اصول حدیث و اسماء الرجال سے متعلق بعض اہم معلومات |
از افادات: محدث العصر حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ جمع و ترتیب: حافظ معاذ بن زبیر علی زئی حفظہ اللہ الحمد لله رب العالمين و الصلاة والسلام على رسوله الامين، أما بعد! محدث العصر حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ نے فرمایا:
علم اصول حدیث کو سمجھے بغیر احادیث کی صحت کی جانچ پڑتال کرنا تقریباً ناممکن ہے۔ جیسا کہ محدث العصر حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ نے لکھا:
اب ترتیب وار محدث العصر حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ کے علمی شہ پارے نقل کیے جاتے ہیں: نمبر 1: جس راوی کو جمہور محدثین مجروح سمجھیں تو متاخرین کے نزدیک یہ راوی مجروح ہی ہوتا ہے۔ حدیث کے صحیح یا ضعیف ہونے پر اختلاف اجتہادی ہے مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ حنفی حضرات اپنے مطلب کی حدیث کو صحیح اور دوسروں کی حدیث کو ضعیف کہہ کر کام چلالیں۔ اس میں بھی راجح یہی ہے کہ ائمہ محدثین کی اکثر یت جس طرف ہے اسے ہی ترجیح دی جائے گی۔ دیکھئے ماہنامہ الحدیث حضرو (شمارہ 10 صفحہ 20) نمبر 2: جس راوی کو جمہور محدثینِ کرام ضعیف قرار دیں تو صحیح بخاری و صحیح مسلم کے علاوہ دوسری کتابوں میں ایسے راوی کی منفرد روایت ضعیف ہوتی ہے۔ دیکھئے ماہنامہ الحدیث حضرو (شمارہ 57 صفحہ 2) نمبر 3: جس راوی کو جمہور محدثین کرام ثقہ و صدوق قرار دیں، اسے اگر کسی نے قدری، رافضی یا مرجیہ عقائد کا حامل قرار دیا ہے تو ایسا راوی ضعیف نہیں ہوتا بلکہ ثقہ و صدوق یعنی صحیح الحدیث اور حسن الحدیث ہوتا ہے۔ ایسے راوی پر بدعتی وغیرہ کی جرح غیر موثر اور مردود ہوتی ہے۔ دیکھئے ماہنامہ الحدیث حضرو (شمارہ 83 صفحہ 9) نمبر 4: صحیحین کے مصنفین کے نزدیک ثقہ ہونے کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ وہ راوی تمام محدثین کے نزدیک بھی ثقہ ہیں، بلکہ حق یہی ہے کہ اختلاف کی صورت میں جمہور محدثین کو ترجیح دی جائے گی اور ضعیف عندالجمہور راویوں کی صحیحین میں روایت کو متابعات و شواہد پر محمول کر کے صحیح و حسن ہی سمجھا جائے گا۔ غیر صحیحین میں ایسے راوی کی روایت ضعیف ہوتی ہے جسے جمہور محدثین نے ضعیف قرار دیا ہو۔ دیکھئے تحقیقی و علمی مقالات (جلد 1 صفحہ 451) نیز دیکھئے ماہنامہ الحدیث حضرو (شمارہ 49 صفحہ 32) نمبر 5: جسے جمہور محدثین ضعیف و مجروح قرار دیں، وہ ثقہ کس طرح ہو سکتا ہے؟ دیکھئے تحقیقی و علمی مقالات (جلد 3 صفحہ 86) نمبر 6: ہر وہ روایت صحیح ہے جو جمہور محدثین کے اصول یا تصریح پر صحیح ہو اور اسی طرح ہر وہ راوی ثقہ و حسن الحدیث ہے جسے جمہور محدثین نے ثقہ وحسن الحدیث قرار دیا ہے۔ دیکھئے ماہنامہ الحدیث حضرو (شمارہ 50 صفحہ 39 حاشیہ نمبر 1) نمبر 7: وہ راوی جسے جمہور محدثین نے ضعیف قرار دیا ہو اور اسے بہت زیادہ غلطیاں بھی لگی ہوں، وہ پکا ضعیف ہوتا ہے۔ دیکھئے ماہنامہ الحدیث حضرو (شمارہ 101 صفحہ 3) نمبر 8: جمہور محدثین کی توثیق کے بعد، بعض روایتوں میں وہم ثابت ہو جانے سے راوی ضعیف نہیں ہوتا بلکہ وہ ثقہ وصدوق ہی رہتا ہے اور صرف وہم ثابت ہوجانے والی روایت کو رد کر دیا جاتا ہے۔ جمہور کی توثیق کے بعد یخطئ وغیرہ جرحیں مردود ہوجاتی ہیں۔ دیکھئے تحقیقی و علمی مقالات (جلد 1 صفحہ 405) نمبر 9: دنیا کا عام دستور ہے کہ نابینا اشخاص اپنے دوستوں اور رشتہ داروں کو خطوط و تحریرات بھیجتے رہتے ہیں اور عام طور پر (صریح دلیل کی تخصیص نہ ہونے کی صورت میں، یعنی کاتب کے مجروح ثابت ہونے کی صریح دلیل کے بغیر) اس خط کتابت پر اعتماد کیا جاتا ہے۔ یہ مکاتبت کی قسم میں سے ہے اور اصولِ حدیث میں مقرر ہے کہ مکاتبت سے روایت جائز ہے۔ ماہنامہ الحدیث حضرو (شمارہ 99 صفحہ 10) نمبر 10: مُکاتَبہ: اگر کوئی شخص اپنی حدیثوں میں سے کچھ لکھ کر کسی کی طرف بھیج دے تو اسے مکاتبہ کہتے ہیں۔ اور اگر اس کے ساتھ روایت کی اجازت بھی دے دے تو یہ مناولہ کی مانند ہے جس کے ساتھ اجازت بھی موجود ہے۔ اگر اس کے ساتھ اجازت نہ ہوتو ایوب (سختیانی)، منصور، لیث (بن سعد) اور کئی شافعی فقہاء وعلمائے اصول نے ایسی روایت کو جائز قرار دیا ہے اور یہی مشہور ہے۔ وہ اسے مجرد اجازت سے زیادہ قوی سمجھتے ہیں۔ ماوردی نے اسے قطعی طور پر ممنوع قرار دیا ہے۔ واللہ اعلم (دیکھئے ادب القاضی للماوردی 1/ 389) لیث (بن سعد) اور منصور مکاتبہ میں ’’أخبرنا‘‘اور ’’حدثنا‘‘ کہنا جائز سمجھتے ہیں (حالانکہ) بہتر اور زیادہ مناسب یہ ہے کہ اس میں مکاتبت کی صراحت کی جائے۔ دیکھئے ماہنامہ الحدیث حضرو (شمارہ 57 صفحہ 45 اور 46) نمبر 11: دلیل صریح کے مقابلے میں مفہوم مخالف اور مبہم و غیر واضح دلائل سب مردود ہوتے ہیں۔ دیکھئے صحیح بخاری کا دفاع (ص 119) نمبر 12: اگر کسی حدیث کے راوی ثقہ ہوں، سند بظاہر صحیح معلوم ہوتی ہو مگر (تمام محدثین یا) محدثین کی اکثریت نے اسے ضعیف قرار دیا ہو تو اسے ضعیف سمجھا جائے گا۔ دیکھئے نور العینین فی اثبات رفع الیدین (ص 61) نمبر 13: راجح قول یہی ہے کہ اگر راوی ثقہ و صدوق عندالجمہور ہو تو اس کی غیر معلول روایت مطلقاً مقبول ہے چاہے وہ اپنی بدعت کی طرف دعوت دینے والا داعی ہو یا نہ ہو۔ دیکھئے نور العینین فی اثبات رفع الیدین (ص 63) نمبر 14: اصولِ حدیث اور اسماء الرجال کی رُو سے صحیح و حسن حدیث جو صحیح بخاری یا صحیح مسلم میں موجود ہو، اس پر (کسی بھی قسم کی) مبہم جرح ناقابلِ سماعت ہوتی ہے۔ دیکھئے تحقیقی و علمی مقالات (ج 6 ص 398) نمبر 15: محدّث العَصر حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ کے بقول: میرا ’’جدید منہج یہ ہے کہ جارحین و معدلین کے حوالے اکٹھے کر کے جمہور کو ترجیح دے دینی چاہئے اور اس چکر میں ہر گز نہیں آنا چاہئے کہ فلاں متعنت ہے اور فلاں متساہل ہے، لہٰذا اس منہج کے خلاف میری ایسی تمام عبارات منسوخ و مرجوح ہیں۔‘‘ غیر مطبوعہ کتاب ’’سیف الجبار فی رد ظہور و نثار‘‘ مضمون ’’قاضی ابو یوسف پر امام ابو حنیفہ کی جرح‘‘ صفحہ نمبر 124 اُصولِ حدیث کے موضوع پر محدّث العَصر حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ کے دیگر اقوال دیکھنے کے لئے نور العینین فی اثبات رفع الیدین (صفحہ 59 تا 63) دیکھیں۔ |
ہماری موبائل ایپ انسٹال کریں۔ تحقیقی مضامین اور تحقیقی کتابوں کی موجودہ وقت میں ان شاء اللہ سب سے بہترین ایپ ہے، والحمدللہ۔
دیگر بلاگ پوسٹس:
Android App --or-- iPhone/iPad App
IshaatulHadith Hazro © 2024