رجسٹرڈ فرقہ کی طرف سے محدث العصر حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ پر بعض اعتراضات کی حقیقتتحریر: الشیخ ابو الاسجد صدیق رضا حفظہ اللہ |
معروف محدث ومحقق فضیلۃ الشیخ استاذنا الکریم حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ کی شخصیت علمی حلقوں میں محتاج تعارف نہیں، حدیث و اصول و حدیث پر آپ کی خدمات جلیلہ منصہ شہود پر آکر سالہا سال سے تشنگانِ علم حدیث کو سیراب کر رہی ہیں۔ آپ کی بابرکت زندگی جہد مسلسل پر مشتمل ہے۔ والحمد للّٰہ علی ذلک استاذ گرامی نے جہاں حدیث اور علم حدیث کی گراں قدر خدمات انجام دیں وہاں فرقِ باطلہ کی عالمانہ و فاضلانہ تردید میں بھی کارہائے نمایاں انجام دیے جو آج تک نہ صرف یہ کہ اہلِ حق کی قلبی تسکین کا باعث ہیں، بلکہ کئی ایک انجانے میں راہ بھٹکے ہوئے لوگوں کی ہدایت کا سامان بھی بنتے چلے آ رہے ہیں۔ والحمد للّٰہ استاذ گرامی نے رجسٹرڈ تکفیری فرقہ کا دلائل ساطعہ وبراہین قاطعہ سے مزین علمی رد فرمایا ہے جس کے علمی جواب سے یہ لوگ آج تک عاجز و قاصر ہیں، البتہ ان کی طرف سے بانئ فرقہ کے بڑے بیٹے سلیمان صاحب جو کہ محکمہ ڈاک میں ملازم ہیں، انھوں نے اپنے والد کی سوانح حیات پر ایک کتاب مرتب فرمائی ہے جو ابھی تک باقاعدہ طبع نہیں ہوئی، تاہم کی صورت میں رجسٹرڈ فرقہ کے ہاں موجود ہے۔ موصوف نے اس کتاب میں اپنے والد صاحب کے مخالفین کے اعتراضات کا تذکرہ کرتے ہوئے استاذ گرامی رحمہ اللہ کے خلاف اپنے بغض و کینہ کو سپردِ قرطاس کرتے ہوئے کچھ باتیں لکھی ہیں۔ سطور ذیل میں انہی کے جوابات عرض کیے جا رہے ہیں۔
رجسٹرڈ فرقہ کا خارجی ہونا1) ’’خارجیوں کی بنیادی شناختی علامات‘‘ کے زیر عنوان نے سلیمان بن مسعود احمد صاحب نے (1) بغضِ علی رضی اللہ عنہ (2) سرمنڈوانا ذکر کرتے ہوئے لکھا: ’’جس شخص میں رسول اللہ ﷺ کی بتائی ہوئی خوارج کی شناختی علامات موجود نہ ہوں اس شخص کو خارجی کہنے یا سمجھنے کی جسارت وہی شخص کر سکتا ہے جس کو یا تو اس قولِ رسول کا علم ہی نہ ہو یا جس کا قولِ رسولؐ پر ایمان اور یقین کامل نہ ہو۔ اور جس شخص میں خارجیوں کی مندرجہ بالا شناختی علامات میں سے ایک علامت بھی نہ ہو کیا اس شخص کو کوئی صحیح الدماغ انسان خارجی کہہ سکتا ہے؟ ہر گز نہیں۔ لیکن یہ کارنامہ اہلحدیث کے ایک عالم زبیر علی زئی صاحب نے انجام دیا ہے۔‘‘ (سوانح حیات ص 164) جواب: خوارج صرف سیدنا علی ہی نہیں بلکہ دیگر صحابہ کرام کے بغض میں مبتلا تھے اور واقعہ تحکیم کو بنیادی بنا کر سیدنا علی و سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہما کی تکفیر کے مرتکب تھے اور تکفیر خوارج کا بنیاد نظریہ ہے۔ جہاں تک مسعود صاحب یا رجسٹرڈ فرقہ پرستوں کو خوارج کہنے کا تعلق ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اہل علم نے جب یہ دیکھا کہ مسعود صاحب اپنے فرقہ کے علاوہ یا اپنے سے خارج تمام امت کو امتِ مسلمہ سے خارج قرار دیتے ہیں۔ دیکھئے ان کا کتابچہ ’’وقار علی صاحب کا خروج‘‘ (ص 4) و آئینہ دار (ص 530) اسی طرح کبیرہ گناہوں پر اسلام سے خارج بتاتے ہیں، جیسا کہ مسعود صاحب نے لکھا: ’’رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں: ’’مَنْ غَشَّنَا فَلَیْسَ مِنَّا‘‘ (صحیح مسلم) ’’جو ہمیں دھوکہ دے وہ ہم میں سے نہیں‘‘۔ جب سامانِ تجارت کو فروخت کرنے کے سلسلہ میں اگر کوئی شخص دھوکا دیتا ہے تو حدیث مذکورہ بالا کی رُو سے وہ جماعت المسلمین سے خارج ہو جاتا ہے۔‘‘ (اصول حدیث ص13) یاد رہے کہ مسعود صاحب کے نزدیک امتِ مسلمہ اور جماعت المسلمین ایک ہی چیز یں ہیں دو الگ الگ چیزیں نہیں ہیں۔ دیکھئے ان کا کتابچہ وقار علی صاحب کا خروج (ص 4) و آئینہ دار (ص 530) سامانِ تجارت میں یا ویسے بھی کاروبار میں یا لین دین میں دھوکا دہی کبیرہ گناہ ہے لیکن اس کی وجہ سے کوئی بھی مسلم امتِ مسلمہ سے خارج اور کافر نہیں ہو جاتا، البتہ خوارج کا یہی طریقہ تھا جیسا کہ خود مسعود صاحب نے لکھا: ’’خارجی مسلمانوں کا ہی ایک فرقہ ہے، انتہائی پرہیز گار، قرآن کے بہت بڑے عالم…… پھر کیا اس لیے کہ وہ بہت بڑے عالم تھے، متقی تھے، حتیٰ کہ مرتکبِ کبیرہ کو کافر سمجھتے تھے‘‘ (تلاشِ حق ص65)
’’خارجی اور سر منڈوانا‘‘:شیخ زبیر علی زئی صاحب کو تو خارجیوں کے عقائد کا خوب علم ہے، لیکن شاید جناب اس سے واقف نہیں، خوارج کے عقائد میں جو چیز سب سے زیادہ خطرناک تھی وہ ’’اہل اسلام کی تکفیر ہے‘‘ یہ ثابت کیا جا چکا ہے کہ مسعود صاحب کا بھی یہی طرز عمل تھا! خوارج کے تکفیری نظریہ کا ثبوت مستدرک حاکم (2/ 165، 151، 152) وغیرہ میں ملاحظہ فرما لیں۔ خوارج کے بارے میں معروف ہے کہ وہ گناہوں پر بھی تکفیر کیا کرتے تھے، جیسا کہ مسعود صاحب نے بھی لکھا ہے۔ یہی حال خود مسعود صاحب کا اپنا تھا کہ اُنھوں نے لکھا: اور ان کی اپنی بنائی ہوئی جماعت المسلمین ہی ان کے نزدیک امت مسلمہ ہے۔ (وقار علی صاحب کا خروج) یہ بات استاذ محترم کے علم میں ہے۔ آپ اسے بیان بھی فرما چکے ہیں۔ دیکھئے (علمی مقالات ج 3، ص 230۔229) ان عقائد اور ایسی روش کی بنا پر استاذ محترم نے مسعود صاحب کو خارجی لکھا کہ وہ خوارج کی روش اپنائے ہوئے تھے۔ خوارج سر منڈانے کی وجہ سے خارجی نہیں ہوئے، بلکہ اپنے باطل عقائد و نظریات کے سبب ہوئے، لہٰذا اگر کوئی خارجیوں جیسی روش اپنا لے وہ سر نہ منڈائے تو کیا وہ ’’خارجی‘‘ نہیں ہو گا اور جو خوارج کے نظریات سے نفرت کرتا ہو، لیکن سر منڈانے کا عادی ہو تو محض اس سبب سے وہ ’’خارجی‘‘ ہو جائے گا؟ اور کوئی خوارج جیسے عقائد اپنا کر ان کی ظاہری علامات اختیار نہ کرے کہ فوری پہچانا نہ جاؤں تو آپ اسے ’’خارجی‘‘ نہیں سمجھیں گے؟ غور کیجیے! تو آپ نے بھی پہلے ’’عقائد‘‘ کا ذکر کیا، پھر ’’علامات‘‘ کا، لہٰذا استاذ محترم کی بات کو غلط قرار دینا غلط ہی نہیں، بلکہ خوارج کے نظریات سے بے خبری پر بھی واضح دلیل ہے۔ مزید ہم انھیں ان کے گھر کی گواہی بھی پیش کیے دیتے ہیں۔ جب رجسٹرڈ فرقہ کے حاضر امام اشتیاق صاحب نبی مکرم ﷺ کے وسیلہ بالذات کے قائل ہوئے تو ان کے کافی ساتھی اس بات سے اختلاف کر کے ان سے علیحدہ ہو گئے اور رجسٹرڈ فرقہ کے پرانے عقیدہ کے مطابق ان پر شرک میں مبتلا ہونے کا حکم لگایا، کتابیں لکھی گئیں اور جواب میں رجسٹرڈ فرقہ کی طرف سے بھی کتابچے شائع ہوئے۔ ایک کتابچے میں جوان کے اپنے ہی ساتھی ارشد صاحب اور شیخ نور الامین صاحب کے خلاف تھا، اس میں لکھا: ’’کاش کہ یہ دور جدید کے خوارج بھی غور کریں‘‘۔ (لعلھم یرشدون ص 13) حالانکہ جیسے مسعود صاحب سر نہیں منڈواتے تھے، اسی طرح محترم نور الامین صاحب اور ان کے ساتھی (جو الحمد رجسٹرڈ فرقہ کے تکفیری نظریات سے مکمل طور پر رجوع فرما چکے ہیں) بھی سر نہیں منڈواتے، لیکن رجسٹرڈ فرقہ کی طرف سے انہیں ’’خوارج‘‘ قرار دیا گیا۔ اب سلیمان صاحب ہی بتائیں کہ ان کے فرقہ کے امام اور علماء کو ان کے نزدیک اس لازمی علامت کا علم نہیں یا پھر اُن کا حدیث رسول پر ایمان نہیں؟ المختصر کہ ان کے اپنے طرز عمل سے ہی یہ واضح ہو جاتا ہے کہ سر منڈوانے یا نہ منڈوانے سے کوئی خارجی یا غیر خارجی نہیں بن جاتا بلکہ تکفیری فکر کی وجہ سے اس کا اطلاق ہوتا ہے۔ اسی بنا پر استاذِ گرامی نے ایسا لکھا۔ فللّٰہ الحمد
