رمضان کے احکام و مسائلتحریر: فضیلۃ الشیخ حافظ ندیم ظہیر حفظہ اللہ |
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَ السَّلاَمُ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْا َٔمِیْنَ، أَمَّا بَعْدُ: ماہِ رمضان رحمتوں، برکتوں، سعادتوں اور مغفرتوں کا مہینہ ہے جو ہم سے یہ تقاضا کر رہا ہے کہ دیکھنا کہیں ہمیشہ کی طرح اس بار بھی میری تما م تر فضیلتیں سمیٹنے سے محروم نہ رہ جانا …… شاید یہ زندگی کا آخری رمضان ہو…… دوبارہ ایسا بابرکت مہینہ نصیبے میں نہ ہو…… کیا تم دیکھتے نہیں کتنے ہی ایسے ہیں جو تمھارے ساتھ سحری وافطاری میں شریک ہونے والے اور قیامِ رمضان میں ساتھ کھڑے ہونے والے تھے لیکن …… آج نظر نہیں آرہے! کیوں؟…… اس لیے کہ ان کا مقررہ وقت پورا ہو چکا ہے۔ ((وَلَنْ یُّؤَخِّرَاللہُ نَفْسًا اِذَاجَآءَ اَجَلُھَا)) کی صدا آ چکی ہے بلکہ اب تو تم بھی …… اسی قطار میں کھڑے نظر آتے ہو۔ عنقریب …… تمھاری باری بھی آنے والی ہے، پھر کیوں نہ اس زندگی کے بقیہ لمحات و ساعات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے آپ کو بدل دیں۔ معصیت و نافرمانی کی دلدل سے نکل کر زہدوتقویٰ کے تالاب میں غوطہ زن ہوں، لیکن کیسے؟ ہم اپنی زندگیوں میں کس طرح انقلاب لائیں؟ …… ہاں!…… رب کریم نے ہمیں ایک بہترین موقع عطا کیا ہے اور وہ ’’ماہ رمضان‘‘ ہے۔ ہم کس طرح اس مہینے کے شب و روز گزاریں، تاکہ ہمارا رب رحیم ہم سے راضی ہو جائے اور ہمارے اعمال اس کے ہاں مقبول قرار پائیں؟ تو پھر ضروری ہے کہ درج ذیل باتوں کو ملحوظ رکھاجائے: توبہ: سب سے پہلے اپنی سابقہ زندگی پر ایک نظر ڈالیں کہ جس قدر بھی گناہ ہوئے ہیں، اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی ہے، خواہ قولاً ہے یا عملاً تو ان سب سے اپنے اللہ کے حضور سچے دل سے توبہ کریں، توبہ کا مفہوم ہی یہ ہے کہ گناہ کے کاموں سے لوٹنا، گناہ کا اعتراف اور آیندہ کبھی نہ کرنے کا عزم کرنا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
ہو سکے تو خوفِ الٰہی سے چند قطرے آنسوؤں کے بھی شامل کر لیں، کیونکہ نبی ﷺ نے فرمایا: ’’وہ شخص جہنم میں نہیں جائے گا جو اللہ کے ڈر سے رویا۔‘‘ (سنن الترمذی: 1633، صحیح) نیز آپ ﷺ نے فرمایا: ’’سات قسم کے لوگوں کو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اپنا سایہ عطا کرے گا۔ ان میں سے ایک وہ شخص ہے جسے تنہائی میں اللہ یاد آئے اور اس کے آنسو جاری ہو جائیں۔‘‘ (صحیح بخاری: 660، صحیح مسلم: 1031) حصولِ تقویٰ: گناہوں کو چھوڑنے اور نیکی کے کام کرنے پر طبیعت کا مائل ہونا اور اپنے گناہوں کے انجام سے ڈر کر ان سے بچنے کی کوشش کرنا تقویٰ ہے اور ماہِ رمضان کا بڑا اوراہم مقصد تقویٰ کا حصول ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
