دُور کی رُویت کا کوئی اعتبار نہیں ہے (رمضان المبارک کے بعض مسائل)تحریر: محدث العصر حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ |
اس مختصر مضمون میں رمضان المبارک کے بعض مسائل پیشِ خدمت ہیں: ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ﴿فَمَنْ شَھِدَ مِنْکُمُ الشَّھْرَ فَلْیَصُمْہُ﴾ پس تم میں سے جو شخص یہ مہینہ (رمضان) پائے تو اس کے روزے رکھے۔ (البقرہ: 185) اس آیت سے معلوم ہوا کہ ہر بالغ مکلَّف مسلمان پر رمضان کے روزے رکھنا فرض ہے۔ اس عموم سے صرف وہی لوگ خارج ہیں جن کا استثناء قرآن، حدیث اور اجماع سے ثابت ہے۔ مثلاً نابالغ، مسافر، حائضہ عورت، بیمار اور شرعی معذور۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: چاند دیکھ کر روزے رکھنا شروع کرو اور چاند دیکھ کر عید کرو، اگر (29 شعبان کو) بادل ہوں تو شعبان کے تیس دن پورے کر کے روزے رکھنا شروع کرو۔ (صحیح بخاری: 1909،صحیح مسلم 1081،مفہوماً) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ہر شہر اور ہر علاقے کے لوگ اپنا اپنا چاند دیکھ کر رمضان کے روزے رکھنا شروع کریں گے اور اسی طرح عید کریں گے۔ یاد رہے کہ دُور کی رُویت کا کوئی اعتبار نہیں ہے مثلاً اگر سعودی عرب میں چاند نظر آجائے تو حضرو کے لوگ رمضان کے روزے رکھنا شروع نہیں کریں گے۔ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور میں مُلک شام میں جمعہ کی رات کو چاند نظر آیا جب کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ نے مدینہ طیبہ میں ہفتہ کی رات کو چاند دیکھا تھا، پھر انھوں نے اپنے (ثقہ) شاگرد کے کہنے پر فرمایا: ہم تو تیس تک روزے رکھتے رہیں گے حتیٰ کہ چاند نظر آ جائے۔ پوچھا گیا: کیا آپ (سیدنا) معاویہ (رضی اللہ عنہ) اور اُن کے روزے کا کوئی اعتبار نہیں کرتے؟ انھوں نے فرمایا: کوئی اعتبار نہیں، کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں اسی طرح حکم دیا تھا۔(صحیح مسلم: 1087) اس صحیح حدیث سے معلوم ہوا کہ ملک شام کی رُویت مدینے میں معتبر نہیں ہے۔ درج ذیل محدثین و علماء نے اس حدیث پر ابواب باندھ کر یہ ثابت کیا ہے کہ ہر علاقے کے لوگ اپنا اپنا چاند دیکھیں گے: امام ترمذی رحمہ اللہ (باب ماجاء لکل أھل بلد رؤیتھم) سنن الترمذی (693) امام الائمۃ شیخ الاسلام ابن خزیمہ رحمہ اللہ (باب الدلیل علٰی أن الواجب علٰی أھل کل بلد صیام رمضان لرؤیتھم، لا رؤیۃ غیرھم) صحیح ابن خزیمہ (3/ 205 ح 1916) علامہ نووی (باب بیان أن لکل بلد رؤیتھم و أنھم إذا رأوا الھلال ببلد لا یثبت حکمہ لما بعد عنھم) شرح صحیح مسلم (ج7ص 197 تحت ح 1087،طبع احیاء التراث العربی بیروت،لبنان) محمد بن خلیفہ الوشتابی الابی (حدیث لکل قوم رؤیتھم) شرح صحیح مسلم (ج4 ص 19 ح1087) ابو العباس احمد بن عمر بن ابراہیم القرطبی (ومن باب: لأھل کل بلد رؤیتھم عند التباعد) المفہم لما اشکل من تلخیص کتاب مسلم (ج3ص 141 ح 955) ابو جعفر الطحاوی نے فر مایا: اس حدیث میں یہ ہے کہ ابن عباس نے اپنے شہر کے علاوہ دوسرے شہر کی رُویت کا کوئی اعتبار نہیں کیا الخ (شرح مشکل الآثار 1/ 423ح 481) محدثین کرام اور شارحین حدیث کے اس تفقہ کے مقابلے میں چودھویں صدی اور متأخر ’’علماء‘‘ کے منطقی استدلالات مردود ہیں، جو حدیثِ ابن عباس کو موقوف وغیرہ کہہ کر اپنی تاویلات کا نشانہ بناتے ہیں۔ حافظ ابن عبدالبر الاندلسی نے اس پر اجماع نقل کیا ہے کہ خراسان کی رُویت کا اندلس میں اور اندلس کی رُویت کا خراسان میں کوئی اعتبار نہیں ہے۔ (الاستذکار 3/ 283 ح 592) تنبیہ: یہ کوئی مسئلہ نہیں ہے کہ ساری دنیا کے لوگ ایک ہی دن روزہ رکھیں اور ایک ہی دن عید کریں۔ جغرافیائی لحاظ سے ایسا ممکن ہی نہیں ہے کیونکہ جب مکہ و مدینہ میں دن ہوتا ہے تو امریکہ کے بعض علاقوں میں اُس وقت رات ہوتی ہے۔ یہ بر حق ہے کہ ہر عمل کی قبولیت کے لئے نیت ضروری ہے لیکن نیت دل کے ارادے کو کہتے ہیں مثلاً رمضان کی تیاریاں کرنا، چاند دیکھنا یا معلوم کرنے کی کوشش کرنا، سحری کھانا اور تراویح پڑھنا وغیرہ سب کا موں سے نیت ثابت ہو جاتی ہے لیکن یاد رہے کہ زبان کے ساتھ روزے کی نیت (مثلاً بصوم غدٍ نویت من شھر رمضان) ثابت نہیں ہے۔ اگر کوئی شخص حالتِ روزہ میں بھول کر کھا پی لے تو اُس کا روزہ برقرار رہتا ہے لہٰذا وہ دوسرے لوگوں کے ساتھ شام کو غروبِ آفتاب کے بعد روزہ افطار کرے۔ تنبیہ: یہ کوئی مسئلہ نہیں ہے کہ ’’اگر کوئی شخص روزے میں بھول کر کھا یا پی رہا ہے تو اسے یاد نہیں دلانا چاہئے‘‘ لہٰذا اُسے یاد دلانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ روزہ افطار کرتے وقت درج ذیل دعا پڑھنا سنت سے ثابت ہے: ذَھَبَ الظَّمَأُ وَابْتَلَّتِ الْعُرُوْقُ و ثَبَتَ الْأَجْرُ إِنْ شَاءَ اللہُ پیاس ختم ہوئی،رگیں تر ہو گئیں اور اجر ثابت ہو گیا۔ ان شاء اللہ (سنن ابی داود: 2357 وسندہ حسن وصححہ الحاکم 1/ 422 والذہبی و حسنہ الدارقطنی 2/ 182، وھو الصواب) تنبیہ: سنن ابی داود کی ایک روایت میں ’’اللّٰھم لک صمت و علٰی رزقک أفطرت‘‘ کے الفاظ آئے ہیں لیکن یہ روایت ثابت نہیں ہے بلکہ مرسل ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے۔ گرمی یا پیاس کی وجہ سے سر پر پانی ڈالنا جائز ہے۔ دیکھئے موطأ امام مالک (ج1ص 294 ح 660 وسندہ صحیح،سنن ابی داود: 2365) جنابت اور احتلام کی وجہ سے غسل کرنا فرض ہے لیکن اگر گرمی یا ضرورت ہو تو روزے کی حالت میں نہانا بالکل جائز ہے، کیونکہ اس کی ممانعت کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ نیز دیکھئے صحیح بخاری (1925،1926) وصحیح مسلم (1109) امام محمد بن سیرین رحمہ اللہ (تابعی) کپڑا بھگو کر اپنے چہرے پر ڈالنے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ 3/ 40 ح 9214 وسندہ صحیح) کھجور یا پانی سے روزہ افطار کرنا چاہئے۔ دیکھئے سنن ابی داود(3255 وسندہ صحیح و صححہ الترمذی: 695 وابن خزیمہ: 2067 وابن حبان: 892 والحاکم علیٰ شرط البخاری 1/ 431 ووافقہ الذہبی وأخطأ من ضعفہ) ابراہیم نخعی رحمہ اللہ (تابعی صغیر) نے فرمایا: اگر تم چاند دیکھو تو کہو: ’’رَبِّيْ وَ رَبُّکِ اللہُ‘‘ میرا اور تیرا رب اللہ ہے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ 3/ 98 ح 9730 وسندہ صحیح) تنبیہ: اس بارے میں مرفوع روایات ضعیف ہیں۔ روزے کی حالت میں مسواک کرنے میں سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے۔ دیکھئے مصنف ابن ابی شیبہ (3/35 ح 9149 وسندہ صحیح) سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: روزے کی حالت میں مسواک کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، چاہئے مسواک خشک ہو یا ترہو۔ (مصنف ابن ابی شیبہ 3/ 37 ح 9173 وسندہ صحیح) نیز دیکھئے صحیح بخاری (قبل ح 1934) امام زہری رحمہ اللہ (تابعی) نے فرمایا: روزے کی حالت میں سرمہ ڈالنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔(مصنف ابن ابی شیبہ 3/ 47 ح 9275 وسندہ صحیح) سلیمان بن مہران الاعمش رحمہ اللہ نے فرمایا: میں نے اپنے اصحاب میں سے کسی کو بھی روزہ دار کے لئے سُرمے کا استعمال مکروہ قرار دیتے ہوئے نہیں دیکھا۔ (یعنی وہ سب اُسے جائز سمجھتے تھے)۔ دیکھئے سنن ابی داود (2379 وسندہ حسن) معلوم ہوا کہ سُرمہ ڈالنے سے روزہ خراب نہیں ہوتا۔ اگر دورانِ وضو کلی کرتے ہوئے حلق میں پانی چلا جائے تو عطاء (بن ابی رباح رحمہ اللہ تابعی) نے فرمایا: کوئی حرج نہیں ہے۔ دیکھئے مصنف ابن ابی شیبہ (3/ 70 ح9486 وسندہ قوی، روایۃ ابن جریج عن عطاء محمولۃ علی السماع) جس شخص کو روزے کی حالت میں خود بخود قے آ جائے تو اُس کا روزہ نہیں ٹوٹتا اور اگر کوئی شخص جان بوجھ کر قے کرے تو اُس کا روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔ یہ مسئلہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ سے ثابت ہے۔ (دیکھئے مصنف ابن ابی شیبہ 3/ 38ح 9188 وسندہ صحیح) تنبیہ: اس بارے میں مرفوع روایت ضعیف ہے۔ سورج غروب ہوتے ہی روزہ جلدی افطار کرنا چاہئے۔ (صحیح بخاری: 1957،صحیح مسلم: 1098) جو شخص سحری کھا رہا ہو اور کھانے کا برتن اس کے ہاتھ میں ہو (یعنی وہ کھانا کھا رہا ہو) اور صبح کی اذان ہو جائے تو وہ کھانا کھا کر اس سے فارغ ہو جائے۔ (سنن ابی داود: 2350،سندہ حسن) اگر کوئی شخص کسی روزہ دار کو روزہ افطار کرائے تو اُسے روزہ دار جتنا ثواب ملتا ہے اور روزہ دار کے ثواب میں کوئی کمی نہیں آتی۔ (سنن الترمذی: 807 وقال: ’’ھذا حدیث حسن صحیح‘‘ وسندہ صحیح) سیدنا عمر رضی اللہ عنہ یا کسی صحابی سے بھی بیس رکعات تراویح قولاً یا فعلاً ثابت نہیں ہے بلکہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے دو صحابیوں سیدنا ابی بن کعب اور سیدنا تمیم الداری رضی اللہ عنہما کو حکم دیا کہ لوگوں کو گیارہ رکعتیں پڑھائیں۔ دیکھئے موطأ امام مالک (روایۃ یحییٰ بن یحییٰ 1/ 114ح 249 وسندہ صحیح) شرح معانی الآثار للطحاوی (1/ 293) تقلید کے دعویدار محمد بن علی النیموی نے اس اثر کے بارے میں کہا: ’’و إسنادہ صحیح‘‘ اور اس کی سند صحیح ہے۔ (آثار السنن ص 250 ح 776) ان دو صحابیوں میں سے ایک مردوں کو اور دوسرے عورتوں کو تراویح کی نماز پڑھاتے تھے۔ مصنف ابن ابی شیبہ کی ایک روایت کا خلاصہ یہ ہے کہ یہ دونوں صحابی گیارہ رکعات پڑھاتے تھے۔ (ج2 ص 392 ح 7670) سیدنا سائب بن یزید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم (یعنی صحابہ) عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے زمانے میں گیارہ رکعات پڑھتے تھے۔ (سنن سعید بن منصور بحوالہ الحاوی للفتاوی ج1 ص 349) اس روایت کے بارے میں سیوطی نے کہا: ’’بسند في غایۃ الصحۃ‘‘ بہت زیادہ صحیح سند کے ساتھ۔ (الحاوی للفتاوی ج1ص 350) ان صحیح آثار کے مقابلے میں بعض تقلیدی حضرات السنن الکبریٰ للبیہقی اور معرفۃ السنن و الآثار کی جو روایتیں پیش کرتے ہیں، وہ سب شاذ (یعنی ضعیف) ہیں۔ رمضان کے پورے مہینے میں باجماعت نمازِ تراویح پڑھنے کا ثبوت اس حدیث میں ہے، جس میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ((إنہ من قام مع الإمام حتی ینصرف کتب لہ قیام لیلۃ)) بے شک جو شخص امام کے ساتھ (نماز سے) فارغ ہونے تک قیام کرتا ہے تو اس کے لئے پوری رات (کے ثواب) کا قیام لکھا جاتا ہے۔ (سنن الترمذی: 806 و قال: ’’ھذا حدیث حسن صحیح‘‘ وسندہ صحیح) نمازِ تراویح میں پورا قرآن پڑھنا کئی دلائل سے ثابت ہے۔مثلاً: ارشادِ باری تعالیٰ ہے: اور قرآن میں سے جو میسر ہو، اُسے پڑھو۔ (سورۃ المزمل: 20) رسول اللہ ﷺ ہر سال رمضان میں جبریل علیہ السلام کے ساتھ قرآن مجید کا دور کرتے تھے۔ دیکھئے صحیح بخاری (4997) و صحیح مسلم (2308) یہ عمل سلف صالحین میں بلا انکار جاری و ساری رہا ہے۔ رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف کرنا سنت ہے لیکن یاد رہے کہ یہ فرض یا واجب نہیں ہے۔سنیت کے لئے دیکھئے صحیح بخاری (2026) اور صحیح مسلم (5/ 1172) اعتکاف ہر مسجد میں جائز ہے اور جس حدیث میں آیا ہے کہ ’’تین مسجدوں کے سوا اعتکاف نہیں ہے‘‘ الخ اس کی سند امام سفیان بن عیینہ کی تدلیس (عن) کی وجہ سے ضعیف ہے اور بعض علماء کا اُسے صحیح قرار دینا غلط ہے۔ اگر شرعی عذر (مثلاً بارش) نہ ہو تو عید کی نماز عیدگاہ (یا کھلے میدان) میں پڑھنی چاہئے۔ دلیل کے لئے دیکھئے صحیح بخاری (956) اور صحیح مسلم (9/ 889) سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اگر بارش ہو تو عید کی نماز مسجد میں پڑھ لو۔ (السنن الکبریٰ للبیہقی ج3ص 310 وسندہ قوی) اگر کسی شرعی عذر کی وجہ سے رمضان کے روزے رہ جائیں اور اگلے سال کا رمضان آجائے تو پہلے رمضان کے روزے رکھیں اور بعد میں قضا روزوں کے بدلے میں روزے رکھیں اور ہر روزے کے بدلے میں ایک مسکین کو کھانا بھی کھلائیں۔ یہ فتویٰ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے ثابت ہے۔ (دیکھئے السنن الدارقطنی ج2ص 197 ح 2321 وقال: ’’إسنادہ صحیح‘‘ وسندہ حسن) سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’الإفطار مما دخل ولیس مما خرج‘‘ جسم میں اگر کوئی چیز (مرضی سے) داخل ہو تو روزہ ٹوٹ جاتا ہے اور اگر کوئی چیز (مثلاً خون) باہر نکلے تو روزہ نہیں ٹوٹتا۔ (الاوسط لابن المنذر ج1ص 185 ث 81 وسندہ صحیح / ترجمہ مفہوماً ہے) اس اثر سے معلوم ہوا کہ ہر قسم کا ٹیکہ اور ڈرِپ لگانے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے لہٰذا روزے کی حالت میں ہر قسم کے انجکشن لگانے سے اجتناب کریں۔ روزے کی حالت میں اگر مکھی وغیرہ خود بخود منہ میں چلی جائے تو اس سے روزہ فاسد نہیں ہوتا کیونکہ ایسی حالت میں انسان مجبور محض ہے۔ دیکھئے سورۃ البقرۃ (173) روزے کی حالت میں آنکھ یا کان میں دوائی ڈالنے کا کوئی ثبوت نہیں ہے لہٰذا اس عمل سے اجتناب کریں۔ روزے کی حالت میں خشک یا تر و تازہ مسواک اور سادہ برش کرنا جائز ہے لیکن ٹوتھ پیسٹ استعمال کرنے کا کوئی ثبوت نہیں ہے لہٰذا ٹوتھ پیسٹ یا دانتوں کی دوائی استعمال کرنے سے اجتناب کریں۔ روزے کی حالت میں آکسیجن کا پمپ (جس میں دوا بھی ہوتی ہے) استعمال کرنے کا کوئی ثبوت میرے علم میں نہیں ہے لہٰذا اس فعل سے اجتناب کریں یا پھر اگر شدید بیماری ہے تو روزہ افطار کر کے اسے استعمال کریں۔بعض موجودہ علماء روزے کی حالت میں آکسیجن کے پمپ کا استعمال جائز سمجھتے ہیں۔ واللہ اعلم چھوٹے بچوں کو روزہ رکھنے کی عادت ڈلوانا بہت اچھا کام ہے۔ دائمی مریض جوروزے نہ رکھ سکتا ہو، اسے ہر روزے کا کفارہ دینا چاہئے۔ اگر کوئی شخص فوت ہو جائے اور اس کے رمضان کے روزے رہ گئے ہوں تو پھر اس کے رہ جانے والے تمام روزوں کا کفارہ دینا چاہئے اور اگر اُس پر نذر کے روزے بقایا تھے تو پھر اس کے وارثین یہ روزے رکھیں گے۔ سفر میں روزہ نہ رکھنا بھی جائز ہے لیکن اس روزے کی قضا بعد میں ادا کرنا ہو گی اور اگر طاقت ہو اور مشقت نہ ہو تو سفر میں روزے رکھنا بہتر ہے۔ ………… اصل مضمون ………… اصل مضمون کے لئے دیکھیں مقالات جلد 3 صفحہ 602 اور دیکھئے ماہنامہ الحدیث شمارہ نمبر 64 صفحہ 23 |
ہماری موبائل ایپ انسٹال کریں۔ تحقیقی مضامین اور تحقیقی کتابوں کی موجودہ وقت میں ان شاء اللہ سب سے بہترین ایپ ہے، والحمدللہ۔
دیگر بلاگ پوسٹس:
Android App --or-- iPhone/iPad App
IshaatulHadith Hazro © 2024