محرم الحرام کے دو روزے (9-10)تحریر: فضیلۃ الشیخ حافظ ندیم ظہیر حفظہ اللہ |
الحمد للّٰہ رب العٰلمین والصلوٰ والسلام علٰی رسولہ الأمین، أما بعد: سیّدنا ابوقتادہ انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
سیّدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
جمہور کے نزدیک یوم عاشوراء سے مراد ماہ محرم کا دسواں دن ہے۔ دیکھئے شرح صحیح مسلم للنووی (12/8) سیّدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
ابتدائے اسلام میں یوم عاشوراء کا روزہ فرضیت کا درجہ رکھتا تھا، لیکن جب رمضان کے روزے فرض ہوئے تو عاشوراء کی فرضیت ساقط ہوگئی تاہم فضیلت برقرار ہے۔ یہودیوں کی مخالفت…… مگر کیسے؟رسول اللہ ﷺ نے یوم عاشوراء کا روزہ رکھا اور اس کے رکھنے کا حکم دیا (تو صحابہ کرام نے) عرض کیا: اے اللہ کے رسول! یہ یہود و نصاریٰ کی تعظیم و تکریم کا دن ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
قارئین کرام! اس سلسلے میں تقریباً تین موقف معروف ہیں، ہم ترتیب وار ان تینوں کو مع دلائل نقل کریں گے، پھر راجح موقف بھی واضح کریں گے۔ ان شاء اللہ پہلا موقف:
درج بالا حدیث بھی اسی پر دال ہے، نیز اس حدیث کے راوی عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے جب عاشوراء کے روزے سے متعلق پوچھا گیا تو انھوں نے فرمایا:
یہ موقف رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ مرفوع حدیث اور صحابی کے قول سے یہ تعین ہوجاتا ہے کہ روزہ صرف 9 محرم کا رکھا جائے گا اور اس سے یہود کی مخالفت بھی ہوجائے گی۔ دوسرا موقف:
ان کی دلیل درج ذیل ہے:
لیکن یہ روایت داود بن علی کی وجہ سے ضعیف ہے، لہٰذا اس روایت سے 10 اور 11 محرم کو روزہ رکھنے کا استدلال درست نہیں، تاہم 9 اور 10 کی وضاحت تیسرے موقف میں آرہی ہے۔ تیسرا موقف:
ان کے دلائل درج ذیل ہیں: دلیل نمبر 1: سیّدنا جابر بن سمرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
حسن بصری رحمہ اللہ نے فرمایا:
اور جمہور کے نزدیک بھی یہی مسلّم ہے، جیسا کہ گزر چکا ہے۔ جب یہ واضح ہوگیا کہ عاشوراء 10 محرم ہے تو درج بالا حدیث سے یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ نبی کریم ﷺ نے دس محرم، یعنی یوم عاشوراء کے روزے سے کبھی منع نہیں فرمایا، لہٰذا اس کی ممانعت پر محض عدم سے استدلال درست نہیں ہے۔ اگر کوئی کہے کہ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے 9 محرم کو بھی عاشوراء قرار دیا ہے تو یہ صرف عاشوراء (دس محرم) سے نسبت کی بنا پر کہا ہے، کیونکہ وہ 9 اور 10 محرم کے روزے کے قائل ہیں، جیسا کہ آگے آرہا ہے۔ دلیل نمبر 2: سیّدنا معاویہ رضی اللہ عنہ (اپنے دورِ خلافت میں) مدینہ آئے تو انھوں نے عاشوراء کے دن خطبہ دیا، پھر فرمایا:
سیّدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کا نبی کریم ﷺ کی وفات کے بعد عاشوراء کے روزے سے متعلق لوگوں کو آگاہ کرنا، اس امر کی دلیل ہے کہ عہد صحابہ میں بھی دس محرم کا روزہ مشروع تھا اور یہ معلوم ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے عاشوراء (دس محرم ہی) کو روزہ رکھا تھا۔ دلیل نمبر 3: یوم عاشوراء کے روزے سے متعلق سیّدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
سیّدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے فتویٰ سے درج ذیل امور کا پتا چلتا ہے: 1: آپ کے نزدیک عاشوراء صرف 9 محرم نہیں بلکہ 9 اور 10 ہے اور اس کی وجہ تسمیہ ہم بیان کرچکے ہیں۔ 2: دس (10) محرم کا روزہ مشروع و مسنون ہے۔ 3: یہود کی مخالفت کرنے کی غرض سے 9 محرم کا روزہ بھی مشروع ہے۔ 4: عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی بعض روایات میں اور آپ کے اپنے ایک قول میں صرف 9 محرم کا ذکر ہے، جبکہ درج بالا قول میں 9 اور 10 دونوں کا ذکر ہے، لہٰذا اسی قول پر فتویٰ و عمل ہوگا، کیونکہ عدم ذکر نفی ذکر کو مستلزم نہیں اور عدم ذکر سے استدلال اہل علم کو لائق نہیں ہے۔ دلیل نمبر 4: سیّدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے ہی روایت ہے:
اس حدیث سے جہاں یہ معلوم ہوا کہ یوم عاشورا، دس محرم ہے وہاں یوم عاشوراء کے روزے کی فضیلت و اہمیت بھی واضح ہے۔ قارئین کرام! فہم سلف صالحین کی روشنی میں ہمارے نزدیک یہی راجح ہے کہ 9 اور 10 محرم کا روزہ رکھا جائے۔ اصل مضمون کے لئے دیکھئے ماہنامہ الحدیث حضرو شمارہ 123 صفحہ 26 تا 30 |
ہماری موبائل ایپ انسٹال کریں۔ تحقیقی مضامین اور تحقیقی کتابوں کی موجودہ وقت میں ان شاء اللہ سب سے بہترین ایپ ہے، والحمدللہ۔
دیگر بلاگ پوسٹس:
Android App --or-- iPhone/iPad App
IshaatulHadith Hazro © 2024