’’ماں کی نافرمانی کی سزا دُنیا میں‘‘ … ایک من گھڑت روایت کی تحقیقتحریر: محدث العصر حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ |
سوال: عام واعظین و خطباء حضرات ایک شخص کا واقعہ تفصیل سے بیان کرتے رہتے ہیں جس سے اُس کی والدہ ناراض تھی۔ یہ واقعہ خواجہ محمد اسلام صاحب کی کتاب ’’موت کا منظر‘‘ میں بھی اس طرح لکھا ہوا ہے:
اس واقعہ کے بارے میں اصول حدیث کی روشنی میں تخریج و تحقیق کر کے اس کے صحیح یا ضعیف ہونے کا فیصلہ فرمائیں، جزاکم اللہ خیراً۔ الجواب: یہ واقعہ طبرانی (جامع المسانید والسنن لابن کثیر 7/ 307، 308 ح 5169) بزار (کشف الأستار 2/ 385، 386 ح 1911) عقیلی (الضعفاء الکبیر 3/ 461) خرائطی (مساوی الأخلاق ح 251) بیہقی (شعب الایمان 6/ 198 ح 7892، دلائل النبوۃ 6/ 206، 206) رافعی (تاریخ قزوین 2/ 369، 370، الضعیفۃ للالبانی 7/ 167 ح 3183، وقال: ’’موضوع‘‘) اور ابن جوزی نے کتاب الموضوعات (من گھڑت حدیثوں والی کتاب ج 3 ص 87) میں ابو الورقاء فائد بن عبدالرحمٰن عن عبد اللہ بن ابی اوفیٰ کی سند سے روایت کیا ہے۔ امام احمد بن حنبل نے فائد کی اس حدیث کو اپنی کاپی (کتاب) سے کاٹ دیا تھا، کیونکہ فائد العطار اُن کے نزدیک متروک الحدیث تھا۔ (مسند أحمد ج 4ص 382) یہ روایت بلحاظِ سند موضوع ہے۔ اس کا راوی ابو الورقاء فائد العطار سخت مجروح ہے۔ اس راوی کے علاوہ کسی دوسرے شخص سے یہ روایت مروی نہیں ہے۔ اس راوی کے بارے میں (امام) ابن معین نے کہا: ’’ضعیف‘‘ (تاریخ الدوری 3/ 163 ت 704) ابو حاتم الرازی نے کہا:
امام بخاری نے کہا: ’’منکر الحدیث‘‘ یعنی وہ منکر حدیثیں بیان کرتا تھا۔ (کتاب الضعفاء: 299 وبتحقیقی: 309) امام بخاری فرماتے ہیں: میں جسے منکر الحدیث کہہ دوں اُس سے (میرے نزدیک) روایت کرنا حلال نہیں ہے۔ (میزان الاعتدال ج 1 ص 6 ولسان المیزان ج 1 ص 5 ترجمۃ ابان بن جبلہ) حافظ نسائی نے کہا: ’’متروک الحدیث‘‘اس کی حدیث متروک ہے۔ (کتاب الضعفاء: 487) اصول حدیث میں یہ مقرر ہے کہ متروک کی روایت متابعات میں بھی جائز نہیں ہے۔ دیکھئے اختصار علوم الحدیث لابن کثیر (ص 38، النوع الثانی: الحسن) تیسر مصطلع الحدیث (ص 154، وغیرہما) حاکم نیسا بوری نے اس راوی کے بارے میں کہا: ’’یروی عن ابن أبی أوفی أحادیث موضوعۃ‘‘ یہ ابن ابی اوفیٰ سے موضوع حدیثیں بیان کرتا ہے۔ (المدخل الی الصحیح ص 184 ت 155) حافظ ابن حبان نے کہا: ’’کان ممن یروی المناکیر عن المشاھیر‘‘ وہ مشہور لوگوں سے منکر روایتیں بیان کرتا تھا۔ (المجروحین ج 2 ص 203) حافظ ابن حجر نے تقریب التہذیب (5393)میں لکھاہے: ’’متروک، اتھموہ‘‘ متروک ہے، انھوں (محدثین) نے اس کو متہم (کذاب) کہا ہے۔ دیوبندیوں کی کتاب تبلیغی نصاب (ص 599) و فضائل اعمال و فضائل ذکر (ص 121 حدیث نمبر 35) پر فائد مذکور کو بحوالہ مجمع الزوائد: متروک لکھا ہوا ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ یہ روایت اس متروک و متہم اور صاحب احادیث موضوعہ کی وجہ سے موضوع و من گھڑت ہے، لہٰذا ایسی روایت کا بغیر تنبیہ اور انکار کے بیان کرنا حلال نہیں ہے۔ اصل مضمون کے لئے دیکھئے ماہنامہ الحدیث حضرو (شمارہ 120 صفحہ 11 تا 14) |
ہماری موبائل ایپ انسٹال کریں۔ تحقیقی مضامین اور تحقیقی کتابوں کی موجودہ وقت میں ان شاء اللہ سب سے بہترین ایپ ہے، والحمدللہ۔
دیگر بلاگ پوسٹس:
Android App --or-- iPhone/iPad App
IshaatulHadith Hazro © 2024