مسئلۃ استواء الرحمٰن علی العرشتحریر: محدث العصر حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ |
قرآن مجیدکی روشنی میں: 1- اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’بے شک تمھارارب اللہ ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا، پھر عرش پر مستوی ہوا۔‘‘ (سورۃ الأعراف: 54) (نیز دیکھئے سورۂ یونس: 3، الرعد: 2، طٰہٰ: 5، الفرقان: 59، السجدۃ: 4، الحدید: 4، استویٰ کا مطلب ہے ارتفع، علا، یعنی بلند ہوا ہے، دیکھئے صحیح بخاری کتاب التوحید اور تحقیقی مقالات 1/ 13، 14) 2- ’’اس کا عرش پانی پر تھا۔‘‘ (ھود: 7) (نیز دیکھئے التوبۃ: 129، الانبیاء: 22، المومنون: 116، 86، النمل: 26، المومن: 7، 15، الزخرف:82، البروج: 15) 3- ’’اور اس دن آپ کے رب کا عرش اپنے اوپر اٹھائیں گے آٹھ (فرشتے)‘‘ (الحاقۃ: 17، نیز دیکھئے الزمر: 75) 4- ’’کیا تم اس سے بے خوف ہو جو آسمان میں (یعنی اوپر) ہے کہ وہ تمھیں زمین میں دھنسا دے، پھر وہ تیزی کے ساتھ ہلنے لگ جائے۔‘‘ (الملک: 16، نیز دیکھئے الملک: 17، القصص: 38، المومن: 36۔ 37، بنی اسرائیل: 42، الأنعام: 18، 61، النحل: 56، البقرۃ: 144) 5- ’’اور انھوں نے یقینا اسے قتل نہیں کیا (یعنی عیسیٰ علیہ السلام کو) بلکہ اللہ نے اسے اپنی طرف اٹھا لیا اور اللہ غالب حکمت والا ہے۔‘‘ (النساء: 157۔158، نیز دیکھئے اٰل عمران: 55، اس پر امت کا اجماع ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام آسمان پر اٹھا لیے گئے تھے اور وہ آسمان میں زندہ ہیں۔ آسمان سے اتریں گے اور دجال کو قتل کر دیں گے۔ دیکھئے تحقیقی مقالات: 1/ 87) 6- ’’آسمان سے زمین تک تدبیرِ امور کرتا ہے، پھر وہ (امر)اس کی طرف چڑھتا ہے ایک دن میں (کہ) جس کی مقدار ہزار سال ہے۔‘‘ (السجدۃ: 5) 7- ’’اسی کی طرف چڑھتی ہیں پاکیزہ باتیں اور صالح عمل وہی اسے (بھی) اوپر اٹھاتا ہے‘‘ (الفاطر: 10) 8- ’’آپ کا رب آئے گا اور فرشتے صف بہ صف۔‘‘ (الفجر: 22) 9- ’’اس جیسا کوئی بھی نہیں ہے اور وہ سننے، دیکھنے والا ہے۔‘‘ (الشوریٰ: 11) احادیث کی روشنی میں: 1- (معاویہ بن الحکم السلمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ)
2- جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:
3- عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
4- ابو سعید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
5- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
6- رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
7- نبی ﷺ نے فرمایا:
8- اور فرمایا:
9- نیز فرمایا:
10- نبی کریم ﷺ فرمایا:
آثارِ صحابہ 1- جب رسول اللہ ﷺ فوت ہوئے تو امیر المومنین سیدنا ابوبکر الصدیق رضی اللہ عنہ نے خطبہ دیا:
2- ام المومنین سیدہ زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا دوسری ازواج النبی ﷺ پر فخر کرتے ہوئے فرمایا کرتی تھیں:
3- عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہا:
4- عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
5- سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
6- ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا:
اس پر صحابہ و تابعین کا اجماع ہے کہ اللہ تعالیٰ سات آسمانوں سے اوپر عرش پر مستوی ہے (جس کی کیفیت ہمیں معلوم نہیں) اس کے خلاف صحابہ و تابعین سے کچھ بھی ثابت نہیں ہے۔ جہمیہ کے شبہات اور ان کے جوابات بعض لوگ کہتے ہیں: وہ ان کے ساتھ ہے وہ جہاں بھی ہوں۔ (المجادلۃ:7) اسی طرح وہ آیت کہ ہم شاہ رگ سے زیادہ قریب ہیں۔ (قٓ: 16) ان آیات کا مفہوم یہ ہے کہ اس معیت کا مفہوم اللہ تعالیٰ کا علم ہے اسی بات پر صحابہ و تابعین کا اجماع ہو چکا ہے۔ (توحید خالص ص 276، الرد علی الجہمیۃ ص 19، شرح حدیث النزول ص 74) دوسرے یہ کہ ان آیات میں خود علم کا (نعلم، یعلم وغیرہ) ذکر ہے۔ جو اس بات کی قوی دلیل ہے کہ یہ معیت بالعلم ہے۔ تیسرے یہ کہ دیگر آیات، صحیح احادیث اور اجماع صحابہ ان آیات کے عموم کی تخصیص کرتا ہے۔ یاد رہے کہ قرآن و حدیث میں یہ کہیں بھی نہیں ہے کہ اللہ ہر جگہ (اپنی ذات کے ساتھ) موجود ہے۔ تعالی اللہ عن ذلک علوًا کبیرًا۔ اور اللہ کے لیے ’’حاضر‘‘ کا لفظ قرآن و حدیث اوراجماع سے قطعاً ثابت نہیں ہے۔ عقلی دلائل 1- لوگ دعا کرتے وقت ہاتھ اوپر اٹھاتے ہیں۔ 2- نبی ﷺ معراج کی رات آسمانوں پر اللہ کے پاس گئے تھے۔ 3- فرشتے آسمانوں سے زمین پر اترتے ہیں اور زمین سے آسمانوں پر جاتے ہیں اور اللہ ان سے اپنے بندوں کے بارے میں سوال کرتا ہے، حالانکہ وہ خود سب سے زیادہ جانتا ہے۔ 4- خالق اپنی مخلوق سے جدا ہے۔ تنبیہ: اس موضوع پر سیر حاصل بحث کے لیے دیکھئے مقالات (1/ 13) اور فتاویٰ علمیہ المعروف توضیح الاحکام (1/ 29 تا 55) وغیرہ۔ اصل مضمون کے لئے دیکھئے فتاویٰ علمیہ المعروف توضیح الاحکام (جلد 3 صفحہ 64 تا 70) نیز دیکھئے ماہنامہ الحدیث حضرو (116 ص 11 تا 16) |
ہماری موبائل ایپ انسٹال کریں۔ تحقیقی مضامین اور تحقیقی کتابوں کی موجودہ وقت میں ان شاء اللہ سب سے بہترین ایپ ہے، والحمدللہ۔
دیگر بلاگ پوسٹس:
Android App --or-- iPhone/iPad App
IshaatulHadith Hazro © 2024