رمضان کیسے گزاریں؟ |
تحریر: الشیخ ابو احمد وقاص زبیرحفظہ اللہ الحمد لله حمدا كثيرا طيبا مباركا فيه كما يحب ربنا ويرضى والصلاة والسلام على رسول الله وعلى آله وصحبه وسلم تسليما كثيرا، أما بعد: ماهِ رمضان الله سبحانہ وتعالی کی رحمت، مغفرت اور عنایات بسائے آتا ہے کوئی بھی مسلمان خالص توحید، ایمان، تقوی اور اعمال صالحہ کے ذریعے سے اس ماہِ فوزان سے خیر کثیر حاصل کرسکتا ہے۔
رمضان کیسے گزاریں؟جس سے رب تعالی کی بیش بہا عنایات کو سمیٹا جا سکے۔ آئیے قرآن و حدیث کی روشنی میں راہ نمائی حاصل کرتے ہیں۔
رمضان کی آمد:ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: "إِذَا دَخَلَ رَمَضَانُ فُتِّحَتْ أَبْوَابُ الْجَنَّةِ، وَغُلِّقَتْ أَبْوَابُ جَهَنَّمَ، وَسُلْسِلَتِ الشَّيَاطِينُ" جب رمضان آتا ہے تو جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں، جہنم کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں اور شیاطین کو جکڑ دیا جاتا ہے۔ (صحیح بخاری: 3277، صحیح مسلم: 1079)
رمضان کے روزے کی فرضیت:اللہ تعالی قرآن کریم میں فرماتا ہے: ﴿يا أَيُّهَا الَّذينَ آمَنوا كُتِبَ عَلَيكُمُ الصِّيامُ كَما كُتِبَ عَلَى الَّذينَ مِن قَبلِكُم لَعَلَّكُم تَتَّقونَ﴾ اے ایمان والو! تم پر روزے رکھنا فرض کر دیا گیا ہے جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے، (یہ اس لئے) تاکہ تم پرہیز گار بن جاؤ۔ (البقرۃ: 183) مزید فرمایا: ﴿فَمَن شَهِدَ مِنكُمُ الشَّهرَ فَليَصُمهُ﴾ جو اس مہینہ کو پا لے اس پر لازم ہے اس ماہ کے روزے رکھے۔ (البقرہ: 185) رمضان کے روزوں کی فرضیت کے لئے مزید دلائل ملاحظہ فرمائیں: (صحيح بخاری: 8، 1397، صحیح مسلم: 16) تنبیہ: روزہ ہر مسلمان عاقل و بالغ، صحت مند اور مقیم شخص پرفرض ہے۔
روزے کی اہمیت:ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: الله تعالی فرماتا ہے: "كل عمل ابن آدم له إلا الصيام، فإنه لي وأنا أجزي به" انسان کو ہر عمل کامقرر کردہ ثواب ملے گا لیکن روزہ خاص میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا۔ (صحیح بخاری: 1904،صحیح مسلم:1151)
روزے کی فضیلت:ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "ومن صام رمضان إيمانا واحتسابا، غفر له ما تقدم من ذنبه" جس شخص نے ایمان کی حالت میں اور ثواب کی نیت سے رمضان کا روزہ رکھا تو اس کے سابقہ گناہ معاف کردیے جاتے ہیں۔ (صحیح بخاری:1901، صحیح مسلم:760) سعد بن سہل الساعدی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول الله ﷺ نے فرمایا: "إن في الجنة بابا يقال له: الريان، يدخل منه الصائمون يوم القيامة، لا يدخل منه أحد غيرهم، يقال: أين الصائمون ؟ فيقومون لا يدخل منه أحد غيرهم، فإذا دخلوا أغلق فلم يدخل منه أحد" جنت کا ایک دروازہ ہے جسے "الریان" کہا جاتا ہے قیامت کے دن اس دروازے سے صرف روزے دار ہی داخل ہوں گے۔ پکارا جائے گا روزے دار کہاں ہیں ؟ وہ کھڑے ہو جائیں گے ان کے سوا کوئی دوسرا اندر داخل نہیں ہوگا جب یہ لوگ داخل ہو جائیں گے تو دروازہ بند کر دیا جائے گا پھر اس سے کوئی اندر داخل نہیں ہوگا۔ (صحیح بخاری:1896، صحیح مسلم: 1152) "الريَّان" خوب سیراب کرنے کے معنی میں ہے یعنی روزے دار کو اس کے عمل کی مناسبت سے بدلہ عطا کیا جائے گا جو اس دروازے سے گزر جائے گا اسے کبھی پیاس نہیں ستائے گی۔ (دیکھیے: سنن ترمذی:765، سنن نسائی:2236)
