’’قرآن کو صرف طاہر ہی چھوئے‘‘تحریر: فضیلۃ الشیخ حافظ ندیم ظہیر حفظہ اللہ |
اضواء المصابیح حدیث نمبر 465: وَعَنْ عَبْدِاللہِ بْنِ أَبِيْ بَکْرِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِ و بْنِ حَزْمٍ أَنَّ فِی الْکِتَابِ الَّذِي کَتَبَہُ رَسُوْلُ اللہَ ﷺ لِعَمْرِ وْ بْنِ حَزْمٍ: اَنْ لَّا یَمُسَّ الْقُرْاٰنَ اِلَّا طَاھِرٌ۔ رَوَاہُ مَالِکٌ وَالدَّارَقُطْنِيُّ۔ عبداللہ بن ابی بکر بن محمد بن عمرو بن حزم سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جو کتاب عمرو بن حزم (رضی اللہ عنہ) کے لیے لکھی تھی، اس میں (یہ بھی تحریر) تھا: ’’قرآن کو صرف طاہر ہی چھوئے۔‘‘ اسے مالک نے (الموطأ 1/ 199 ح 470 میں) اور دارقطنی(121/1، 122) نے روایت کیا ہے۔ یہ حدیث حسن ہے۔ تقریر اور تحریر دونوں طرح سے فریضۂ تبلیغ سرانجام دینا چاہیے، کیونکہ نبی کریم ﷺ تقریر کے ساتھ ساتھ تحریراً بھی تبلیغ فرماتے تھے، جیسا کہ اس حدیث سے واضح ہے۔ حدیث لکھنا جائز ہے اور یہ سلسلہ عہد نبوت سے جاری ہے۔ صحیح مسلم (3004) کی جس روایت میں قرآن مجید کے علاوہ لکھنے سے ممانعت کا حکم آیا ہے وہ متعدد دلائل کی رُو سے منسوخ ہے۔ مزید دیکھئے الناسخ والمنسوخ لأبی حامد الرازي (ص27، 28) الناسخ والمنسوخ لإبن شاہین (ص 578 ح 619) اور الباعث الحثیث (380/2) وغیرہ قرآن مجید کی عظمت کا بیان کہ اسے ہر قسم کی نجاست سے پاک شخص ہی چھوئے۔ یہ حدیث جمہور اہل علم کی دلیل ہے کہ جنبی، حائضہ اور بے وضو افراد قرآن مجید نہیں چھو سکتے۔ امام بغوی رحمہ اللہ (متوفی 516ھ) نے فرمایا: ’’اکثر اہل علم کا اسی پر عمل ہے کہ بے وضو شخص یا جنبی کے لیے قرآن پکڑنا اور چھونا جائز نہیں ہے۔‘‘ (شرح السنۃ 1/ 363) امام مالک رحمہ اللہ (متوفی 179ھ) نے فرمایا: ’’بے وضو قرآن مجید کو چھونا اس لیے مکروہ نہیں کہ اسے پکڑنے والے کے ہاتھ میں کوئی چیز (نجاست) ہو گی جس سے وہ آلودہ ہو جائے گا، بلکہ قرآن مجید کی تکریم و تعظیم کی وجہ سے اسے بے وضو پکڑنا مکروہ قرار دیا گیا ہے۔‘‘ (الموطأ: 470) حافظ ابن عبد البر رحمہ اللہ (متوفی 463ھ) نے درج بالا حدیث نقل کرنے کے بعد فرمایا: ’’اس مسئلے میں فقہائے مدینہ، عراق اور شام میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ قرآن کو صرف حالتِ وضو ہی میں چھوا جائے گا۔‘‘ (التمہید 8/ 271 و نسخۃ أخری 6/ 8) مصعب بن سعد بن ابی وقاص رحمہ اللہ کا بیان ہے، میں (اکثر) سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے لیے قرآن کو پکڑے رکھتا (اور وہ پڑھتے رہتے تھے، ایک دن) میں نے کھجایا تو سعد رضی اللہ عنہ نے فرمایا: شاید تو نے اپنے ذکر (شرم گاہ) کو چھوا ہے؟ میں نے عرض کیا: جی ہاں، انھوں نے فرمایا: اٹھ اور وضو کر۔ چنانچہ میں نے اٹھ کر وضو کیا، پھر واپس آیا۔ (موطأ إمام مالک: 89 وسندہ صحیح) امام بیہقی رحمہ اللہ (متوفی 458ھ) نے اس اثر پر درج ذیل باب قائم کیا ہے: ’’بَابُ نَھْیِ المُحْدِثِ عَنْ مَسِّ الْمُصْحَفِ‘‘ یعنی بے وضو شخص کو قرآن چھونے کی ممانعت۔ (السنن الکبریٰ 1/ 88) سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: قرآن کو صرف طاہر ہی چھوئے۔ (مصنف ابن أبي شیبۃ 2/ 361 ح 7506 وسندہ صحیح) الاوسط لابن المنذر (2/ 224) میں ’’مُتَوَضِّیءُ‘‘ کے الفاظ ہیں، یعنی قرآن کو صرف با وضو شخص چھوئے۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ (متوفی 241ھ) نے فرمایا: قرآن کو صرف طاہر ہی چھوئے۔ اگر کوئی وضو کے بغیر قرآن پڑھنا چاہے (پھر بھی) اسے نہ چھوئے اور عود (لکڑی) یا کسی چیز سے صفحہ پلٹے۔ (مسائل أحمد بن حنبل بروایۃ صالح 3/ 208، رقم: 1667) حکم بن عتیبہ اور حماد بن ابی سلیمان رحمہما اللہ نے فرمایا: جب قرآن مجید کپڑے (یا غلاف) میں ہو تو اسے بغیر وضو چھونے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ (المصاحف لإبن أبي داود: 759 وسندہ حسن) شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (مجموع الفتاویٰ 21/ 266) علامہ ابن رجب (فتح الباری 1/ 404) اور ابن قدامہ المقدسی (المغنی 1/ 202) کے نزدیک صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں اس مسئلے میں کہ ’’قرآن مجید کو صرف طاہر چھوئے‘‘ کوئی مخالفت معروف نہیں ہے۔ فقیہ العصر الشیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ نے فرمایا: غور وفکر کے بعد مجھ پر واضح ہوا کہ طاہر سے مراد حدث اصغر (بے وضو) اور حدث اکبر (جنابت وغیرہ) سے پاک ہونا ہے۔ (شرح موطأ إمام مالک 60/2) جو لوگ وضو کے بغیر قرآن مجید چھونے کے قائل ہیں ان کے نزدیک بھی افضل و بہتر یہی ہے کہ باوضو ہو کر قرآن مجید چھوا جائے۔ دیکھئے الفائض لأبي عبد الرحمن الإریاني (ص 111) وغیرہ، لہٰذا افضل و بہتر ہی کو ترجیح حاصل ہے اور اسی پر عمل پیرا ہونا چاہیے۔ قرآن مجید پکڑے بغیر بے وضو تلاوت قرآن جائز ہے۔ محمد بن سیرین رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ لوگوں میں (بیٹھے) تھے اور وہ قرآن پڑھ رہے تھے۔ آپ قضائے حاجت کے لیے گئے، پھر واپس آکر قرآن مجید پڑھنے لگے۔ ایک شخص نے کہا: اے امیر المومنین! آپ بغیر وضو کے تلاوت کر رہے ہیں؟ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اس (سے منع) کا فتویٰ کس نے دیا ہے۔ کیا مسیلمہ نے؟ (موطأ إمام مالک: 471 وسندہ منقطع، التاریخ الکبیر للبخاري 1/ 437 وسندہ صحیح) حافظ عبد المنان نور پوری رحمہ اللہ نے فرمایا: ’’جنبی اور حائضہ طاہر نہیں نتیجہ ظاہر ہے کہ دونوں قرآن مجید کو چھو نہیں سکتے جب چھو نہیں سکتے تو پکڑ بھی نہیں سکتے۔‘‘ (احکام و مسائل 1/ 97) فائدہ: آیت: ’’اسے کوئی ہاتھ نہیں لگاتا مگر جو بہت پاک کئے ہوئے ہیں‘‘ (الواقعۃ 79/56) سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ (اس) سے مراد فرشتے ہیں۔ (احکام القرآن للطحاوي 117/1، وسندہ صحیح) حافظ ابن القیم رحمہ اللہ نے فرمایا: میں نے شیخ الاسلام (ابن تیمیہ رحمہ اللہ) سے سنا: آپ اس آیت سے یہ استدلال کرتے تھے کہ ’’بے وضو شخص قرآن مجید نہ چھوئے۔ انھوں نے فرمایا: اس میں تنبیہ اور اشارہ ہے کہ جب قرآن آسمان پر تھا تو اسے مطہرون (فرشتے) ہی چھوتے تھے، اسی طرح (اب) وہ قرآن ہمارے پاس ہے تو اسے طاہر ہی چھوئے اور حدیث اس آیت سے مشتق ہے۔‘‘ (التبیان فی اقسام القرآن 1/ 402) تقریباً اسی مفہوم کی بحث علامہ ابو عبد اللہ الحسین بن حسن الحلیمی (متوفی 403ھ) نے المنہاج (228/2) میں کی ہے، نیزدیکھئے شعب الایمان للبیہقی (445/3) فضیلۃ الشیخ عبد الرحمن بن ناصر السعدی رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں: ’’یعنی قرآن کریم کو صرف ملائکہ ہی چھوتے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے تمام آفات، گناہوں اور عیوب سے پاک کیا ہے۔ جب قرآن کو پاک ہستیوں کے سوا کوئی نہیں چھوتا اور ناپاک اور شیاطین اس کو چھو نہیں سکتے تو آیت کریمہ تنبیہا ً اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ پاک شخص کے سوا کسی کے لیے قرآن کو چھونا جائز نہیں۔‘‘ (تفسیر السعدي 2693/3، طبع دارالسلام) اصل مضمون کے لئے دیکھئے ماہنامہ الحدیث حضرو (شمارہ 116 صفحہ نمبر 5 تا 8) |
ہماری موبائل ایپ انسٹال کریں۔ تحقیقی مضامین اور تحقیقی کتابوں کی موجودہ وقت میں ان شاء اللہ سب سے بہترین ایپ ہے، والحمدللہ۔
دیگر بلاگ پوسٹس:
Android App --or-- iPhone/iPad App
IshaatulHadith Hazro © 2024