کتاب التوحید لابن خزیمہ، باب 7، حدیث 45 |
ترجمہ، تحقیق و تخریج: حافظ معاذ بن زبیر علی زئی حفظہ اللہ 45: وَرَوَی الثَّوْرِیُّ، ہٰذَا الْخَبَرَ مُرْسَلًا غَیْرَ مُسْنَدٍ۔ اور ثوری نے اس خبر کو مسند نہیں مرسل بیان کیا۔ حَدَّثَنَا أَبُوْ مُوسٰی مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنّٰی قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ مَہْدِیٍّ قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْیَانُ، عَنْ حَبِیْبِ بْنِ أَبِيْ ثَابِتٍ، عَنْ عَطَاءٍ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ: ((لَا یُقَبَّحُ الْوَجْہُ فَإِنَّ ابْنَ آدَمَ خُلِقَ عَلٰی صُوْرَۃِ الرَّحْمٰنِ))۔ عطاء بن ابی رباح رحمہ اللہ (تابعی) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’تم کسی (انسانی) چہرے کو بُرا نہ کہو کیونکہ بے شک ابن آدم کو رحمن کی صورت پر پیدا کیا گیا ہے۔‘‘ تحقیق: إسنادہ ضعیف عطاء بن ابی رباح رحمہ اللہ تابعی ہیں لہٰذا یہ روایت مرسل ہے، نیز سفیان الثوری رحمہ اللہ اور حبیب بن ابی ثابت رحمہ اللہ دونوں مدلس ہیں اور سماع کی تصریح نہیں ملی۔ امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ نے بھی اس سند پر جرح کی ہے۔ نیز دیکھئے حدیث سابق: 44 تخریج: تفرد بہ ابن خزیمۃ من حدیث سفیان الثوري مرسلًا۔ وانظر العلل للدارقطني (13/ 188) وغیرہ۔ رجال الاسناد: 1: عطاء بن ابی رباح القرشی المکی، ابو محمد آپ 114ھ کو فوت ہوئے۔ آپ تدلیس سے بَری ہیں (الفتح المبین: ص 218)۔ آپ کی توثیق ابو جعفر محمد بن علی بن حسین بن علی بن ابی طالب، ابن معین، ابو زرعہ رازی، عجلی، ابن سعد، ابن حبان، سمعانی اور ابن الجوزی وغیرہ نے کی ہے۔ آپ کے حالات کے لئے دیکھئے حدیث سابق: 44 2: حبیب بن ابی ثابت الکوفی، ابو یحییٰ الاسدی آپ 119ھ کو فوت ہوئے۔ آپ مدلس ہیں (الفتح المبین: 69/ 3 ص 88)۔ آپ کی توثیق ابن معین، ابو حاتم رازی، عجلی، یعقوب بن سفیان الفارسی، ابن عدی، ابن شاہین اور ابن حبان وغیرہ نے کی ہے۔ آپ کے حالات کے لئے دیکھئے حدیث سابق: 44 3: سفیان بن سعید بن مسروق الثوری، ابو عبداللہ الکوفی آپ 97ھ کو پیدا ہوئے اور 161ھ کو وفات پائی۔ آپ مدلس ہیں(الفتح المبین: 51/ 2 ص 67)۔ آپ کے فضائل و مناقب بہت زیادہ ہیں۔ آپ کی توثیق شعبہ، ابو حاتم رازی، ابو زرعہ رازی، عجلی، ابن سعد، ابن حبان، دارقطنی اور خطیب بغدادی وغیرہ نے کی ہے۔ آپ کے حالات کے لئے دیکھئے حدیث سابق: 34 4: عبدالرحمٰن بن مہدی بن حسان، ابو سعید البصری العنبری آپ 135ھ کو پیدا ہوئے، اور 198ھ کو فوت ہوئے۔ آپ اپنے نزدیک عموماً صرف ثقہ سے روایت کرتے تھے، امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے فرمایا: ’’وکان لا یحدث إلا عن ثقۃ‘‘ (سؤالات أبي داود السجستاني: 503)، امام ابو داود السجستانی رحمہ اللہ نے فرمایا: ’’قلت لأحمد: إذا روی یحیي أو عبد الرحمٰن بن مھدي عن رجل مجھول، یُحتج بحدیثہ؟ قال: یحتج بحدیثہ‘‘ (سؤالات أبي داود السجستاني: 137) نیز دیکھئے لسان المیزان (1/ 15) اور تدریب الراوی (1/ 317) وغیرہ۔ آپ کی توثیق بہت سارے ائمہ نے کی ہے، جن میں سے بعض درج ذیل ہیں: 1– یحییٰ بن سعید القطان: ’’فرأیت کتابہ صالحًا‘‘ (تاریخ ابن معین روایۃ الدوري: 4/ 148 رقم: 3634، سندہ صحیح) صدقہ بن الفضل نے کہا: ’’أتیت یحیي بن سعید القطان أسألہ عن شيء من الحدیث فقال لي: — الزم عبد الرحمٰن بن مھدي — وأفادني عنہ أحادیث‘‘ إلخ (الجرح والتعدیل: 5/ 289 سندہ حسن) 2– ابن معین: معاویہ بن صالح نے پوچھا: ’’من أثبت شیوخ البصریین؟‘‘ تو فرمایا: ’’عبد الرحمٰن بن مھدي-مع جماعۃ سماھم‘‘ (الجرح والتعدیل: 5/ 290، سندہ صحیح) 3– علی بن المدینی: ’’کان عبد الرحمٰن أعلم الناس‘‘ قالھا مرارًا۔ (الجرح والتعدیل: 5/ 289، سندہ صحیح) اور پوچھا گیا: ’’من أوثق أصحاب الثوري؟‘‘ تو فرمایا: ’’یحیي القطان وعبد الرحمٰن بن مھدي ووکیع وأبو نعیم‘‘ (الجرح والتعدیل: 5/ 289، 290، سندہ صحیح) 4– احمد بن حنبل: ’’کان ثقۃ خیارًا من معادن الصدق صالحًا مسلمًا‘‘ (الجرح والتعدیل: 5/ 290، سندہ صحیح) 5– ابو حاتم رازی: ’’عبد الرحمٰن بن مھدي أثبت أصحاب حماد بن زید وھو إمام ثقۃ أثبت من یحیي بن سعید وأتقن من وکیع‘‘ (الجرح والتعدیل: 5/ 290) 6– عجلی: ’’أثبت في سفیان من جماعۃ ذکرھم‘‘ (تاریخ الثقات: 985) اور فرمایا: ’’أحسن إسناد الکوفۃ: حدثنا عبد الرحمٰن بن مھدي، قال: حضرت سفیان بمکۃ، یکتب عن عکرمۃ بن عمار وھو جاث علی رکبتیہ، وجعل یوقفہ: سمعت فلانًا، سمعت فلانًا، سمعت فلانًا، فقال: قلت یا أبا عبد اللّٰہ! أکتب لک؟ قال: لا، لیس یکتب سماعي غیري‘‘ (تاریخ الثقات: تحت رقم 571 ص 129) 7– محمد بن ابی بکر المقدمی: ’’ما رأیت أحدًا أتقن لما سمع ولما لم یسمع ولحدیث الناس من عبد الرحمٰن بن مھدي‘‘ (الجرح والتعدیل: 5/ 290، سندہ صحیح) 8– جریر بن عبدالحمید الضبی الرازی: ’’ما رأیت مثل عبد الرحمٰن بن مھدي‘‘ ووصف عنہ بصریًا بالحدیث وحفظًا۔ (الجرح والتعدیل: 5/ 289، سندہ صحیح) 9– ابن سعد: ’’وکان ثقۃ کثیر الحدیث‘‘ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد: 7/ 297) 10– عبد الرحمن بن ابی حاتم رازی [باب قائم کیا]: ’’ومن العلماء الجھابذۃ النقاد من أھل البصرۃ من الطبقۃ الثانیۃ عبد الرحمٰن بن مھدي رحمہ اللہ۔ ما ذکر من علم عبد الرحمٰن بن مھدي بناقلۃ الآثار وصحیح الأخبار وسقیمھا وفقھہ ومعرفتہ‘‘ (تقدمۃ الجرح والتعدیل: 1/ 251) اور باب قائم کیا: ’’باب ما ذکر من إتقان عبد الرحمٰن بن مھدي وحفظہ وثبتہ‘‘ (تقدمۃ الجرح والتعدیل: 1/ 253) 11– ابن حبان: ذکرہ في الثقات وقال: ’’وکان من الحفاظ المتقنین وأھل الورع في الدین، ممن حفظ وجمع وتفقہ، وصنف وحدث، وأبٰی الروایۃ إلا عن الثقات‘‘ (الثقات: 8/ 373) 12– دارقطنی: ’’وخالفہ جماعۃ من الثقات، منھم: عبد الرحمٰن بن مھدي‘‘ (العلل: 4/ 107) وأخرج حدیثہ وقال: ’’إسناد صحیح‘‘ (سنن الدارقطني: 1/ 54 ح 143، وغیرہ) 13– خطیب بغدادی: ’’وکان من الربانیین في العلم، وأحد المذکورین بالحفظ، وممن برع في معرفۃ الأثر، وطرق الروایات، وأحوال الشیوخ‘‘ (تاریخ بغداد: 10/ 240 تحت 5366) 14– ابن لجوزی: ’’وکان من کبار العلماء، وأحد المذکورین بالحفظ والفقہ، وکان شدید الحب لحفظ الحدیث‘‘ (المنتظم في تاریخ الأمم والملوک: 10/ 69) 15– السمعانی: ’’کان من الحفاظ المتقنین وأھل الورع في الدین، ممن حفظ وجمع وتفقہ وصنف وحدث، وما کان یروي إلا عن الثقات‘‘ (الأنساب: 5/ 145، نسخۃ أخریٰ: 11/ 230 تحت ’’اللؤلؤي‘‘) 16– ابو نعیم اصبہانی: ’’الامام الرضی، والزمام القوی، ناقد الآثار، وحافظ الأخبار …… کان للسن والآثار تابعًا، وللآراء ولأھواء دافعًا‘‘ (حلیۃ الأولیاء وطبقات الأصفیاء: 9/ 3) اور فرمایا: ’’وکان — رحمہ اللّٰہ — کثیر التشدد في انتقاد الرجال شدید الاستقصاء في إظھار أحوالھم وتبین سیئاتھم حتی أنہ — رحمہ اللّٰہ — کان یری مقارفۃ بعض المحارم أھون من الروایۃ عن الکاذبین‘‘ (المستخرج علی صحیح مسلم: 1/ 54 تحت ح 47) 17– ذہبی: ’’الامام الناقد المجود، سید الحفاظ …… وکان إمامًا حجۃً قدوۃً في العلم والعمل‘‘ (سیر