روزے کا مقصد:روزے کا بنیادی مقصد اللہ کا تقوی اور پرہیز گاری اختیار کرنا ہے جسے الله تعالی نے قرآن حکیم میں بیان کیا ہے: ﴿لَعَلَّكُم تَتَّقونَ﴾ (یہ روزہ اس لیے ہے) تا کہ تم متقی بن جاؤ۔ (البقرۃ: 183) اہم بات: یہاں تقوی کا مفہوم بھی ذہن نشین رہنا چاہیے تاکہ معلوم ہو کہ تقوی کے لفظ میں کتنی جامعیت ہے چنانچہ امام راغب اصفہانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "حفظ النفس عما يؤثم، وذلك بترك المحظور، ويتم ذلك بترك بعض المباحات" شریعت میں تقوی سے مراد نفس کو ایسی چیزوں سے بچانا جس سے انسان گناہ گار ہوجائے یعنی منع کردہ کاموں کو چھوڑنا اور بعض دفعہ تقوی کی تکمیل کے لئے مباح اور مشتبہ چیزوں کو بھی چھوڑنا پڑتا ہے۔ (المفردات فی غریب القرآن ص:746 نیز دیکھیے، صحیح بخاری: 52) رسول الله ﷺ نے فرمایا: "وينادي مناد كل ليلة : يا طالب الخير هلم ، ويا طالب الشر أمسك" رمضان میں ہر رات ایک پکارنے والا پکارتا ہے اے بھلائی کے چاہنے والے آگے بڑھ اور اے برائی کے طالب رک جا۔ (سنن النسائی:2108، مسند احمد:4/ 312 واللفظ له)
ماهِ رمضان ماہِ قرآن:الله رب العزت قرآن حکیم میں فرماتا ہے: ﴿شَهرُ رَمَضانَ الَّذي أُنزِلَ فيهِ القُرآنُ هُدًى لِلنّاسِ وَبَيِّناتٍ مِنَ الهُدى وَالفُرقانِ﴾ رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو لوگوں کے لیے ہدایت، ہدایت کی نشانیاں اور حق و باطل میں فرق کرنے والا ہے۔ (البقرۃ:185) قرآن کریم رمضان المبارک میں نازل کیا گیا اس لحاظ سے ماہ رمضان درحقیقت ماہِ قرآن ہے لہذا اس میں قرآن کریم کی کثرت سے تلاوت کرنا باعث اجر و ثواب اور قیامت کے دن شفاعت کا ذریعہ ہو گا۔ ابو امامہ باہلی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اقرءوا القرآن ؛ فإنه يأتي يوم القيامة شفيعا لأصحابه ……" قرآن پڑھا کرو یہ قیامت کے دن اپنے پڑھنے والے کے لیے سفارشی بن کر آئے گا۔ (صحيح مسلم:804) رمضان اور قرآن کے اسی تعلق کی وجہ سے نبی کریم ﷺ ہر سال جبریل علیہ السلام کے ساتھ رمضان ہی میں قرآن کریم کا دور کیا کرتے تھے، چنانچہ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: "كان النبي صلى الله عليه وسلم أجود الناس بالخير، وأجود ما يكون في شهر رمضان ؛ لأن جبريل كان يلقاه في كل ليلة في شهر رمضان حتى ينسلخ يعرض عليه رسول الله صلى الله عليه وسلم القرآن، فإذا لقيه جبريل كان أجود بالخير من الريح المرسلة" نبی کریم ﷺ خیر و بھلائی میں سب سے زیادہ سخی تھے اور آپ کی یہ سخاوت بہت زیادہ بڑھ جاتی کیونکہ رمضان کے مہینے میں جبریل علیہ السلام آپ سے آ کر ہر رات ملتے تھے یہا ں تک کہ رمضان کا مہینہ ختم ہو جاتا، آپ ﷺ جبریل علیہ السلام پر قرآن مجید کا دور کرتے تو جب بھی جبریل علیہ السلام آپ سے ملتے تو آپ ﷺ خیر، بھلائی اور سخاوت میں تیز ہوا سے بھی بڑھ جاتے۔ (صحیح بخاری: 4997، صحیح مسلم: 2308)
