مقتدیوں کو صف میں کب کھڑا ہونا چاہیے؟تحریر: فضیلۃ الشیخ حافظ ندیم ظہیر حفظہ اللہ |
سوال: ہمارے یہاں بعض مساجد میں نماز کی جماعت کا وقت ہو جانے پر لوگ (مُقتدی) گھڑی دیکھ کر کھڑے ہو جاتے ہیں اور صف بندی کر لیتے ہیں، حالانکہ پچھلی صفوں میں امام مسجد پہلے ہی سے موجود ہوتا ہے، اُس کے بیٹھے ہوئے بھی لوگ اسی طرح کرتے ہیں اور کبھی کبھار امام مسجد ابھی مسجد کے مین ہال میں داخل نہیں ہوتا کہ لوگ صفیں بنا کر پیچھے مُڑ مُڑ کر اُس کا یعنی امام کا انتظار کرتے ہیں حتیٰ کہ بعض اوقات مزید انتظار کئے بغیر کوئی بھی شخص تکبیر (اقامت) کہہ دیتا ہے اور مقتدیوں میں سے کسی کو امام بنا یا جاتا ہے اور نماز شروع کر دی جاتی ہے، پھر تھوڑی دیر بعد امام مقتدی کی حیثیت میں شامل ہوتا ہے۔ کیا اس طرح کے معاملات صحیح ہیں کہ مقتدی جب چاہے امامت کے لیے کھڑا ہو جائے یا پھر شرعی حدود و قیود ہیں؟ الجواب: اس سلسلے میں راجح یہی ہے کہ مقتدی صفوں میں بیٹھ کر امام کا انتظار کریں اور اضطراب و بے چینی کا مظاہرہ نہ کریں۔ امام مسجد میں موجود ہو یا باہر سے تشریف لائے جب تک وہ اپنی جائے امامت کی طرف چل نہ دے مقتدیوں کو صف میں بیٹھے رہنا چاہیے۔ سیدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:
سیدنا ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
امام ترمذی رحمہ اللہ نے اس حدیث کے بعد فرمایا:
امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ اس حدیث پر یوں باب قائم کرتے ہیں:
امام بغوی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد فرمایا:
امام ابن المنذر رحمہ اللہ نے فرمایا:
ابو خالد الوالبی کا بیان ہے، سیدنا علی رضی اللہ عنہ ہماری طرف آئے اور اقامت کہہ دی گئی (جبکہ) ہم ان کے انتظار میں کھڑے تھے۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
مذکورہ بالا دلائل سے واضح ہو جاتا ہے کہ امام کے انتظار میں کھڑے رہنا درست نہیں اور نیکی کے امور میں اضطراب و بے چینی کسی مسلمان کو لائق نہیں ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم صفوں میں بیٹھ کر انتظار کیا کرتے تھے۔ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
جب مقتدی حضرات اذان اور اقامت کا درمیانی وقت ذکر و اذکار اور دعا کرنے میں گزاریں گے تو انھیں احساس ہی نہیں ہو گا کہ کب امام آیا اور اقامت کہہ دی گئی! اس پر عمل پیرا ہونے سے ہر قسم کی بے چینی اور اضطراب ختم ہو جائے گا۔ ان شاء اللہ مسئلے کا دوسرا پہلو: بعض احادیث میں امام دیکھنے سے پہلے صفیں بنانے کا ذکر بھی ہے۔ مثلاً سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
اس حدیث کی توضیح و توجیہ میں محدثین کے اقوال درج ذیل ہیں: 1- امام ابن کثیر رحمہ اللہ نے فرمایا:
2- بعض علماء کے نزدیک یہ عمل حدیث: ((فَلاَ تَقُوْمُوْا حَتَّی تَرَوْنِيْ)) سے پہلے کا ہے۔ 3- حافظ ابن حجر العسقلانی رحمہ اللہ نے فرمایا:
ان تصریحات سے خوب واضح ہو جاتا ہے کہ اب حدیثِ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے بجائے حدیث ابو قتادہ رضی اللہ عنہ پر عمل کیا جائے گا۔ اگر کسی بشری تقاضے کی وجہ سے امام کے آنے میں کچھ تاخیر ہو تو فوراً کسی دوسرے کو امامت کے لیے کھڑا کرنا جائز نہیں بلکہ اس کا انتظار کرنا چاہیے، جیسا کہ گزر چکا ہے کہ صحابہ کرام، نبی کریم ﷺ کا انتظار کرتے تھے۔ اگر زیادہ دیر ہو جائے یا کنفرم ہو جائے کہ امام صاحب نہیں پہنچ سکتے تو نائب وغیرہ نماز پڑھا سکتے ہیں۔ امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ نے فرمایا:
……………… اصل مضمون ……………… اصل مضمون کے لئے دیکھئے ماہنامہ الحدیث حضرو (شمارہ 119 صفحہ 11 تا 14) للشیخ حافظ ندیم ظہیر حفظہ اللہ |
ہماری موبائل ایپ انسٹال کریں۔ تحقیقی مضامین اور تحقیقی کتابوں کی موجودہ وقت میں ان شاء اللہ سب سے بہترین ایپ ہے، والحمدللہ۔
دیگر بلاگ پوسٹس:
Android App --or-- iPhone/iPad App
IshaatulHadith Hazro © 2024