کتاب التوحید لابن خزیمہ، باب 7، حدیث 48 |
ترجمہ، تحقیق و تخریج: حافظ معاذ بن زبیر علی زئی حفظہ اللہ 48: حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِیْعٍ، وَمَحْمُوْدُ بْنُ خِدَاشٍ، قَالَا:حَدَّثَنَا أَبُوْ سَعْدٍ الصَّاغَانِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو جَعْفَرٍ الرَّازِيُّ، عَنِ الرَّبِیْعِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ أَبِی الْعَالِیَۃِ، عَنْ أُبَيِّ بْنِ کَعْبٍ رضی اللہ عنہ، أَنَّ الْمُشْرِکِیْنَ، قَالُوْا لِرَسُوْلِ اللّٰہِ ﷺ: انْسِبْ لَنَا رَبَّکَ، فَأَنْزَلَ اللّٰہُ: ﴿قُلْ ہُوَ اللّٰہُ أَحَدٌ اللّٰہُ الصَّمَدُ لَمْ یَلِدْ وَلَمْ یُوْلَدْ وَلَمْ یَکُنْ لَہُ کُفُوًا أَحَدٌ﴾ [سورۃ الاخلاص]۔ قَالَ: وَلَمْ یَکُنْ لَہُ شَبِیْہٌ، وَلَا عَدْلٌ، وَلَیْسَ کَمِثْلِہِ شَيْءٌ۔ وَقَالَ مَحْمُودُ بْنُ خِدَاشٍ فِيْ حَدِیْثِہٖ: الصَّمَدُ، لَمْ یَلِدْ، وَلَمْ یُولَدْ، لِأَنَّہُ لَیْسَ شَيْءٌ یُوْلَدُ إِلَّا سَیَمُوْتُ، وَلَیْسَ شَيْءٌ یَمُوْتُ إِلَّا سَیُوْرَثُ، وَإِنَّ اللّٰہَ لَا یَمُوْتُ وَلَا یُوْرَثُ۔ وَالْبَاقِيْ مِثْلُ لَفْظِ أَحْمَدَ بْنِ مَنِیعٍ سَوَاءً۔ سیدنا اُبی بن کعب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ مشرکین نے رسول اللہ ﷺ سے کہا: ہمارے لئے اپنے رب کی صفت بیان کریں۔ تو اللہ تعالیٰ نے سورہ اخلاص نازل فرمائی: ’’کہہ دیجئے: وہ اللہ ایک ہے، اللہ ہی بے نیاز ہے، نہ اُس نے کسی کو جنا اور نہ وہ جنا گیا، اور نہ کبھی کوئی ایک اُس کے برابر کا ہے۔‘‘ فرمایا: اور نہ کوئی اس کے مشابہ اور نہ کوئی اس کے برابر ہے اور نہ اس کی مثل کوئی شے ہے۔ اور محمود بن خداش نے اپنی حدیث میں کہا: (اللہ ہی تو) بے نیاز ہے، نہ اس نے کسی کو جنا، اور نہ وہ جنا گیا، کیونکہ کوئی بھی چیز ایسی نہیں ہے جسے جنا گیا ہو عنقریب وہ مر جائے گی، اور کوئی بھی چیزی ایسی نہیں ہے کہ وہ مر جائے عنقریب وہ وارث بنائی جائے گی، اور بلاشبہ اللہ تعالیٰ نہ مرے گا اور نہ وارث بنایا جائے گا۔ اور باقی الفاظ احمد بن منیع کے الفاظ کی طرح ہیں۔ تحقیق: إسنادہ ضعیف اس حدیث میں دو علتیں ہیں: (1) محمد بن میسر ابو سعد الصاغانی ضعیف ہیں۔ (2) ابو جعفر الرازی کی روایات الربیع بن انس سے ضعیف ہوتی ہیں۔ امام ابن حبان رحمہ اللہ نے فرمایا: ’’والناس یتقون حدیثہ ما کان من روایۃ أبي جعفر عنہ (یعني عن الربیع بن أنس) لأن فیھا اضطراب کثیر‘‘ (الثقات: 4/ 228) تخریج: سنن الترمذي (3364)، الرد علی الجھمیۃ للدارمي (28، طبع دار ابن الأثیر) عن أحمد بن منیع بہ۔ مسند أحمد (35/ 143 ح 21219) عن أبي سعد الصاغاني بہ۔ السنۃ لابن أبي عاصم (663، نسخۃ أخری: 675)، العظمۃ لأبي شیخ الأصبھاني (88) من حدیث أبي سعد الصاغاني بہ۔ مسند الشاشي (1496)، الأسماء والصفات للبیھقي (607) من حدیث أحمد بن منیع بہ۔ المستدرک للحاکم (2/ 540 ح 3987 وقال: ’’صحیح الإسناد‘‘ ووافقہ الذھبي) من حدیث أبي جعفر الرازي بہ۔ رجال الاسناد: 1: سیدنا ابی بن کعب بن قیس بن عبید بن زید بن معاویہ، ابو المنذر الانصاری الخزرجی رضی اللہ عنہ آپ مشہور صحابی اور کتاب اللہ کے اولین حفاظ میں سے تھے۔ رضی اللہ عنہ آپ متبع سنت تھے، ایک مسئلے میں فرماتے ہیں: ’’فَنَحْنُ نَقُوْلُ کَمَا قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ‘‘ پس ہم تو وہی کہیں گے جس طرح رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا۔ (صحیح البخاري: 4976) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’لِیَھْنِکَ الْعِلْمَ یَا أَبَا الْمُنْذَرِ!‘‘ یعنی اے ابو المنذر! تمھیں علم مبارک ہو۔ (صحیح مسلم: 810 [دار السلام: 1885]) نبی کریم ﷺ نے ایک مرتبہ آپ سے فرمایا کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ میں آپ پر قرآن تلاوت کروں۔ آپ نے نبی کریم ﷺ سے پوچھا: کیا اللہ تعالیٰ نے میرا نام لیا ہے؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: جی ہاں! تو آپ نے کہا: میرا ذکر رب العالمین کے ہاں کیا گیا؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: جی ہاں! تو آپ کی آنکھوں سے آنسو نکل پڑے۔ (صحیح البخاري: 4961، صحیح مسلم: 799) نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’قرآن چار بندوں سے سیکھو: عبداللہ بن مسعود، سالم مولی ابی حذیفہ، ابی بن کعب اور معاذ بن جبل۔‘‘ (صحیح البخاري: ح 3758، صحیح مسلم: 2464) نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’میری اُمت کے سب سے بڑے قاری ابی بن کعب ہیں۔‘‘ (الطبقات لابن سعد: 2/ 341، 3/ 499، سندہ حسن) سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے آپ کو ’’سَیِّدُ الْمُسْلِمِیْنَ‘‘ یعنی ’’مسلمانوں کا سردار‘‘ کا لقب دیا۔ (الطبقات لابن سعد: 3/ 499، سندہ صحیح، سعید بن ایاس الجریري: قد اختلط، بل سماع إسماعیل بن علیۃ قبل اختلاطہ) امام مسروق رحمہ اللہ (متوفی 62ھ) فرماتے ہیں: میں سیدنا اُبی بن کعب رضی اللہ عنہ کے ساتھ جا رہا تھا کہ ایک نوجوان نے آپ سے مسئلہ پوچھا: چچا جان! آپ اس (مسئلے) کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟ آپ نے فرمایا:بھتیجے! کیا یہ مسئلہ (کہیں) واقع ہوا ہے؟ (یعنی پیش آیا ہے؟) اس نے کہا: نہیں۔ آپ نے فرمایا: ہمیں اس وقت تک معاف رکھو جب تک یہ مسئلہ واقع نہ ہو جائے۔ (سنن الدارمي: 1/ 56 ح 154، صححہ الشیخ تنویر الحق الترمذي) یعنی اس مسئلے کے وقوع کے بعد ہی ہم فتویٰ دے سکتے ہیں۔ وقوع سے پہلے خیالی و فرضی مسائل پرہم فتوے نہیں دیتے۔ 2: رفیع بن مہران، ابو العالیہ الریاحی البصری آپ 93ھ کو فوت ہوئے۔ آپ کی توثیق درج ذیل ائمہ نے کی ہے: 1– ابن معین: ’’ثقۃ‘‘ (الجرح والتعدیل: 3/ 510، سندہ صحیح) 2– ابو زرعہ الرازی: ’’بصري ثقۃ‘‘ (الجرح والتعدیل: 3/ 510) 3– عجلی: ’’بصري، تابعي، ثقۃ، من کبار التابعین‘‘ (تاریخ الثقات: 1984) 4– ابن سعد: ’’وکان ثقۃ کثیر الحدیث‘‘ (الطبقات لابن سعد: 7/ 117) 5– ابن عدی: ’’أحادیث صالحۃ غیر ما ذکرت …… وسائر أحادیثہ مستقیمۃ صالحۃ‘‘ (الکامل: 4/ 105 تحت 679) 6– ابن حبان: ذکرہ في الثقات (4/ 239) 7– ابن الجوزی: ’’وکان عالمًا ثقۃ‘‘ (المنتظم في تاریخ الأمم والملوک: 6/ 297) 8– ابن کثیر: ’’تابعي شھیر‘‘ (التکمیل في الجرح والتعدیل: 3/ 271 رقم: 2149) 9– ذہبی: ’’الامام المقرئي الحافظ المفسر …… أحد الأعلام‘‘ (سیر أعلام النبلاء: 4/ 207) اور فرمایا: ’’أحد علماء البصرۃ وأئمتھا‘‘ (تاریخ الاسلام: 6/ 529) اور فرمایا: ’’[صح] …… وھو ثقۃ‘‘ (میزان الاعتدال: 2/ 54 رقم: 2790، المغني: 7564) 10– ابن المستوفی: ’’ویعتبرہ أھل الحدیث ثقۃ‘‘ (تاریخ اربل: 2/ 114) 11– ابن حجر عسقلانی: ’’ثقۃ کثیر الارسال‘‘ (تقریب التھذیب: 1953) 12– نووی: ’’من کبار التابعین المخضرمین …… مجمع علی توثیقہ‘‘ (تھذیب الأسماء واللغات: 2/ 251) 13– بخاری: روی لہ (صحیح البخاري: ح 581، وغیرہ) 14– مسلم: روی لہ (صحیح مسلم: ح 165، وغیرہ) 15– ترمذی: أخرج حدیثہ وقال: ’’حسن صحیح‘‘ (سنن الترمذي: ح 183، وغیرہ) 16– ابن الجارود: روی لہ (المنتقی: ح 473) 17– ابن خزیمہ: روی لہ (صحیح ابن خزیمۃ: ح 2632، وغیرہ) 18– ابو عوانہ: روی لہ (المستخرج علی صحیح مسلم: 2/ 139 ح 461، وغیرہ) 19– حاکم: أخرج حدیثہ وقال: ’’ورواتہ صادوق‘‘ (المستدرک: 1/ 333 ح 1237) 20– ابو نعیم اصبہانی: روی لہ (المستخرج علی صحیح مسلم: 1/ 234 ح 422، وغیرہ) 21– بغوی: أخرج حدیثہ وقال: ’’ھذا حدیث حسن صحیح‘‘ (شرح السنۃ: 3/ 313 ح 770، وغیرہ) 22– ضیاء المقدسی: روی لہ (الأحادیث المختارۃ: 3/ 348 ح 1141، وغیرہ) 3: الربیع بن انس الخراسانی البکری البصری آپ کی توثیق درج ذیل ائمہ نے کی ہے: 1– ابو حاتم رازی: ’’ھو صدوق‘‘ (الجرح والتعدیل: 3/ 454) 2– عجلی: ’’بصري، ثقۃ‘‘ (تاریخ الثقات: 416) 3– البزار: ’’صالح لا بأس بہ‘‘ (البحر الزخار: 13/ 134رقم: 6526، کشف الأستار عن زوائد البزار: 1/ 21 رقم: 23) 4– ابن حبان: ذکرہ في الثقات وقال: ’’والناس یتقون حدیثہ ما کان من روایۃ أبي جعفر عنہ لأن فیھا اضطراب کثیر‘‘ (الثقات: 4/ 228) اور فرمایا: ’’وکان راویۃ لأبي العالیۃ، وکل ما في أخبارہ من المناکیر إنما ھي من جھۃ أبي جعفر الرازی‘‘ (مشاھیر علماء الأمصار: 987) 5– ذہبی: ’’وکان عالم مرو في زمانہ‘‘ (سیر أعلام النبلاء: 6/ 170) اور ان کی روایت کے بارے میں فرمایا: ’’علی شرط البخاري ومسلم‘‘ (تلخیص المستدرک: 2/ 500 ح 3847، وغیرہ) 6– ابن حجر عسقلانی: ’’صدوق لہ أوھام ورمي بالتشیع‘‘ (تقریب التھذیب: 1882) 7– ترمذی: أخرج حدیثہ وقال: ’’حسن غریب‘‘ (سنن الترمذي: ح 2647، وغیرہ) 8– أخرج حدیثہ وقال: ’’ورواتہ صادوق‘‘ (المستدرک: 1/ 333 ح 1237) 9– ضیاء المقدسی: روی لہ (الأحادیث المختارۃ: 3/ 348 ح 1141، وغیرہ) 10– ابن خلفون: ذکرہ في الثقات وقال: ’’کان عالمًا بتفسیر القرآن‘‘ (إکمال تھذیب الکمال: 4/ 328) 4: ابو جعفر الرازی (عیسی بن عبداللہ بن ماہان التمیمی / عیسی بن ابی عیسی التمیمی) جمہور نے آپ کی توثیق کی ہے لہٰذا آپ حسن الحدیث (في غیر ما أنکر إلیہ) ہیں۔ آپ کی توثیق درج ذیل ائمہ نے کی ہے: 1– ابن معین: ’’ثقۃ، وھو یغلط فیما یروي عن مغیرۃ‘‘ (تاریخ ابن معین روایۃ الدوري: 4/ 358 رقم: 4772، الجرح والتعدیل: 6/ 281 وسندہ صحیح) اور فرمایا: ’’لیس بہ بأس‘‘ (من کلام أبي زکریا یحیي بن معین: 82) اور فرمایا: ’’صالح‘‘ (الجرح والتعدیل: 6/ 281، سندہ صحیح) 2– علی بن المدینی: ’’کان أبو جعفر عندنا ثقۃ‘‘ (سوالات ابن أبي شیبۃ: 150) 3– احمد بن حنبل: ’’صالح الحدیث‘‘ (تاریخ بغداد: 11/ 146 تحت 5843، سندہ صحیح) 4– ابو حاتم رازی: ’’ثقۃ صدوق صالح الحدیث‘‘ (الجرح والتعدیل: 6/ 281) 5– ابن سعد: ’’وکان ثقۃ‘‘ (الطبقات لابن سعد: 7/ 380) 6– محمد بن عبداللہ بن عمار الموصلی: ’’ثقۃ‘‘ (تاریخ بغداد: 11/ 147 تحت 5843، سندہ صحیح) 7– ابن عدی: ’’ولأبي جعفر الرازي أحادیث صالحۃ مستقیمۃ یرویھا …… وأحادیثہ عامتھا مستقیمۃ، وأرجوا أنہ لا بأس بہ‘‘ (الکامل: 6/ 449، 450 تحت رقم: 1400) 8– حاکم: أخرج حدیثہ وقال: ’’وحالہ عند سائر الأئمۃ أحسن الحال …… ورواتہ صادوق‘‘ (المستدرک: 1/ 333 ح 1237) 9– ابن عبدالبر: ’’وھو عندھم ثقۃ عالم بتفسیر القرآن‘‘ (الاستغناء: 1/ 503) 10– ذہبی: ’’صالح الحدیث‘‘ (میزان الاعتدال: 3/ 319 رقم: 6595) اور فرمایا: ’’صدوق‘‘ (المغني: 4821) 11– ابن حجر عسقلانی: ’’صدوق، سيء الحفظ خصوصًا عن مغیرۃ‘‘ (تقریب التھذیب: 8019) 12– شعبہ: روی لہ وھو لا یروي إلا عن ثقۃ عندہ غالبًا۔ (قال أبو حاتم رازي في الجرح والتعدیل [8/ 424]: ’’إذا رأیت شعبۃ یحدث عن رجل فاعلم أنہ ثقۃ إلا نفرا باعیانھم‘‘) 13– ترمذی: أخرج حدیثہ وقال: ’’حسن غریب صحیح‘‘ (سنن الترمذي: ح 3026، وغیرہ) 14– ابن خزیمہ: روی لہ (صحیح ابن خزیمۃ: ح 998، وغیرہ) 15– ابو عوانہ: روی لہ (المستخرج علی صحیح مسلم: 4/ 297 ح 1593، وغیرہ) 16– ابو القاسم الحنائی: أخرج حدیثہ وقال: ’’وھو حسن عزیز من حدیث أبي جعفر الرازي واسمہ عیسی بن ماھان واللّٰہ أعلم‘‘ (فوائد الحنائي: 2/ 1102) 17– بغوی: أخرج حدیثہ وقال: ’’ھذا حدیث صحیح‘‘ (شرح السنۃ: 5/ 272 ح 1455، وغیرہ) 18– ضیاء المقدسی: روی لہ وقال: ’’وثقہ علي بن المدیني ویحیي بن معین‘‘ (الأحادیث المختارۃ: 6/ 97 ح 2081) 5: محمد بن میسر، ابو سعد الصاغانی الضریر الجعفی جمہور محدثین نے انھیں ضعیف قرار دیا ہے: 1– ابن معین: ’’وکان جھمیًا ولیس ھو بشيء، کان شیطانًا من الشیاطین‘‘ (تاریخ ابن معین روایۃ الدوري: 4/ 361 رقم: 4788) 2– بخاری: ’’فیہ اضطراب‘‘ (التاریخ الکبیر: 1/ 245 رقم: 778) 3– نسائی: ’’متروک الحدیث‘‘ (الضعفاء والمتروکین: 540) 4– یعقوب بن سفیان الفارسی: ’’باب من یرغب عن الروایۃ عنھم؛ وکنت أسمع أصحابنا یضعفونھم، منھم أبو سعد الصاغاني‘‘ (تاریخ بغداد: 3/ 282 تحت 1367، سندہ حسن) 5– ابن عدی: ’’والضعْفُ بَیِّنٌ علی روایاتہ‘‘ (الکامل في ضعفاء الرجال: 7/ 461 رقم: 1696) 6– ابو جعفر العقیلی: ذکرہ في کتاب الضعفاء الکبیر (4/ 140 رقم: 1702) 7– ابن حبان: ’’مضطرب الحدیث، کان ممن یقلب الأسانید، لا یجوز الاحتجاج بہ إلا فیما وافق الثقات، فیکون حدیثہ کالمتآنس بہ دون المحتج بما یرویہ‘‘ (المجروحین: 2/ 271) 8– ابن شاہین: ’’وکان مکفوفًا وکان جھمیًا ولیس ھو بشيء۔ وکان شیطانًا من الشیاطین‘‘ (تاریخ أسماء الضعفاء والکذابین: 563) 9– دارقطنی: ’’أبو سعد الصاغاني ضعیف‘‘ (سنن الدارقطني:1/ 330 تحت ح 1232) 10– السمعانی: ’’مضطرب الحدیث، ممن کان یقلب الأسانید، لا یجوز الاحتجاج بہ إلا فیما وافق الثقات فیکون حینئذ کالمستأنس بہ دون المحتج بما یرویہ‘‘ (الأنساب: 8/ 311 تحت ’’الصاغاني‘‘، شاملۃ) 11– ابن الجوزی: ذکرہ في الضعفاء والمتروکون (3223) 12– ذہبی: ’’ضعَّفوہ ورُمي بالتَّجَھُّم‘‘ (الکاشف: 5176، طبع: دار الحدیث القاھرۃ) اور المغنی فی الضعفاء (6033) دیوان الضعفاء (4009) میزان الاعتدال (4/ 52 رقم: 8241) وغیرہ میں ذکر کیا۔ 13– ابن حجر عسقلانی: ’’ضعیف ورمي بالإرجاء‘‘ (تقریب التھذیب: 3644) 14– بیہقی: أخرج حدیثہ وقال: ’’وھذا باطلٌ أخطأ فیہ أبو سعد الصاغاني ھذا علی ابن عجلان فغیر إسنادہ وزاد في متنہ وخالف ما روی الثقات عن ابن عجلان وأبو سعد جرحہ یحیي بن معین وغیرہ‘‘ (القراءۃ خلف الامام: ح 292، نسخۃ أخری: ح 312) 6: احمد بن منیع بن عبد الرحمن البغوی، ابو جعفر الاصم (نزیل بغداد) آپ 244ھ کو فوت ہوئے۔ آپ کی توثیق درج ذیل ائمہ نے کی ہے: 1– ابو حاتم رازی: ’’صدوق‘‘ (الجرح والتعدیل: 2/ 78) 2– نسائی: ’’ثقۃ، بغدادي‘‘ (مشیخۃ النسائي: ص 25 رقم: 70) 3– ابن حبان: ذکرہ في الثقات (8/ 22) 4– ابن الجوزی: ’’وکان ثقۃ‘‘ (المنتظم: 11/ 324 رقم: 1464) 5– ابن عبدالہادی: ’’الحافظ الحجۃ‘‘ (طبقات علماء الحدیث: 2/ 144) 6– ذہبی: ’’الامام الحافظ الثقۃ‘‘ (سیر أعلام النبلاء: 11/ 483) اور فرمایا: ’’الحافظ الحجۃ‘‘ (تذکرۃ الحفاظ: 2/ 482 رقم: 496) 7– ابن حجر عسقلانی: ’’ثقۃ حافظ‘‘ (تقریب التھذیب: 114) 8– بخاری: روی لہ (صحیح البخاري: 5680) 9– مسلم: روی لہ (صحیح مسلم: 1399 [دار السلام: 3389]، وغیرہ) 10– ابو زرعہ الرازی: روی لہ وھو لا یروي إلا عن ثقۃ عندہ غالبًا۔ (قال ابن حجر عسقلاني في لسان المیزان [2/ 511، في ترجمۃ: داود بن حماد بن فرافصۃ البلخي]: ’’فمن عادۃ أبي زرعۃ أن لا یحدث إلا عن ثقۃ‘‘) 11– ترمذی: أخرج حدیثہ وقال: ’’حسن صحیح‘‘ (سنن الترمذي: ح 56، وغیرہ) 12– البزار: أخرج حدیثہ وقال: ’’وإسنادہ حسن‘‘ (البحر الزخار: 10/ 27 ح 4088) 13– ابن خزیمہ: روی لہ (صحیح ابن خزیمۃ: ح 532، وغیرہ) 14– ابو عوانہ: روی لہ (المستخرج علی صحیح مسلم: 13/ 333 ح 6719، وغیرہ) 15– حاکم: أخرج حدیثہ وقال: ’’صحیح الإسناد‘‘ (المستدرک: 2/ 504 ح 3860، وغیرہ) 16– ابو نعیم اصبہانی: روی لہ (المستخرج علی صحیح مسلم: 2/ 106 ح 1098، وغیرہ) 17– بغوی: أخرج حدیثہ وقال: ’’ھذا حدیث صحیح‘‘ (شرح السنۃ: 4/ 255 ح 1079، وغیرہ) 18– ضیاء المقدسی: روی لہ (الاحادیث المختارۃ: 1/ 77 ح 5، وغیرہ) 7: محمود بن خداش، ابو محمد الطالقانی (ثم البغدادی) آپ 250ھ کو فوت ہوئے۔ آپ کی توثیق درج ذیل ائمہ نے کی ہے: 1– ابن حبان: ذکرہ في الثقات (9/ 202) 2– ذہبی: ’’الامام الحافظ الثقۃ‘‘ (سیر أعلام النبلاء: 12/ 179، الکاشف: 5314) 3– ابن حجر عسقلانی: ’’صدوق‘‘ (تقریب التھذیب: 6511) 4– ترمذی: أخرج حدیثہ وقال: ’’حسن غریب‘‘ (سنن الترمذي: ح 3118، وغیرہ) 5– ابو عوانہ: روی لہ (المستخرج علی صحیح مسلم: 1/ 91 ح 37) 6– دارقطنی: أخرج حدیثہ وقال: ’’إسناد صحیح، وکلھم ثقات‘‘ (سنن الدارقطنی: 1/ 312 ح 1178) 7– ضیاء المقدسی: روی لہ (الأحادیث المختارۃ: 3/ 267 ح 1070، وغیرہ) ……… نوٹ ……… اس مضمون کی نظر ثانی فضیلۃ الشیخ حبیب الرحمٰن ہزاروی حفظہ اللہ نے کی ہے۔ جزاہم اللہ احسن الجزاء یہ مضمون ’’اشاعۃ الحدیث‘‘ موبائل ایپ پر شیئر کیا گیا ہے، اور اس سے پہلے کہیں شائع نہیں ہوا۔ |
ہماری موبائل ایپ انسٹال کریں۔ تحقیقی مضامین اور تحقیقی کتابوں کی موجودہ وقت میں ان شاء اللہ سب سے بہترین ایپ ہے، والحمدللہ۔
دیگر بلاگ پوسٹس:
Android App --or-- iPhone/iPad App
IshaatulHadith Hazro © 2024