رمضان شکر کا مہینہ:اللہ سبحانہ و تعالی کے بہت سے انعامات ہیں جو کہ ان گنت اور بے شمار ہیں، رب تعالی کی ہر ہر نعمت ہی بے مثل و بے مثال ہے لیکن قرآن حکیم اور اس کی رشد و ہدایت کی نعمت سب سے عظیم اور عالی ہے اگر یوں کہا جائے تو بلکل بجا ہو گا کہ اللہ تعالی نے رمضان المبارک کے روزے اسی نعمت کے شکرانے کے طور پر فرض فرمائے ہیں، چنانچہ فرمایا: ﴿شَهرُ رَمَضانَ الَّذي أُنزِلَ فيهِ القُرآنُ هُدًى لِلنّاسِ وَبَيِّناتٍ مِنَ الهُدى وَالفُرقانِ فَمَن شَهِدَ مِنكُمُ الشَّهرَ فَليَصُمهُ وَمَن كانَ مَريضًا أَو عَلى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِن أَيّامٍ أُخَرَ يُريدُ اللهُ بِكُمُ اليُسرَ وَلا يُريدُ بِكُمُ العُسرَ وَلِتُكمِلُوا العِدَّةَ﴾ یعنی قرآن مجید کو رمضان میں اتارے جانے، سراپائے ہدایت، ہدایت کی نشانیاں اور اس کے فرقان ہونے کے تذکرے بعد اس ماہ کے روزوں کو فرض قرار دیا، پھر فرمایا: ﴿وَلِتُكَبِّرُوا اللهَ عَلى ما هَداكُم وَلَعَلَّكُم تَشكُرونَ﴾ اور اس پر اللہ کی بڑائی بیان کرو کہ اس نے تمہیں ہدایت دی اور تاکہ تم شکر کرو۔ (البقرۃ:185) گویا رمضان کے مبارک مہینے میں روزہ رکھ کر کثرت سے قرآن کریم کی تلاوت، اس کے ترجمہ و مفہوم کو سمجھنا اور اس پر عمل پیرا ہونا اللہ تعالی کی عطا کردہ نعمتِ عظمی قرآن کریم کی شکر گزاری ہے۔
رمضان اور دعا:رمضان المبارک کی مبارک ساعتوں میں اللہ سبحانہ و تعالی سے دعا و التجا بھی عظیم عمل ہے۔ اسی لئے الله تعالی نے قرآن کریم میں روزوں کے احکامات بیان کرتے ہوئے فرمایا: ﴿وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ ۖ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ ۖ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ﴾ اور جب میرے بندے آپ سے میرے بارے میں سوال کریں تو بیشک میں قریب ہوں، میں دعا کرنے والے کی دعا قبول کرتا ہوں جب وہ مجھ سے دعا کرتا ہے تو ضروری ہے کہ وہ میری بات مانیں اور مجھ پر ایمان لائیں تا کہ ہدایت پائیں۔ (سورۃ البقرۃ: 186) اس آیت سے پہلے اور بعد بھی روزوں کے احکام ہیں، ان احکام کے درمیان میں یوں اللہ سبحانہ وتعالی کا پیارے انداز سے دعا کی ترغیب اور اس پر ابھارنا رمضان کی مبارک گھڑیوں میں دعا کی اہمیت کو بیان کرتا ہے۔ (مزید دیکھیے، تفسیر ابن کثیر: 448/1) ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "ثلاثة لا ترد دعوتهم: الإمام العادل، والصائم حتى يفطر، ودعوة المظلوم" تین قسم کے آدمیوں کی دعا رد نہیں ہوتی: عادل حکمران، روزے دار کی دعا یہاں تک کہ وہ افطار کر لے اور مظلوم کی دعا۔ (سنن ترمذی: 3598، سنن ابن ماجہ: 1752)
