فضیلۃ الشیخ حافظ محمد ندیم ظہیر حفظہ اللہ کے مختصر حالات زندگی |
تحریر: الشیخ ابو محمد نصیر احمد کاشف حفظہ اللہ تنبیہ: یہ مضمون ’’جمیعت اہل حدیث سندھ‘‘ کی ویب سائٹ سے لیا گیا ہے۔ اصل مضمون کے لئے یہاں کلک کریں۔ ……………… نام و نسب:آپ کا نام اور نسب یہ ہے:محمد ندیم بن نور محمد بن چوہدری خدا بخش گجر۔ کنیت ولقب:آپ کی کنیت ابو ظفیر اور لقب ظہیر ہے۔ خاندانی پس منظر:آپ کی فیملی بھی دیگر لوگوں کے ہمراہ 1947ء کو ضلع انبالہ سے ہجرت کر کے پاکستان میں آئی، پھر مستقل سکونت گوجرانولہ کے ایک گاؤں جلال بلگن میں اختیار کر لی۔ پیدائش:کاغذات کے مطابق 5 دسمبر 1980 کو اسی گاؤں میں آپ کی ولادت ہوئی ۔ تعلیمی سفر:آپ کو قرآن مجید حفظ کرنے کا بہت زیادہ شوق تھا، یہی شوق مڈل پاس کرنے کے بعد سکول سے مدرسہ میں لے آیا، حفظ کے ساتھ ساتھ تعلیمی سلسلہ بتدریج آگے بڑھتا رہا۔ میڑک کا امتحان پرائیویٹ پاس کیا۔ درس نظامی کا آغاز جامعہ اسلامیہ سلفیہ گوجرانولہ سے کیا، کچھ عرصہ جامعہ سلفیہ ، اسلام آباد میں بھی پڑھا ۔ البتہ سند فراغت دارالعلوم المحمدیہ(لوکو ورکشاپس، لاہور) سے حاصل کی۔ درس نظامی کی تکمیل کے بعد آپ محدث العصر حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ کی خدمت میں (حضرو ، ضلع اٹک) حاضر ہوئے۔ آپ نے 2004ء کو انٹر نیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد میں(بی اے آنرز، اصول الدین) میں داخلہ لیا، یہاں تقریباً تین سال تعلیم حاصل کی لیکن بوجوہ ڈگری حاصل نہیں کر سکے۔ اساتذہ کرام:جن اساتذہ کرام سے فیضیاب ہوئے اس کی ترتیب کچھ یوں ہے:
درس نظامی/ علوم اسلامیہ میں بہت سے اساتذہ کرام کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیے جن میں سے بعض درج ذیل ہیں:
ان سے آپ نے مکمل صحیح بخاری پڑھی ہے۔ والحمد للہ بعض وہ شیوخ جن سے باقاعدہ تو کچھ نہیں پڑھا لیکن بار بار ان خدمت میں حاضر ہو کر استفادہ ضرور کیا ہے:
حافظ صاحب نے کچھ عرصہ کراچی شہر میں بھی گزارا وہاںماڈل کالونی میں ان سے استفادے کا خوب موقع ملا۔ محدث العصر حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ کے متعلق حافظ صاحب لکھتے ہیں :محدث العصر حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ میرے مربی، محسن اور قابلِ قدر استاذ ہیں جن سے میں نے تقریباً پندرہ سال استفادہ کیا، ان سے بہت زیادہ پڑھا بھی اور بہت کچھ سیکھا بھی ہے۔ والحمد للہ محدث العصر رحمہ اللہ، چند واقعات:حافظ صاحب کے الفاظ میں، فرماتے ہیں: الحمدللہ! میں اسے سعادت سمجھتا ہوں کہ محدث العصر حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ سے مجھے شرف تلمذ حاصل ہے۔یادیں اور باتیں تو بہت ہیں میں بس علم و علماء سے متعلق ہی چند ایک بیان کرنا چاہوں گا: شیخ رحمہ اللہ علم و کتاب دوست تھے یقیناً ان کی زندگی کا یہ پہلو دور حاضر کے طلاب علم کے لیے مشعل راہ ہے، کیونکہ آپ ہر وقت پڑھنے پڑھانے اور لکھنے لکھانے میں ہی مصروف رہتے ۔ اپنے وقت کو قیمتی متاع جان کر کبھی ضائع کرنے کا سوچتے بھی نہیں تھے، ہم نے دیکھا کہ آپ شدید بیماری میں بھی پڑھنا اور لکھنا نہیں چھوڑتے تھے۔ ناک کا آپریشن صرف اس لیے نہیں کروایا کہ کچھ دن کے لیے مجھے لائبریری سے دور ہونا پڑے گا۔ خود فرمایا کرتے تھے کہ میری زندگی میں صرف ایک موقع ایسا آیا کہ میں گھر میں موجود تھا لیکن لائبریری تقریباً تین ماہ بند رہی، کیونکہ میری والدہ بیمار تھیں اور میں ان کی خدمت پر مامور تھا اور پھر وہ اسی بیماری میں وفات پا گئیں۔ علم کی نشر واشاعت میں مجھ ناچیز نے آپ سے بڑھ کر فیاض کسی کو نہیں دیکھا، اگر ایک نکتہ بھی میسر آتا تو اسے فوراً دوسرے تک منتقل کر دیتے کہ زندگی کا کیا بھروسا۔ اللہ اکبر! احقاق حق اور ابطال باطل کا جو جذبہ آپ میں موجود تھا اب وہ بھی کمیاب ہی ہے۔ آپ کی علمائے کرام سے محبت بھی دیدنی تھی ایک بار شیخ الحدیث مولانا محمد علی جانباز رحمہ اللہ (شارح سنن ابن ماجہ) سے ملاقات کا ارادہ کیا اور مجھے بھی ساتھ چلنے کا حکم دیا جب ہم شیخ کے دولت خانہ پر پہنچے تو وہ منظر آج بھی میری آنکھوں کے سامنے ایسے آ جاتا ہے گویا میں دیکھ رہا ہوں۔ مولانا محمد علی جانباز رحمہ اللہ طویل القامت تھے تو حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ ان کی پیشانی پر بوسہ دینے کے لیے اپنی ایڑیاں اٹھاتے ہیں اور کچھ شیخ رحمہ اللہ نے اپنی پیشانی کو ان کی طرف جھکا دیا۔ سبحان اللہ !کیا محبت و مودت کا عظیم الشان منظر تھا۔ شاگردعلمائے کرام:الحمدللہ! بہت سے شاگرد کتاب و سنت کی اشاعت میں اپنا بھرپور کردار ادا کر رہے ہیں، ان میں سے بعض کے اسمائے گرامی درج ذیل ہیں:
علم و تحقیق کے میدان میں:درس نظامی سے فراغت اورمحدث العصر حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ سے تعلق استوار ہونے کے بعد سے اسی علم و تحقیق سے وابستہ ہیں۔ ماہنامہ رسالہ اشاعۃ الحدیث، حضرو کے صفحات اس پر شاہد ہیں۔ محدث العصر رحمہ اللہ کی معاونت کی ہمہ وقت مصروفیت کے ساتھ ساتھ کئی کتب پر ترجمہ، تحقیق اور تصحیح و تنقیح کا کام بھی کیا ہے۔ چند ایک کتب کے نام یہ ہیں:
مشکاۃ المصابیح کے علاوہ دیگر کتب مکتبہ اسلامیہ لاہور سے چھپی اور چھپ رہی ہیں۔ حافظ صاحب فرماتے ہیں: اس طرح کے کئی علمی کام ہیں جو کر چکا ہوں اور بہت سے جاری وساری بھی ہیں جن کی تفصیل پھر کبھی بتا دوں گا۔ ان شاءاللہ تعالیٰ۔ مستقبل کے ارادے ،خواہش:حافظ صاحب سے جب مستقبل کے ارادوں اور خواہش کے متعلق استفسار کیا گیا تو آپ نے فرمایا: میری دلی خواہش ہے کہ میں قرآن مجید کی مکمل و جامع تفسیر لکھوں۔ اور جب موقع ملتا ہے تو اس بارے میں کچھ نہ کچھ احاطہ تحریر میں لانے کی کوشش بھی کرتا ہوں۔ وللہ الحمد پسندیدہ علماء کرام:علم دوست حضرات کے ہاں تمام علمائے حق، سلف و خلف سے بلا تفریق واجب الاحترام ہوتے ہیں۔ لیکن کچھ سے ان کے کار ہائے نمایاں اور اپنے مزاج کی موافقت کی بنا پر خصوصی الفت و محبت ہوتی ہے۔ جب حافظ صاحب سے اسی حوالے سے سوال ہوا تو آپ نے فرمایا: مجھے جمیع علمائے حق سے محبت ہے اور ان سے گہری وابستگی بھی ہے۔ اسی طرح تمام سلف صالحین ہمارے دلوں کی دھڑکن ہیں کہ جن کی زندگیاں ہمارے لئے مشعل ِراہ ہیں۔ لیکن قلبی وذہنی رجحان کی بنا پر ان میں سے بعض اسمائے گرامی درج ذیل ہیں:
أحب الصالحين ولست منهم لعلي أن أنال بهم شفاعة زیر مطالعہ کتب:ہر عالم دین کو ایک طالب علم ہونے کی حیثیت سے تو ہر کتاب ہی بہت عزیز ہوتی ہے لیکن حافظ صاحب کی زیادہ وابستگی قرآن مجید اور صحیح البخاری سے ہے، البتہ تزکیہ نفس کے لیے عموماً ریاض الصالحین مطالعہ میں رکھتے ہیں۔ حالیہ مصروفیات:حافظ صاحب کافی عرصے سے لاہور میں ہی رہائش پذیر ہیں۔ لاہور اور اس سے باہر آپ کی مصروفیات کچھ یہ ہیں:
اولاد:اللہ تعالیٰ نے حافظ صاحب کو دو پیاری سی بیٹیاں عطا کی ہیں۔ وللہ الحمد ہم دعا گو ہیں کی اللہ تعالیٰ انہیں اولاد نرینہ سے بھی نوازے۔ آمین! اہل مجموعہ کو نصیحت:مجموعہ دار الاسلاف کو نصیحت کرتے ہوئے حافظ صاحب فرماتے ہیں: اہل مجموعہ کو (جس میں، میں خود بھی شامل ہوں) یہی نصیحت کروں گا کہ علم دوست اور کتاب دوست بننے کی بھرپور کوشش کریں اور یہی علماء کی شان ہے، سوشل میڈیا وغیرہ نے ہمیں کتاب سے دور کر دیا ہے۔ براہِ مہربانی! پلٹ آئیے اور اپنے اسلاف کی راہ اختیار کیجئے۔ حافظ صاحب نے بطور خاص خطباء کرام کو مخاظب کرتے ہوئے چند نصیحتیں کی تھیں جو کہ مضمون کی صورت میں شمارہ ’’ الحدیث‘‘ میں شائع ہو چکا ہے۔ اسے قند مکرر کے طور پر یہاں درج کر رہے ہیں: خطباء کی خدمت میں …تبلیغِ دین، دعوتِ حق اور اس کی ترویج عظیم فریضہ ہے جسے اہلِ علم اور اہلِ فکر و دانش اپنی بساط کے مطابق ادا کر رہے ہیں۔چونکہ تحریر کی بہ نسبت تقریر کا براہِ راست عوام کے ساتھ زیادہ تعلق ہوتا ہے جس میں اندازِ بیاں کے ساتھ مقرر و داعی کا اخلاق و کردار بھی گہرے نقوش چھوڑتا ہے لہٰذا اپنے اُن بھائیوں کے لئے جو اس میدان کے شہسوار ہیں ﴿اِنْ اُرِیْدُ اِلَّا الْاِصْلَاحَ﴾کے تحت چند کلمات بطورِ نصیحت لکھنے کی سعی کر رہا ہوں۔ ویسے تورسول اللہ ﷺکا فرمان : (( بلّغوا عني ولو آیۃ)) مجھ سے ( سن کر آگے)پہنچا دو اگر چہ ایک آیت ہی ہو۔ [صحیح بخاری : 3461]بھی اس بات کا متقاضی ہے کہ ہر طرح سے دعوتِ دین عام کی جائے ۔
……………… تنبیہ: یہ مضمون ’’جمیعت اہل حدیث سندھ‘‘ کی ویب سائٹ سے لیا گیا ہے۔ اصل مضمون کے لئے یہاں کلک کریں۔ |
ہماری موبائل ایپ انسٹال کریں۔ تحقیقی مضامین اور تحقیقی کتابوں کی موجودہ وقت میں ان شاء اللہ سب سے بہترین ایپ ہے، والحمدللہ۔
دیگر بلاگ پوسٹس:
Android App --or-- iPhone/iPad App
IshaatulHadith Hazro © 2024