) خط اس کتاب سے غائب ہے۔ میں نے لکھا تھا:
اس خط کا ابھی تک کوئی جواب نہیں آیا۔ مختصر عرض ہے کہ سفیان بن عیینہ کی بیان کردہ روایت: ’’لَا اعْتِکَافَ إِلَّا فِی الْمَسَاجِدِ الثَّلَاثَۃِ‘‘ بلحاظ سند ضعیف ہے۔ اس میں اور بھی بہت سی علتیں ہیں۔ مثلاً اس کے متن میں اختلاف وتعارض ہے، موقوف و مرفوع ہونے میں بھی اختلاف ہے۔ اس اختلاف کی بنیاد وہ نامعلوم شخص ہے جس نے سفیان بن عیینہ کو یہ حدیث سنائی ہے۔ جمہور علماءِ اسلام کے بعض اعتراضات ’’نعمت الاثاثہ‘‘ نامی کتاب میں بھی موجود ہیں۔ فاضل مولف نے ان اعتراضات کے ناکام جوابات دینے کی کوشش کی ہے لیکن حق وہی ہے جو جمہور علماء اسلام نے قرآن مجید کی آیت کریمہ: وَاَنْتُمْ عَاکِفُوْنَ فِی الْمَسَاجِدِ سے سمجھا ہے۔ یہاں بطور نکتہ عرض ہے کہ ’’المساجد‘‘ کی تخصیص تین مساجد: (مسجد حرام، مسجد نبوی، مسجد اقصیٰ) کے ساتھ کرنا تاریخی طور پر بھی غلط ہے۔ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں مسلمانوں کا مسجد اقصیٰ میں اعتکاف کرنا کسی دلیل سے ثابت نہیں ہے، بلکہ بیت المقدس (جہاں مسجد اقصیٰ موجود ہے) اس زمانے میں صلیبی پولسی عیسائیوں کے قبضہ میں تھا۔ اسے امیر المومنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے 15ھ میں فتح کیا۔ (دیکھئے البدایہ والنہایہ ج 7 ص 56 وغیرہ) لہٰذا اس آیت کریمہ کے شانِ نزول میں مسجد حرام، مسجد نبوی کے ساتھ وہ تمام مساجد شامل ہیں جو کہ عہد نبوی میں موجود تھیں۔ مساجد کا لفظ کم از کم تین (یا اس سے زیادہ) مسجدوں پر مشتمل ہے۔ شان نزول کے وقت مسجد اقصیٰ کے خروج سے یہ خود بخود ثابت ہوتا ہے کہ دنیا کی تمام مساجد بشمول مساجد ثلاثہ میں اعتکاف میں بیٹھنا جائز ہے۔ [شہادت، جنوری 2000ء] ’’لا اعتکاف‘‘والی روایت ضعیف ہے: سوال: اعتکاف کے سلسلے میں آپ کی تحقیق کیا ہے؟ (ایک سائل) الجواب: امام ابو حاتم رازی نے ’’لااعتکاف‘‘ والی روایت کے راوی امام سفیان بن عیینہ کی ایک حدیث کو اس وجہ سے ضعیف قرار دیا ہے کہ اس میں سفیان مذکور نے سماع کی تصریح نہیں کی۔ (علل الحدیث ج 1 ص 32 ح 60 والمخطوطہ 18، وفوائد فی کتاب العلل بقلم المعلمی ص 29) شیخ ناصر بن حمد الفہد نے لکھا ہے:
سعودی عرب کے مشہور شیخ عبداللہ بن عبدالرحمن السعد حفظہ اللہ نے اس کتاب کی تقریظ لکھی ہے۔ ان دو تازہ حوالوں سے بھی یہی ثابت ہوا کہ ’’لَا اعْتِکَافَ إِلَّا فِی الْمَسَاجِدِ الثَّلَاثَۃِ‘‘ (تین مسجدوں کے سوا اعتکاف نہیں ہے) والی حدیث ضعیف ہے۔ [شہادت، جنوری 2003ء] ……………… اصل مضمون ……………… اصل مضمون کے لئے دیکھئے فتاویٰ علمیہ المعروف توضیح الاحکام (جلد 2 صفحہ 147 تا 154) للشیخ حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ |
ہماری موبائل ایپ انسٹال کریں۔ تحقیقی مضامین اور تحقیقی کتابوں کی موجودہ وقت میں ان شاء اللہ سب سے بہترین ایپ ہے، والحمدللہ۔
دیگر بلاگ پوسٹس:
Android App --or-- iPhone/iPad App
IshaatulHadith Hazro © 2024