استاذِ گرامی اور مسعود صاحب کی گفتگو2) سلیمان صاحب نے لکھا: ’’1995 میں والد صاحب اسلام آباد تشریف لائے تھے اور تقریباً ایک مہینہ میرے گھر قیام فرمایا تھا۔ اس دوران ایک رات زبیر صاحب اپنے دو تین ساتھیوں کے ساتھ والد صاحب سے بات چیت کے لیے میرے گھر آئے۔ بڑے اچھے ماحول میں بات ہوئی۔ بات چیت میں مطلقاً کوئی مناظرانہ رنگ نہیں تھا۔ بات چیت کا محور زیادہ تر ’’مسلم‘‘ نام ہی تھا۔ زبیر صاحب والد صاحب کی تمام باتوں سے اتفاق کرتے رہے۔ آخر میں مسئلہ تدلیس پر بات چھڑ گئی۔ لیکن رات بہت زیادہ ہو گئی تھی اس لیے زبیر صاحب نے کہا کہ وہ اس مسئلے پر تحریر لکھ کر بھیجیں گے جس کا جواب والد صاحب دیں گے اور اسی بات پر محفل بڑے اچھے ماحول ہی میں برخواست ہو گئی۔ لیکن بعد میں زبیر صاحب نے نہ کوئی تحریر بھیجی نہ کوئی رابطہ کیا اور افسوس کی بات یہ ہے کہ واپس جا کر انھوں نے یہ مشہور کیا کہ انہوں نے مسعود احمد صاحب کو لا جواب کر دیا۔ زبیر علی زئی صاحب اہلحدیث کے بہت بڑے عالم تھے اور کسی کو برا بھلا کہنا میری عادت نہیں اور ویسے بھی زبیر صاحب اب وفات پا چکے ہیں اس لئے میں ان کے خلاف کچھ کہنا نہیں چاہتا۔ اگر وہ ابھی زندہ ہوتے اور ان سے میری ملاقات ہوتی تو ان سے ضرور پوچھتا کہ انہوں نے غلط بیانی سے کیوں کام لیا۔ جواب: 1995ء سے اب تک تقریباً پچیس سال سے زیادہ عرصہ گزر چکا کہ مسعود صاحب اور رجسٹرڈ فرقہ سے تعارف ہوا کچھ عرصہ ان کے ساتھ بھی رہا اور اب تک بارہا ان سے بات چیت ہوئی، ان کی یہ روش نہیں بدلتی کہ اپنے مخالف پر سنگین نوعیت کے اتہامات والزامات لگا دینے کے ساتھ ساتھ اپنا تزکیہ بیان کرنا نہیں بھولتے۔ آپ اسی اقتباس کو دیکھ لیجیے۔ سلیمان صاحب فرماتے ہیں: ’’کسی کو برا بھلا کہنا میری عادت نہیں‘‘ اور ساتھ ہی استاذ گرامی کی وفات کے بعد اُن پر یہ تہمت بھی لگا جاتے ہیں کہ ’’انہوں نے غلط بیانی سے کام لیا‘‘۔ انصاف سے کہیے یہ کسی کو برا کہنا نہیں تو اور کیا ہے کہ آپ نے بلا دلیل و برہان و دستاویزی ثبوت کے شیخ محترم پر ’’غلط بیانی‘‘ کی تہمت لگا دی۔ حقیقت یہ ہے کہ استاذ گرامی نے اس ملاقات میں صرف تدلیس پر بات کی تھی باقی باتیں دیگر ساتھیوں نے کی تھیں، پھر اس کے بعد مسئلہ تدلیس پر ایک مدلل مقالہ بنام ’’التاسیس فی مسئلۃ التدلیس‘‘ لکھا جو کہ ملک کے معروف علمی تحقیقی ماہنامہ مجلہ’’محدث‘‘ لاہور کے شمارہ نمبر 208 شعبان 1416ھ بمطابق جنوری 1996ء میں شائع ہوا اور پھر استاذ گرامی کے مقالات (ج1، 251) کی زینت بنا۔ والحمد للّٰہ سلیمان صاحب نے خود اپنی اسی کتاب میں مسعود صاحب کی تاریخ وفات 14 فروری 1997ء لکھی ہے۔ (ص 101) مطلب استاذِ گرامی کے مقالہ شائع ہونے کے ایک سال بعد فوت ہوئے، لیکن الحمد للہ اس کے جواب میں ایک جملہ بھی نہیں لکھ سکے اور نہ یہ اُن کے بس کی بات ہی تھی۔ اگر سلیمان صاحب سچے ہیں تو بتائیں کہ جب استاذ گرامی حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ نے مسعود احمد کے سامنے باحوالہ امام شعبہ رحمہ اللہ کا یہ قول پیش فرمایا: ’’کُنْتُ اَتَفَقَّدُ فَمَ قَتَادَۃَ فَإِذَا قَالَ: سَمِعْتُ أَوْ حَدَّثَنَا تَحَفَّظْتُہُ فَإذَا قَالَ: حَدَّثَ فُلَانٌ تَرَکْتُہُ۔‘‘ میں قتادہ کے منہ کو دیکھتا رہتا جب آپ کہتے کہ میں نے سنا ہے یا فلان نے ہمیں حدیث بیان کی تو میں اُسے محفوظ کر لیتا اور جب وہ کہتے فلاں نے حدیث بیان کی تو میں اُسے چھوڑ دیتا تھا۔ (تقدمۃ الجرح والتعدیل ص129 واسنادہ صحیح) تو مسعود صاحب نے اس کا کیا جواب دیا تھا؟ کیا واقعی مسعود صاحب اس بات کا جواب دے سکے تھے؟ اصول حدیث کے مبتدی طلبہ بھی جانتے ہیں کہ یہ ’’قتادہ‘‘ کی تدلیس اور مدلس ہونے کا واضح ثبوت ہے؟
مسعود صاحب کے لاجواب ہونے کا ثبوتراقم اُس مجلس میں موجود نہیں تھا، البتہ استاذِ گرامی سے اس کی روئیداد سن رکھی ہے، نیز خود مسعود صاحب کی تحریروں سے ثابت ہو جاتا ہے کہ مسعود احمد اس دلیل کا کوئی جواب نہیں دے سکے تھے۔ ثبوت ملاحظہ کیجیے: مسعود صاحب نے ’’محدثین کے بیان کردہ اُصول ’’تدلیس‘‘ کے انکار سے پہلے ایک حدیث کے بارے میں لکھا تھا: ’’اس حدیث کی سند میں قتادہ ہیں جو مدلس ہیں۔ اُنھوں نے اس حدیث کو ’’عن‘‘ سے روایت کیا ہے، لہٰذا یہ روایت منقطع ہے۔ امام شعبہ کہتے ہیں…… الخ‘‘ (سجدوں میں رفع یدین ثابت نہیں، ص10 اشاعت قدیم) پھر ان کا تدلیس کے بعد اس روایت کو رجسٹرڈ جماعت کے اپنے بنائے ہوئے اُصول کے مطابق بالکل صحیح ثابت ہو جانا چاہیے تھا، لیکن آپ دیکھیں اُنھوں نے کیا لکھا: ’’اس حدیث کی سند میں قتادہ ہیں۔ امام شعبہ کہتے ہیں اگر قتادہ نے سنا ہوتا تو ’’حدثنا‘‘ کہتے تھے اور اگر نہیں سنا ہوتا تو ’’قال‘‘ کہتے تھے کیونکہ اس حدیث میں قتادہ نے ’’حدثنا‘‘ نہیں کہا لہٰذا یہ روایت منقطع ہے۔‘‘ (آئینہ دار ص756 اشاعت دوم 2004ء) بات صاف ظاہر ہے کہ پہلے جس روایت کو صرف ’’تدلیس‘‘ کی وجہ سے رد کیا گیا تھا۔ تدلیس میں دُنیا جہان کی برائی جان کر اس کے انکار کے بعد بھی وہ حدیث ضعیف ہی رہی ’’صحیح‘‘ نہ ہوئی!!! وہ ’’قتادہ‘‘ کا ’’حدثنا‘‘ نہ کہنا بلکہ ’’عن‘‘ کہنا ہے! جو دلیل استاذ گرامی نے پیش فرمائی تھی وہ مسعود صاحب خود تسلیم کرتے چلے آ رہے ہیں تو اسی سے انکار یا اس کا جواب وہ بھلا کیا دے سکتے تھے؟ ثابت ہوا کہ استاذِ گرامی کا لاجواب کر دینے کا دعویٰ بالکل صحیح اور سلیمان کا اُن پر ’’غلط بیانی‘‘ کا الزام نری تہمت ہے۔ تنبیہ: مسعود صاحب تو ’’التاسیس في مسئلۃ التدلیس‘‘ کا کوئی جواب نہیں دے سکے تھے، اُن کی وفات کے کچھ عرصہ بعد رجسٹرڈ فرقہ کی طرف سے کچھ کوشش کی گئی اور ’’مقام محدثین اور فن تدلیس‘‘ نامی کتابچہ سامنے لائے الحمدللہ! استاذ گرامی اس کا بھی جواب دے چکے ہیں۔ دیکھئے مقالات (ج 3 ص 224 تا 244)
تکفیریت3) اس عنون کے تحت سلیمان صاحب نے لکھا: ’’3: تکفیریت‘‘ یہ الزام لگانے والے بھی میرے علم کے مطابق ایک تو حافظ زبیر علی زئی صاحب ہیں اور دوسرے محمد صلاح الدین صاحب مدیر رسالہ تکبیر۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اس الزام کا بھی صداقت سے کوئی واسطہ نہیں۔‘‘ (سوانح ص 165) جواب: یہ الزام نہیں بلکہ ایک حقیقت ہے کہ مسعود صاحب تکفیری فکر کے حامل تھے اور 1975ء میں بنائے گئے اپنے فرقہ کو دین و ایمان کا لازمی جز سمجھتے تھے اور اس فرقہ میں شامل نہ ہونے والے ہر فرد کو امت مسلمہ سے خارج قرار دیتے تھے، صرف خود کو مسلم اور اپنے سے باہر لوگوں کو مسلم نہ سمجھنا اپنی خوبی قرار دے کر فخر کرتے تھے۔ تفصیل کے لیے ہمارا مضمون ’’کیا رجسٹرڈ جماعت المسلمین ایک تکفیری فرقہ ہے‘‘ پڑھ لیجیے۔ اس میں مسعود صاحب کی تحریر و تقریر سے بیس ایسے ثبوت پیش کر دیئے ہیں جن سے ان کا تکفیری ہونا روزِ روشن کی طرح واضح ہوتا ہے۔ استاذ گرامی حافظ زبیر صاحب نے سب سے پہلے یہ حقیقت واضح کی تاکہ امت اس فتنے میں مبتلا ہونے سے محفوظ رہے تو یہ اُن کی سعادت ہے۔ فجزاہ اللّٰہ خیرًا عنا وعن المسلمین۔ آمین آگے سلیمان صاحب نے بزعم خود الزامی جواب دینے کے لیے ایک صاحب کا تذکرہ فرماتے ہوئے لکھا: ’’تکفیریت کے الزام پر مجھے مولوی سیف الدین حیدر آباد یاد آ گئے یہ صاحب اور ان کا پورا خاندان حنفی تھا۔ یہ اکیلے اہل حدیث ہو گئے تھے…… یہ پڑھے لکھے نہیں تھے……یہ بہت کٹر اہل حدیث اور اہل حدیث کے علاوہ کسی کو مسلمان نہیں سمجھتے تھے…… تکفیریت کا الزام لگانے والے اب خود ہی فیصلہ کر لیں کہ تکفیری کون ہے اہل حدیث یا جماعت المسلمین‘‘۔ جواب: کیا کمال دکھا دیا جناب نے ایک ایسے عامی فرد جو سرے سے پڑھے لکھے نہ تھے اپنی بات میں وزن پیدا کرنے کے لیے انہیں ’’مولوی‘‘ لکھ دیا، جبکہ پاک و ہند میں یہ لفظ عام طور پر عالم دین پر بولا جاتا ہے۔ استاذ محترم نے مسعود صاحب کی اپنی تحریروں سے انہیں تکفیری ثابت کیا تھا۔ رجسٹرڈ فرقہ کے کسی عامی فرد کی باتوں سے نہیں۔ پھر افسوس کہ انھیں سیف الدین حیدر آبادی صاحب تو یاد آ گئے جو خود ان کے اپنے بیان کے مطابق ’’پڑھے لکھے نہیں تھے‘‘ لیکن اپنے فرقہ کے امام یاد نہیں آئے جو ان کے خیال میں ’’شیخ الاسلام‘‘ اور ’’مجدد العصر‘‘ تھے اور وہ لکھتے ہیں: ’’غلط فہمی: جماعت المسلمین اور تمام فرقے امت مسلمہ میں شامل ہیں۔ ازالہ: امت میں تو بیشک شامل ہیں لیکن امت مسلمہ میں شامل نہیں‘‘ (وقار علی صاحب کا خروج ص 4، جماعت المسلمین کی دعوات…… ص 530) 4) آگے سیلمان صاحب نے ’’اہل حدیث‘‘ کی بحث چھیڑ دی سردست یہ ہمارے موضوع سے خارج ہے۔ اس کے بعد سلیمان صاحب نے لکھا: ’’حافظ زبیر علی مسلمین کے سخت مخالف تھے اور اہل حدیث نام کا بڑے زور شور سے دفاع کرتے تھے۔ لیکن آخر کار ان کے قلم سے بھی حق بات نکل ہی گئی۔ اور یہ فرقہ اہلحدیث کی چوتھی گواہی ہو گئی۔ وہ لکھتے ہیں: ’’ان ائمہ مسلمین کی تصریحات سے معلوم ہوا کہ طائفہ منصور والی حدیث کا مصداق اصحاب الحدیث اہل العلم اہل حدیث (یعنی محدثین) ہیں اور اس پر اجماع ہے۔ (اہلحدیث ایک صفاتی نام ص 60)۔ الحمد للہ ہم بھی یہی کہتے ہیں۔‘‘ (سوانح ……مسعود احمد ص 182) جواب: یہ سلیمان صاحب کا استاذ گرامی پر بہت بڑا الزام اور نری تہمت ہے کہ آپ ’’مسلمین کے سخت مخالف تھے۔‘‘ اللہ کی قسم! یہ مخالفت میں لگایا گیا بہتان ہے۔ الحمد للہ! ہم اُن کی صحبت میں رہے ہیں، اُن سے پڑھے ہیں۔ واللہ العظیم! آپ تمام مسلمین سے بہت زیادہ محبت کیا کرتے تھے، مہمانوں کا اکرام کیا کرتے تھے، البتہ ’’الحب فی اللّٰہ والبغض فی اللّٰہ‘‘ پر عمل کرتے ہوئے فرق باطلہ کا دلائل وبراہین سے رد کیا کرتے تھے جو کہ شرعاً محمود ومطلوب ہے۔ تکفیری فرقے بھی باطل فرقے ہیں، اسی لیے استاذ گرامی نے ان کی اصلاح کے لیے خاص طور پر رجسٹرڈ فرقہ کی اصلاح کے لیے مضامین بھی لکھے۔ تکفیریوں کی مخالفت کو ’’مسلمین کے سخت مخالف‘‘ قرار دینا یقینا باطل ہے، اللہ تعالیٰ ان کی اصلاح فرمائے۔ (آمین) رہا استاذ گرامی کی کتاب سے ’’اقتباس‘‘ اور اسے لے کر سلیمان بن مسعود کا یہ کہنا کہ ’’ہم بھی یہی کہتے ہیں‘‘ غلط بیانی اگر نہیں بھی تو ’’غلط فہمی‘‘ ضرور ہے، چونکہ استاذ گرامی نے لکھا: ’’اہل حدیث (یعنی محدثین) ہیں۔‘‘ جبکہ رجسٹرڈ فرقہ پرست مسعود صاحب کی تقلید میں یہ کہتے ہیں کہ ’’اہل حدیث سے مراد محدثین ہی ہیں۔ پھر استاذ گرامی نے اس کتاب میں کئی جگہ صراحت کر رکھی ہے کہ اہل الحدیث سے مراد ’’حدیث پر عمل کرنے والے عام لوگ‘‘ بھی ہیں تو سلیمان صاحب کا یہ کہنا کہ ’’ہم یہی بات کہتے ہیں‘‘ یقینا غلط ہے اور استاذ گرامی کی بات سے محض غلط نتیجہ نکالنا ہے، اللہ تعالیٰ ان کی اصلاح فرمائے۔
اہل حدیث کون ہے؟5) سلیمان صاحب نے لکھا: ’’زبیر علی زئی ایک جگہ لکھتے ہیں۔ سرفراز خان صفدر گکھڑوی نے لکھا ہے ’’اس سے آشکارا ہو گیا کہ ہر وہ شخص اہلحدیث ہے جس نے تحصیل اور طلب حدیث کا اہتمام کیا ہو اور حدیث کے لئے سعی اور کاوش کی ہو، عام اس سے کہ وہ حنفی ہو یا مالکی، شافعی ہو یا حنبلی حتیٰ کہ شیعہ ہی کیوں نہ ہو وہ بھی اہلحدیث ہے‘‘۔ اس عبارت میں خان صاحب نے محدثین کرام کو اہلحدیث کہا ہے لیکن انہوں نے شیعہ وغیرہ کو بھی اہلحدیث قرار دیا ہے جو کہ دلائل کی روشنی میں باطل بلکہ ابطل الاباطیل ہے۔‘‘ (اہل حدیث ایک صفاتی نام ص 9) صفدر گکھڑوی کی مندرجہ بالا عبارت علی زئی صاحب نے نقل کی ہے اور شیعوں کے متعلق بات چھوڑ کر ان کی باقی باتوں سے اتفاق کیا ہے۔ یہ عبارت تو خود علی زئی کے موقف کے خلاف ہے۔ اس عبارت کے مطابق تو صرف وہ شخص اہلحدیث ہے جس نے ’’تحصیل و طلب حدیث کا اہتمام کیا ہو اور حدیث کے لیے سعی وکاوش کی ہو‘‘۔ (سوانح مسعود ص 182 تا 183) جواب: سلیمان صاحب کا یہ کہنا کہ ’’یہ عبارت تو علی زئی کے موقف کے خلاف ہے …‘‘ یہ ان کے عدم فہم کی واضح مثال ہے، کیونکہ شیخ زبیر رحمہ اللہ کا موقف تو یہ ہے کہ ’’اہل حدیث سے مراد محدثین بھی ہیں اور حدیث پر عمل کرنے والے عام لوگ بھی‘‘۔ (دیکھئے اہل حدیث ایک صفاتی نام ص 9) پھر اس عبارت سے پہلے استاذ گرامی نے لکھا ہے: ’’سرفراز خان گکھڑوی نے لکھا ہے: ’’اہل حدیث سے وہ حضرات مراد ہیں جو حدیث کے حفظ و فہم اور اس کے اتباع وپیروی کے جذبہ سے سرشار و بہرہ ور ہوں‘‘۔ (طائفہ منصورہ ص 38 نیز دیکھئے الکلام المفید ص139)‘‘ (اہل حدیث ایک صفاتی نام ص 15) اس سے استاذ گرامی کا یہ دعویٰ واضح طور پر ثابت ہو جاتا ہے کہ اہل حدیث صرف محدثین ہی کو نہیں بلکہ حدیث کی پیروی کرنے والوں کو بھی کہا جاتا ہے، لیکن دوسروں پر خیانت کا الزام لگانے والے محمد سلیمان نے خیانت سے کام لیتے ہوئے صرف ایک عبارت نقل کر کے اعتراض کر ڈالا کہ یہ عبارت ان کے موقف کے خلاف ہے، جبکہ انھوں نے اپنے موقف کے حق میں سرفراز خان صفدر صاحب کی ایک نہیں دو عبارتیں پیش فرمائی تھیں۔ اگر سلیمان دونوں عبارتیں پیش کر دیتے تو اعتراض نہ کر پاتے۔ اللہ تعالیٰ ہی ان کو سمجھ عطا فرمائے۔ آگے جناب نے نئی اصطلاح ایجاد کر نے کی تہمت لگاتے ہوئے لکھا: 6) ’’جبکہ علی زئی تو اس جاہل، ان پڑھ شخص کو بھی اہل حدیث کہتے ہیں جو فرقہ اہل حدیث میں شامل ہو اور اس کے لیے انھوں نے ایک نئی اصطلاح ایجاد کی ہے ’’محدثین کے عوام یعنی حدیث پر عمل کرنے والے‘‘ (سوانح …… مسعود ص 183) جواب: الحمد للہ! شیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ نے کوئی نئی اصطلاح ایجاد نہیں کی، البتہ مسعود صاحب کی کافی ایجادات ہیں جن کا قرآن و حدیث اور سلف صالحین سے کوئی ثبوت نہیں ملتا جیسے (1) ’’جماعت المسلمین‘‘ کو رسول اللہ ﷺ کا رکھا ہوا نام قرار دینا۔ (2) امام جماعت المسلمین یا امیر جماعت المسلمین (3) نام رکھنے سے فرقہ بننا (4) امیر کی بیعت کو شرطِ ایمان قرار دینا (5) اپنے لیے کسی فرد کو اسلام سے خارج کر دینے کا اختیار ماننا (6) مقتدی کے لیے دوسکتوں کو اپنے حکمِ رسول قرار دینا۔ کہاں تک لکھوں تفصیل کے لیے ہمارا مضمون ’’کیا رجسٹرڈ فرقہ ایک دینی جماعت ہے؟‘‘ طلب فرمائیں۔ یوں تو شیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ نے اما م اہل السنۃ احمد بن حنبل، شیخ الاسلام، امام ابن تیمیہ ؛ کے اقوال بھی بطور شہادت پیش فرمائے جن سے واضح ہو جاتا ہے کہ ’’حدیث پر عمل کرنے والے عوام‘‘ بھی اہل حدیث ہو سکتے ہیں جو بھی حدیث کا اتباع کرے، لیکن سلیمان صاحب کی سمجھ میں کہاں آئے گا ان کی تسلی وتشفی کے لیے ہم ان کے والد ان کے امام و مجدّد وشیخ الامام مسعود احمد کی عبارات نقل کر دیں گے اس سے پہلے بس اتنا عرض ہے کہ آخر محدّث العصررحمہ اللہ نے یہ کہاں لکھا ہے کہ ’’اہل حدیث وہ ہے جو جماعت اہل حدیث میں شامل ہو‘‘ جو سلیمان صاحب اس غلط بیانی پر مجبور ہو گئے کہ زبیر صاحب تو اس جاہل، اَن پڑھ کو بھی اہل حدیث کہتے ہیں ’’جو فرقہ اہل حدیث میں شامل ہو‘‘۔ اگر نہیں دکھا سکتے تو اس کذب بیانی سے اللہ کے حضور تو یہ لازم آتی ہے اور شیخ رحمہ اللہ کے متعلقین سے معذرت بھی اخلاقیات کا تقاضا ہے، اللہ تعالیٰ انہیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
اہل حدیث کا معنی اور مسعود صاحبمسعود صاحب نے جو ’’تلاش حق‘‘ کے نام سے کتاب شائع کی تھی اس میں جگہ جگہ اہل حدیث لفظ لکھا تھا جو بعد میں ’’عامل بالحدیث‘‘ یا ’’عاملین بالحدیث‘‘ سے تبدیل کر دیا۔ عاملین بالحدیث کا مطلب تو یہی ہے ’’حدیث پر عمل کرنے والے لوگ۔‘‘ مثال کے طور پر آپ اس کا (ص9) دیکھیں، لکھا ہے: ’’ڈاکٹر علیم الدین صاحب نے…… کہا کہ ان کا لڑکا اپنا دین (حنفی مسلک) چھوڑ کر عامل بالحدیث ہو گیا ہے‘‘۔ (تلاش حق ص 9) جبکہ پہلے یہاں ’’اہل حدیث‘‘ لکھا تھا بعد میں اہل حدیث کے الفاظ ہٹا کر ’’عامل بالحدیث‘‘ لکھ دیا۔ مزید دیکھیں، لکھا ہے: ’’علامہ ذہبی ؒ کا تذکرۃ الحفاظ پڑھیے، دیکھئے ہر زمانے میں کتنے علماء عامل بالحدیث تھے، علامہ ذہبی ؒ بیسیوں علماء کے نام گناتے چلے جاتے ہیں۔ ان کے حالات لکھتے ہیں اور یہ وہ لوگ ہیں جو بڑے بڑے حفاظ تھے نہ معلوم ان کے علاوہ اور کتنے لوگ ہوں گے جن کے نام امام ذہبیؒ کو معلوم نہ ہوئے ہوں پھر کتنے لوگ ہوں گے جو ان کے حلقۂ اثر میں ہوں گے غرض یہ کہ بے شمار لوگ ہر زمانے میں عامل بالحدیث تھے۔‘‘ (تلاش حق ص 39) مزید دیکھ لیں، مسعود صاحب نے لکھا: ’’چھٹی صدی میں افریقہ میں عاملین بالحدیث کی حکومت تھی (تاریخ اسلام ذہبی ؒ)‘‘ (تلاش حق ص 39) اب سلیمان صاحب اور دیگر رجسٹرڈ فرقہ پرست سبھی مل جل کر کوشش فرمائیں اور امام ذہبی رحمہ اللہ کی کتب ’’تذکرۃ الحفاظ‘‘ اور ’’تاریخ اسلام‘‘ جو کہ عربی میں ہیں ان سے ’’عاملین بالحدیث‘‘ کے الفاظ نکال کر دکھائیں ہمیں تو ’’تاریخ اسلام‘‘ میں اہل حدیث کے لفظ ملے جن کا ترجمہ مسعوداحمد نے ’’عاملین بالحدیث‘‘ سے کیا۔ دوسرے یہ کہ مسعود صاحب نے علماء کے حلقۂ اثر میں موجود لوگوں کو بھی ’’عاملین بالحدیث‘‘ لکھا ہے، جبکہ اصل کتب میں ’’اہل الحدیث‘‘ کے لفظ ہیں۔ حلقہ اثر تو طلبہ اور عوام ہی پر مشتمل تھا اگر وہ بھی حفاظ محدثین ہی ہوتے تو ان کا الگ سے ذکر کیوں کیا؟تو واضح ہوا کہ عوام کو ’’اہل الحدیث‘‘ عمل کرنے والے معنی کے لحاظ سے کہنا لکھنا خود ان کے گھر سے ثابت ہے اس کے باوجود بھی اسے ’’ایجاد‘‘ قرار دینا استاذ گرامی پر نہیں، بلکہ اپنے ہی والد اور ان کے بنائے فرقہ کے امام پر الزام ہے۔ اللہ تعالیٰ انھیں سمجھ دے اور بغض وعدوات کی بیماری سے نجات دے۔ 7) سلیمان صاحب نے لکھا: ’’دوسری بات جو اس عبارت سے واضح ہوتی ہے وہ یہ کہ اہلحدیث میں حنفی، مالکی، شافعی اور حنبلی یعنی کہ تمام مقلدین بھی شامل ہیں۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایک طرف تو آپ کہتے ہیں کہ اہلحدیث نام آپ نے دوسرے لوگوں سے امتیاز کے لئے رکھا ہے اور دوسری طرف اس نام میں آپ تمام مقلدین کو بھی اس میں شامل سمجھتے ہیں۔ تو پھر امتیاز والی بات کہاں رہی؟‘‘ (سوانح مسعود ص 184) جواب: اچھے خاصے دنیاوی تعلیم یافتہ بندے ہیں سلیمان صاحب، لیکن اپنے والد صاحب کی طرح بنا رائی کے پہاڑ کھڑا کر دینے کے شوق میں یوں بچگانا اعتراض کر رہے ہیں۔ اہل حدیث وصف دوسرے لوگوں سے امتیاز کے لیے رکھا تو یہ امتیاز اس بات سے ختم نہیں ہو جاتا۔ وہ اس طرح کہ یہ سبھی لوگ ’’اہل حدیث‘‘ وصف کو اچھا سمجھنے کے باوجود بھی اسے عام طور پر استعمال و اختیار نہیں فرماتے اور ہم کرتے ہیں۔ اس طرح امتیاز والی بات رہ جاتی ہے۔ 8) سلیمان بن مسعود احمد نے لکھا: ’’(اہلحدیث ایک صفاتی نام میں ص14) تو اگر آپ حنبلی، شافعی وغیرہ کو اہلحدیث میں داخل نہیں سمجھتے تو اس سے یہ لازم آتا ہے کہ آپ نہیں منکرین حدیث یا دوسرے لفظوں میں غیر مسلم یا کافر سمجھتے ہیں۔ تو پھر دوسروں کو تکفیریت کا الزام دینے والے آپ خود کیا ہوئے؟‘‘ (سوانح ص 184) جواب: استاذ گرامی رحمہ اللہ نے ان لوگوں کو منکرین حدیث قرار نہیں دیا، جیسا کہ سلیمان صاحب کے والد مسعود صاحب نے اپنے بنائے ہوئے فرقہ کے لوگوں کے علاوہ تمام امت مصطفی کو امت مسلمہ سے خارج قرار دے کر اپنے تکفیریت پر مہر ثبت فرما دی۔ اور استاذ گرامی نے کوئی الزام نہیں دیا، بلکہ دلائل کی دنیا میں ثبوتوں کے ساتھ یہ واضح طور پر ثابت کر دکھایا تھا۔ والحمد للّٰہ علی ذلک 9) سلیمان بن مسعود نے لکھا: ’’محدثین کے عوام‘‘ اہل حدیث فرقے کا وجود زمانۂ خیر القرون میں ثابت نہ کر سکے تو علی زئی صاحب نے ایک اور چال چلی۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے ایک نئی اصطلاح ایجاد کی ’’محدثین کے عوام‘‘۔ (سوانح…… ص 184) جواب: جب اہل حدیث کا معنی قرآن و حدیث پر عمل کرنے والے ہیں اور بقول مسعود احمد صاحب کے ’’ہر زمانہ میں بے شمار لوگ عاملین بالحدیث تھے‘‘ اس کے باوجود بھی ان کا یہ کہنا کہ ’’خیر القرون میں اہل حدیث کا وجود ثابت نہ کر سکے عقل و فہم سے عدوات کے بد ترین مثال نہیں تو اور کیا ہے؟ پھر یہ وہی سلیمان بن مسعود ہیں جو کہتے ہیں کہ کسی کو برا بھلا کہنا میری عادت نہیں، لیکن اس مقام پر بھی وہ استاذ گرامی پر ’’چال چلنے‘‘ کے تہمت لگا گئے۔ اللہ یشفیہ رہی ان کی دوسری تہمت کہ ’’اصطلاح ایجاد کی‘‘ اس کا جواب ہم نمبر (6) کے تحت دے چکے ہیں۔ 10) سلیمان صاحب نے نمبر: 9 والی بات کے تسلسل میں لکھا: ’’اور دیکھنے کی بات یہ ہے کہ اس خود ساختہ اصطلاح کی دلیل انہوں نے کتنی زبردست دی ہے، وہ لکھتے ہیں: ’’احمد علی لاہوری نے فرمایا اہل حدیث نہ قادری ہیں اور نہ حنفی مگر وہ ہماری مسجد میں 40 سال سے نماز پڑھ رہے ہیں۔ میں ان کو حق پر سمجھتا ہوں (ملفوظات طیبات)۔ اس عبارت سے صاف ظاہر ہے کہ اہل حدیث سے مراد صرف محدثین کرام نہیں بلکہ ان کے عوام بھی اہلحدیث ہیں۔ (اہلحدیث ایک صفاتی نام ص16)۔ آپ نے ملاحظہ کیا علی زئی صاحب نے ’’محدثین کے عوام‘‘ کی اصطلاح کو ثابت کرنے کے لیے کتنی زبردست دلیل دی ہے! یہ کیسا تضاد ہے کہ جو صاحب بڑے بڑے ائمہ کے قول کو حجت نہیں مانتے وہ ایک معمولی حنفی عالم کی بات کو بطور دلیل پیش کر رہے ہیں۔ اسے کہتے ہیں ڈوبتے کو تنکے کا سہارا۔‘‘ (سوانح…… ص 185) جواب: سب سے پہلے تو یہ عرض کر دوں کہ استاذ گرامی رحمہ اللہ پر ’’چال چلنے‘‘ کی ناحق تہمت لگانے والے سلیمان صاحب نے خود کتنی بڑی اور اوچھی چال چلی کہ استاذ گرامی نے احمد علی لاہوری صاحب کی یہ بات کس مقصد کے لیے نقل کی اور کتاب سامنے ہوتے ہوئے بھی سلیمان نے کیا کہانی بنا ڈالی۔ تو دیکھئے استاذ گرامی نے اپنی کتاب ص (10) پر سرفراز خان صفدر صاحب کی کتاب ’’طائفہ منصورہ (ص39) سے ایک عبارت نقل فرمائی جس میں سرفراز صاحب نے رقم فرمایا ہے: ’’حتیٰ کہ شیعہ ہی کیوں نہ ہو، وہ بھی اہل حدیث ہے‘‘ تو اس پر بصیرت افروز و مدلل تبصرہ فرماتے ہوئے استاذ گرامی نے فرمایا: ’’اس عبارت میں خان صاحب نے محدثین کرام کو اہل حدیث کہا ہے، لیکن انھوں نے شیعہ وغیرہ کو بھی اہل حدیث قرار دیا ہے جو کہ دلائل کی روشنی میں باطل ابطل الاباطیل ہے، جیسا کہ آگے آ رہا ہے‘‘۔ (اہل حدیث ایک صفاتی نام ص 10) پھر آگے استاذ گرامی نے تحریر فرمایا: ’’یہ کہنا کہ شیعہ اور اہل بدعت بھی اہل حدیث ہیں کئی وجہ سے غلط و باطل ہے، مثلاً (1) ایک صحیح حدیث میں آیا ہے کہ طائفہ منصورہ ہمیشہ غالب رہے گا۔ الخ۔ اس کی تشریح میں امام بخاری، امام علی بن مدینی اور امام احمد بن حنبل وغیرہم نے فرمایا: یہ اہل حدیث ہیں۔ (ملخصاً، دیکھئے مسئلۃ الاحتجاج بالشافعی ص47……)‘‘ (اہل حدیث ایک صفاتی نام ص 11) پھر سرفراز خان صفدر صاحب کی غلط فہمی کا جواب دیتے ہوئے استاذ گرامی نے نمبر ایک پر ان محدثین کی بات بطور گواہی پیش فرمانے کے بعد مزید اُنہیں (19) گواہیاں نقل فرمائی ہیں۔ جن میں ایک بات احمد علی لاہوری صاحب کی بھی ہے۔ آپ نے دیکھا سلیمان صاحب نے محدث العصر پر اعتراض کے لیے کیسے بات بدل کر پیش کی انہی کی یہ روش ہے جو زبردست چالبازی قرار دیئے جانے کی مستحق ہے۔ آگے سلیمان صاحب کا یہ الزام کہ ’’کتنا بڑا تضاد ہے کہ جو صاحب بڑے بڑے ائمہ کے اقوال کو حجت نہیں مانتے وہ ایک معمولی حنفی عالم کی بات کو بطور دلیل پیش کرر ہے ہیں۔‘‘ تو عرض ہے کہ زبردست اور سینہ زوری کے سہارے تضاد گھڑنے کے بجائے اپنے والے اور فرقہ کے بانی و امام مسعود صاحب کے حقیقی تضادات کی فکر فرمائیں جن میں سے بعض کی نشاندہی استاذ گرامی نے اپنے مضمون ’’جماعت المسلمین رجسٹرڈ‘‘ کا امام ’’اسماء الرجال کی روشنی میں‘‘ فرمائی۔ یاد رہے کہ یہ مضمون بھی سلیمان صاحب کے جواب ہی میں لکھا تھا۔ اس کا جواب تو دے نہیں سکے اور الزامات و بہتانات سے لبریز باتیں کیے جا رہے ہیں۔ یہ مضمون ستمبر 2005ء کے مجلہ ’’الحدیث‘‘ حضرو میں شائع ہوا، پھر بعد میں استاذ گرامی کے ’’علمی مقالات‘‘ (ج1) کا حصہ بنا۔ الحمد للہ رجسٹرڈ فرقہ ان تضادات کا کوئی معقول اور واقعی جواب نہیں دے سکا، البتہ اس طرح زبردستی کے تضاد ثابت کرنے میں مصروف رہتے ہیں، درحقیقت یہی ’’ڈوبتے کو تنکے کا سہارا‘‘ کے عین مصداق ہیں۔