تقویٰ اختیار کرنے کے دنیاوی و اُخروی بہت زیادہ فوائد ہیں جس کا تذکرہ قرآن و سنت میں جا بجا ملتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اللہ سے ڈرو، اپنی پانچوں نمازیں ادا کرو، اپنے (رمضان کے) مہینے کے روزے رکھو، اپنے مالوں کی زکوٰۃ ادا کرو، اپنے حاکموں کی اطاعت کرو! تو تم اپنے رب کی جنت میں داخل ہو جاؤگے۔‘‘ (سنن الترمذی: 616، حسن) روزے کی حفاظت: روزے کی حفاظت کرنا بہت ضروری ہے، کیونکہ اگر ہم نے اس سلسلے میں سُستی و کوتاہی کا ثبوت دیا اور صحیح طریقے سے روزے کی حفاظت نہ کر سکے تو ہم اس کی فضیلتوں اور برکتوں سے محروم رہ سکتے ہیں۔ اس لیے لازم ہے کہ (روزے کے اجر و ثواب کو ختم کرنے والے اعمال مثلاً) جھوٹ، بہتان چغلی، غیبت اور لڑائی جھگڑے سے بچا جائے، خصوصاً زبان کی حفاظت کی جائے اور تقویٰ اختیار کیا جائے۔ نبی ﷺ نے فرمایا: ’’کتنے ہی روزے دار ایسے ہیں جنھیں پیاس کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہوتا اور کتنے ہی قیام (اللیل) کرنے والے ایسے ہیں جنھیں بیداری کے سوا کچھ نہیں ملتا۔‘‘ (سنن ابن ماجہ: 1690، سنن الدارمی: 2722، اسنادہ حسن) یعنی جوشخص بھی مذکورہ خرافات سے نہیں بچتا اس کا روزہ اسے کچھ فائدہ نہیں دیتا۔ نیز نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’جو شخص جھوٹ بولنا اور اس پر عمل نہیں چھوڑتا تو اللہ کو اس کے بھوکے پیاسے رہنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔‘‘ (صحیح بخاری: 1903) قیام اللیل: اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق کو مربوط کرنے کا اہم ذریعہ قیام اللیل ہے اور رمضان میں قیام اللیل فضیلت کے لحاظ سے اور بھی بڑھ جاتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جو شخص ایمان کی حالت میں اور ثواب کی نیت سے قیام رمضان کرتا ہے تو اس کے گزشتہ گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں۔‘‘ (صحیح بخاری: 37) یہاں ایک بات کا خیال رہے کہ بعض حضرات یہ سمجھتے ہیں کہ ’’قیام رمضان اکیلے اور گھر میں کرنا زیادہ بہتر ہے، لہٰذا ہم گھر میں قیام کریں گے‘‘ لیکن وہ بیچارے ساری رات بسترپر سوئے ہی گزار دیتے ہیں۔ (اِلا ماشاء اللہ) اور بعض حضرات قیامِ رمضان باجماعت کو سنت سمجھنے سے ہی انکاری ہیں! ایسے حضرات کی اصلاح کے لیے اس لمبی حدیث کا ایک حصہ پیش خدمت ہے جو آپ ﷺ نے قیامِ رمضان کے بارے میں فرمایا تھا: ’’یقینا جب آدمی امام کے ساتھ نماز پڑھ کر فارغ ہو جاتا ہے تو بقیہ رات(بھی ثواب کے لحاظ سے) قیام ہی میں شمار کی جاتی ہے۔‘‘ (سنن ابی داود: 1375، سنن الترمذی: 806، سنن النسائی: 1365، سنن ابن ماجہ: 1337، وسندہ صحیح) امید ہے کہ اس قدر قیام رمضان باجماعت کی فضیلت جان کر حیلوں اور بہانوں سے احتراز کیا جائے گا۔ تلاوتِ قرآن مجید کی کثرت: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’قرآن (کثرت سے) پڑھا کرو، اس لیے کہ قیامت والے دن یہ اپنے (پڑھنے والے) ساتھیوں کے لیے سفارشی بن کر آئے گا۔‘‘ (صحیح مسلم: 804) یہ حقیقت ہے کہ اجروثواب کے لحاظ سے ماہ رمضان میں کیا ہوا عمل زیادہ افضل ہے، لیکن دیکھنے میں آیا ہے کہ لوگ رمضان میں تو خوب قرآن پڑھتے اور سنتے ہیں اور دیگر مہینوں میں قرآن مجید چھونے کی توفیق بھی نہیں ہوتی۔ (والعیاذباللہ) ذکرِ الٰہی سے زبان تَر رکھنا: لغویات و فضولیات کو ترک کر کے ہمیشہ اپنی زبان کو اللہ تعالیٰ کے ذِکر سے تر رکھنا چاہیے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اپنے تمام اوقات میں اللہ کا ذکر فرمایا کرتے تھے۔ (صحیح مسلم: 373) دوسرے مقام پرآپ ﷺ نے فرمایا: ’’تیری زبان ہمیشہ اللہ کے ذِکر سے تَر رہنی چاہئے۔