اُصولِ حدیث کا مشہور و معروف مسئلہ ہے کہ مدلس راوی (یعنی جس کا مدلس ہونا ثابت ہو) کی عن والی روایت ناقابل حجت یعنی ضعیف ہوتی ہے۔ اس سلسلے میں محدثین کرام، علمائے حدیث اور دیگر علماء کے چالیس (40) حوالے مع ثبوت پیشِ خدمت ہیں: حوالہ نمبر 1: امام ابو عبداللہ محمد بن ادریس الشافعی رحمہ اللہ (متوفی 204ھ) نے فرمایا: ’’فقلنا: لا نقبل من مدلّس حدیثًا حتی یقول فیہ: حدثني أو سمعت‘‘ پس ہم نے کہا: ہم کسی مدلس سے کوئی حدیث قبول نہیں کرتے، حتی کہ وہ حدثنی یا سمعت کہے/ یعنی سماع کی تصریح کرے۔ (کتاب الرسالہ طبع المطبعۃ الکبری الامیریہ ببولاق 1321ھ ص 53، بتحقیق احمد شاکر: 1035) کتاب الرسالہ اصولِ فقہ اور اصولِ حدیث بلکہ اصولِ دین کی قدیم اور عظیم الشان کتابوں میں سے ہے اور متعدد علماء نے اس کی شروح لکھی ہیں۔ حوالہ نمبر 2: امام عبدالرحمٰن بن مہدی رحمہ اللہ (متوفی 198ھ) کتاب الرسالہ کو پسند کرتے تھے۔ دیکھئے الطیوریات (ج2 ص 761 ح 681 وسندہ صحیح) ثابت ہوا کہ عبدالرحمٰن بن مہدی کے نزدیک بھی مدلس کی عن والی روایت قابل قبول نہیں ہے۔ حوالہ نمبر 3: امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ (متوفی 241ھ) کتاب الرسالہ سے راضی تھے۔ دیکھئے کتاب الجرح والتعدیل (7/ 204 وسندہ صحیح، امام شافعی اور مسئلۂ تدلیس، فقرہ: 2) اور فرماتے تھے کہ یہ اُن کی سب سے اچھی کتابوں میں سے ہے۔ (تاریخ دمشق لابن عساکر 54/ 291 وسندہ صحیح) حوالہ نمبر 4: امام اسحاق بن راہویہ رحمہ اللہ (متوفی 238ھ) بھی کتاب الرسالہ سے متفق تھے۔ دیکھئے فقرہ: 3، اور ’’امام شافعی رحمہ اللہ اور مسئلۂ تدلیس‘‘ حوالہ نمبر 5: امام اسماعیل بن یحییٰ المزنی رحمہ اللہ (متوفی 264ھ) بھی کتاب الرسالہ کے مؤیّد تھے۔ (مقدمۃ الرسالہ ص 73 روایۃ ابن الاکفانی: 54 وسندہ حسن) حوالہ نمبر 6: مشہور محدّث ابو بکر البیہقی رحمہ اللہ (متوفی 458ھ) نے امام شافعی کا مذکورہ کلام (فقرہ: 1) نقل کیا اور اس پر سکوت کے ذریعے سے اس کی تائید فرمائی۔ دیکھئے معرفۃ السنن والآثار (1/ 76) اور النکت للزرکشی (ص 191) حوالہ نمبر 7: صحیح مسلم کے مصنف امام مسلم رحمہ اللہ (متوفی 261ھ) نے فرمایا: ’’و إنما کان تفقد من تفقد منھم سماع رواۃ الحدیث ممن روی عنھم- إذا کان الراوي ممن عرف بالتدلیس فی الحدیث و شھر بہ فحینئذ یبحثون عن سماعہ في روایتہ و یتفقدون ذلک منہ، کي تنزاح عنھم علۃ التدلیس‘‘ جس نے بھی راویانِ حدیث کا سماع تلاش کیا ہے تو اس نے اس وقت تلاش کیا ہے جب راوی حدیث میں تدلیس کے ساتھ معروف (معلوم) ہو اور اس کے ساتھ مشہور ہو تو اس وقت روایت میں اس کا سماع دیکھتے ہیں اور تلاش کرتے ہیں تاکہ راویوں سے تدلیس کا ضعف دور ہو جائے۔ (مقدمہ صحیح مسلم طبع دارالسلام ص 22ب) اس عبارت کی تشریح میں ابن رجب حنبلی نے لکھا ہے: ’’و ھذا یحتمل أن یرید بہ کثرۃ التدلیس في حدیثہ ویحتمل أن یرید [بہ] ثبوت ذلک عنہ و صحتہ فیکون کقول الشافعي‘‘ اور اس میں احتمال ہے کہ اس سے حدیث میں کثرتِ تدلیس مراد ہو، اور (یہ بھی) احتمال ہے کہ اس سے تدلیس کا ثبوت مراد ہو، تو یہ شافعی کے قول کی طرح ہے۔ (شرح علل الترمذی ج1ص 354) عرض ہے کہ اس سے دونوں مراد ہیں یعنی اگر راوی کثیر التدلیس ہو تو بھی اس کی معنعن روایت (اپنی شروط کے ساتھ) ضعیف ہوتی ہے، اور اگر راوی سے (ایک دفعہ ہی) تدلیس ثابت ہو جائے تو پھر بھی اس کی معنعن روایت (اپنی شروط کے ساتھ) ضعیف ہوتی ہے۔ ثابت ہوا کہ امام مسلم کے نزدیک مدلس کی معنعن (عن والی) روایت حجت نہیں ہے۔ حوالہ نمبر 8: خطیب بغدادی رحمہ اللہ (متوفی 463ھ) نے فرمایا: ’’و قال آخرون: خبر المدلس لا یقبل إلا أن یوردہ علٰی وجہ مبین غیر محتمل لإیھام فإن أوردہ علٰی ذلک قُبِلَ، و ھذا ھو الصحیح عندنا‘‘ اور دوسروں نے کہا: مدلس کی خبر (روایت) مقبول نہیں ہوتی اِلا یہ کہ وہ وہم کے احتمال کے بغیر صریح طور پر تصریح بالسماع کے ساتھ بیان کرے، اگر وہ ایسا کرے تو اس کی روایت مقبول ہے اور ہمارے نزدیک یہی بات صحیح ہے۔ (الکفایہ فی علم الروایہ ص 361) الکفایہ اصولِ حدیث کی مشہور اور مستند کتابوں میں سے ہے۔ حوالہ نمبر 9: حافظ ابن حبان البستی رحمہ اللہ (متوفی 354ھ) نے فرمایا: ’’فما لم یقل المدلّس و إن کان ثقۃ: حدثني أو سمعت فلا یجوز الإحتجاج بخبرہ، و ھذا أصل أبي عبد اللہ محمد بن إدریس الشافعي - رحمہ اللہ - و من تبعہ من شیوخنا‘‘ پس جب تک مدلس، اگرچہ ثقہ ہو، حدثنی یا سمعت نہ کہے (یعنی سماع کی تصریح نہ کرے) تو اس کی روایت سے حجت پکڑنا جائز نہیں ہے اور یہ ابو عبداللہ محمد بن ادریس الشافعی رحمہ اللہ کی اصل (بنیادی اصول) ہے اور ہمارے اساتذہ کا اصول ہے جنھوں نے اس میں اُن کی اتباع (یعنی موافقت) کی ہے۔ (کتاب المجروحین ج1ص 92، دوسرا نسخہ ج1ص 86) نیز دیکھئے صحیح ابن حبان (الاحسان 1/ 161، دوسرا نسخہ 1/ 90) حافظ ابن حبان نے مزید فرمایا: ’’فإن المدلس ما لم یبین سماع خبرہ عمن کتب عنہ لا یجوز الإحتجاج بذلک الخبر، لأنہ لا یدری لعلہ سمعہ من إنسان ضعیف یبطل الخبر بذکرہ إذا وقف علیہ و عرف الخبر بہ، فما لم یقل المدلس في خبرہ و إن کان ثقۃ: سمعت أو حدثني،فلا یجوز الإحتجاج بخبرہ‘‘ پس مدلس جب تک اپنے استاذ سے سماع کی تصریح نہ کرے تو اس کی اس روایت سے حجت پکڑنا جائز نہیں ہے، کیونکہ یہ پتا نہیں کہ شاید اس نے کسی ضعیف انسان سے سنا ہو، جس کے معلوم ہو جانے سے خبر (روایت) باطل ہو جاتی ہے۔ پس مدلس اگرچہ ثقہ ہو اپنی روایت میں سمعت یا حدثنی نہ کہے تو اس کی روایت سے حجت پکڑنا جائز نہیں ہے۔ (کتاب الثقات ج1ص 12) حوالہ نمبر 10: حافظ ابن الصلاح الشہرزوری الشافعی (متوفی 643ھ) نے کہا: ’’والحکم بأنہ لا یقبل من المدلّس حتی یبین، قد أجراہ الشافعي رضي اللہ عنہ فیمن عرفناہ دلّس مرۃ۔ واللہ أعلم‘‘ ’’اور حکم (فیصلہ) یہ ہے کہ مدلس کی روایت تصریحِ سماع کے بغیر قبول نہ کی جائے، اسے شافعی رضی اللہ عنہ نے اس شخص کے بارے میں جاری فرمایا ہے جس نے ہماری معلومات کے مطابق صرف ایک دفعہ تدلیس کی ہے۔ واللہ اعلم‘‘ (مقدمۃ ابن الصلاح مع التقیید والایضاح للعراقی ص 99، دوسرا نسخہ ص 161) مقدمہ ابن الصلاح یا علوم الحدیث (معرفۃ انواع علم الحدیث) اُصولِ حدیث کی مشہور و معروف کتاب ہے اور اسے تلقی بالقبول حاصل ہے۔مثلاً دیکھئے ارشاد طلاب الحقائق للنووی (1/ 108) المنھل الروی لابن جماعہ (ص 26) اختصار علوم الحدیث لابن کثیر (1/ 95۔96) اور التقیید والایضاح (ص 11) نزھۃ النظر لابن حجر (ص 5۔6) اور البحر الذی زخر للسیوطی (1/ 235) وغیرہ۔ حوالہ نمبر 11: علامہ یحییٰ بن شرف النووی (متوفی 677ھ) نے فرمایا: ’’فما رواہ بلفظ محتمل لم یبین فیہ السماع فمرسل ۔۔۔ و ھذا الحکم جار فیمن دلّس مرۃ‘‘ پس وہ (مدلس راوی) ایسے لفظ سے روایت بیان کرے جس میں احتمال ہو، سماع کی تصریح نہ ہو تو وہ مرسل ہے۔۔۔ اور یہ حکم اس کے بارے میں جاری ہے جو ایک دفعہ تدلیس کرے۔ (التقریب للنووی فی اصول الحدیث ص 9 نوع 12، تدریب الراوی للسیوطی 1/ 229۔230) مرسل کے بارے میں نووی نے کہا: ’’ثم المرسل حدیث ضعیف عند جماھیر المحدثین ۔۔۔‘‘ پھر (یہ کہ) مرسل ضعیف حدیث ہے، جمہور محدثین کے نزدیک ۔۔۔ (التقریب للنووی ص 7 نوع 9) حوالہ نمبر 12: حافظ ابن عبدالبر (متوفی 463ھ) نے فرمایا: ’’و کذلک من عرف بالتدلیس المجتمع علیہ و کان من المسامحین فی الأخذ عن کل أحد، لم یحتج بشئ مما رواہ حتی یقول: أخبرنا أو سمعت‘‘ اور اسی طرح جو شخص اس تدلیس کے ساتھ معلوم ہو جائے، جس پر اجماع ہے (کہ وہ تدلیس ہے) اور وہ ان نرمی کرنے والوں میں سے ہو جو ہر ایک سے روایت لے لیتے ہیں، اس نے جو بھی روایت بیان کی اس میں سے کسی کے ساتھ بھی حجت نہیں پکڑی جائے گی اِلا یہ کہ وہ اخبرنا یا سمعت کہے یعنی سماع کی تصریح کرے۔ (التمہید لما فی الموطأ من المعانی والاسانید 1/ 17) اس سے ثابت ہوا کہ ضعیف راوی سے روایت کرنے والے مدلس کی غیر مصرح بالسماع (عن والی) روایت حافظ ابن عبدالبر کے نزدیک حجت نہیں یعنی ضعیف ہے۔ ہمارے علم کے مطابق تمام ثابت شدہ مدلسین میں سے کوئی ایک مدلس بھی ایسا نہیں جو ضعیف راوی سے روایت بیان نہیں کرتا تھا۔ تنبیہ: حافظ ابن حبان وغیرہ کا یہ دعویٰ کہ ’’سفیان بن عیینہ صرف ثقہ سے تدلیس کرتے تھے‘‘ کئی وجہ سے غلط ہے۔مثلاً: -
یہ قاعدہ کلیہ نہیں بلکہ بعض اوقات سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ غیر ثقہ سے بھی تدلیس کرلیتے تھے۔ -
سفیان بن عیینہ جن ثقہ راویوں سے تدلیس کرتے تھے، ان میں سے بعض بذاتِ خود مدلس تھے اور اُن کا صرف ثقہ سے تدلیس کرنے کا کوئی ثبوت نہیں، لہٰذا یہاں تدلیس پر تدلیس کا شبہ ہے۔ -
سفیان بن عیینہ ضعیف راویوں سے بھی روایتیں بیان کرتے تھے،مثلاً اُن کے اساتذہ میں علی بن زید بن جدعان (ضعیف راوی) بھی ہے۔ حافظ ابن عبدالبر نے مزید فرمایا: ’’إلا أن یکون الرجل معروفًا بالتدلیس فلا یقبل حدیثہ حتی یقول: حدثنا أو سمعت، فھذا لا أعلم فیہ أیضًا خلافًا‘‘ سوائے اس کے کہ (اگر) آدمی تدلیس کے ساتھ مشہور ہو تو اس کی حدیث قبول نہیں کی جاتی اِلا یہ کہ وہ حدثنا یا سمعت کہے (یعنی سماع کی تصریح کرے) اس کے بارے میں مجھے کوئی اختلاف معلوم نہیں ہے۔ (التمہید 1/ 13) حافظ ابن عبدالبر نے معنعن (عن والی) روایت کے مقبول ہونے کی تین شرطیں بیان فرمائی ہیں، جن پر اجماع ہے۔ -
تمام راوی عادل یعنی ثقہ وضابط ہوں۔ -
ہر راوی کی اپنے استاذ سے ملاقات ثابت ہو۔ -
تمام راوی تدلیس سے بری ہوں۔ (دیکھئے التمہید 1/ 12) حوالہ نمبر 13: ابو بکر الصیرفی (متوفی 330ھ) نے کتاب الرسالہ للشافعی کی شرح کتاب الدلائل والاعلام میں فرمایا: ’’کل من ظھر تدلیسہ عن غیر الثقات لم یقبل خبرہ حتی یقول: حدثني أو سمعت‘‘ ہر وہ شخص جس کی تدلیس غیر ثقہ راویوں سے ظاہر ہوجائے تو اس کی روایت قبول نہیں کی جاتی، اِلا یہ کہ وہ حدثنی یا سمعت کہے / یعنی سماع کی تصریح کرے۔ (النکت علیٰ مقدمۃ ابن الصلاح للزرکشی ص184) نیز دیکھئے امام شافعی رحمہ اللہ اور مسئلۂ تدلیس (ص 11۔