جید علماء اہل حدیث کے متعلق علی زئی کی رائے11) اس عنوان کے تحت مغالطے دیتے ہوئے سلیمان بن مسعود نے لکھا: ’’محمد حسین بٹالوی کو کون نہیں جانتا۔ وہ اولین اہلحدیث میں سے تھے اور فرقہ اہلحدیث کے بہت بڑے محسن اور مبلغ تھے۔ ان کے متعلق علی زئی صاحب لکھتے ہیں: ’’بٹالوی صاحب رحمہ اللہ اہل حدیث عالم تھے لیکن اکابر میں سے نہیں تھے بلکہ ایک عام عالم تھے۔ ان کی کتاب ’’الاقتصاد‘‘ مردود کتابوں میں سے ہے۔‘‘ (اہلحدیث ایک صفاتی نام ص 46) ’’وحید الزماں صاحب ہوں یا نواب صدیق حسن خان صاحب، نور الحسن ہو یا بٹالوی صاحب ہوں ان میں سے کوئی بھی اہل حدیث کے اکابر میں سے نہیں‘‘۔ (اہلحدیث ایک صفاتی نام ص45)۔ ہندوستان میں علم حدیث کی اشاعت میں نواب صدیق حسن خان کا جو حصہ ہے اس سے کوئی احمق ہی انکار کر سکتا ہے۔ انہوں نے احادیث کی کتابیں چھپوائیں۔ ان کے اردو ترجمے کروائے۔ حدیث کی کتابیں مفت تقسیم فرمائیں۔ خود بھی بے شمار کتابیں تصنیف فرمائیں۔ اللہ کی شان ہے کہ ان کے متعلق علی زئی صاحب فرماتے ہیں کہ وہ اہلحدیث کے اکابر میں سے نہیں۔‘‘ (سوانح مسعود ص 186) جواب: استاذ گرامی ان بلکہ تمام اہل علم کا احترام فرماتے تھے۔ یہاں انہوں نے مولانا محمد حسین بٹالوی کو عالم بھی تسلیم کیا اور ’’رحمہ اللہ‘‘ لکھ کر ان کے حق میں دعا بھی فرمائی۔ اسی طرح نواب صدیق حسن خان کو بھی آپ ’’علامہ‘‘ تسلیم کرتے تھے۔ چنانچہ انہوں نے ایک مقام پر لکھا: ’’علامہ نواب صدیق حسن کے بارے میں ایک جھوٹا قصہ ’’نواب صدیق حسن خان رحمہ اللہ‘‘ (توضیح الاحکام ج 3 ص 221) باقی ان کا موقف تھا کہ ’’اکابر‘‘ محدثین ہیں۔ ماضی قریب کے یہ اہل علم نہیں۔ اس موقف سے اختلاف تو ہو سکتا ہے کہ یہ کسی معصوم کی رائے نہیں لیکن اس کو لے کر یہ ثابت کرنا کہ یہ ان اہل علم کے خدماتِ جلیلہ کا انکار ہے کسی انتہائی احمق وعقل سے پیدل فرد ہی کا کام ہو سکتا ہے جو اس بات کو لے کر اس کے مقابلے میں ان اہل علم کی خدمات بھی سمجھ سکتا ہے کہ خدمات کا تذکرہ یہاں تب مفید ہوتا جب وہ ان کا انکار فرماتے۔ باقی ان خدمات کا تذکرہ بھی ہماری ہی تائید ہے کیوں کہ یہ ہمارے ہی علماء تھے۔ رجسٹرڈ فرقہ تو اس وقت ایجاد بھی نہیں ہوا تھا۔ المختصر کے استاذ گرامی نے صرف ’’اکابر‘‘ ہونے سے انکار کیا لیکن ان کے بارے میں کوئی بری رائے نہیں دی، لہٰذا اس بات کو لے کر سلیمان صاحب کا ایسا عنوان قائم کرنا اپنی تربیت کے مطابق ’’بنا رائی کے پہاڑ کھڑا کر دینے‘‘ کی ناکام کوشش ہی ہے۔ اس بارے میں حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ کی حیات و خدمات پر شائع ہونے والی خصوصی اشاعت ’’محدث العصر نمبر‘‘ میں حافظ ندیم ظہیر صاحب نے بھی بہترین وضاحت کردی ہے جس کے بعد شیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ پر اعتراض ختم ہو جاتا ہے۔
سلیمان صاحب کی ناقص معلومات12) لکھا ہے: ’’میں تو کہتا ہوں کہ نواب صدیق حسن خاں صاحب فرقہ اہل حدیث میں سے تھے ہی نہیں۔ جہاں تک میری معلومات ہیں انہوں نے اپنے آپ کو کبھی اس فرقے کی طرف منسوب نہیں کیا۔‘‘ (سوانح مسعود ص 186) نواب صدیق حسن خان رحمہ اللہ نہ صرف یہ کہ اہل حدیث تھے بلکہ اس کا اظہار بھی فرماتے تھے چنانچہ اپنے ایک رسالہ میں لکھتے ہیں: ’’حدیث میں آیا ہے: ’’لا تزال طائفۃ من أمتي ظاھرین علی الحق لا یخذلھم من خالفھم حتی یأتي أمر اللّٰہ‘‘ مراد اس گروہ سے جماعت اہل حدیث و قرآن ہیں‘‘۔ (عقیدۃ السنی، ص30 طبع اول، مجموعہ رسائل عقیدہ) مزید دیکھئے علامہ صدیق حسن خان رحمہ اللہنے ہی اپنے خود نوشت سوانح میں لکھا: ’’میں تو اہل حدیث مشہور ہوں‘‘ (ابقاء المنن، طبع بھوپال ص 136، طبع لاہور ص؟) سلیمان بن مسعود کی معلومات بڑی ناقص ہیں۔ ایسے دعوے اُن کے لائق نہیں بلکہ ان لوگوں کے لیے ہیں جنھوں نے نواب صاحب رحمہ اللہ کو نہ پڑھا ہو۔ اگر یہ بھی پڑھتے تو ایسے دعوے نہ کرتے۔ بطور نصیحت عرض ہے کہ اتنے بڑے بڑے دعویٰ نہ کیا کیجیے۔
دامن کو ذرا دیکھ ذرا بند قبا دیکھ13) سلیمان صاحب نے آگے بے جا طنز کرتے ہوئے لکھا: ’’بہر حال بقول علی زئی اگر نواب صدیق حسن خان صاحب اہلحدیث کے اکابر میں سے نہیں تو پھر کیا زبیر علی زئی اور دامانوی صاحب اہلحدیث کے اکابر میں سے ہیں جن کا نام علی صاحب بڑی عزت سے لیتے ہیں؟‘‘ (سوانح مسعود ص 186)
جواب:موصوف قدم قدم پر بانی رجسٹرڈ فرقہ کی تربیت کے نقوش چھوڑتے جاتے ہیں ایک طرف ان کی ’’معلومات‘‘ ہیں کہ نواب صاحب رحمہ اللہاہل حدیث تھے ہی نہیں دوسری طرف ان کا شدید اصرار ہے کہ نہ صرف اہل حدیث تھے بلکہ ’’اکابر‘‘ اہل حدیث میں سے تھے اور یہ تضاد فکری کہیں دور دراز مقامات پر سرزد نہیں ہو رہی بلکہ ایک ہی عنوان کے تحت لکھی چند سطور میں ہی یہ کمال دکھائے گئے ہیں۔ واقعی تضاد فکری میں یہ اپنے والد کی پرچھائی ہیں۔کاش ان کو کوئی سمجھائے کہ جناب جب آپ کی ’’عدمِ معلومات‘‘ کے مطابق علامہ صدیق حسن خان اہل حدیث تھے ہی نہیں تو پھر آپ یہ ضد کیوں کر رہے ہیں اور اس پر طعن کیوں فرما رہے ہیں کہ محدث العصر حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہکے نزدیک وہ اکابر اہل حدیث میں سے نہیں۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ انہیں سمجھنے والا دل و دماغ عطا فرما دے اور یہ تبھی ممکن ہے جب جناب ضد و عناد چھوڑ کر صدقِ دل سے اس کی طلب فرمائیں۔ رہا ان کا یہ طنز کہ اگر نواب صاحب اکابر میں سے نہیں ’’تو کیا پھر علی زئی اور دامانوی صاحب اہل حدیث کے اکابر میں سے ہیں۔‘‘ توعرض ہے کہ بانی رجسٹرڈ فرقہ کی صحبت و تربیت میں صرف آپ ہی نہیں رہے افسوس کہ اور لوگوں کو بھی اس میں سے کچھ حصہ ملا ہے۔ ایسے الٹے نتیجے نکالنا کوئی مشکل نہیں۔ مسعود صاحب نے ایک جگہ لکھا: ’’ابن حجر امام جرح وتعدیل نہیں ہیں وہ تو صرف ناقل ہیں‘‘ (ذہن پرستی ص 61) اب سلیمان صاحب کی طرح کا کوئی رجسٹرڈ فرقہ پرستوں جیسی سوچ رکھنے والا اُٹھ کر یہ طعن کر دے کہ اگر ’’امام ابن حجر رحمہ اللہ امام جرح و تعدیل نہیں تھے تو کیا مسعود صاحب تھے؟ جو معقول جواب اس لغو بات کا ہے وہی سلیمان صاحب کے طنز کا ہو گا!!! 16) سلیمان صاحب نے لکھا: ’’ان کا نام اس طرح لکھتے ہیں ’’جناب محترم فضیلۃ الشیخ ابو جابر عبد اللہ دامانوی۔ علی زئی صاحب نے کسی کو تو اتنی عزت دی۔‘‘ (سوانح …… ص 186) جواب: قارئین کرام یہ رجسٹرڈ فرقہ پرست سلیمان صاحب کی طرف سے کوئی علمی تنقید نہیں اور نہ یہ اُن کے بس کی بات ہی ہے۔ بس ذاتی عداوت کی بنا پر جناب نے یہ کارروائی کی ہے، کیونکہ استاذ گرامی نے ان کے والد کو تکفیری ثابت کیا اور حدیث کی تصحیح و تضعیف میں ان کی غلطیاں اور تضاد وتناقضات کا ذکر کر دیا تو اب علمی جواب دینے سے قاصر اس فرقہ پرست نے یوں اپنے دل کی بھڑاس اور بغض و کینہ کو صفحۂ قرطاس پر منتقل کر دیا ہے۔ اس پر ان کے فرقہ پرست ساتھی اتراتے پھرتے ہیں تو ہم بھی حقیقت حال واضح کرنے کے لیے یہ آئینہ دے رہے ہیں۔ وگرنہ اس کے جواب کی تو ضرورت ہی نہیں تھی۔ جس کسی نے بھی شیخ زبیر علی زئیرحمہ اللہ کو پڑھا ہے وہ بخوبی جانتا ہے کہ شیخ ائمہ محدثین کا ازحد احترام فرماتے تھے اور محدثین نے جو ان کی توثیق و تعدیل میں القابات استعمال کیے بڑی فراخدلی سے انھیں نقل فرماتے ہیں، اُن پر غیر ثابت جروحات کو علم و تحقیق اور اصول کی بنیاد پر رد کرتے ہیں۔ کسی ضعیف راوی پر بھی اگر کوئی جرحی کلمہ ثابت نہیں ہوتا آپ اس کی وضاحت فرما دیتے ہیں۔ اس کی مثالیں جمع کرنے جائیں تو اچھا خاصہ رسالہ مرتب ہو سکتا ہے۔ بطور نمونہ ایک دو مثالیں ملاحظہ کیجئے۔ 1: شیخ رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ’’اس مختصر مضمون میں شیخ العرب والعجم امام حافظ ابو محمد بدیع الدین شاہ الراشدی السندھی رحمہ اللہ کے بارے میں بعض معلومات پیش خدمت ہیں۔‘‘ (علمی مقالات ج 1 ص 484) 2: شیخ رحمہ اللہ نے ایک مقام پر لکھا: ’’اگر مجھے رکن و مقام کے درمیان کھڑا کر کے قسم دی جائے تو یہی کہوں گا کہ میں نے شیخ محب اللہ شاہ سے زیادہ نیک زائد وافضل اور شیخ بدیع الدین شاہ سے زیادہ عالم وفقیہ انسان کوئی نہیں دیکھا۔ آپ 9 شعبان 1415ھ بمطابق 21 جنوری 1995ء کو فوت ہوئے۔ رحمہ اللّٰہ رحمۃ واسعۃ وکان ثقۃ إمَامًا متقنا، صاحب سنۃ والورع، ما رأیت مثلہ۔‘‘ (مقالات علمیہ ج 1 ص 505) 3: شیخ محترم لکھتے ہیں: ’’ہمارے جلیل القدر شیخ مولانا الامام فیض الرحمن ابو الفصل الثوری رحمہ اللہ (متوفی 1417ھ) بہت بڑے محقق اور عظیم محدث تھے۔