ضعیف روایات اور اُن کا حکمتحریر: محدث العصر حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ |
یہ مضمون یہاں اختصار کے ساتھ شیئر کیا جا رہا ہے۔ اصل اور مکمل مضمون کے لئے شیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ کی کتاب ’’تحقیقی مقالات‘‘ جلد 2 صفحہ 266 دیکھیں۔ ماہنامہ الحدیث شمارہ 53 صفحہ 18 پر بھی یہ مضمون شائع ہوچکا ہے۔ اُصولِ حدیث کی رُو سے قبول اور رَد کے لحاظ سے حدیث کی 2 قسمیں ہیں:
مولانا سلطان محمود محدّث جلالپوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ڈاکٹر محمود طحان کویتی لکھتے ہیں:
بعض علماء نے حدیث کی تین اقسام بیان کی ہیں:
چونکہ حسن بھی صحیح کی ایک قسم ہے لہٰذا اصل میں قبول اور رد کے لحاظ سے دو قسمیں ہی بنتی ہیں:
صحیح حدیث حجت ہوتی ہے اور اس کی مشہور و مستند کتابیں صحیح بخاری و صحیح مسلم ہیں جنھیں امت کی تلقی بالقبول کا درجہ حاصل ہے۔ ان کے علاوہ صحیح ابن خزیمہ، صحیح ابن حبان، صحیح ابن الجارود، سنن ابی داود، سنن ترمذی، سنن نسائی، سنن ابن ماجہ اور مسند احمد وغیرہ میں صحیح احادیث کثرت سے موجود ہیں۔ اہل سنت کے مشہور امام اور عظیم محدّث احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے امام ابو عبداللہ محمد بن ادریس الشافعی الہاشمی المطلبی رحمہ اللہ کا ذکر کیا اور فرمایا:
امام احمد ہی سے روایت ہے کہ (امام) شافعی نے مجھے فرمایا:
ربیع بن سلیمان رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ:
امام شافعی رحمہ اللہ کے ان صحیح و ثابت اقوال کا خلاصہ یہ ہے کہ:
وغیر ذلک من الفوائد ایک صحیح حدیث میں آیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
اس حدیث پر حافظ ابن حبان نے باب باندھا ہے:
صحیح حدیث کیا ہوتی ہے؟ اصولِ حدیث میں اس کی شرائط بیان کر دی گئی ہیں جن کا خلاصہ درج ذیل ہے:
یہاں خواہشاتِ نفسانیہ اور فرقہ پرستی کا دخل نہیں بلکہ اصولِ حدیث اور اسماء الرجال کو مدِّنظر رکھ کر، اللہ تعالیٰ کو عالم ناظر سمجھ کر عدل و انصاف کے ساتھ حکم لگایا جاتاہے۔ جو شخص اس کے خلاف چلتا ہے تو اس کا حکم مردود ہوتا ہے۔ ضعیف روایت: اصولِ حدیث میں ضعیف روایت کو غیر مقبول اور مردود روایات کی ایک قسم قرار دیا گیا ہے۔ مثلاً دیکھئے تیسیر مصطلح الحدیث (ص 62) احکام و عقائد میں تو سب علماء کے نزدیک ضعیف حدیث مردود ہے لیکن بعض علماء اسے ضعیف تسلیم کر کے فضائلِ اعمال وغیرہ میں اس کی روایت یا عمل کو مستحب قرار دیتے ہیں لیکن وہ اسے بعض شرائط کے ساتھ مشروط کر دیتے ہیں:
اتنی شرطوں پر عمل کرنے کے لئے حدیث کی تخریج اور سند کی تحقیق کرنی ضروری ہے۔ جب تحقیق آئے گی تو ضعیف روایتوں کی جگہ صحیح روایتیں لے لیں گی۔ علمائے کرام کا دوسرا گروہ ضعیف روایات پر عمل کا قائل نہیں چاہے عقائد و احکام ہوں یا فضائل و مناقب اور اسی گروہ کی تحقیق راجح ہے۔ اس گروہ کے جلیل القدر علماء کے آثار میں سے دس حوالے پیشِ خدمت ہیں، جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ علماء ضعیف حدیث کو حجت نہیں سمجھتے تھے:
آخر میں عرض ہے کہ ہم اپنی خواہشات یا گروہ و فرقہ پرستی کی وجہ سے روایات پر صحیح یا ضعیف کا حکم نہیں لگاتے بلکہ اللہ تعالیٰ کو عالم ناظر سمجھتے ہوئے، اصولِ حدیث اور اسماء الرجال کے علم کو مدِّنظر رکھتے ہوئے، جمہور محدثین کی تحقیق و اصول کو تسلیم کرتے ہوئے اور آخرت کے محاسبے پر ایمان کے ساتھ حدیث پر صحیح و حسن یا ضعیف وغیرہ کا حکم لگاتے ہیں۔ اگر کوئی شخص دلیل کے ساتھ ہماری غلطی ثابت کر دے تو علانیہ رجوع کرتے ہیں۔ ہمارے منہج کی تفصیل کے لئے دیکھئے ماہنامہ الحدیث حضرو: یہ مضمون یہاں انتہائی اختصار کے ساتھ شیئر کیا گیا ہے۔ اصل اور مکمل مضمون کے لئے شیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ کی کتاب ’’تحقیقی مقالات‘‘ جلد 2 صفحہ 266 دیکھیں۔ ماہنامہ الحدیث شمارہ 53 صفحہ 18 پر بھی یہ مضمون شائع ہوچکا ہے۔ |
ہماری موبائل ایپ انسٹال کریں۔ تحقیقی مضامین اور تحقیقی کتابوں کی موجودہ وقت میں ان شاء اللہ سب سے بہترین ایپ ہے، والحمدللہ۔
دیگر بلاگ پوسٹس:
Android App --or-- iPhone/iPad App
IshaatulHadith Hazro © 2024