12) حوالہ نمبر 14: حافظ ذہبی نے معنعن روایت (جس میں عن عن ہو) کے بارے میں فرمایا: ’’ثم بتقدیر تیقن اللقاء یشترط أن لایکون الراوي عن شیخہ مدلّسًا فإن لم یکن حملناہ علی الاتصال۔ فإن کان مدلسًا فالأظھر أنہ لا یحمل علی السماع۔ ثم إن کان المدلس عن شیخہ ذا تدلیس عن الثقات فلا بأس وإن کان ذا تدلیس عن الضعفاء فمردود۔‘‘ پھر اگر ملاقات کا یقین ہو تو اس حالت میں شرط یہ ہے کہ راوی اپنے استاذ سے مدلّس (تدلیس کرنے والا) نہ ہو، پس اگر وہ نہ ہو تو ہم اسے (عن والی روایت کو) اتصال پر محمول کرتے ہیں۔ پس اگر وہ مدلس ہو تو ظاہر یہی ہے کہ وہ سماع پر محمول نہیں ہے۔ پھر اگر اپنے استاذ سے مدلس ایسا ہو جو ثقہ راویوں سے تدلیس کرتا تھا تو کوئی حرج نہیں اور اگر وہ ضعیف راویوں سے تدلیس کرتا تھا تو (اس کی عن والی روایت) مردود ہے۔ (الموقظۃ للذہبی مع کفایۃ الحفظہ لسلیم بن عید الہلالی ص199، بتحقیق حاتم بن عارف العوفی ص132، نسخہ ابی غدہ عبد الفتاح ص45) یہاں بطورِ فائدہ عرض ہے کہ ثقہ راویوں سے تدلیس کرنے والوں کی مثال (دنیائے تدلیس میں) صرف سفیان بن عیینہ ہیں اور اُن کی معنعن روایت بھی دو وجہ سے ضعیف ہے، جیسا کہ فقرہ نمبر 12 میں بیان کر دیا گیا ہے۔ حافظ ذہبی کے درج بالا بیان سے یہ صاف ظاہر ہے کہ اُن کے نزدیک سفیان بن عیینہ کے علاوہ تمام مدلسین مثلاً سفیان ثوری اور سلیمان الاعمش وغیرہما کی عن والی روایات سے (اپنی شرائط کے ساتھ) ضعیف و مردود ہیں۔ حوالہ نمبر 15: حافظ ابن حجر العسقلانی نے فرمایا: ’’وحکم من ثبت عنہ التدلیس إذا کان عدلاً، أن لا یقبل منہ إلا ماصرح فیہ بالتحد یث علی الأصح‘‘ صحیح ترین بات یہ ہے کہ جس راوی سے تدلیس ثابت ہو جائے، اگرچہ وہ عادل (ثقہ) ہو تو اُس کی صرف وہی روایت مقبول ہوتی ہے جس میں وہ سماع کی تصریح کرے۔ (نزھۃ النظر شرح نخبۃ الفکر ص 66، ومع شرح الملاعلی القادری ص 419) حوالہ نمبر 16: امام بخاری رحمہ اللہ نے ایک روایت پر کلام کرتے ہوئے فرمایا: ’’ولم یذکر قتادۃ سماعًا من أبي نضرۃ في ھذا۔‘‘ اور قتادہ نے ابو نضرہ سے اس روایت میں اپنے سماع کا ذکر نہیں کیا۔ (جزء القراءۃ: 104) معلوم ہوا کہ امام بخاری کے نزدیک مدلس کا سماع کی تصریح نہ کرنا صحتِ حدیث کے منافی ہے۔ حوالہ نمبر 17: امام شعبہ رحمہ اللہ (متوفی 160ھ) نے اپنے مدلس استاد قتادہ رحمہ اللہ کے بارے میں فرمایا: میں قتادہ کے منہ کو دیکھتا رہتا، جب آپ کہتے: میں نے سنا ہے یا فلاں نے ہمیں حدیث بیان کی، تو میں اسے یاد کر لیتا اور جب وہ کہتے: فلاں نے حدیث بیان کی، تو میں اسے چھوڑ دیتا تھا۔ (تقدمۃ الجرح والتعدیل ص169، وسندہ صحیح) اس سے معلوم ہوا کہ امام شعبہ رحمہ اللہ بھی مدلس کی سماع کے بغیر والی روایت حجت نہیں سمجھتے تھے۔ نیز دیکھئے میری کتاب: علمی مقالات (ج1ص 261۔262) حوالہ نمبر 18: امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ (متوفی 311ھ) نے ایک روایت پر جرح کرتے ہوئے اسے معلول (یعنی ضعیف) قرار دیا اور فرمایا: دوسری بات یہ ہے کہ اعمش مدلس ہیں (اور) انھوں نے حبیب بن ابی ثابت سے اپنے سماع (سننے) کا ذکر نہیں کیا۔إلخ (کتاب التوحید ص 38، علمی مقالات ج3ص 220) اس سے ثابت ہوا کہ امام ابن خزیمہ بھی مدلس کی عن والی روایت کو معلول یعنی ضعیف سمجھتے تھے۔ حوالہ نمبر 19: حافظ ابن الملقن (متوفی 804 ھ) نے بھی تدلیس کے بارے میں حافظ ابن الصلاح کے حکم کو برقرار رکھا اور کوئی مخالفت نہیں کی۔ دیکھئے المقنع فی علوم الحدیث (1/ 158) اور فقرہ: 10 حوالہ نمبر 20: حافظ ابن کثیر (متوفی 774ھ) نے تدلیس کے بارے میں امام شافعی کا قول نقل کیا اور اس کی کوئی مخالفت نہیں کی۔ دیکھئے اختصار علوم الحدیث (1/ 174، نوع 12) حوالہ نمبر 21: حافظ العراقی (متوفی 806ھ) نے ابن الصلاح کا قول: ’’مالم یبین فیہ المدلس الاتصال حکمہ حکم المرسل‘‘ ذکر کیا اور اس پر کوئی رد نہیں کیا۔ دیکھئے التقیید والایضاح (ص 99) اور عراقی نے فرمایا: ’’و صححوا وصل معنعن سلم من دلسۃ راویہ واللقا علم‘‘ اور انھوں (محدثین) نے اس معنعن روایت کو موصول صحیح قرار دیا، جوراوی کی تدلیس (عن) سے محفوظ ہو (اور استاذ شاگرد کی) ملاقات معلوم ہو۔ (الفیۃ العراقی شعر 136، فتح المغیث شرح الفیۃ الحدیث 1/ 163) عراقی نے مزید فرمایا: ’’والأکثرون قبلوا ما صرحا ثقاتھم و صلہ و صححا‘‘ اور جمہور نے ثقہ مدلس راویوں کی ان روایتوں کو صحیح قرار دیا ہے جن میں وہ سماع کی تصریح کریں اور دونوں (خطیب و ابن الصلاح) نے اس قول کو صحیح قرار دیا ہے۔ (الفیۃ العراقی مع فتح المغیث 1/ 179) حوالہ نمبر 22: شریف جرجانی یعنی علی بن محمد بن علی الحسینی (متوفی 816ھ) نے مدلس راوی کے بارے میں کہا: ’’والأصح التفصیل: فما رواہ بلفظ محتمل لم یبن فیہ السماع فحکمہ حکم المرسل و أنواعہ‘‘ اور صحیح یہ ہے کہ اس میں تفصیل ہے: پس وہ ایسے الفاظ سے روایت بیان کرے جس میں سماع واضح نہ ہو، احتمال ہو تو اس کا حکم مرسل اور اس کی اقسام کا حکم ہے۔ (رسالہ فی اصول الحدیث ص 91، الدیباج المذہب مع شرح التبریزی ص 41) مرسل ضعیف روایت ہوتی ہے جیسا کہ امام مسلم، امام ترمذی اور جمہور محدثین کا فیصلہ ہے۔ جرجانی نے معنعن روایت کے بارے میں کہا: ’’والصحیح أنہ متصل إذا أمکن اللقاء مع البراءۃ عن التدلیس‘‘ اور صحیح یہ ہے کہ وہ متصل ہے، بشرطیکہ ملاقات ممکن ہو اور راوی تدلیس سے بری ہو۔ (رسالہ فی اصول الحدیث ص 78، الدیباج المذہب مع شرح التبریزی ص 28) حوالہ نمبر 23: بدر الدین محمد بن ابراہیم بن جماعہ (متوفی 733ھ) نے معنعن روایت کے بارے میں کہا: ’’والصحیح الذي علیہ جماھیر العلماء والمحدثین والفقہاء والأصولیین أنہ متصل إذا أمکن لقاؤھما مع براء تھما من التدلیس‘‘ اور صحیح یہ ہے، جس پر جمہور علماء، محدثین، فقہاء اور اصول کے ماہرین (متفق) ہیں کہ وہ متصل ہے بشرطیکہ ملاقات ممکن ہو اور استاذ شاگرد دونوں تدلیس سے بری ہوں۔ (المنھل الروی فی مختصر علوم الحدیث النبوی ص 54) اس سے ثابت ہوا کہ قاضی ابن حماعۃ مدلس کے عنعنے کو صحتِ حدیث کے منافی سمجھتے تھے۔ حوالہ نمبر 24: حسین بن عبداللہ الطیبی (متوفی 743 ھ) نے اصولِ حدیث والے رسالے میں امام شافعی رحمہ اللہ کا اصول درج فرمایا اور کوئی تردید نہیں کی، لہٰذا وہ اس مسئلے میں امام شافعی سے متفق تھے۔ دیکھئے الخلاصۃ فی اصول الحدیث (ص 72) حوالہ نمبر 25: سیوطی نے معنعن کے بارے میں کہا: ’’ومن روی بعن وأن فاحکم بوصلہ إن اللقاء یعلم ولم یکن مدلّسا۔۔۔‘‘ اور جو عن اور أن سے روایت بیان کرے تو اُس کے متصل ہونے کا فیصلہ کرو، بشرطیکہ ملاقات معلوم ہو اور وہ مدلس نہ ہو۔۔۔ (الفیۃ السیوطی مع شرح احمد شاکر ص 28۔