رمضان میں قیام و تراویح کا اہتمام:ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول الله ﷺ نے فرمایا: "من قام رمضان إيمانا واحتسابا غفر له ما تقدم من ذنبه" جس نے رمضان کا قیام ایمان کی حالت اور ثواب کی نیت سے کیا تو اس کے سابقہ گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں۔ (صحیح بخاری: 2009، صحیح مسلم: 759) پورے رمضان میں امام اور جماعت کے ساتھ تراویح ادا کرنا مستحب اور افضل عمل ہے، ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "إنه من قام مع الإمام حتى ينصرف كتب له قيام ليلة" جو شخص امام کے ساتھ قیام کرتا ہے یہاں تک کہ امام (قیام) سے فارغ ہوجائے تو اسے رات بھر کے قیام کا ثواب ملتا ہے۔ (سنن ابی داود:1375، سنن ترمذی: 806) اہم بات: یاد رہے رمضان ہو یا غیر رمضان رات کے قیام، تہجد اور تراویح کی سنت تعداد گیارہ (11 یعنی 3+8) رکعت ہے جیسا کہ امی عائشہ رضی اللہ عنہا کا فرمان ہے: "ما كان يزيد في رمضان ولا في غيرها على إحدى عشرة ركعة" رسول اللہ ﷺ رمضان ہو یا غیر رمضان گیارہ رکعت سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔ (صحیح بخاری: 2013 نیز صحیح مسلم: 736) یہی وجہ ہے کہ خلیفہ راشد عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اپنے دور خلافت میں سیدنا تمیم داری اور ابی بن کعب رضی اللہ عنہما کو باجماعت گیارہ رکعت تراویح پڑھانے کا حکم دیا تھا، جو کہ صحیح سند سے ثابت ہے۔ دیکھیے (مؤطا امام مالک: 73/1) تراویح گیارہ رکعات (11 یعنی 3 + 8) سنت ہے۔ اس بات کو بہت سے حنفی بزرگ علماء بھی تسلیم کرتے ہیں مثلا دیکھیے (فتح القدیر شرح الھدایہ: 407/1، مرقاۃ المفاتيح شرح المشکوۃ: 379/3 تحت حدیث: 1302، حاشیہ الطحطاوی علی الدرالمختار: 295/1، العرف الشذی: 166/1) صدقہ و خیرات کرنا: سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: نبی کریم ﷺ خیر کے معاملے میں سب سے زیادہ سخی تھے اور آپ کی یہ سخاوت اس وقت اور بڑھ جاتی جب جبریل علیہ اسلام رمضان میں آپ سے ملتے اور وہ آپ سے رمضان کی ہر رات ملتے یہاں تک کہ رمضان گزر جاتا، نبی کریم ﷺ جبریل علیہ اسلام کے ساتھ قرآن کا دور کرتے تو جب جبریل علیہ السلام آپ سے ملتے تو آپ ﷺ بھلائی پہنچانے میں تیز ہوا سے بھی زیادہ سخی ہو جاتے۔ (صحیح بخاری: 1902، صحیح مسلم: 2308) ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں: "من تصدق بعدل تمرة من كسب طيب، ولا يقبل الله إلا الطيب، وإن الله يتقبلها بيمينه، ثم يربيها لصاحبه كما يربي أحدكم فلوه، حتى تكون مثل الجبل" جوشخص پاک کمائی سے ایک کجھور کے برابر صدقہ کرتا ہے، الله تعالی صرف پاک مال ہی قبول کرتا ہے، تو اللہ تعالی اسے دائیں ہاتھ سے قبول فرماتا ہے اور اسے اس طرح پالتا ہے جیسے تم میں سے کوئی اپنے گھوڑے کے چھوٹے بچے کو پالتا ہے حتی کہ وہ صدقہ بڑھ کر پہاڑ کی مثل ہوجاتا ہے۔ (صحیح بخاری: 1410، صحیح مسلم: 1014)
رمضان میں عمرہ کی سعادت:رمضان المبارک میں عمرہ کی سعادت بڑے اجر و ثواب کا باعث ہے جیسا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کا بیان ہے کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا: "إن عمرة في رمضان حجة " بے شک رمضان میں عمرہ کرنا حج کے برابر ہے۔ (صحیح بخاری:1782، صحیح مسلم:1256)
