قبر میں نبی کریم ﷺ کی حیات کا مسئلہتحریر: محدث العصر حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ |
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلَی رَسُوْلِہِ الْأَمِیْنِ، أَ مَّا بَعْدُ: 1: اس بات میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے کہ نبی کریم ﷺ دنیا کی زندگی گزار کر فوت ہو گئے ہیں۔ ارشاد ِباری تعالیٰ ہے: ﴿اِنَّکَ مَیِّتٌ وَّ اِنَّھُمْ مَّیِّتُوْنَ﴾ بے شک تم وفات پانے والے ہو اور یہ لوگ بھی مرنے والے ہیں۔ (الزمر: 30) سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
اس موقع پر سیدنا ابوبکر الصدیق رضی اللہ عنہ نے ﴿وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُوْلٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُلُ﴾ إلخ [آل عمران: 144] والی آیت تلاوت فرمائی تھی۔ ان سے یہ آیت سن کر (تمام) صحابہ کرام نے یہ آیت پڑھنی شروع کر دی۔ (البخاری: 1241، 1242) سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے بھی اسے تسلیم کر لیا۔ دیکھئے صحیح البخاری (4454) معلوم ہوا کہ اس پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کا اجماع ہے کہ نبی ﷺ فوت ہو گئے ہیں۔ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا:
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
آپ ﷺ نے دنیا کے بدلے میں آخرت کو اختیار کر لیا یعنی آپ ﷺ کی وفات کے بعد آپ کی زندگی اُخروی زندگی ہے جسے بعض علماء برزخی زندگی بھی کہتے ہیں۔ ایک روایت میں ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا ہی فرماتی ہیں:
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے ایک دوسری روایت میں ہے:
ان کے علاوہ اور بھی بہت سے دلائل ہیں۔ ان صحیح و متواتر دلائل سے معلوم ہوا کہ سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ فداہ ابی وامی و روحی، فوت ہوگئے ہیں۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اپنی نماز کے بارے میں فرماتے تھے:
ایک دوسری روایت میں ہے کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم ﷺ کے بارے میں فرمایا:
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ہی فرماتے ہیں:
ان ادلۂ قطعیہ کے مقابلے میں فرقۂ دیوبندیہ کے بانی محمد قاسم نانوتوی (متوفی 1297ھ) لکھتے ہیں:
تنبیہ: میر محمد کتب خانہ باغ کراچی کے مطبوعہ رسالے ’’جمال قاسمی‘‘ میں غلطی سے ’’ارواح‘‘کے بجائے ’’ازواج‘‘ چھپ گیا ہے۔ اس غلطی کی اصلاح کے لئے دیکھئے سرفراز خان صفدر دیوبندی کی کتاب ’’تسکین الصدور‘‘(ص 216) محمد حسین نیلوی مماتی دیوبندی کی کتاب ’’ندائے حق‘‘ (ج 1 ص 572 و ص 635) نانوتوی صاحب مزید لکھتے ہیں:
نانوتوی صاحب کے اس خود ساختہ نظریے کے بارے میں نیلوی دیوبندی صاحب لکھتے ہیں:
نیلوی صاحب مزید لکھتے ہیں:
لطیفہ: نانوتوی صاحب کی عباراتِ مذکورہ پر تبصرہ کرتے ہوئے محمد عباس رضوی بریلوی لکھتا ہے:
یعنی بقولِ رضوی بریلوی، احمد رضا خان بریلوی کا وفات النبی ﷺ کے با ر ے میں وہ عقیدہ نہیں جو محمد قاسم نانوتوی کا ہے۔! 2: اس میں کوئی شک نہیں کہ وفات کے بعد، نبی کریم ﷺ جنت میں زندہ ہیں۔ سیدناسمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ حدیث میں آیا ہے کہ فرشتوں (جبریل و میکائیل علیہما السلام) نے نبی کریم ﷺ سے فرمایا:
معلوم ہوا کہ آپ ﷺ دنیا کی عمر گزار کر جنت میں اپنے محل میں پہنچ گئے ہیں۔ شہداء کرام کے بارے میں پیارے رسول ﷺ فرماتے ہیں:
جب شہداء کرام کی روحیں جنت میں ہیں تو انبیاء کرام اُن سے بدرجہ ہا اعلیٰ جنت کے اعلیٰ و افضل ترین مقامات و محلات میں ہیں۔ شہداء کی یہ حیات جنتی، اُخروی وبرزخی ہے، اسی طرح انبیاء کرام کی یہ حیات جنتی، اُخروی و برزخی ہے۔ حافظ ذہبی (متوفی 748ھ) لکھتے ہیں:
حالانکہ اصحابِ کہف دنیاوی زندہ تھے جبکہ نبی کریم ﷺ پر بہ اعتراف حافظ ذہبی وفات آچکی ہے لہٰذا صحیح یہی ہے کہ آپ ﷺ کی زندگی ہر لحاظ سے جنتی زندگی ہے۔ یاد رہے کہ حافظ ذہبی بصراحتِ خود آپ ﷺ کے لئے دنیاوی زندگی کے عقیدے کے مخالف ہیں۔ حافظ ابن حجر العسقلانی لکھتے ہیں:
معلوم ہوا کہ نبی کریم ﷺ زندہ ہیں لیکن آپ کی زندگی اُخروی و برزخی ہے، دنیاوی نہیں ہے۔ اس کے برعکس علمائے دیوبند کا یہ عقیدہ ہے:
محمد قاسم نانوتوی صاحب لکھتے ہیں:
دیوبندیوں کا یہ عقیدہ سابقہ نصوص کے مخالف ہونے کی وجہ سے مردود ہے۔ سعودی عرب کے جلیل القدر شیخ صالح الفوزان لکھتے ہیں:
حافظ ابن قیم نے بھی ایسے لوگوں کی تردید کی ہے جو برزخی حیات کے بجائے دنیاوی حیات کا عقیدہ رکھتے ہیں۔ (النونیہ، فصل فی الکلام فی حیاۃ الأنبیاء فی قبورھم 2/ 154، 155) امام بیہقی رحمہ اللہ (برزخی) ردِ ارواح کے ذکر کے بعد لکھتے ہیں:
یہ عام صحیح العقیدہ آدمی کو بھی معلوم ہے کہ شہداء کی زندگی اُخروی وبرزخی ہے، دنیا وی نہیں ہے۔ عقیدہ حیات النبی ﷺ پر حیاتی ومماتی دیوبندیوں کی طرف سے بہت سی کتابیں لکھی گئی ہیں مثلاً مقامِ حیات، آبِ حیات، حیاتِ انبیاء کرام، ندائے حق اور اقامۃ البرھان علی ابطال وساوس ھدایۃ لحیران۔ وغیرہ اس سلسلے میں بہترین کتاب مشہور اہلِ حدیث عالم مولانا محمد اسماعیل سلفی رحمہ اللہ کی ’’مسئلہ حیاۃ النبی ﷺ ‘‘ ہے۔ 3: بعض لوگ کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ، اپنی قبر مبارک پر لوگوں کا پڑھا ہوا درود بنفسِ نفیس سنتے ہیں اور بطورِ دلیل ’’مَنْ صَلَّی عَلَیَّ عِنْدَ قَبْرِیْ سَمِعْتُہُ‘‘ والی روایت پیش کرتے ہیں۔ عرض ہے کہ یہ روایت ضعیف و مردود ہے۔ اس کی دو سندیں بیان کی جاتی ہیں:
اس کا راوی محمد بن مروان السدی: متروک الحدیث (یعنی سخت مجروح) ہے۔ (کتاب الضعفاء للنسائی: 538) اس پر شدید جروح کے لئے دیکھئے امام بخاری کی کتاب الضعفاء (350، مع تحقیقی: تحفۃ الاقویا ء ص 102) و دیگر کتب اسماء الرجال۔ حافظ ابن القیم نے اس روایت کی ایک اور سند بھی دریافت کر لی ہے۔
اس کا راوی عبدالرحمٰن بن احمد الاعرج غیر موثق (یعنی مجہول الحال) ہے۔ سلیمان بن مہران الاعمش مدلس ہیں۔ (طبقات المدلسین: 2/ 55 والتلخیص الحبیر 3/ 48 ح 1181 وصحیح ابن حبان، الاحسان طبعہ جدیدہ 1/ 161 وعام کتب اسماء الرجال) اگر کوئی کہے کہ حافظ ذہبی نے یہ لکھا ہے کہ اعمش کی ابو صالح سے معنعن روایت سماع پر محمول ہے۔ (دیکھئے میزان الاعتدال 2/ 224) تو عرض ہے کہ یہ قول صحیح نہیں ہے۔ امام احمد نے اعمش کی ابو صالح سے (معنعن) روایت پر جرح کی ہے۔ دیکھئے سنن الترمذی (207 بتحقیقی) اس مسئلے میں ہمارے شیخ ابو القاسم محب اللہ شاہ الراشدی رحمہ اللہ کو بھی وہم ہوا تھا۔ صحیح یہی ہے کہ اعمش طبقۂ ثالثہ کے مدلس ہیں اور غیر صحیحین میں اُن کی معنعن روایات، عدمِ تصریح وعدمِ متابعت کی صورت میں ضعیف ہیں لہٰذا ابو الشیخ والی یہ سند بھی ضعیف و مردود ہے۔ یہ روایت ’’مَنْ صَلَّی عَلَيَّ عِنْدَ قَبْرِيْ سَمِعْتُہُ‘‘ اس صحیح حدیث کے بھی خلاف ہے جس میں آیا ہے:
اس حدیث کو ابن حبان (موارد: 2392) وابن القیم (جلاء الافہام ص 60) وغیرہما نے صحیح قرار دیا ہے۔ خلاصۃ التحقیق: اس ساری تحقیق کا خلاصہ یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ فوت ہو گئے ہیں، وفات کے بعد آپ جنت میں زندہ ہیں۔ آپ کی یہ زندگی اُخروی ہے جسے برزخی زندگی بھی کہا جاتا ہے۔ یہ زندگی دنیا وی زندگی نہیں ہے۔ اصل مضمون کے لئے دیکھئے تحقیقی و علمی مقالات (جلد 1 صفحہ 19 تا 26) للشیخ حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ |
ہماری موبائل ایپ انسٹال کریں۔ تحقیقی مضامین اور تحقیقی کتابوں کی موجودہ وقت میں ان شاء اللہ سب سے بہترین ایپ ہے، والحمدللہ۔
دیگر بلاگ پوسٹس:
Android App --or-- iPhone/iPad App
IshaatulHadith Hazro © 2024