29) سیوطی نے مدلس کے بارے میں کہا: ’’والمرتضیٰ قبولھم إن صرحوابالوصل فالأکثر ھذا صححوا‘‘ اور اگر وہ سماع کی تصریح کریں تو ان کی روایت مقبول ہے، جمہور نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔ (الفیۃ السیوطی ص 31) حوالہ نمبر 26: عمر بن رسلان البلقینی (متوفی 805 ھ) نے مقدمہ ابن الصلاح کی شرح میں تدلیس کے بارے میں امام شافعی کا قول نقل کیا اور کوئی مخالفت نہیں کی، لہٰذا یہ ان کی طرف سے اصولِ مذکور کی موافقت ہے۔ دیکھئے محاسن الاصطلاح (ص 235) حوالہ نمبر 27: ابراہیم بن موسی بن ایوب الابناسی (متوفی 802ھ) نے بھی امام شافعی کے مذکورہ اصول کو نقل کیا اور کوئی مخالفت نہیں کی، لہٰذا یہ ان کی طرف سے اصولِ مذکور کی تائید ہے۔ دیکھئے الشذی الفیاح (ج1ص 177) حوالہ نمبر 28: عینی نے کہا: اور مدلس کی عن والی روایت حجت نہیں ہوتی اِلا یہ کہ اُس کی تصریحِ سماع دوسری سند سے ثابت ہو جائے۔ (عمدۃ القاری 3/ 112، الحدیث حضرو: 66 ص 27) اور کہا: ’’و قد اتفقوا علٰی أن المدلس إذا قال: عن،لا یحتج بہ إلا أن یثبت من طریق آخر أنہ سمع ذلک الحدیث من ذلک الشخص‘‘ اور اس پر ان کا اتفاق ہے کہ مدلس جب عن کہے تو حجت نہیں ہے اِلا یہ کہ دوسری سند سے یہ ثابت ہو جائے کہ وہ حدیث اُس شخص نے (اپنے استاذ) سے سنی ہے۔ (شرح سنن ابی داود للعینی ج1ص 255 ح 92) حوالہ نمبر 29: کرمانی نے کہا: اور مدلس کی عن والی روایت حجت نہیں ہوتی اِلا یہ کہ دوسری سند سے سماع کی تصریح ثابت ہو جائے۔ (شرح الکرمانی لصحیح البخاری ج 3 ص 62 تحت ح 214) حوالہ نمبر 30: قسطلانی نے کہا: اور مدلس کا عنعنہ قابل حجت نہیں ہوتا اِلا یہ کہ اس کے سماع کی تصریح ثابت ہو جائے۔ (ارشاد الساری شرح صحیح البخاری ج1 ص 286) حوالہ نمبر 31: السبط ابن العجمی نے کہا: ’’والصحیح التفصیل ۔۔۔ و إن أتی بلفظ یحتمل فحکمہ حکم المرسل‘‘ اور صحیح یہ ہے کہ اس میں تفصیل ہے۔۔۔ اور اگر وہ (مدلس) ایسے الفاظ بیان کرے جن میں احتمال ہو تو اس کا حکم مرسل کا حکم ہے۔ (التبیین لا سماء المدلسین ص 12) یعنی مدلس کی غیر مصرح بالسماع روایت مرسل (منقطع) کی طرح ہے، یاد رہے کہ جمہور محدثین کے نزدیک مرسل روایت منقطع ہونے کی وجہ سے ضعیف و مردود ہوتی ہے۔ حوالہ نمبر 32: ابن القطان الفاسی نے کہا: ’’و معنعن الأعمش عرضۃ لتبین الإنقطاع فإنہ مدلس‘‘ اور اعمش کی معنعن (عن والی) روایت انقطاع بیان کرنے کا نشانہ اور ہدف ہے، کیونکہ وہ مدلس ہیں۔ (بیان الوہم والایہام 2/ 435 ح 441) معلوم ہوا کہ مدلس کی عن والی روایت کو ابن القطان منقطع سمجھتے تھے۔ حوالہ نمبر 33: محمد بن فضیل بن غزوان (متوفی 195ھ) نے فرمایا: مغیرہ (بن مقسم) تدلیس کرتے تھے، پس ہم اُن سے صرف وہی روایت لکھتے جس میں وہ حدثنا ابراہیم کہتے تھے۔ (مسند علی بن الجعد 1/ 430 ح 663 وسندہ حسن، دوسرا نسخہ: 644) معلوم ہوا کہ محمد بن فضیل بھی مدلس کی غیر مصرح بالسماع یعنی معنعن روایت کو ضعیف و مردود سمجھتے تھے۔ حوالہ نمبر 34: ابن رشید الفہری (متوفی 721 ھ) نے کہا: ’’أمّا من عرف بالتدلیس فمعرفتہ بذلک کافیۃ فی التوقف في حدیثہ حتی یتبین الأمر۔‘‘ مگر جو تدلیس کے ساتھ معروف (یعنی معلوم) ہوتو یہ معلوم ہو جانا اس کے لئے کافی ہے کہ اس کی حدیث میں توقف کیا جائے اِلا یہ کہ معاملہ واضح ہو جائے / یعنی تصریحِ سماع ثابت ہو جائے۔ (السنن الابین ص 66) حوالہ نمبر 35: امام یعقوب بن شیبہ رحمہ اللہ (متوفی 262ھ) نے فرمایا: ’’فأما من دلّس عن غیر ثقۃ و عمن لم یسمع ھو منہ فقد جا وزحد التدلیس الذي رخص فیہ من رخص من العلماء‘‘ پس جو شخص غیر ثقہ سے تدلیس کرے اور اس سے جس سے اُس نے اسے نہیں سنا تو اس شخص نے تدلیس کی حد میں تجاوز کر لیا، جس کے بارے میں علماء نے اجازت دی تھی۔ (الکفایہ ص 362 وسندہ صحیح) معلوم ہوا کہ یعقوب بن شیبہ کے نزدیک مدلس کی عن والی روایت اور اسی طرح مرسل خفی دونوں ضعیف وغیر مقبول ہیں۔ حوالہ نمبر 36: سخاوی نے عراقی کے قول ’’أثبتہ بمرہ‘‘ کی تشریح میں کہا: ’’و بیان ذلک أنہ بثبوت تدلیسہ مرۃ صار ذلک ھو الظاہر من حالہ في معنعناتہ کما إنہ ثبوت اللقاء مرۃ صار الظاھر من حالہ السماع،و کذا من عرف بالکذب في حدیث واحد صار الکذب ھو الظاہر من حالہ و سقط العمل بجمیع حدیثہ مع جواز کو نہ صادقًا في بعضہ‘‘ اور اس کی تشریح یہ ہے کہ اس کی ایک دفعہ تدلیس کے ثبوت سے اُس کی (تمام) معنعن روایات میں اس کا ظاہر حال یہی بن گیا (کہ وہ مدلس ہے) جیساکہ ایک دفعہ ملاقات کے ثبوت سے (غیر مدلس کا) ظاہر حال یہ ہوتا ہے کہ اُس نے (اپنے استاد سے) سنا ہے، اور اسی طرح اگر کسی آدمی کا (صرف) ایک حدیث میں جھوٹ معلوم ہو جائے تو اس کا ظاہر حال یہی بن جاتا ہے (کہ وہ جھوٹا ہے) اور اس کی تمام احادیث پر عمل ساقط ہو جاتا ہے، اس جواز کے ساتھ کہ وہ اپنی بعض روایات میں سچا ہو سکتا ہے۔ (فتح المغیث شرح الفیۃ الحدیث ج1ص 193) دو اہم دلیلیں بیان کر کے سخاوی نے امام شافعی کی تائید کر دی اور ان لوگوں میں شامل ہو گئے جو مدلس کی عن والی روایت نہیں مانتے، چاہے اُس نے ساری زندگی میں صرف ایک دفعہ تدلیس کی ہو۔ حوالہ نمبر 37: عبدالرؤف المناوی (صوفی) نے کہا: ’’و عنعنۃ المعاصر محمولۃ علی السماع عند المتقدمین کمسلم و ادعی فیہ الإجماع و بخلاف غیر المعاصر فإنھا تکون مرسلۃ أو منقطعۃ و شرط حملھا علی السماع ثبوت المعاصرۃ اِلا من المدلس فإنھا غیر محمولۃ علی السماع۔‘‘ متقدمین مثلاً (امام) مسلم کے نزدیک معاصر کی عن والی روایت سماع پر محمول ہوتی ہے اور انھوں (مسلم) نے اس میں اجماع کا دعویٰ کیا ہے، اور اس کے برخلاف غیر معاصر کی روایت مرسل یا منقطع ہوتی ہے اور اس کو سماع پر محمول کرنے کی شرط معاصرت (ہم عصر ہونے) کا ثبوت ہے،سوائے مدلس کے اس کا عنعنہ سماع پر محمول نہیں ہے۔ (الیواقیت والدرر فی شرح نخبۃ ابن حجر 1/ 210، المکتبۃ الشاملہ) حوالہ نمبر 38: زکریا الانصاری (متوفی 926ھ) نے عراقی کا قول ’’والشافعي أثبتہ بمرۃ‘‘ نقل کیا اور اس کی کوئی مخالفت نہیں کی۔ دیکھئے فتح الباقی بشرح الفیۃ العراقی (ص 169۔170) حوالہ نمبر 39: امام یحییٰ بن سعید القطان نے فرمایا: میں نے سفیان (ثوری) سے صرف وہی کچھ لکھا ہے جس میں وہ حدثنی یا حدثنا کہتے تھے۔۔۔ (کتاب العلل و معرفۃ الرجال للامام احمد 1/ 207 ت 1130، وسندہ صحیح، امام شافعی رحمہ اللہ اور مسئلۂ تدلیس ص 15) حوالہ نمبر 40: ابن الترکمانی (حنفی) نے ایک روایت پر جرح کرتے ہوئے لکھا ہے: اس میں تین علتیں (وجۂ ضعف) ہیں: ثوری مدلس ہیں اور انھوں نے یہ روایت عن سے بیان کی ہے۔۔۔ (الجوہر النقی 8/ 262، الحدیث حضرو:67 ص 17) اصولِ حدیث، شروحِ حدیث، محدثین کرام اور دیگر علما ء کی مذکورہ تصریحات سے ثابت ہوا کہ مدلس راوی کی عن والی روایت ضعیف و مردود ہوتی ہے۔ جس طرح بعض اصول و قواعد میں تخصیصات ثابت ہوجانے کے بعد عام کا حکم عموم پر جاری رہتا ہے اور خاص کو عموم سے باہر نکال لیا جاتا ہے، اسی طرح اس اصول کی بھی کچھ تخصیصات ثابت ہیں، جو درج ذیل ہیں: -
