کتاب التوحید لابن خزیمہ، باب 9، حدیث 56 |
ترجمہ، تحقیق و تخریج: حافظ معاذ بن زبیر علی زئی حفظہ اللہ 56: حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ وَہْبٍ قَالَ: حَدَّثَنَا عَمِّيْ، قَالَ: حَدَّثَنِيْ مَخْرَمَۃُ بْنُ بُکَیْرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ الْأَشَجِّ، عَنْ أَبِیْہِ، عَنْ عُرْوَۃَ بْنِ الزُّبَیْرِ، قَالَ: قَالَتْ أُمُّ سَلَمَۃَ رضی اللہ عنہا زَوْجُ النَّبِيِّ ﷺ: ذَکَرْتُ الْمَسِیْحَ الدَّجَّالَ لَیْلَۃً، فَلَمْ یَأْتِنِی النَّوْمُ، فَلَمَّا أَصْبَحْتُ دَخَلْتُ عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ ﷺ فَأَخْبَرْتُہُ، فَقَالَ: ((لَا تَفْعَلِيْ، فَإِنَّہُ إِنْ یَخْرُجْ – وَأَنَا حَيٌّ – یَکْفِیْکُمُوْہُ اللّٰہُ بِيْ، وَإِنْ یَخْرُجْ بَعْدَ أَنْ أَمُوْتَ یَکْفِیْکُمُوْہُ اللّٰہُ بِالصَّالِحِیْنَ))۔ ثُمَّ قَالَ: ((مَا مِنْ نَبِیٍّ إِلَّا وَقَدْ حَذَّرَ أُمَّتَہُ الدَّجَّالَ، وَإِنِّی أُحَذِّرُکُمُوْہُ: إِنَّہُ أَعْوَرُ، وَإِنَّ اللّٰہَ لَیْسَ بِأَعْوَرَ، إِنَّہُ یَمْشِيْ فِی الْأَرْضِ، وَإِنَّ الْأَرْضَ وَالسَّمَاء َ لِلّٰہِ، ألا إِنَّ الْمَسِیْحَ الدَّجَّالَ عَیْنَہُ الْیُمْنٰی کَأَنَّہَا عِنَبَۃٌ طَافِیَۃٌ))۔ نبی کریم ﷺ کی بیوی سیدہ اُم سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک رات میں نے مسیح دجال کا ذکر کیا تو مجھے (خوف کے مارے) نیند نہیں آئی، جب صبح ہوئی تو میں نبی کریم ﷺ کے پاس حاضر ہوئی اور آپ کو خبر دی، تو آپ ﷺ نے فرمایا: ’’تُو فکر مند نہ ہو! کیونکہ اگر وہ (دجال، اس حال میں) نکلا کہ میں زندہ ہوا تو اللہ تعالیٰ (میری موجودگی کی وجہ سے) تم سب کو کافی ہو گا اور اگر وہ میری وفات کے بعد نکلا تو تم سب کو نیک وکار لوگوں (کے اعمال صالحہ اور ان کی دعاؤں) کی وجہ سے اللہ کافی ہوگا۔‘‘ (دیکھئے حاشیہ: 1) پھر آپ ﷺ نے فرمایا: ’’ہر نبی نے اپنی اُمت کو دجال (کے فتنے) سے ڈرایا ہے اور بے شک میں تمھیں اس سے ڈراتا ہوں، وہ یقینا کانا ہوگا اور بلاشبہ اللہ تعالیٰ کانا نہیں ہے، وہ (دجال) زمین پر چلے گا اور بے شک زمین اور آسمان اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں۔ خبردار! یقینا مسیح دجال کی دائیں آنکھ (ایسی ہوگی) گویا کہ وہ انگور کا اُبھرا ہوا دانہ ہے۔‘‘ تحقیق: إسنادہ حسن امام عبداللہ بن وہب المصری رحمہ اللہ مدلس ہیں، لیکن انھوں نے یہاں سماع کی تصریح کر دی ہے۔ مخرمہ بن بکیر رحمہ اللہ اپنے والد کی کتاب سے روایت کرتے تھے اور کتاب سے روایت قولِ راجح میں صحیح ہوتی ہے۔ امام ذہبی رحمہ اللہ نے اس روایت کے بارے میں فرمایا: ’’إسنادہ قوي‘‘ (الفتن والملاحم لابن کثیر: 1/ 153 ح 270) حاشیہ 1 — اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا: ﴿وَمَا کَانَ اللّٰہُ لِیُعَذِّبَہُمْ وَاَنْتَ فِیْہِمْ وَمَا کَانَ اللّٰہُ مُعَذِّبَہُمْ وَہُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَ﴾ اور اللہ کبھی ایسا نہیں کہ انھیں عذاب دے، جبکہ آپ ان میں موجود ہوں، اور اللہ انھیں کبھی عذاب دینے والا نہیں جبکہ وہ بخشش مانگتے ہوں۔ (8/ سورۃ الأنفال، الآیۃ: 33) یعنی آپ ﷺ کی موجودگی میں اُمت مسلمہ کسی اجتماعی عذاب میں مبتلا نہیں ہوگی۔ اور اس روایت کے دوسرے ٹکڑے ’’یَکْفِیْکُمُوْہُ اللّٰہُ بِالصَّالِحِیْنَ‘‘ سے مراد زندہ صالحین کے نیک اعمال اور دعائیں ہیں، یعنی صالحین کا سورۃ الکہف کی پہلی دس آیتوں کی تلاوت کرنا اور دجال کے متعلق بچاؤ والی حدیثوں کا بیان وعمل ہے۔ اس سے مراد زندہ صالحین کے نیک اعمال ودعائیں ہیں، اس میں مُردہ پرستی کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ اس روایت کا ایک حصہ ’’فَإِنَّہُ إِنْ یَخْرُجْ وَأَنَا حَيٌّ یَکْفِیْکُمُوْہُ اللّٰہُ بِيْ‘‘ اس معنی کے ساتھ صحیح مسلم میں موجود ہے۔ (صحیح مسلم: 2937) تخریج: المعجم الکبیر للطبراني (23/ 286 ح 569)، النھایۃ فی الفتن والملاحم (1/ 153 ح 270) من حدیث عبد اللّٰہ بن وھب بہ۔ رجال الاسناد: 1: ام المومنین سیدہ اُم سلمہ رضی اللہ عنہا (ہند بنت ابی اُمیہ) ابو سلمہ بن عبدالاسدی کی وفات کے بعد شوال 4 ھ میں رسول اللہ ﷺ نے آپ سے شادی کی۔ آپ کا شمار پہلے مہاجرین ومہاجرات اور فقہاءِ صحابیات میں ہے۔ آپ کے لیے یہی فضیلت کافی ہے کہ آپ دنیا اور آخرت میں رسول اللہ ﷺ کی بیوی اور تمام اُمتی مسلمانوں کی روحانی ماں (ام المومنین) ہیں۔ آپ تقریباً 90 سال کی عمر میں 62ھ کو فوت ہوئیں۔ رضی اللہ عنہا 2: عروہ بن الزبیر بن العوام، ابو عبداللہ القرشی آپ صحیحین کے راوی اور ثقہ ہیں۔ امام محمد بن سعد رحمہ اللہ نے فرمایا: ’’وکان ثقۃ، کثیر الحدیث، فقیھًا، عالیًا مأمونًا، ثبتًا‘‘ (الطبقات: 5/ 178) امام عجلی رحمہ اللہ نے فرمایا: ’’مدني، تابعي، ثقۃ، کان رجلًا صالحًا لم یدخل في شيء من الفتن‘‘ (تاریخ الثقات: 1121) آپ 94ھ کو فوت ہوئے۔ رحمہ اللہ 3: بکیر بن عبداللہ بن الاشج، ابو عبداللہ آپ صحیحین کے راوی اور ثقہ امام ہیں۔ امام ابن معین رحمہ اللہ نے فرمایا: ’’ثقۃ‘‘ (الجرح والتعدیل: 2/ 403، سندہ صحیح) امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے فرمایا: ’’ثقۃ صالح‘‘ (الجرح والتعدیل: 2/ 403، سندہ حسن) امام ابو حاتم رازی رحمہ اللہ نے فرمایا: ’’ثقۃ‘‘ (الجرح والتعدیل: 2/ 404) آپ 127ھ کو فوت ہوئے۔ رحمہ اللہ 4: مخرمہ بن بکیر بن عبداللہ بن الاشج آپ صحیح مسلم کے راوی اور ثقہ وصدوق ہیں۔ آپ عام طور پر اپنے والد کی کتاب سے روایت کرتے تھے اور کتاب سے روایت قولِ راجح میں صحیح ہوتی ہے اِلا یہ کہ تخصیص کی کوئی دلیل ثابت ہو جائے۔ دیکھئے الفتح المبین فی تحقیق طبقات المدلسین (27/ 1 ص 43) امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے فرمایا: ’’ثقۃ إلا أنہ لم یسمع من أبیہ شیئًا‘‘ (العلل ومعرفۃ الرجال: 3230، 4119) امام احمد بن صالح المصری رحمہ اللہ نے فرمایا: ’’کان مخرمۃ بن بکیر من ثقات الناس‘‘ (تاریخ أبي زرعۃ الدمشقي: ص 442، سندہ صحیح) امام محمد بن سعد رحمہ اللہ نے فرمایا: ’’وکان ثقۃ کثیر الحدیث‘‘ (الطبقات، متمم التابعین: ص 432 رقم: 371) آپ 159ھ کو فوت ہوئے۔ رحمہ اللہ 5: عبداللہ بن وہب بن مسلم، ابو محمد الفہری المصری آپ صحیحین کے راوی اور زبردست ثقہ امام ہیں۔ محدثین کی ایک بڑی تعداد نے آپ کی توثیق کی ہے۔ امام ابو زرعہ رازی رحمہ اللہ نے فرمایا: ’’نظرت في نحو ثمانین ألف حدیث من حدیث ابن وھب بمصر فلا أعلم أني رأیت حدیثًا لہ لا أصل لہ، وھو ثقۃ‘‘ (الجرح والتعدیل: 5/ 190) راجح یہی ہے کہ امام عبداللہ بن وہب رحمہ اللہ ثقہ ہونے کے ساتھ مدلس بھی تھے، امام ابن سعد رحمہ اللہ نے فرمایا: ’’وکان کثیر العلم، ثقۃ فیما قال حدثنا، وکان یدلس‘‘ (الطبقات: 7/ 518) آپ 197ھ کو فوت ہوئے۔ رحمہ اللہ 6: احمد بن عبدالرحمٰن بن وہب المصری آپ امام مسلم بن الحجاج القشیری، امام ابن خزیمہ اور امام ابو عوانہ رحمہم اللہ وغیرہم کے استاد ہیں۔ جمہور نے توثیق کی ہے لہٰذا صدوق حسن الحدیث (في غیر ما أنکر علیہ) ہیں۔ آپ پر تغیر حفظ کا الزام بھی ثابت ہے۔ لیکن امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ کی روایات آپ سے مستقیم ہیں۔ دیکھئے المجروحین لابن حبان (1/ 149) امام بیہقی رحمہ اللہ نے آپ کی بیان کردہ روایت کے بارے میں فرمایا: ’’رواۃ ھذا الحدیث کلھم ثقات، مجمع علی عدالتھم‘‘ (الخلافیات: 1/ 187 ح 261) امام دارقطنی رحمہ اللہ نے آپ کی بیان کردہ روایت کے بارے میں فرمایا: ’’کلھم ثقات‘‘ (سنن الدارقطني: 3/ 21 ح 2844) امام ابن القطان الفاسی رحمہ اللہ نے فرمایا: ’’قد وثقہ أھل زمانہ‘‘ (بیان الوھم والإیھام: 5/ 265) امام ذہبی رحمہ اللہ نے فرمایا: ’’وقد روی ألوفا من الحدیث علی الصحۃ، فخمسۃ أحادیث منکرۃ في جنب ذلک لیست بموجبۃ لترکہ‘‘ (سیر أعلام النبلاء: 12/ 323) امام ذہبی رحمہ اللہ کے قول ’’فخمسۃ أحادیث منکرۃ‘‘ سے مراد وہ احادیث ہیں جنھیں ائمہ محدثین نے احمد بن عبدالرحمٰن بن وہب کی منکریات میں شمار کیا ہے۔ آپ 264ھ کو فوت ہوئے۔ رحمہ اللہ قَالَ أَبُوْ بَکْرٍ:ہٰذَا بَابٌ طَوِیْلٌ، خَرَّجْتُہُ فِيْ کِتَابِ الْفِتَنِ، فِي قِصَّۃِ الدَّجَّالِ۔ امام ابو بکر (ابن خزیمہ رحمہ اللہ) نے فرمایا: (دجال کے متعلقہ احادیث) ایک طویل باب ہے، جنھیں میں نے کتاب الفتن میں دجال کے تذکرے میں ذکر کیا ہے۔ ……… نوٹ ……… اس مضمون کی نظر ثانی فضیلۃ الشیخ تنویر الحق الترمذی حفظہ اللہ اور فضیلۃ الشیخ حبیب الرحمٰن ہزاروی حفظہ اللہ نے کی ہے۔ جزاہما اللہ احسن الجزاء یہ مضمون ’’اشاعۃ الحدیث‘‘ موبائل ایپ پر شیئر کیا گیا ہے، اور اس سے پہلے کہیں شائع نہیں ہوا۔ |
ہماری موبائل ایپ انسٹال کریں۔ تحقیقی مضامین اور تحقیقی کتابوں کی موجودہ وقت میں ان شاء اللہ سب سے بہترین ایپ ہے، والحمدللہ۔
دیگر بلاگ پوسٹس:
Android App --or-- iPhone/iPad App
IshaatulHadith Hazro © 2024