‘‘ (مقالات علمیہ ج 1 ص 501) ایسے مثالوں کی کوئی کمی نہیں، لیکن سلیمان صاحب نے ناحق اعتراض کرتے ہوئے لکھا: ’’علی زئی نے کسی کو تو عزت دی‘‘ گویا شیخ رحمہ اللہ کسی کو عزت دیتے ہی نہیں، جبکہ مذکورہ بالا مثالیں آپ کے سامنے ہیں، لیکن دیدۂ کور کو نظر آئے کیا اور دیکھے کیا! 17) سلیمان بن مسعود نے زبانِ طعن دراز کرتے ہوئے لکھا: ’’ورنہ وہ تو اتنے زبان دراز ہیں کہ انہوں نے امام محمد بن حسن شیبانی جو سیدنا امام ابو حنیفہؒ کے شاگرد اور سیدنا امام شافعیؒ کے استاد تھے ان تک کی شان میں بڑی گستاخیاں کی ہیں۔ ایک جگہ لکھتے ہیں۔ ’’محمد بن الحسن الشیبانی بھی جرابوں پر مسح کا قائل تھا‘‘۔ (ہدیۃ المسلمین ص 19) دوسری جگہ لکھتے ہیں: ’’محمد بن الحسن بن فرقد الشیبانی (کذاب) نے اخبرنا داود …… کی سند فٹ کر رکھی ہے۔ دیکھئے مؤطا الشیبانی الکذاب (نصر الباری ص 95)۔ اسی کتاب کے ص 102 اور ص 106 پر بھی موصوف نے امام محمد کے خلاف دریدہ ذہنی کی ہے۔ کتاب ’’مسئلۃ فاتحہ خلف الامام‘‘ میں تو متعدد مقامات پر امام محمدؒ کے خلاف انتہائی قابل اعتراض زبان استعمال کی ہے۔ مثلاً ایک جگہ لکھتے ہیں۔ ’’یہ شخص جسے ’’امام محمد‘‘ لکھا ہوا ہے محمد بن الحسن بن فرقد الشیبانی ہے جو کہ مشہور کذاب ہے۔‘‘ (مسئلہ فاتحہ خلف الامام ص 141)۔ دوسری جگہ لکھتے ہیں۔ ’’اس کا راوی محمد بن الحسن الشیبانی کذاب ہے‘‘۔ (حوالہ سابق، ص130) جواب: سلیمان بن مسعود صاحب کے پیش کردہ وہ تمام اقتباسات بھی ہم نے آپ کے سامنے رکھ دیے ہیں جو انھوں نے اپنی زبان درازی والے بہتان کو سچ ثابت کرنے کے لیے پیش کیے۔ عام مسلمین تو سمجھ ہی سکتے ہیں لیکن اگر رجسٹرڈ فرقہ پرست بھی انصاف کی نظروں سے دیکھیں اور غور فرمائیں تو ان پر واضح ہو جائے گا کہ انھوں نے محض بغض وکینہ میں یہ بہتان طرازی فرمائی ہے، چونکہ زبیر علی زئی صاحب نے جو محمد بن حسن الشیبانی کو ’’کذاب‘‘ لکھا ہے تو اپنی طرف سے نہیں لکھا بلکہ ائمہ محدثین کی گواہیوں کی بنا پر لکھا ہے۔ تفصیل کے لیے اُن کا مضمون ’’تائید ربانی اور ابن فرقدالشیبانی‘‘ مقالات علمیہ (ج 2 ص 341 تا 364) دیکھ لیجیے۔ اس کا جواب جب ’’فضل ربانی‘‘ کے نام سے لکھا گیا تو استاذِ گرامی نے دلائل سے مزین ’’جواب الجواب‘‘ بھی لکھا جو کہ ’’تصدیق تائیدِ ربانی فی جواب مضمون فضل ربانی‘‘ کے نام سے ان کے مقالات علمیہ کے (ج 3 ص 376 تا 384) پر موجود ہے۔ اس کے باوجود اس با ت کو لے کر ’’زبان درازی‘‘ کی بہتان طرازی کہاں کا انصاف ہے؟ ایسے تو پھر مسعود صاحب نے کئی راویوں کو کذاب لکھا ہے۔ تو سلیمان صاحب اپنے والد صاحب کو بھی زبان دراز قرار دیں گے؟ اگر نہیں اور یقینا نہیں تو پھر دوسروں پر یہ زبان درازی اور بہتان طرازی کیوں؟
مسعود صاحب کی زبان درازیاںسلیمان صاحب کو شاید معلوم ہی نہیں کہ ’’زبان درازی‘‘ کسے کہتے ہیں، ہم بتا دیتے ہیں۔ نالۂ بلبلِ شیدا تو سنا ہنس ہنس کر اب جگر تھام کے بیٹھو مری باری آئی 1: مسعود صاحب نے لکھا: ’’مُدلّس کہنے والے صرف امام احمد ہیں اور وہ امام محمد بن اسحق کی وفات کے سترہ سال بعد پیدا ہوئے، لہٰذا تدلیس کی تہمت کی کوئی بنیاد نہیں۔‘‘ (جماعت المسلمین پر اعتراضات اور ان کے جوابات ص 70)1: مسعود صاحب نے لکھا: ’’مُدلّس کہنے والے صرف امام احمد ہیں اور وہ امام محمد بن اسحق کی وفات کے سترہ سال بعد پیدا ہوئے، لہٰذا تدلیس کی تہمت کی کوئی بنیاد نہیں۔‘‘ (جماعت المسلمین پر اعتراضات اور ان کے جوابات ص 70) انصاف سے کہیے کیا امام اہل السنۃ احمد بن حنبل جیسے جلیل القدر محدثین کسی محدث پر ’’تہمت‘‘ لگانے والے تھے؟ اگر یہ زبان درازی نہیں تو رجسٹرڈ فرقہ پرست بالعموم اور سلیمان صاحب بالخصوص یہ جملہ لکھ دیں کہ مسعود صاحب نے امام احمد پر یہ ’’تہمت لگائی‘‘ دیدہ باید۔ 2: مسعود صاحب نے لکھا: ’’نہ المدائنی جن کو بہت بڑا مؤرخ سمجھا جاتا ہے یہ لکھتے ہوئے غیرت آئی اور نہ ابن کثیر کو جو ایک بہت بڑے محدّث تھے۔‘‘ (تاریخ مطوّل ص 18) دیکھ لیجیے! اپنے قلم سے انہیں ’’بہت بڑے محدث‘‘ تسلیم کر کے بھی جناب نے اس قدر زبان درازی اور گستاخی کی۔ اگر رجسٹرڈ فرقے والے یہ کہیں کہ اس میں کسی قسم کی کوئی گستاخی اور زبان درازی نہیں تو …؟ پھر مزید سنیے مسعود صاحب نے لکھا ہے: ’’اللہ کو یہ تو گوارا ہے کہ کوئی گھر میں بیٹھ کر بت کی پوجا کرے یا آگ کی یا کسی اور چیز کی۔‘‘ (حق کیسے غالب ہوتا ہے ص؟، آئینہ دار ص268) سلیمان بن مسعود بس اتنا لکھ دیں کہ ’’میرے والد مسعود صاحب جو میرے اور ہمارے فرقہ کی نظر میں بہت بڑے محقق تھے ان کو یہ لکھتے ہوئے غیرت نہ آئی۔‘‘ 3: مسعود احمد صاحب نے تفسیری بحث میں لکھا: ’’سبھی مکھی پر مکھی مارتے چلے گئے۔‘‘ (عصمت رسولﷺ ص18، آئینہ دار ص201) حالانکہ جس بات کو لے کر یہ طنز فرمایا جناب نے، اگر واقعی یہ مکھیاں مارنا ہے تو پھر خود بھی یہی مکھیاں مارتے رہے ہیں فرقہ بنا لینے کے بھی بیس (20) سال بعد انھیں اس کا خیال آیا۔ تفصیل کے لیے ہمارا بیان ’’اہل حدیث پر گستاخی کا بہتان اور اس کی حقیقت‘‘ طلب فرمائیں۔ زبان درازیوں کا یہ سلسلہ کچھ مختصر نہیں لیکن تفصیل کا یہ موقع نہیں، بس ان مثالوں سے ہی سمجھ لیجیے اور کسی پر زبان درازی کی ناحق و ناروا تہمت لگانے کے بجائے اپنے ’’شیشہ کے گھر‘‘ کو سنبھالیں۔ 18) سلیمان بن مسعود نے لکھا: ’’امام یحییٰ بن معین نے اگر امام محمد کو کذاب کہا ہے تو امام علی بن مدینی نے ان کو سچا کہا ہے۔ جب ائمہ جرح و تعدیل میں اختلاف ہو تو ایسی صورت میں کسی ایک امام کی جرح پر کوئی فیصلہ صادر نہیں کرنا چاہیے۔ ایساکرنا انتہائی غیر ذمہ داری کا ثبوت دینا ہے۔‘‘ (سوانح ص189) جواب: ’’اگر‘‘ کسی اور کا؟ کذاب کہنا ثابت ہے تو استاذ گرامی رحمہ اللہ نے اپنے علمی مضمون میں دلیل کے ساتھ یہ بات ثابت کی ہے۔ اگر کچھ کمال دکھانا مقصود ہے تو سلیمان صاحب ان دلائل کو علمی طور پر غلط ثابت کر کے دکھائیں کیوں کہ علمی دنیا میں ’’اگر، مگر‘‘ جیسے تخمینوں کی کوئی حیثیت نہیں۔ اور یہ مضمون پڑھ کر دیکھیں تو آپ کو معلوم ہو کہ یہ ’’انفرادی رائے پر فیصلہ‘‘ نہیں بلکہ متعدد ائمہ محدثین کی شہادات پر مبنی فیصلہ ہے، البتہ ایسی ’’انتہائی غیر ذمہ داری‘‘ پر مبنی کاروائیاں آپ اور آپ کے فرقے کے بنائے ہوئے ’’شیخ الاسلام‘‘ مسعود احمد سے جا بجا سرزد ہوئی ہیں نہ کہ استاذ گرامی سے۔ بطور ثبوت ہمارا کتابچہ ’’نماز میں سکتات کا مسئلہ……‘‘ ص27 تا 37 دیکھ لیجیے۔ کس طرح مفید مطلب روایت کو بچانے کے لیے ’’ابو الصلت رافضی کذاب خبیث‘‘ کے بارے میں انفرادی رائے پر فیصلہ کر کے غیر ذمہ داری کا ثبوت دیا۔ دوسری مثال دیکھنا چاہتے ہیں تو ہمارا مضمون ’’خلیفہ والی حدیث اور رجسٹرڈ جماعت‘‘ ص:6 عنوان ’’ایک تابعی پر مسعود صاحب کا باطل سب و شتم‘‘ پڑھ لیجئے کہ محدثین میں سے کسی کی ایک محدث کی انفرادی رائے بھی نہیں محض اپنی ’’ذاتی انفرادی رائے‘‘ سے سبیع بن خالدرحمہ اللہ پر تہمتیں لگا کر اپنے ذاتی مذہب اور فرقے کو بچانے کی مذموم کوششیں فرمائی ہیں۔ 19) سلیمان صاحب نے لکھا: ’’میرے خیال میں امام مالک اور امام صاحب مغازی محمد بن اسحق بن یسار کا معاملہ علی زئی صاحب کے علم میں نہ ہوگا تبھی انہوں نے امام محمدؒ کے بارے میں ایسی غیر ذمہ داری کا ثبوت دیا ہے۔‘‘ (سوانح ص189) جواب: سلیمان صاحب کا علم و تحقیق سے بس اتنا ہی تعلق ہے کہ حقائق اور ثبوتوں کی دنیا کے بجائے ’’خیالات و تخرصات‘‘ کی دنیا میں کھوئے رہتے ہیں۔ وگرنہ امام محمد بن اسحاق بن یسار صاحب المغازی رحمہ اللہ پر استاذ گرامی علمی مقالہ بعنوان ’’محمد بن اسحاق بن یسار اور جمہور کی توثیق‘‘ ان کے مجلہ ’’الحدیث‘‘ شمارہ نمبر 71 اپریل 2010ء میں شائع ہو چکا ہے۔ اسی مضمون میں استاذ گرامی لکھتے ہیں: ’’تنبیہ: سرفراز خان کے ذکر کردہ جارحین اور جرح کے بہت سے حوالوں میں نظر ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھئے مولانا ارشاد الحق اثری کی کتاب ’’توضیح الکلام‘‘ (مقالات علمیہ ج 3 ص 278) اب ’’توضیح الکلام‘‘ جدید اٹھا کر دیکھ لیجئے اس کے ص 224۔