مومن اور منافق میں فرق |
ترجمہ، تحقیق وتخریج: حافظ معاذ بن زبیر علی زئی حفظہ اللہ امام حسن بصری رحمہ اللہ (متوفی 110ھ) نے فرمایا: بے شک لوگوں کے تین گروہ ہیں: مومن، منافق اور کافر۔ جو مومن ہے وہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے لئے عمل کرتا ہے۔ اور جو کافر ہے تو یقیناً اللہ تعالیٰ نے اسے ذلیل کیا ہے جیسا کہ تم نے دیکھا۔ اور جو منافق ہے تو وہ یہاں بھی ہے اور وہاں بھی ہے، غاروں کے اندر، گھروں کے اندر اور راستوں پر (یعنی ہر جگہ پر)۔ ہم اللہ سے پناہ طلب کرتے ہیں۔ اللہ کی قسم! انھوں نے اپنے رب کو نہیں پہچانا، بلکہ انھوں نے اپنے خبیث اعمال کے ذریعے اپنے رب کا انکار کرنا پہچانا ہے۔ سختی ظاہر ہو چکی اور علم کم ہو چکا اور سنت کو چھوڑ دیا گیا۔ إنا لله وإنا إليه راجعون۔ وہ بہکے ہوئے پھر رہے ہیں (حیران وپریشان اور مدہوش ہیں)، نشے میں ہیں، لیکن وہ یہود ونصاری اور مجوسی نہیں ہیں کہ انھیں تعذیراً سزا دی جائے۔ اور فرمایا: بے شک مومن اپنا دین لوگوں سے نہیں لیتا بلکہ وہ (دین) اس کے پاس اللہ کی طرف سے آتا ہے اور وہ اس کو لے لیتا ہے۔ اور بے شک منافق لوگوں کو اپنی زبان دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ اس کے دل اور اس کے عمل کو روک لیتا ہے۔ تو دو چیزیں اسلام میں گھڑی گئیں۔ ایک آدمی جو بُری سوچ والا ہے، یہ سمجھتا ہے کہ جنت اُسی کے لئے ہے جو اُس کی رائے جیسی رائے رکھتا ہے۔ چنانچہ اس نے اپنی تلوار تان لی، اور اس نے مسلمانوں کا خون بہایا اور ان کی حرمت کو حلال کیا۔ اور عیاش (شخص) دنیا کے لئے ہی عبادت کرتا ہے، دنیا کے لئے ہی ناراض ہوتا ہے، دنیا کے لئے ہی وہ لڑتا ہے، اور دنیا کی ہی تلاش میں لگا رہتا ہے۔ اور فرمایا: اللہ کی شان ہے کہ یہ اُمت اپنی سختی کے ساتھ کسی ایسے منافق کو نہیں ملی، کہ جس نے اس اُمت پر غلبہ پایا ہو، اور نہ ہی کسی ایسے مرتد شخص کو، جو دین سے نکلا ہو، پھر اس نے اس اُمت کے خلاف خروج کیا ہو۔ دو خبیث بُری صنفیں ہیں جنھوں نے ہر مسلمان کو غمزدہ کیا ہوا ہے۔ اے ابن آدم! تیرا دین تیرا ہی دین ہے (یعنی اپنے دین پر قائم رہ!)، کیونکہ وہ تیرا گوشت اور تیرا خون ہے۔ اگر تُو اسے تسلیم کر لے تو اس سے تجھے کس قدر راحت اور کس قدر برکت ملے گی۔ اور اگر دوسری چیز ہو (یعنی اگر لا دینیت ہو) تو ہم اللہ کی پناہ طلب کرتے ہیں۔ پھر یہ دنیا ایک نہ بجھنے والی آگ اور نہ ٹھنڈا ہونے والا پتھر (گرمی) ہے اور ایک جان ہے جس کو موت نہیں آتی۔ (صفۃ المنافق للفریابی: 57، نسخہ اخری: 49، سندہ صحیح) ……… اصل عبارت: ……… إنما الناس بين ثلاثة نفر: مؤمن ومنافق وكافر۔ فأما المؤمن فعامل بطاعة الله عز وجل۔ وأما الكافر فقد أذله الله تعالى كما رأيتم۔ وأما المنافق فههنا وههنا في الحجر والبيوت والطرق، نعوذ بالله۔ والله ما عرفوا ربهم، بل عرفوا إنكارهم لربهم بأعمالهم الخبيثة۔ ظهر الجفا وقل العلم وتركت السنة۔ إنا لله وإنا إليه راجعون۔ حيارى سكارى ليسوا بيهود ولا نصارى ولا مجوس فيعذروا۔ وقال: إن المؤمن لم يأخذ دينه عن الناس ولكن أتاه من قبل الله عز وجل فأخذه۔ وإن المنافق أعطى الناس لسانه ومنع الله قلبه وعمله۔ فحدثان أحدثا في الإسلام: رجل ذو رأي سوء زعم أن الجنة لمن رأى مثل رأيه۔ فسل سيفه وسفك دماء المسلمين واستحل حرمتهم۔ ومترف يعبد الدنيا لها يغضب وعليها يقاتل ولها يطلب۔ وقال: يا سبحان الله! ما لقيت هذه الأمة من منافق قهرها واستأثر عليها، ومارق مرق من الدين فخرج عليها۔ صنفان خبيثان قد غما كل مسلم۔ يا ابن آدم! دينك دينك فإنما هو لحمك ودمك۔ فإن تسلم بها فيالها من راحة ويا لها من نعمة۔ وإن تكن الأخرى فنعوذ بالله فإنما هي نار لا تطفأ وحجر لا يبرد ونفس لا تموت۔ ……… نوٹ ……… اس مضمون کی نظر ثانی پیارے بھائی اور دوست قاری اُسامہ نذیر حفظہ اللہ نے کی ہے، جزاہم اللہ احسن الجزاء۔ یہ مضمون ’’اشاعۃ الحدیث‘‘ موبائل ایپ پر شیئر کیا گیا ہے، اور اس سے پہلے کہیں شائع نہیں ہوا۔ |
ہماری موبائل ایپ انسٹال کریں۔ تحقیقی مضامین اور تحقیقی کتابوں کی موجودہ وقت میں ان شاء اللہ سب سے بہترین ایپ ہے، والحمدللہ۔
دیگر بلاگ پوسٹس:
Android App --or-- iPhone/iPad App
IshaatulHadith Hazro © 2024