‘‘ (سنن ابن ماجہ: 3793 وسندہ حسن) صبح و شام کے اذکار کی بھی پابندی کرنی چاہیے جیسا کہ دیگر دلائل سے ثابت ہے۔ اعتکاف: رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف کرنا سنتِ نبوی ہے اور یہ تزکیۂ نفس کا بہترین ذریعہ ہے۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ آخری عشرے میں اعتکاف فرمایا کرتے تھے۔ (صحیح بخاری: 2025، صحیح مسلم: 11171) آخری عشرہ: اس عشرے میں اپنی تمام تر توانائی اس پہ خرچ کر دینی چاہیے کہ ہم سے ہمارا اللہ راضی ہو جائے اور ہماری کمیوں، کوتاہیوں اور خطاؤں سے درگزر فرما دے اور نیکیوں کے حصول میں اضافہ اور جذبۂ سبقت ہو۔ (رمضان میں) رسول اللہ ﷺ بھلائی میں تیز ہوا سے بھی زیادہ سخاوت کرتے تھے۔ (صحیح بخاری: 6، صحیح مسلم: 2308) سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ جب (آخری) عشرہ شروع ہو جاتا تو رسول اللہ ﷺ شب بیداری فرماتے اور اپنے گھروالوں کو بھی بیدارکرتے اور (عبادت کے لیے) کمر کس لیتے۔ (صحیح بخاری: 2224، صحیح مسلم: 1774) لیلۃ القدر: اسی عشرے میں لیلۃ القدر ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
لہٰذا آخری عشرے میں لیلۃ القدر کو تلاش کرنا چاہیے، کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جو شخص لیلۃ القدر میں ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے قیام کرے، تو اس کے سابقہ گناہ معاف کر دیے جائیں گے۔‘‘ (صحیح بخاری:2008، صحیح مسلم:760) نیز رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’تم لیلۃ القدر کو رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں تلاش کرو۔‘‘ (صحیح بخاری: 2020) ایک اہم بات: جو سلسلہ رمضان کی مبارک ساعتوں میں قائم کیا جائے وہ بقیہ گیارہ مہینوں میں بھی برقرار رہنا چاہیے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ جوشخص رمضان میں قیام اللیل اور اشراق وغیرہ تک کی پابندی کرتا تھا وہ غیر رمضان میں فرض نماز بھی چھوڑ بیٹھے اور پھر اسی معصیت و نافرمانی کی دلدل میں جاگرے جہاں پہلے پھنسا ہوا تھا اور مہینے بھرکے ’’اعمالِ صالحہ‘‘ کی کمائی اکارت کردے۔ (والعیاذ باللہ) اس لئے ضروری ہے کہ اس مبارک مہینے میں اپنا احتساب کرتے ہوئے ہمیشہ کے لئے صراطِ مستقیم کا انتخاب کر لیں اور اپنا ہر لمحہ ہر لحظہ قرآن و سنت کے مطابق گزار کر آخرت میں اللہ کے ہاں سرخرو ہو جائیں۔ ان شاء اللہ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں اپنے دین کے لیے چن لے اور ہم سے راضی ہو جائے۔ (آمین) ماہِ رمضان کے فضائل و احکام ایک نظر میں جو نہی ماہِ رمضان کا آغاز ہوتا ہے: ((فُتِّحَتْ أَبْوَابُ الْجَنَّۃِ)) جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور ((غُلِّقَتْ أَبْوَابُ جَھَنَّم)) دوزخ کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں اور ((سُلْسِلَتِ الشَّیَاطِیْنُ)) (سرکش) شیطانوں کو جھکڑ دیا جاتا ہے۔ (صحیح بخاری: 1898، 1899) اور جوشخص ایمان اور ثواب کی نیت سے اس مہینے (رمضان) کے روزے رکھے تو اس کے گزشتہ تمام (صغیرہ) گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں۔ (صحیح بخاری:1901) روزہ دار ہی وہ خوش قسمت ہے جس کے لئے جنت کے آٹھ دروازوں میں سے ’’الریان‘‘ نامی دروازہ مخصوص ہے۔ (صحیح بخاری:1896) اس کے برعکس ایسے آدمی کی ناک خاک آلودہ قرار دی گئی جس نے (اپنی زندگی میں) رمضان کا مہینہ پایا، لیکن بخشش سے محروم رہا۔ (سنن الترمذی: 3545 و سندہ حسن) بڑے ہی نصیبے والا ہے وہ شخص جو ’’ماہ رمضان‘‘کی تمام تر فضیلتیں کماحقہ اپنے دامن میں سمیٹ لیتا ہے۔ اللھم اجعلنا منہ چاند دیکھ کر روزہ رکھنا: نبی ﷺ نے فرمایا: ’’چاند دیکھ کر روزہ رکھو اور اسی کو دیکھ کر روزہ افطار کرو اگر تم پر مطلع ابر آلود ہو تو شعبان کی گنتی میں تیس دن پورے کر لو۔‘‘ (صحیح بخاری: 1909، صحیح مسلم: 1081) روزے کی نیت: اس میں کوئی شک نہیں کہ اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے، لیکن نیت دل کے قصد وارادے کا نام ہے نہ کہ زبان سے خود ساختہ الفاظ کا ادا کرنا جیسا کہ ’’وَبِصَوْمِ غَدٍ نَوَیْتُ مِنْ شَھْرِ رَمَضَانَ‘‘ عوام میں مشہور ہے، حالانکہ یہ بے اصل ہے اور اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ سحری کے مسائل: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ہمارے اور اہل کتاب کے روزوں میں سحری کا کھانا فرق (کرتا) ہے۔‘‘ (صحیح مسلم: 2096) مزید ارشاد فرمایا: ’’سحری کھاؤ، کیونکہ سحری کھانے میں برکت ہے۔‘‘ (صحیح بخاری: 1923، صحیح مسلم:1095) سحری کب تک کھا سکتے ہیں؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جب تم میں سے کوئی اذان سنے اور کھانے کا برتن اس کے ہاتھ میں ہو (تو اذان کی وجہ سے) اسے رکھ نہ دے بلکہ اس سے اپنی ضرورت پوری کرے۔‘‘ (سنن ابی داود: 2350 وسندہ حسن) مفتی اعظم شیخ ابن باز رحمہ اللہ سحری کے وقت کے تعین میں لکھتے ہیں: ’’جب کوئی شخص اذان سنے اور اسے معلوم ہو کہ یہ اذان فجر ہے تو اس پر واجب ہے کہ وہ کھانے پینے سے رک جائے۔ اگر مؤذن طلوع فجر سے قبل اذان دے رہا ہو تو پھر رک جانا واجب نہیں بلکہ کھانا پینا جائز ہے۔‘‘ (فتاوی اسلامیہ 2/ 173 طبع دار السلام) مذکورہ بالا حدیث نبوی کا تعلق ایسے حضرات کے لئے ہے جو دیر سے بیدار ہوں جب کہ شیخ ابن باز رحمہ اللہ کا فتویٰ ان متساہلین کے لئے ہے جو پیٹ بھر کے کھانے کے باوجود اذان ختم ہونے تک کھاتے رہتے ہیں۔ (واللہ اعلم بالصواب) حالتِ جنابت میں سحری کھانا: حالتِ جنابت میں سحری کھا کر بعد میں غسل کیا جا سکتا ہے۔ دیکھئے صحیح مسلم (1109/80) تقاضائے روزہ: روزے کا تقاضا ہے کہ جھوٹ، بہتان، چغلی، غیبت، لڑائی، جھگڑے سے بچا جائے اور تقویٰ کو اپنا یا جائے۔ نبی ﷺ نے فرمایا: ’’کتنے ہی روزے دار ایسے ہیں جنھیں پیاس کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہوتا اور کتنے ہی قیام (اللیل) کرنے والے ایسے ہیں جنھیں بیداری کے سوا کچھ نہیں ملتا۔‘‘(سنن الدارمی:2722، إسنادہ حسن/ طبع دار المعرفہ) یعنی جو مذکورہ خرافات سے نہیں بچتا اس کا روزہ اسے کچھ فائدہ نہیں دیتا، نیز آپ ﷺ نے فرمایا: ’’جو شخص جھوٹ بولنا اور اس پر عمل کو نہیں چھوڑتا تو اللہ کو اس کے بھوکے پیاسے رہنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔‘‘ (صحیح بخاری:1903) جن کاموں سے روزہ نہیں ٹوٹتا: مباحات روزہ، غسل کرنا، مسواک کرنا، بھول کرکھانا یا پینا، سینگی لگوانا، سرمہ لگانا، کنگھی کرنااورتیل لگانا وغیرہ، دیکھئے صحیح بخاری کتاب الصوم۔ روزہ جلدی افطار کرنا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ہمیشہ وہ لوگ بھلائی میں رہیں گے جو روزہ افطار کرنے میں جلدی کرتے ہیں۔‘‘ (صحیح بخاری: 1957، صحیح مسلم: 1098) معلوم ہوا کہ وہ لوگ خطاپر ہیں جو قصداً روزہ دیر سے افطار کرتے ہیں اور اسے احتیاط کا نام دیتے ہیں۔ افطاری کی دعا: ((ذَھَبَ الظَّمَاءُ وَابْتَلَّتِ الْعُرُوْقُ وَثَبَتَ الْأَجْرُ إِنْ شَاءَ اللہ)) [سنن ابی داؤد: 2357، اسنادہ حسن] اس کے علاوہ جو دعا عوام میں مشہور ہے وہ سنداً صحیح نہیں ہے۔ قیام اللیل (تراویح): رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جو شخص ایمان کی حالت میں اور ثواب کی نیت سے قیام رمضان کرتا ہے، اس کے گزشتہ (صغیرہ) گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں۔‘‘ (صحیح بخاری: 37) قیام اللیل، تہجد، تراویح ایک ہی نماز کے نام ہیں، لیکن عموماً رمضان کی رات کو کیا جانے والا قیام تراویح کے نام سے معروف ہے اور اس کی تعداد گیارہ رکعات [(3+8) 1+2+2+2+2+2] ہے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ عشاء کی نماز سے فارغ ہونے کے بعد صبح تک گیارہ رکعات پڑھتے تھے اور اسی نماز کو لوگ عتمہ بھی کہتے تھے۔ آپ ہر دو رکعات پر سلام پھیرتے اور ایک وتر پڑھتے تھے۔ (صحیح مسلم: 736) ام المومنین رضی اللہ عنہا مزید فرماتی ہیں کہ رمضان ہو یا غیر رمضان رسول اللہ ﷺ گیارہ رکعات سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔ (صحیح بخاری: 2013) ایسے ہی سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے سیدنا ابی بن کعب اور سیدنا تمیم الداری رضی اللہ عنہما کو حکم دیا کہ لوگوں کو (رمضان میں رات کے وقت) گیارہ رکعات پڑھائیں۔ (موطأ امام مالک 1/ 114 ح 229، السنن الکبری للبیہقی 1/ 293 وقال النیموی الحنفی’’اسنادہ صحیح‘‘ آثار السنن:ص350) معلوم ہوا کہ تراویح کی تعداد گیارہ رکعات (3+8) ہی ہے۔ اور واضح رہے کہ پورا ماہ رمضان امام کے ساتھ نماز تراویح ادا کرنا مسنون اور افضل ہے۔ دیکھئے سنن ترمذی (806) جو حضرات اسے بدعت کہتے ہیں ان کا قول بے دلیل ومردود ہے۔ غیر اہل حدیث اور آٹھ تراویح: غیر اہل حدیث کے اکابرنے بھی آٹھ رکعات تراویح کو تسلیم کیا ہے۔ خلیل احمد سہارنپوری دیوبندی لکھتے ہیں: ’’اور سنت موکدہ ہونا تراویح کا آٹھ رکعات تو بالاتفاق ہے، اگر خلاف ہے تو بارہ میں‘‘ (براہین قاطعہ ص 95) عبدالشکور لکھنوی دیوبندی نے اپنی کتاب علم الفقہ (ص 198) میں آٹھ رکعات ہی کو مسنون قرار دیا ہے۔ روزہ اور اعتکاف کے اجماعی مسائل:
فائدہ: سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا:
……………… اصل مضمون ……………… اصل مضمون کے لئے دیکھئے ماہنامہ الحدیث حضرو (شمارہ 119 صفحہ 17 تا 26) تحریر: فضیلۃ الشیخ حافظ ندیم ظہیر حفظہ اللہ |
ہماری موبائل ایپ انسٹال کریں۔ تحقیقی مضامین اور تحقیقی کتابوں کی موجودہ وقت میں ان شاء اللہ سب سے بہترین ایپ ہے، والحمدللہ۔
دیگر بلاگ پوسٹس:
Android App --or-- iPhone/iPad App
IshaatulHadith Hazro © 2024