232 پر اور قدیم اشاعت کے ج 1 ص 232۔241 پر امام مالک رحمہ اللہ کی ’’جرح‘‘ کی تفصیل ومدلل وضاحت موجود ہے۔ اسی طرح استاذ گرامی نے امام بخاری رحمہ اللہ کی ’’جزء القرأۃ‘‘ کے ترجمہ و تحقیق کی جو خدمت انجام دی ’’نصر الباری‘‘ کے نام سے اس کا ص195۔ 197 دیکھئے لیجئے۔ واضح ہو جائے گا کہ شیخ زبیر علی زئی کو اس بات کا علم تھا یا نہیں۔ پھر ’’توضیح الکلام‘‘ میں ان تفصیلات کا مطالعہ کیجئے تو آپ دیکھیں گے کہ ایک طرف استاذ گرامی محدث العصر فضیلۃ الشیخ العلام ارشاد الحق صاحب حفظہ اللہ ورعاہ وکثر امثالہ کی علمی تحقیقات ہیں۔ تو دوسری طرف سلیمان صاحب کے بنائے ہوئے ’’شیخ الاسلام‘‘ مسعود صاحب کا جواب بھی دیکھتے جائیے جو کسی علمی عجوبہ سے کم نہیں، لکھا ہے:’’کہاجاتا ہے کہ امام محمد بن اسحق نے کہا: مالک کی حدیثیں میرے سامنے پیش کرو میں ان کی احادیث کا طبیب ہوں۔ امام مالک نے کہا وہ جھوٹوں میں سے ایک جھوٹا ہے۔ (میزان الاعتدال) اس کا ایک جواب یہ بھی ہو سکتا ہے…… ایک جواب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ ان دونوں کا آپس کا مذاق ہو۔ سنجیدہ بیان نہ ہو۔‘‘ (تاریخ مطول ص6) علم حدیث سے تعلق رکھنے والے معمولی عقل وخرد کے حامل طلبہ بھی سمجھ سکتے ہیں کہ یہ کس قدر پست اور علمی لحاظ سے بودا اور واہیات جواب ہے۔ بھلا سوچیے! کیا محدثین کرام ’’آپس کے مذاق میں غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے‘‘ بھی کسی محدث پر کلام کر دیا کرتے تھے؟ اور وہ بھی اتنا سخت کلام؟ پھر تو علم حدیث اور علم الرجال وجرح و تعدیل کا اللہ ہی حافظ ہے!!! ایسی باتیں دیکھ کر امام الانبیاء، الصادق والمصدوق ﷺ کی حدیث یاد آجاتی ہے۔ ارشاد فرمایا: ’’إِذَا وُسِّدَ الْأَمْرُ إِلٰی غَیْرَ أَھْلِہِ فَانْتَظِرِ السَّاعَۃً‘‘ جب معاملہ نااہل لوگوں کے سپرد کر دیا جائے تو قیامت کا انتظار کرنا۔ (صحیح البخاری: 59) امام بخاری رحمہ اللہ اسے کتاب العلم میں لائے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ علمی معاملات نا اہل لوگوں کے سپرد نہیں کرنے چاہیے وگرنہ وہ خود بھی گمراہ ہوں گے اور دوسروں کی گمراہی کا باعث بھی۔ ’’علمی لحاظ‘‘ سے اپنے ناتواں کندھوں پر لاد بیٹھیں گے۔ کوئی احمق ہی ہوگا جو ایسی بودھی باتوں کی تائید ودفاع کر کے اس حقیقت کا انکار کرے گا۔ علمی جواب کے لیے ’’توضیح الکلام‘‘ کا محوّلہ مقام دیکھ لیا جائے۔ باقی محمد بن حسن الشیبانی کے بارے میں استاذ المحترم نے جس ذمہ داری کا ثبوت دیا وہ ان کے اپنے مضامین سے ظاہر وباہر ہے۔ نااہل اور متعصب لوگوں کے تبصروں سے اس پر ’’غیر ذمہ داری‘‘ کی تہمت: نہیں لگائی جا سکتی۔ 20) سلیمان صاحب آگے فرماتے ہیں: ’’ائمہ جرح وتعدیل میں بعض اوقات راویوں کی ثقاہت کے بارے میں اختلاف ہو جاتا ہے۔ ایسے مواقع پر جن لوگوں کو اللہ نے فہم و فراست اور صحیح قوتِ فیصلہ سے نوازا ہے وہ ایسے راویوں کے بارے میں صحیح نتیجے تک پہنچ جاتے ہیں۔‘‘ (سوانح: 129) جواب: یہ معاملہ صرف ’’فہم وفراست‘‘ ہی کا نہیں بلکہ ایسے ’’اختلاف‘‘ کی صورت میں محدثین کی شہادات /گواہیوں کے ٹھوس ثبوتوں کی بھی ضرورت ہے۔ وگرنہ بہت سے نااہل لوگ اُٹھ کر اپنی ’’فہم وفراست‘‘ کے بل پر باطل دعوے کر بیٹھیں گے۔ اس کے بعد موصوف نے بزعم خود خیانتوں کا ذکر فرماتے عنوان قائم فرمایا: ’’علی زئی کی علمی خیانتیں‘‘۔ الحمدللہ! اس کا جواب ہم بعنوان ’’سلیمان بن مسعود کی جہالتیں بجواب علی زئی کی علمی خیانتیں‘‘ دے چکے ہیں جو کہ 14/اکتوبر 2020ء کو بذریعہ واٹس ایپ جناب کو پہنچا بھی چکے اور آپ ملاحظہ بھی فرما چکے ہیں۔ لیکن وہ دن آج کا دن حضرت نے ہم سے قطع تعلقی فرما رکھی ہے۔ الحمد اللہ اب یہ مضمون ماہنامہ ’’اشاعۃ الحدیث‘‘ حضرو کے شمارہ نمبر: 145 جنوری 2021ء میں شائع بھی ہو چکاہے۔
فرقہ اہل حدیث کی حقیقت21) اس عنوان کے تحت سلیمان صاحب نے لکھا: ’’علامہ خالد محمود صاحب لکھتے ہیں‘‘۔ اہل حدیث کا دو اصطلاحوں میں مختلف معانی کا حاصل ہے…… حافظ ابراہیم الوزیر لکھتے ہیں: ومن المعلوم ان اھل الحدیث اسم لن عن بہ وانقطع في طلبہ…… فھولاء ھم اھل الحدیث من اي مذہب کانوا (الروض الباسم ج1ص122)‘‘ (سوانح ص193) جواب: سلیمان صاحب نے خالد محمود صاحب کی کافی طویل عبارت نقل کی ہے اپنی کتاب کے ص198 تک لیکن یہ بھرتی ان کے کسی کام کی نہیں۔ خالد محمود صاحب دیوبندی مسلک سے تعلق رکھتے ہیں اور علمی طور پر اہل حدیث سے اختلاف رکھتے ہیں۔ ایک دیوبندی عالم کی بات اگر ہمارے خلاف حجت ہو سکتی ہے تو علمائے دیوبند میں خالد محمود صاحب سے کئی گناہ زیادہ حیثیت و مرتبہ کے حامل ان کے ’’امام اہل سنت‘‘ سرفراز صفدر صاحب کی بات رجسٹرڈ فرقہ کے خلاف بھی حجت ہونی چاہیے اور گزشتہ صفحات میں یہ بات گزر چکی ہے کہ اہل حدیث حدیث پر عمل کر نے والوں کو بھی کہتے ہیں۔ دوسرا یہ کہ سلیمان صاحب نے مجرد نقل ہی پر اکتفا فرمایا، اگر وہ ابن الوزیر کی اصل کتاب دیکھ کر لکھتے تو اُن پر یہ بات واضح ہو جاتی کہ ان کی عبارت کے درمیان حذفِ عبارت کی علامات کے جو چند نقطے لگے ہوئے ہیں اصل کتاب میں اس جگہ یہ اشعار لکھے ہوئے ہیں: ’’اِنَّ عِلْمَ الْحَدِیْث عِلْمُ رِجَالٍ تَرَکُوْا الْإِبْتِدَاعَ لِلْإِتِّبَاعِ فَإِذَا جَنَّ کَیْلُھُم کَتَبُوْہُ وَإِذَا أصْبَحُوْا غَدَوْ اؔلِلسَّمَاعِ فَھٰؤُلَاءِ ھُمْ اَھْلُ الْحَدِیْثِ‘‘ إلخ علم حدیث علم رجال ہے، انہوں نے بدعت چھوڑ دی اتباع کے لیے جب رات طاری ہوتی ہے تو وہ احادیث لکھتے ہیں اور جب صبح ہوتی ہے تو سماع حدیث کے لیے نکل کھڑے ہوتے ہیں۔ پس یہی لوگ اہل حدیث ہیں۔ (الروض الباسم ج 1 ص 237 مطبوع دار عالم الفوائد) دیکھ لیجیے! یہ تو حدیث کی اتباع کرنے والوں کو بھی اہل حدیث کہہ رہے ہیں۔ کاش کہ سلیمان صاحب نقل محض سے کچھ آگے بھی سوچ پاتے! بہر حال وہ تو محض اپنی دھن میں نقل کیے گئے اس کے بعد ایک بریلوی عالم مشتاق احمد نظامی صاحب کی کتاب ’’خون کے آنسو‘‘ سے بھی اپنی خواہش کی تکمیل چاہی۔ بہر حال کسی کو غلط ثابت کرنے کے لیے ان کے مخالفین کے بیانات لے آنا، معقولیت سے خالی طرز عمل ہے، الا یہ کہ مخالف نے ٹھوس دلیل سے اپنی بات ثابت کی ہو۔ 22) سلیمان صاحب مزید لکھتے ہیں: ’’آپ کا تو دعویٰ ہے کہ آپ کے پاس اپنے ہر مسئلے کی دلیل قرآن و حدیث سے موجود ہے تو پہلے اپنے نام کا ہی ثبوت پیش کر دیجیے۔ آپ کے تو نام کا ہی قرآن و حدیث میں کوئی ثبوت نہیں تو باقی مسائل تو بعد کی بات ہے۔‘‘ (سوانح ص201) جواب: یہی دعویٰ آپ کے والد اور فرقہ کے امام مسعود صاحب کا تھا بلکہ اس سے بھی کچھ بڑھ کر، چنانچہ انھوں نے لکھا ہے: ’’ہم تو صرف وہی کہتے ہیں جو قرآن مجید اور حدیث میں ہے اپنی طرف سے کچھ نہیں کہتے‘‘ (امیر کی اطاعت ص:؟، آئینہ دار ص 242) جبکہ مسعود صاحب نے ہی حدیث گھڑتے ہوئے تحریر فرمایا: ’’مسلمین کی جماعت کا نام رسول اللہ ﷺ نے جماعت المسلمین رکھا تھا۔‘‘ (جماعت المسلمین کا تعارف ص: ، آئینہ دار ص:17) یہ خود ساختہ اور من گھڑت دعویٰ ہے کسی بھی حدیث میں یہ بات نہیں کہ ’’جماعت المسلمین نام رکھا، اور رجسٹرڈ فرقہ پرست بھی اس کا نام ہونا کسی بھی حدیث سے ثابت نہیں کر سکتے باقی عقائد ومسائل تو بعد کی بات ہے۔ 23) سلیمان صاحب نے ملمع سازی میں کمال دکھاتے ہوئے لکھا: ’’ہمارا نام صرف ایک یعنی مسلم‘‘ کی تردید کرتے ہوئے حافظ زبیر علی زئی لکھتے ہیں: ’’اللہ تعالیٰ کا ذاتی نام ’’اللہ‘‘ ہے اور اس کے بہت سے صفاتی نام ہیں۔ مثلاً رب الرحمن، الرحیم، العلیم…… اللہ تعالیٰ کے ان صفاتی ناموں کو بھی ’’نام‘‘ ہی کہا گیا ہے‘‘۔ ’’ان حادیث سے معلوم ہوا کہ سیدنا محمدﷺ کے اور بھی بہت سے ’’اسماء‘‘ یعنی نام ہیں: مثلاً احمد، الماحی، الحاشر، العاقب، وغیرہ‘‘۔ ’’قرآن و حدیث کے ان دلائل سے معلوم ہوا کہ صفاتی نام بھی نام ہیں ہوتا ہے۔‘‘ (اہل حدیث ایک صفاتی نام ص65)۔‘‘ (سوانح ص:201) جواب: اب ان کی ’’ملمع سازی‘‘ اور ’’فریب دہی‘‘ کی کچھ تفصیل ملاحظہ کیجئے۔ استاذ گرامی رحمہ اللہ نے تحریر فرمایا: ’’فرقہ مسعودیہ کا دعویٰ مسلم: مسعود صاحب نے اس پر زور دیا کہ ہمارا صرف ایک نام ہے یعنی مسلم، یہ اللہ کا رکھا ہوا نام ہے، فرقہ وارانہ نام نہیں‘‘ (مذہب اہل حدیث کی حقیقت ص1) تنبیہ: ہمارے علم کے مطابق مسعود صاحب سے پہلے امتِ مسلمہ میں (زمانہ خیر القرون ہو، زمانہ تدوینِ حدیث ہو یا زمانہ شروح حدیث) کسی عالم نے یہ دعویٰ ہرگز نہیں کیا کہ ’’ہمارا نام صرف مسلم ہے۔‘‘ اگر کسی کے پاس مسعود صاحب کے مذکورہ دعوے کی صراحت کسی عالم سے ثابت ہو تو حوالہ پیش کریں۔‘‘ (اہل حدیث ایک صفاتی نام ص62) اس کے بعد استاذ گرامی نے محترم دامانوی صاحب رحمہ اللہ کی تحریر پیش فرمائی جس میں ایمان والوں کے لیے صفاتی نام دلائل سے ثابت کیے گئے ہیں۔ ص: 64 تک، اس کے بعد پھر لکھا: ’’ان دلائل سے معلوم ہوا کہ مسلمین کے اور بھی بہت سے (صفاتی) نام ہیں جو اللہ اور اس کے رسول ﷺنے رکھے ہیں، لہٰذا فرقہ مسعودیہ کا یہ دعویٰ باطل اور جھوٹا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارا نام صرف ایک ’’مسلم‘‘ رکھا ہے۔ (اہل حدیث ایک صفاتی نام ص64) لیکن سلیمان بن مسعود جو اہل علم پر خیانتوں کی جھوٹی تہمتیں لگانے اور طعن و تشنیع کرنے سے گریز نہیں کرتے ان کی اپنی خیانت دیکھیں کہ ایک عبارت کہاں سے لیتے ہیں اور دوسری کہاں سے درمیان کے دو ڈھائی صفحات کی بحث کو چھپا کر ’’اعتراض‘‘ کا وہ جواب بتاتے ہیں جو شیخ محترم نے اس ’’دعویٰ‘‘ کے جواب میں نہیں بلکہ رجسٹرڈ فرقہ کے ایک دوسرے اعتراض کے جواب میں تحریر فرمایا تھا۔ کیا یہ عدل و انصاف اور علمی دیانت کے خلاف نہیں؟ اور کیا یہ واضح طور پر ملمع سازی، فریب کاری دھوکا دہی اور بددیانتی نہیں؟ یقینا عام قاری بالعموم اور رجسٹرڈ فرقہ کے جامد مقلدین بالخصوص سلیمان صاحب کی نقل کردہ فریب پر مبنی عبارت ہی کو اصل عبارت سمجھ کر یہی تاثر لے گا کہ شیخ زبیر علی زئی کی روش ’’سوال گندم جواب چنا‘‘ کے مصداق ہے، جبکہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ ایسے فریب کے ماہر لوگ پھر خیانتوں ہی کے بہتان لگائیں گے، کیونکہ ’’المرء یقیس علی نفسہ‘‘۔ اب آگے جو عبارت سلیمان صاحب نے لکھی وہ دراصل رجسٹرڈ فرقہ کے دوسرے اعتراض و دعویٰ کے جواب میں ہے جو اس مقام پر استاذ گرامی نے اپنے دلائل کے بعد ان الفاظ میں نقل فرمایا: ’’اگر وہ کہیں کہ یہ صفاتی نام ہیں تو عرض ہے کہ صفاتی نام بھی نام ہی ہوتا ہے۔ دلیل (1) اللہ تعالیٰ کا ذاتی نام ’’اللہ‘‘ ہے اور اس کے بہت صفاتی نام ہیں……الخ‘‘ (اہل حدیث ایک صفاتی نام ص64) اللہ تعالیٰ کے صفاتی ناموں کا تذکرہ اس لیے کیا تھا کہ صفاتی نام بھی نام ہوتے ہیں۔ نہ اس لیے کہ مسعود صاحب کا یہ دعویٰ صحیح نہیں کہ ’’نام صرف ایک یعنی مسلم‘‘۔ فافھم جیدًا 24) سلیمان صاحب اپنی اس ’’ملمع سازی کی بنا پر سوال کرتے ہوئے لکھا: ’’دوسرا سوال یہ کہ اگر آپ کے بقول صفاتی نام بھی نام ہی ہوتا ہے تو کیا صفاتی نام ذاتی نام کی جگہ لے سکتا ہے؟ اگر کوئی غیر مسلم اسلام لائے تو کیا وہ اسلام لانے کے لیے أشھد أن لا الٰہ الا اللّٰہ وأشھد أن محمدًا رسول اللّٰہ کے بجائے اشھد ان لا الہ الا العلیم وان الحاشر رسول اللّٰہ پڑھ سکتا ہے؟ کیا ’’لا الہ الا الرب الماحی رسول اللّٰہ‘‘ کلمہ طیبہ لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ کی جگہ لے سکتا ہے؟۔ آپ کے جواب کا انتظار رہے گا۔‘‘ (سوانح ص202) جواب: لائق مؤلف کا پہلا سوال تو اس جگہ ہے ہی نہیں، لیکن گنتی بڑھانے کے شوق میں دوسرا کر گئے ان کے اس دوسرے سوال کا جواب یہ ہے کہ ’’بقول آپ کے‘‘ پیوند جو لگایا تو پہلے آپ یہ تو واضح کر دیں کہ کیا آپ کے بقول صفاتی نام، نام نہیں ہوتے؟ اگر نہیں ہوتے تو پھر آیت: ﴿وَلِلّٰہِ الْاَسْمَاءُ الْحُسْنٰی فَادْعُوْہُ بِھَا وَذَرَوْا الَّذِیْنَ یُلْحِدُوْنَ فِیْ اَسْمَائِہِ سَیُجْزَوْنَ مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ﴾ (الاعراف: 180) بانی رجسٹرڈ فرقہ نے اس آیت کا ’’ترجمہ‘‘ کرتے ہوئے لکھا: ’’اور (اے ایمان والو) اللہ کے اچھے اچھے نام ہیں، انہی ناموں سے اللہ کو پکارا کرو اور جو لوگ اللہ کے ناموں میں کجروی کرتے ہیں ان سے کنارہ کش رہو، جو کچھ یہ لوگ کر رہے ہیں عنقریب اس کی سزا انہیں ملنے والی ہے۔‘‘ پھر اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ’’اسماء‘‘ لفظ دوبار کیوں فرمایا؟ رہا معاملہ شہادتین کا تو اس میں لفظ ’’اللہ‘‘ اور ’’محمد‘‘ ﷺ کے علاوہ کوئی اور صفاتی نام نہیں تو اس سے یہ قطعاً ثابت نہیں ہوتا کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے آخری نبی کے صفاتی ناموں کا وجود ہی نہیں۔ ایسی باتوں کو لے کر صفاتی ناموں کا انکار کوئی احمق ہی کر سکتا ہے۔ 25) سلیمان صاحب نے لکھا: ’’علی زئی نے مسلمین کے اور بھی بہت سے صفاتی نام لکھے ہیں: مثلاً المومنون، حزب اللہ، ولیاء اللہ، المہاجرین، الانصار، السابقون الاولون، ربانیین، الفقراء، الصالحین، الشہداء، الصدیقون، امۃ محمد، الغرباء، طائفۃ، حواریون، اصحاب، الخلیفۃ، اہل القرآن، اہل اللہ، معشر قریش وغیرہ وغیرہ۔ (اہلحدیث ایک صفاتی نام ص 63۔64) 25) سلیمان صاحب نے لکھا: ’’علی زئی نے مسلمین کے اور بھی بہت سے صفاتی نام لکھے ہیں: مثلاً المومنون، حزب اللہ، ولیاء اللہ، المہاجرین، الانصار، السابقون الاولون، ربانیین، الفقراء، الصالحین، الشہداء، الصدیقون، امۃ محمد، الغرباء، طائفۃ، حواریون، اصحاب، الخلیفۃ، اہل القرآن، اہل اللہ، معشر قریش وغیرہ وغیرہ۔ (اہلحدیث ایک صفاتی نام ص 63۔64) ماشاء اللہ۔ مسلمین کے نام تو آپ نے بہت سارے گنوا دیئے لیکن حیرت ہے کہ آپ ان میں سے کسی نام سے اپنے کو پکارنا پسند نہیں کرتے بلکہ اپنے کو ایک ایسے نام سے پکارتے ہیں جس نام کا قرآن و حدیث میں کہیں وجود نہیں۔ پھر کس منہ سے آپ دعویٰ کرتے ہیں اتباع قرآن وحدیث کا؟۔‘‘ (سوانح…… ص202) جواب: سلیمان کے ایسے دعوؤں کو دیکھ کر معلوم ہوتا ہے کہ ان پر کوئی وحی نازل ہوتی ہے۔ یاد رہے کہ وحی الٰہی کا سلسلہ تو محمد ﷺ پر ختم ہو چکا ہے، البتہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿وَاِنَّ الشَّیٰطِیْنَ لَیُوْحُوْنَ اِلٰی اَوْلِیَائِھِمْ﴾ ’’اور یقینا شیاطین اپنے دوستوں کے دلوں میں باتیں ڈالتے ہیں۔‘‘ (الانعام:121) مہاجرین و انصار صحابہ میں سے بھی مخصوص افراد کے اوصاف ہیں، اسی طرح ’’السابقون الاوّلون‘‘ بھی باقی ’’صالحین، شہداء‘‘ وغیرہ کے اوصاف اہل ایمان کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ آخر کس نے ان سے کہہ دیا کہ ہم اپنے لیے ان میں سے کوئی نام پسند نہیں کرتے؟ سوائے ان اوصاف کے جو مخصوص نہیں ہیں۔ قرآن وحدیث میں تو کذب بیانی وخیانت کی سختی سے ممانعت ہے، اس کے باوجود سلیمان بن مسعود ان سے باز نہیں آتے، پھر کس منہ سے یہ قرآن و حدیث کے اتباع کا دعویٰ کرتے ہیں؟ باقی جگہ جگہ اپنے والد کی تقلید میں ’’اللہ کے رکھے نام کو چھوڑنے کا جو طعن فرمایا ہے‘‘ وہ باطل ہے صفاتی ناموں کے استعمال کرنے سے مسلم نام کا چھوڑ دینا یا اس کا انکار لازم نہیں آتا۔ یہ چند اعتراضات تھے جو فضیلۃ الشیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ اور ان کے نام پر اہل حدیث پر کئے گئے تھے، ان کا مختصر جواب عرض کر دیا گیا ہے۔ انہی اعتراضات سے اندازہ لگا لیجئے باقی اعتراضات کی کیا وقعت ہے؟ [26/ دسمبر 2020، کراچی] |
ہماری موبائل ایپ انسٹال کریں۔ تحقیقی مضامین اور تحقیقی کتابوں کی موجودہ وقت میں ان شاء اللہ سب سے بہترین ایپ ہے، والحمدللہ۔
دیگر بلاگ پوسٹس:
Android App --or-- iPhone/iPad App
IshaatulHadith Hazro © 2024