صحیحین (صحیح بخاری،صحیح مسلم) میں تمام مدلسین کی تمام روایات سماع یا معتبر متابعات و شواہد پر محمول ہیں۔ -
مدلس کی اگر معتبر متابعت یا قوی شاہد ثابت ہو جائے تو تدلیس کا اعتراض ختم ہو جاتا ہے، جس طرح کہ ضعیف راوی کی روایت کا کوئی معتبر متابع یا قوی شاہد مل جائے تو ضعف ختم ہو جاتا ہے۔ -
بعض مدلسین کی روایات بعض شاگردوں کی روایت میں (جیسا کہ دلیل سے ثابت ہے) سماع پر محمول ہوتی ہیں، مثلاً شعبہ کی قتادہ، اعمش اور ابو اسحاق السبیعی سے روایت، شافعی کی سفیان بن عیینہ سے روایت اور یحییٰ بن سعید القطان کی سفیان ثوری سے روایت سماع پر محمول ہوتی ہے۔ -
بعض مدلسین بعض شیوخ سے تدلیس نہیں کرتے تھے، مثلاً ابن جریج عطاء بن ابی رباح سے اور ہشیم حصین سے تدلیس نہیں کرتے تھے، لہٰذا ایسی معنعن روایات بھی سماع پر محمول ہیں۔ -
اسی طرح اگر کوئی اور بات دلیل سے ثابت ہو جائے تو وہ بھی قابل قبول ہے۔ ان کے علاوہ ثابت شدہ مدلسین کی معنعن (عن والی) روایات (اپنی شرائط کے ساتھ) ضعیف ہوتی ہیں۔ خاص کو عام پر مقدم کرنے اور تخصیص کی چند مثالیں درج ذیل ہیں: -
بعض راوی ثقہ ہوتے ہیں، لیکن جب وہ اپنے کچھ خاص استادوں سے روایت بیان کریں تو و ہ روایت ضعیف ہوتی ہے، مثلاً سفیان بن حسین ثقہ ہیں، لیکن امام زہری سے اُن کی روایت ضعیف ہوتی ہے۔ -
بعض راوی ضعیف ہوتے ہیں، لیکن جب وہ اپنے کسی خاص استاد سے روایت کریں تو یہ روایت حسن ہوتی ہے (جس کی صریح دلیل محدثین کرام سے ثابت ہوتی ہے) مثلاً عبداللہ بن عمر العمری ضعیف ہیں، لیکن نافع سے ان کی روایت حسن ہوتی ہے۔ -
بعض راویوں کی روایات اُن کے اختلاط کی وجہ سے ضعیف ہوتی ہیں، لیکن بعض شاگردوں کے بارے میں یہ صراحت مل جاتی ہے کہ انھوں نے اپنے استاذ کے اختلاط سے پہلے حدیثیں سنی تھیں، لہٰذا یہ روایتیں صحیح ہوتی ہیں مثلاً عطاء بن السائب سے امام شعبہ کی روایت صحیح ہوتی ہے۔ -
مرسل روایت ضعیف ہوتی ہے، لیکن صحابۂ کرام کی تمام مرسل روایات صحیح ہیں اور اس پر اہلِ سنت کا اجماع ہے۔ -
ضعیف روایت صحیح و حسن شواہد و متابعات کے ساتھ صحیح وحسن بن جاتی ہے۔ جس طرح اصولِ حدیث اور اسماء الرجال میں مذکورہ تخصیصات پر عمل کیا جاتا ہے اور خاص دلیل کے مقابلے میں عام دلیل کو پیش نہیں کیا جاتا، اسی طرح تدلیس کے مسئلے میں بھی ثابت شدہ تخصیصات پر عمل کیا جاتا ہے اور خاص دلیل کے مقابلے میں عام دلیل کو پیش نہیں کیا جاتا۔ تنبیہ: یہ کسی دلیل سے ثابت نہیں ہے کہ اعمش اور سفیان ثوری وغیرہما کی معنعن روایات صحیح ہیں اور ابو الزبیر،حسن بصری اور زہری وغیرہم کی روایات ضعیف ہوتی ہیں۔! اس سلسلے میں حافظ ابن حجر العسقلانی رحمہ اللہ کی طبقاتی تقسیم کئی وجہ سے غلط ہے۔ مثلاً: -
یہ طبقاتی تقسیم جمہور محدثین کے اصولِ تدلیس کے خلاف ہے۔ -
یہ تقسیم خود حافظ ابن حجر کی شرح نخبۃ الفکر کے اصول کے خلاف ہے۔ -
یہ تقسیم خود حافظ ابن حجر کی التلخیص الحبیر (3/ 19) کے خلاف ہے۔ -
اہلِ حدیث اور حنفی بلکہ بریلوی اور دیوبندی سب اس طبقاتی تقسیم پر متفق نہیں ہیں۔ اصل مضمون کے لئے دیکھیں تحقیقی مقالات جلد 4 صفحہ 151 مزید دیکھئے ماہنامہ الحدیث شمارہ 81 صفحہ 15 اور نور العینین فی اثبات رفع الیدین صفحہ 457 |