لیلۃ القدر کی تلاش:الله تعالی قرآن کریم میں فرماتا ہے: ﴿إِنَّا أَنْزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ، وَمَا أَدْرَاكَ مَا لَيْلَةُ الْقَدْرِ، لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِنْ أَلْفِ شَهْرٍ﴾ ہم نے اس (قرآن) کو قدر کی رات میں نازل کیا اور تمہیں کس نے معلوم کروایا کہ قدر کی رات کیا ہے قدر کی رات ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ (القدر:1۔ 3) ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں: "ومن قام ليلة القدر إيمانا واحتسابا، غفر له ما تقدم من ذنبه " جس نے ایمان کی حالت میں اور ثواب کی نیت سے لیلة القدرکا قیام کیا تو اس کے سابقہ گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں۔ (صحیح بخاری: 2014، صحیح مسلم: 760) سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، نبی کریم ﷺ نے فرمایا: "تحروا ليلة القدر في الوتر من العشر الأواخر من رمضان" لیلۃ القدر کو رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں تلاش کرو۔ (صحیح بخاری: 2017) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ لیلۃ القدر رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں ہے اور اسے انہیں تمام راتوں میں ڈھونڈنا چاہیے لیکن بعض لوگ اسے صرف ستائیسویں رات کے ساتھ خاص کر دیتے ہیں جو کہ درست نہیں کیونکہ اللہ کے رسول ﷺ کے زمانے میں لیلۃ القدر اکیسویں رات کو بھی آئی تھی۔ دیکھئے: (صحیح مسلم: 1167) اسی طرح ستائیسویں رات کو بھی۔ دیکھئے (صحیح مسلم: 762) لہذا اسے تمام طاق راتوں میں تلاش کرنا اور اللہ کی عبادت میں محنت کرنی چاہیے، اس رات کو پوشیدہ رکھنے میں یہی حکمت مضمر ہے کہ الله کے بندے زیادہ سے زیادہ عبادت کر کے رب تعالی کی خوشنودی حاصل کرسکیں۔ واللہ اعلم امی عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں: "كان النبي صلى الله عليه وسلم إذا دخل العشر شد مئزره وأحيا ليله وأيقظ أهله" جب رمضان کا آخری عشرہ شروع ہوتا تو رسول اللہ ﷺ اپنی کمر کس لیتے (عبادت کے لیے کمر بستہ ہو جاتے) ان راتوں میں خود بھی جاگتے اور گھر والوں کو بھی جگاتے (اور خوب عبادت میں محنت کرتے)۔ (صحیح بخاری: 2024، صحیح مسلم: 1174)
اعتکاف:رمضان المبارک کے آخری عشرے میں اعتکاف ایسی عبادت ہے جس میں بندہ دنیا سے الگ تھلگ ہو کر الله رب العزت کا تقرب حاصل کرنے کی سعی کرتا ہے چنانچہ امی عائشہ رضی الله عنہا فرماتی ہیں: "أن النبي صلى الله عليه وسلم كان يعتكف العشر الأواخر من رمضان حتى توفاه الله، ثم اعتكف أزواجه من بعده" نبی کریم ﷺ رمضان المبارک کے آخری عشرے کا اعتکاف کرتے حتی کہ آپ ﷺ کو اللہ نے وفات دی تو پھر آپ ﷺ کی بیویاں اعتکاف کرتیں۔ (صحیح بخاری: 2026، صحيح مسلم:1172) ابی بن کعب رضی الله عنہ فرماتے ہیں: ’’أن النبي صلى الله عليه وسلم كان يعتكف العشر الأواخر من رمضان، فلم يعتكف عاما، فلما كان في العام المقبل اعتكف عشرين ليلة‘‘ نبی کریم ﷺ رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف کیا کرتے تھے ایک سال آپ اعتکاف نہ بیٹھ سکے تو آئندہ سال آپ نے بیس راتیں اعتکاف کیا۔ (سنن ابی داؤد: 2463، سنن ابن ماجہ: 1770) اہم بات: بعض لوگوں کا خیال ہے کہ عورتیں مسجد میں اعتکاف نہیں بیٹھ سکتی بلکہ گھر میں بیٹھیں گی تو عرض ہے ان کی یہ بات درست نہیں کیونکہ قرآن وحدیث میں اس کے برعکس ثابت ہے۔ ایک تو اعتکاف کہتے ہی کسی شخص کا خاص صفت کے ساتھ مسجد میں رکے رہنے کو ہیں۔ دیکھئے (شرح صحیح مسلم للنووی: 595/3، فتح الباری لابن حجر: 271/4) اسی طرح احناف کی مشہور کتاب (فتاوی عالمگیری: 221/1) میں بھی اعتکاف کی یہی تعریف لکھی ہے لہذا اس تعریف سے بھی عورتوں کا مسجد میں اعتکاف بیٹھنا ثابت ہوتا ہے۔ اسی طرح قرآن کریم میں بھی اعتکاف کا مسجد ہی میں ہونے کا ثبوت ملتا ہے چنانچہ الله تعالی فرماتا ہے: ﴿وَلَا تُبَاشِرُوهُنَّ وَأَنْتُمْ عَاكِفُونَ فِي الْمَسَاجِدِ﴾ اور تم عورتوں سے مباشرت نہ کرو اس حال میں کہ تم مسجدوں میں اعتکاف کرنے والے ہو۔ (البقرة:187) احادیث میں بھی عورتوں کا مسجد میں اعتکاف بیٹھنے کا تذکرہ موجود ہے (دیکھیے، صحیح بخاری: 2037) الغرض ایسی کوئی حدیث نہیں جو عورت کے گھر میں اعتکاف کرنے کو ثابت کرتی ہو۔ لہذا اگر مسجد میں پردے کا مناسب بندوبست ہو تو خاتون سرپرست(والد یا خاوند وغیرہ) سے اجازت لے کر مسجد ہی میں اعتکاف کرے گی۔ والله اعلم
صدقة الفطر:رمضان المبارک کے آخر میں تمام مسلمانوں پر صدقہ فطر دینا فرض ہے جیسا کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: ’’فرض رسول الله صلى الله عليه وسلم زكاة الفطر صاعا من تمر أو صاعا من شعير على العبد والحر، والذكر والأنثى، والصغير والكبير من المسلمين، وأمر بها أن تؤدى قبل خروج الناس إلى الصلاة‘‘ رسول اللہ ﷺ نے غلام، آزاد مرد و عورت، چھوٹے بڑے سب مسلمانوں پر صدقہ فطر کھجور یا جو کا ایک "صاع" فرض کیا اور حکم دیا کہ اسے لوگوں کے نماز عید کے لیے نکلنے سے قبل اداکردیا جائے۔ (صحیح بخاری: 1503، صحیح مسلم: 984) صاع، ماپنے کا ایک آلہ ہے چنانچہ علاقے میں جو چیز بطور خوراک کھائی جاتی ہو جیسے گندم، چاول، جو، کھجور وغیرہ تو بہتر ہے یہ صدقہ انہیں میں سے ادا کیا جائے۔ (دیکھئے، صحیح بخاری: 1510،1506، صحیح مسلم: 985) البتہ صدقہ فطر نقدی اور رقم کی صورت میں بھی ادا کیا جا سکتا ہے۔ دیکھیے: (مجموع الفتاوى لابن تيمية:25/ 68، 69، مصنف ابن ابی شیبہ:2/ 398) صدقہ فطر کی ادائیگی نماز عید سے پہلے ضروری ہے، صحابہ کرام رضی الله عنہم عید الفطر سے ایک یا دو دن پہلے ادا کر دیا کرتے تھے۔ (دیکھئے: صحیح بخاری: 1511) صدقہ فطر کے فرض ہونے کی حکمت بیان کرتے ہوئے عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے روزے دار کو (روزے کی حالت میں ہونے والی) لغو اور بے ہودہ باتوں (کے گناہ) سے پاک کرنے کے لئے اور مساکین کو کھانا کھلانے کے لیے فرض کیا، تو جس نے اسے نماز عید سے پہلے ادا کیا اس کا صدقہ قبول ہوا اور جس نے نماز کے بعد ادا کیا وہ عام صدقات کی طرح صدقہ ہے۔ (سنن ابی داود: 1609، سنن ابن ماجہ: 1827)
