شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہتحریر: محدث العصر حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ |
بعض لوگ مخالفت برائے مخالفت کے عادی ہوتے ہیں یا بغض کی آگ میں جل رہے ہوتے اور یہ آگ اس وقت خوب بھڑکتی ہے جب ان کے مخالف کی کوئی بات ان کے ہتھے چڑھ جائے خواہ جھوٹ ہی ہو۔ اس کی ایک جھلک اس وقت دیکھنے کو ملی جب مرزا جہلمی نے شیخ الاسلام حافظ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے خلاف ہرزہ سرائی کی تو یار لوگوں نے اس پر مرزا صاحب کی گرفت تو نہ کی، البتہ حسبِ عادت محدث العصر حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ کو آڑے ہاتھوں لیا اور سینے کا سارا کینہ زبان و قلم کے ذریعے سے باہر کیا۔ باوجود یکہ حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ کئی مواقع اور انداز سے مرزا جہلمی سے برأت کر چکے ہیں۔ ڈاکٹر حافظ عبد الباسط فہیم حفظہ اللہ مدرس مسجد نبوی نے ایک وٹس اپ گروپ میں واضح بھی کیا کہ شیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ اپنی وفات سے تقریباً دو ماہ قبل جب عمرے کی سعادت کے لیے گئے تو وہاں شیخ رحمہ اللہ نے مرزا جہلمی سے برات کا اعلان کیا۔ وقتاً فوقتاً اپنے تلامذہ سے بھی اس بات کا اظہار کرتے رہتے تھے۔ ہم یہاں دو عمومی غلط فہمیوں کا ازالہ کرنا بھی مناسب سمجھتے ہیں:
حَافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ کی تحریر یہاں سے شروع ہوتی ہے:تحریر: محدّث العَصر حَافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ شائع ہوا: ماہنامہ اشاعۃ الحدیث شمارہ نمبر 141 صفحہ نمبر 39 شیخ الاسلام حافظ ابو العباس تقی الدین ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا مختصر و جامع تذکرہ درج ذیل ہے: نام و نسب: تقی الدین ابو العباس احمد بن عبد الحلیم بن عبد السلام بن عبد اللہ بن ابی القاسم الخضر بن محمد بن الخضر بن علی بن عبد اللہ ابن تیمیہ الحرانی الشامی رحمہ اللہ آپ کے والد مفتی شہاب الدین عبد الحلیم رحمہ اللہ بہت بڑے عالم تھے اور دادا شیخ الاسلام مجد الدین ابو البرکات عبد السلام رحمہ اللہ (م ۶۵۲ھ) نے بہت سی مفید کتابیں لکھیں مثلاً منتقی الاخبار یعنی المنتقیٰ من احادیث الاحکام وغیرہ۔ ولادت: ۱۰ یا ۱۲/ ربیع الاول ۶۶۱ھ بروز سوموار اساتذہ: اسماعیل بن ابراہیم ابن ابی الیسر، احمد بن عبد الدائم المقدسی، الکمال ابن عبد، احمد بن ابی الخیر سلامہ بن ابراہیم، المجدمحمد بن اسماعیل بن عثمان عرف ابن عساکر، برکات بن ابراہیم بن طاہر الخشوعی، یحییٰ بن منصور الصیرفی، قاسم بن ابی بکر بن قاسم بن غنیمہ الاربلی، ابو الغنائم مسلم بن محمد عرف ابن علان، فخر الدین ابن البخاری، مومل بن محمد البالسی اور احمد بن شیبان وغیرہم۔ رحمہم اللہ تلامذہ: حافظ ذہبی ، حافظ ابن کثیر ، حافظ ابن القیم، حافظ ابن عبد الہادی، ابن الوردی، شمس الدین محمد بن احمد الاباہی اور ابو العباس احمد بن حسن بن عبد اللہ بن محمد بن احمد بن قدامہ المقدسی وغیرہم ۔ رحمہم اللہ تصانیف: آپ کی تصانیف بہت زیادہ ہیں، جن میں سے بعض کے نام درج ذیل ہیں:
کتاب الاربعین: حافظ ابن تیمیہ نے اپنے مختلف اساتذہ سے چالیس حدیثوں کا ایک گلدستہ مکمل اسانید و متون کے ساتھ پیش کیا ہے جو علیحدہ بھی چھپا ہوا ہے اور فتاویٰ میں بھی مطبوع ہے۔ راقم الحروف نے اس کتاب کی عربی زبان میں مطول تخریج و تحقیق کافی عرصہ پہلی لکھی تھی اور اب اسے مختصر کر کے مع ترجمہ و فوائد قارئین کی خدمت میں پیش کر دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ اس عمل کو قبول فرمائے ۔ حافظ ابن تیمیہ رحمہ اللہ، استاذ محترم حافظ عبد الحمید ازہر المدنی حفظہ اللہ ، راقم الحروف، حافظ ندیم ظہیر اور محترم سرور عاصم حفظہم اللہ کے لئے ذخیرۂ آخرت بنائے۔ آمین فضائل: جمہور محدثین و صحیح العقیدہ علمائے حق نے آپ کی تعریف و توثیق کی ہے اور آپ کے فضائل بے حد و بے شمار ہیں، بلکہ بہت سے کبار علماء نے آپ کو شیخ الاسلام کے لقب سے ملقب کیا ہے۔ مثلاً:
ان دس حوالوں کے علاوہ اور بھی بہت سے حوالے ہیں جن میں حافظ ابن تیمیہ کی بیحد تعریف کی گئی ہے یا انھیں شیخ الاسلام کے عظیم الشان لقب سے یاد کیا گیا ہے مثلاً: حافظ ابن رجب الحنبلی (متوفی ۷۹۵ھ) نے کہا: ’’ الإمام الفقیہ المجتھد المحدث الحافظ المفسر الأصولی الزاھد تقي الدین أبوالعباس شیخ الإسلام وعلم الأعلام ۔۔۔‘‘ ( الذیل علیٰ طبقات الحنابلۃ ۲؍ ۳۸۷ ت ۳۹۵) ابن العماد الحنبلی نے کہا: ’’ شیخ الإسلام ۔۔۔ الحنبلی بل المجتھد المطلق ‘‘ (شذرات الذہب ۶؍ ۸۱) تہذیب الکمال اور تحفۃ الاشراف کے مصنف حافظ ابو الحجاج المزی رحمہ اللہ نے فرمایا: ’’ ما رأیت مثلہ، ولا رأی ھو مثل نفسہ و ما رأیت أحدًا أعلم الکتاب اللّٰہ وسنۃ رسولہ ولا أتبع لھما منہ ‘‘ میں نے اُن جیسا کوئی نہیں دیکھا اور نہ انھوں نے اپنے جیسا کوئی دیکھا، میں نے کتاب اللہ اور رسول اللہ (ا) کی سنت کا اُن سے بڑا عالم نہیں دیکھا اور نہ اُن سے زیادہ کتاب و سنت کی اتباع کرنے والا کوئی دیکھا ہے۔ ( العقود الدریہ ص ۷ تصنیف الامام ابن عبدالہادی تلمیذ الحافظ المزی رحمہما اللہ) ان گواہیوں کا خلاصہ یہ ہے کہ حافظ ابن تیمیہ اہلِ سنت و جماعت کے کبار علماء میں سے تھے اور شیخ الاسلام تھے۔ نیز ملا علی قاری حنفی نے لکھا ہے: ’’و من طالع شرح منازل السائرین تبین لہ أنھما من أکابر أھل السنۃ والجماعۃ و من أولیاء ھذہ الأمۃ۔‘‘ جس نے منازل السائرین کی شرح کا مطالعہ کیا تو اس پر واضح ہو گیا کہ وہ دونوں (حافظ ابن تیمیہ اور حافظ ابن القیم رحمہما اللہ ) اہلِ سنت والجماعت کے اکابر میں سے اور اس اُمت کے اولیاء میں سے تھے۔ (جمع الوسائل فی شرح الشمائل ج۱ص ۲۰۷) آپ کے مفصل حالات اور سیرتِ طیبہ کے لئے دیکھئے:
حافظ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کو حافظ ذہبی وغیرہ نے ’’المجتھد‘‘ قرار دیا اور خود حافظ ابن تیمیہ نے فرمایا: ’’إنما أتناول ما أتناول منھا علٰی معرفتي بمذہب أحمد، لا علٰی تقلیدي لہ۔‘‘ میں احمد (بن حنبل) کے مسلک میں سے وہی لیتا ہوں جسے میں (دلائل کی رُو سے) جانتا ہوں، میں آپ کی تقلید نہیں کرتا۔ (اعلام الموقعین لابن القیم ۲/ ۲۴۱۔ ۲۴۲) وفات: ۲۰/ ذوالقعدہ ۷۲۸ھ بمقام قلعہ دمشق بحالت قید۔ یعنی آپ کا جنازہ جیل ہی سے جائے تدفین تک گیا۔ رحمہ اللّٰہ و أدخلہ الجنۃ یہی مضمون ماہنامہ الحدیث شمارہ 58 میں بھی شائع ہوا تھا: |
ہماری موبائل ایپ انسٹال کریں۔ تحقیقی مضامین اور تحقیقی کتابوں کی موجودہ وقت میں ان شاء اللہ سب سے بہترین ایپ ہے، والحمدللہ۔
دیگر بلاگ پوسٹس:
Android App --or-- iPhone/iPad App
IshaatulHadith Hazro © 2024