رمضان المبارک سے محرومی:ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول الله ﷺ نے فرمایا: "ورغم أنف رجل دخل عليه رمضان، ثم انسلخ قبل أن يغفر له" اس شخص کا ناک خاک آلود ہو جس کی زندگی میں رمضان آیا پھر وہ بخشش سے محروم رہا۔ (سنن ترمذی: 3545، مسند أحمد:2/ 254) ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "من لم يدع قول الزور والعمل به فليس لله حاجة في أن يدع طعامه وشرابه" جس شخص نے جھوٹ بولنا اور اس پرعمل کرنا نہ چھوڑا تو الله تعالی کو کوئی حاجت نہیں کہ یہ شخص اپنا کھانا پینا چھوڑ دے۔ (صحیح بخاری: 1903) ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺنے فرمایا: "رب صائم ليس له من صيامه إلا الجوع، ورب قائم ليس له من قيامه إلا السهر" بعض روزے دار ایسے ہوتے ہیں جنہیں روزے سے بھوک کے سوا کچھ نہیں ملتا اور بعض قیام اللیل کرنے والوں کو بیداری کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ (سنن ابن ماجہ: 1690، سنن دارمی: 2762)
حرفِ آخر:اس تحریر سے مقصود یہ ہے کہ ہم نیکیوں کے اس موسمِ بہار میں کتاب وسنت کو مدنظر رکھتے ہوئے حتی الوسع اپنے رب تعالی کو راضی کرنے کی کوشش کریں۔ تلاوتِ قرآن کریم، اذکار و اوراد، دعاؤں اور نوافل کے ذریعے سے خوب اجر و ثواب سمیٹ لیں تا کہ دنیا آخرت کی کامیابی ہمارا مقدر بن جائے اور اس ماهِ رحمت میں ہم اعمالِ صالحہ پر اس طرح کار بند ہو جائیں کہ یہ سلسلہ پورا سال جاری رہے۔ نسأل الله لنا ولكم التوفيق والسداد۔
افطاری کی دعا:’’ذَهَبَ الظَّمَأُ، وَابْتَلَّتِ الْعُرُوقُ، وَثَبَتَ الْأَجْرُ إِنْ شَاءَ الله‘‘ پیاس بجھ گی اور رگیں تر ہوگئیں اور اگر اللہ نے چاہا تو اجر ثابت ہو گیا۔ (سنن ابی داؤد: 2357) نوٹ: سحری کے وقت بعض لوگ یہ دعا کرتے ہیں: ’’وبصوم غد نویت من شهر رمضان‘‘ حالانکہ اس کا کوئی ثبوت قرآن و حدیث سے نہیں بلکہ من گھڑت اور خود ساختہ ہے۔ افطاری کرتے وقت یہ دعا پڑھنا: ’’اللَّهُمَّ لَكَ صُمْتُ، وَعَلَى رِزْقِكَ أَفْطَرْتُ‘‘ (سنن ابی داؤد: 2358) درست نہیں کیونکہ یہ روایت معاذ بن زہرہ تابعی کی مرسل ہے اور مرسل روایت ضعیف ہوتی ہے اس ضعیف روایت میں بھی بعض لوگ اپنی طرف سے اضافہ کرتے ہیں جو کسی حدیث کی کتاب میں موجود نہیں لہذا مذکورہ بالا صحیح دعا ہی افطاری کرتے وقت پڑھی جائے۔ سحری تاخیر سے کھانا اور غروب آفتاب کے بعد افطاری جلدی کرنا مستحب ہے۔ (دیکھئے صحیح بخاری:1920،578 1957، صحیح مسلم:1098) نوٹ: مضمون میں تمام روایات صحیح و ثابت پیش کی گئی ہیں۔ والحمد لله |
ہماری موبائل ایپ انسٹال کریں۔ تحقیقی مضامین اور تحقیقی کتابوں کی موجودہ وقت میں ان شاء اللہ سب سے بہترین ایپ ہے، والحمدللہ۔
دیگر بلاگ پوسٹس:
Android App --or-- iPhone/iPad App
IshaatulHadith Hazro © 2024