أعلام النبلاء: 9/ 192) اور فرمایا: ’’أحد أرکان الحدیث بالعراق …… وکان أیضًا رأسًا في العبادۃ رحمہ اللّٰہ‘‘ (العبر في خبر من غبر: 1/ 255) 18– ابن عبدالہادی: ’’الامام الحافظ الکبیر الناقد …… إمام ثبت، أثبت من یحیي بن سعد …… وقد کان عبد الرحمٰن بن مھدي من کبار الفقھاء، بصیرًا بالفتوی، عظیم الشأن‘‘ (طبقات علماء الحدیث: 1/ 477) 19– نووی: ’’إمام أھل الحدیث في عصرہ، والمعول علیہ في علوم الحدیث ومعارفہ …… ومناقبہ کثیرۃ مشھورۃ‘‘ (تھذیب الأسماء واللغات: 1/ 304، 305) 20– ابن حجر عسقلانی: ’’ثقۃ ثبت حافظ عارف بالرجال والحدیث‘‘ (تقریب التھذیب: 4018) 21– بخاری: روی لہ (صحیح البخاري: ح 3861، وغیرہ) 22– مسلم: روی لہ (صحیح مسلم: ح 74 [دار السلام: 235]، وغیرہ) 23– ترمذی: أخرج حدیثہ وقال: ’’حسن صحیح‘‘ (سنن الترمذي: ح 132، وغیرہ) 24– البزار: أخرج حدیثہ وقال: ’’وإسنادہ حسن‘‘ (البحر الزخار: 9/ 70 ح 3598، وغیرہ) 25– ابن الجارود: روی لہ (المنتقی: ح 1، وغیرہ) 26– ابن خزیمہ: روی لہ (صحیح ابن خزیمۃ: ح 71، وغیرہ) 27– ابو عوانہ: روی لہ (المستخرج علی صحیح مسلم: 1/ 101 ح 40، وغیرہ) 28– حاکم: أخرج حدیثہ وقال: ’’صحیح الإسناد‘‘ (المستدرک: 1/ 401 ح 1456، وغیرہ) 29– بغوی: أخرج حدیثہ وقال: ’’ھذا حدیث صحیح‘‘ (شرح السنۃ: 5/ 173 ح 1373، وغیرہ) 30– ضیاء المقدسی: روی لہ (الأحادیث المختارۃ: 1/ 73 ح 1، وغیرہ) 5: محمد بن المثنیٰ بن عبید بن قیس، ابو موسیٰ العنزی البصری (المعروف بالزمن) آپ کی توثیق ابن معین، ابو حاتم رازی، نسائی، ابن حبان، خطیب بغدادی، ابو یعلیٰ الخلیلی، ابو عروبہ الحرانی اور السمعانی وغیرہ نے کیا ہے۔ بخاری مسلم نے آپ سے روایتیں لی ہیں۔ آپ کے حالات کے لئے دیکھئے حدیث سابق: 19 قَالَ أَبُوْ بَکْرٍ: وَقَدِ افْتَتَنَ بِہٰذِہِ اللَّفْظَۃِ الَّتِيْ فِيْ خَبْرِ عَطَاءٍ عَالَمٌ، مِمَّنْ لَمْ یَتَحَرَّ الْعِلْمَ، وَتَوَہَّمُوْا أَنَّ إِضَافَۃَ الصُّوْرَۃِ إِلَی الرَّحْمٰنِ فِيْ ہٰذَا الْخَبْرِ مِنْ إِضَافَۃِ صِفَاتِ الذَّاتِ، فَغَلَطُوْا فِيْ ہٰذَا غَلَطًا بَیِّنًا، وَقَالُوْا مَقَالَۃً شَنِیْعَۃً مُضَاہِیَۃً لِقَوْلِ الْمُشَبِّہَۃِ، أَعَاذَنَا اللّٰہُ وَکُلَّ الْمُسْلِمِیْنَ مِنْ قَوْلِہِمْ۔ امام ابو بکر (ابن خزیمہ رحمہ اللہ) نے فرمایا: اور یقیناً اس لفظ کے ساتھ جو عطاء کی خبر میں ہے بہت بڑا جہان فتنے میں مبتلا ہوا ہے، ان لوگوں میں سے جنھوں نے علم کی جستجو نہیں کی، اور انھوں نے وہم کیا کہ اس خبر میں صورت کی نسبت رحمٰن کی طرف یہ ذات کی صفات کی نسبت میں سے ہے، تو انھوں نے یہاں پر واضح غلطی کی ہے، اور انھوں نے مشبہ کے قول جیسی بُری باتیں کی ہیں۔ اللہ ہمیں اور تمام مسلمانوں کو ان کی باتوں سے بچائے۔ فَالَّذِيْ عِنْدِيْ فِيْ تَأْوِیْلِ ہٰذَا الْخَبَرِ — إِنْ صَحَّ مِنْ جِہَۃِ النَّقْلِ مَوْصُوْلًا —۔ تو میرے ہاں اس خبر کا جو معنی ومفہوم ہے، اگر یہ (حدیث) موصولاً نقل کے اعتبار سے صحیح ہو۔ فَإِنَّ فِي الْخَبْرِ عِلَلًا ثَلَاثًا: تو اس خبر میں تین علتیں ہیں: إِحْدَاہُنَّ: أَنَّ الثَّوْرِيَّ قَدْ خَالَفَ الْأَعْمَشَ فِيْ إِسْنَادِہٖ، فَأَرْسَلَ الثَّوْرِيُّ وَلَمْ یَقُلْ: عَنِ ابْنِ عُمَرَ۔ ان میں سے پہلی: وہ یہ کہ ثوری نے اس کی سند میں اعمش کی مخالفت کی ہے، تو ثوری نے مرسل بیان کیا اور ’’عن ابن عمر‘‘ نہیں کہا۔ وَالثَّانِیَۃُ: أَنَّ الْأَعْمَشَ مُدَلِّسٌ، لَمْ یَذْکُرْ أَنَّہُ سَمِعَہُ مِنْ حَبِیْبِ بْنِ أَبِيْ ثَابِتٍ۔ اور دوسری: وہ یہ کہ اعمش مدلس ہیں، انھوں نے یہ ذکر نہیں کیا کہ انھوں نے حبیب بن ابی ثابت سے سنا ہے۔ وَالثَّالِثَۃُ: أَنَّ حَبِیْبَ بْنَ أَبِيْ ثَابِتٍ أَیْضًا مُدَلِّسٌ، لَمْ یُعْلَمْ أَنَّہُ سَمِعَہُ مِنْ عَطَاءٍ۔ اور تیسری: وہ یہ کہ حبیب بن ابی ثابت بھی مدلس ہیں، ان کا عطاء سے سماع معلوم نہیں۔ سَمِعْتُ إِسْحَاقَ بْنَ إِبْرَاہِیْمَ بْنِ حَبِیْبِ بْنِ الشَّہِیدِ یَقُولُ: حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ عَیَّاشٍ، عَنِ الْأَعْمَشِ قَالَ: قَالَ حَبِیْبُ بْنُ أَبِيْ ثَابِتٍ: ’’لَوْ حَدَّثَنِيْ رَجُلٌ عَنْکَ بِحَدِیْثٍ لَمْ أُبَالِ أَنْ أَرْوِیَہُ عَنْکَ، یُرِیْدُ: لَمْ أُبَالِ أَنْ أُدَلِّسَہُ‘‘۔ (امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ کہتے ہیں) میں نے اسحاق بن ابراہیم بن حبیب بن الشہید (ثقہ) کو فرماتے سنا، وہ کہتے ہیں ہمیں ابو بکر بن عیاش (صدوق) نے بیان کیا، وہ اعمش (ثقہ مدلس) سے روایت کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ حبیب بن ابی ثابت نے کہا: ’’اگر کوئی آدمی مجھے آپ سے کوئی حدیث بیان کرے، تو مجھے پروا نہیں کہ میں اسے آپ سے روایت کروں‘‘ ان کی مراد ہے: ’’مجھے پروا نہیں کہ میں اس کی تدلیس کروں‘‘۔ قَالَ أَبُوْ بَکْرٍ: وَمِثْلُ ہٰذَا الْخَبْرِ، لَا یَکَادُ یَحْتَجُّ بِہٖ عُلَمَاؤُنَا مِنْ أَہْلِ الْأَثَرِ۔ امام ابو بکر (ابن خزیمہ رحمہ اللہ) نے فرمایا: اور ہمارے اہلِ اثر علماء میں سے کوئی بھی اس جیسی حدیث سے دلیل نہیں پکڑتا۔ لَا سِیَّمَا إِذَا کَانَ الْخَبْرُ فِيْ مِثْلِ ہٰذَا الْجِنْسِ، فِیْمَا یُوْجِبُ الْعِلْمَ لَوْ ثَبَتَ، لَا فِیْمَا یُوْجِبُ الْعَمَلَ بِمَا قَدْ یُسْتَدَلُّ عَلٰی صِحَّتِہِ وَثُبُوْتِہِ بِدَلَائِلَ مِنْ نَظَرٍ، وَتَشْبِیْہٍ، وَتَمْثِیْلٍ بِغَیْرِہِ مِنْ سُنَنِ النَّبِيِّ ﷺ مِنْ طَرِیْقِ الْأَحْکَامِ وَالْفِقْہِ۔ بالخصوص کہ جب حدیث اس جیسے علم (یعنی عقائد کے مسائل) کی جنس سے ہو جس کے اندر علم کا ہونا لازمی ہے، اگر وہ حدیث ثابت ہو جائے، نہ کہ وہ حدیث جس میں عمل ضروری ہوتا ہے، جس کی صحت اور ثبوت کے لئے مختلف دلائل سے بھی استدلال کیا جاسکتا ہے۔ اور وہ اس جیسی کسی اور حدیث کے مشابہ ہو۔ نبی ﷺ کی سنتوں، فقہی مسائل اور احکام میں سے۔ فَإِنْ صَحَّ ہٰذَا الْخَبْرُ مُسْنَدًا، بِأَنْ یَکُوْنَ الْأَعْمَشُ قَدْ سَمِعَہُ مِنْ حَبِیْبِ بْنِ أَبِيْ ثَابِتٍ، وَحَبِیْبٌ قَدْ سَمِعَہُ مِنْ عَطَاءِ بْنِ أَبِيْ رَبَاحٍ، وَصَحَّ أَنَّہُ عَنِ ابْنِ عُمَرَ عَلٰی مَا رَوَاہُ الْأَعْمَشُ۔ اور اگر یہ حدیث سنداً صحیح ثابت بھی ہوجائے وہ اس طرح کہ اعمش نے اس کو حبیب بن ابی ثابت سے سنا ہو، اور حبیب نے اس کو عطاء بن ابی رباح سے سنا ہو، اور یہ بھی ثابت ہو جائے کہ وہ ابن عمر سے ہے، اُس طریقے سے جس طرح اس کو اعمش نے روایت کیا ہے۔ فَمَعْنٰی ہَذَا الْخَبْرِ عِنْدَنَا: أَنَّ إِضَافَۃَ الصُّوْرَۃِ إِلَی الرَّحْمٰنِ فِيْ ہٰذَا الْخَبْرِ، إِنَّمَا ہُوَ مِنْ إِضَافَۃِ الْخَلْقِ إِلَیْہِ؛ لِأَنَّ الْخَلْقَ یُضَافُ إِلَی الرَّحْمٰنِ إِذِ اللّٰہُ خَلَقَھُمْ وَکَذَلِکَ الصُّوْرَۃُ تُضَافُ إِلَی الرَّحْمٰنِ؛ لِأَنَّ اللّٰہَ صَوَّرَہَا۔ تو اس حدیث کا ہمارے نزدیک معنی یہ ہوگا کہ بے شک صورت کی نسبت رحمن کی طرف اس حدیث میں درحقیقت خلق کی اللہ کی طرف نسبت میں سے ہے، کیونکہ خلق (پیدائش) کی نسبت رحمن کی طرف کی جاتی ہے، جبکہ اللہ نے ہی ان کو پیدا کیا ہے، تو اسی طرح صورت کی نسبت بھی رحمن کی طرف ہی کی جائے گی کیونکہ اللہ نے ہی اسے صورت دی ہے۔ أَلَمْ تَسْمَعْ قَوْلَہُ عَزَّ وَجَلَّ: ﴿ہٰذَا خَلْقُ اللّٰہِ فَأَرُوْنِيْ مَاذَا خَلَقَ الَّذِیْنَ مِنْ دُوْنِہِ﴾ [31/ لقمان: 11]، فَأَضَافَ اللّٰہُ الْخَلْقَ إِلٰی نَفْسِہِ، إِذِ اللّٰہُ تَوَلّٰی خَلْقَہُ۔ کیا تُو نے اللہ رب العزت کے اس قول کو نہیں سنا؟: ’’یہ اللہ کی پیدا کردہ ہے، تو تم مجھے بتاؤ کہ اس کے سوا لوگوں نے کیا پیدا کیا ہے؟‘‘ تو اللہ تعالیٰ نے خلق کی نسبت اپنی طرف کی ہے، کیونکہ اللہ ہی اپنی مخلوق کا کارساز ہے۔ وَکَذَلِکَ قَوْلُ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ: ﴿ہٰذِہِ نَاقَۃُ اللّٰہِ لَکُمْ آیَۃٌ﴾ [7/ الأعراف:73]، فَأَضَافَ اللّٰہُ النَّاقَۃَ إِلٰی نَفْسِہِ۔ اور اسی طرح اللہ تعالیٰ کا قول ہے: ’’یہ اللہ کی اونٹنی تمھارے لئے ایک نشانی کے طور پر ہے۔‘‘ تو اللہ نے اونٹنی کی نسبت اپنے نفس کی طرف کی ہے۔ وَقَالَ: ﴿تَأْکُلُ فِيْ أَرْضِ اللّٰہِ﴾ [7/ الأعراف:73]، وَقَالَ: ﴿أَلَمْ تَکُنْ أَرْضُ اللّٰہِ وَاسِعَۃً فَتُہَاجِرُوْا فِیْہَا﴾ [4/ النساء:97]؟ وَقَالَ: ﴿إِنَّ الْأَرْضَ لِلّٰہِ یُوْرِثُہَا مَنْ یَشَاءُ مِنْ عِبَادِہٖ﴾ [7/ الأعراف: 128]، فَأَضَافَ اللّٰہُ الْأَرْضَ إِلٰی نَفْسِہِ، إِذِ اللّٰہُ تَوَلّٰی خَلْقَہَا فَبَسَطَہَا۔ اور فرمایا: ’’اللہ کی زمین میں کھاتی پھرے۔‘‘ اور فرمایا: ’’کیا اللہ کی زمین وسیع نہ تھی کہ تم اس میں ہجرت کر جاتے؟‘‘ اور فرمایا: ’’بے شک زمین اللہ کی ہے، وہ اس کا وارث اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے بناتا ہے۔‘‘ پس اللہ نے زمین کی نسبت اپنے نفس کی طرف کی ہے، اللہ ہی اس (زمین کی پیدائش) کا کارساز ہے اور اس نے اس کو پھیلا دیا ہے۔ وَقَالَ: ﴿فِطْرَۃَ اللّٰہِ الَّتِيْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَیْہَا﴾ [30/ الروم: 30] فَأَضَافَ اللّٰہُ الْفِطْرَۃَ إِلٰی نَفْسِہِ، إِذِ اللّٰہُ فَطَرَ النَّاسَ عَلَیْہَا۔ اور فرمایا: ’’اللہ کی اس فطرت کے مطابق جس پر اس نے سب لوگوں کو پیدا کیا۔‘‘ پس اللہ نے فطرت کی نسبت اپنے نفس کی طرف کی ہے، کیونکہ اللہ نے سب لوگوں کو اس پر پیدا کیا ہے۔ فَمَا أَضَافَ اللّٰہُ إِلٰی نَفْسِہِ عَلٰی مَعْنَیَیْنِ: پس جو اللہ نے اپنے نفس کی طرف نسبت کی ہے، ا س کے دو معنی ہیں: أَحَدُہُمَا: إِضَافَۃُ الذَّاتِ۔ ان میں سے ایک: ذات کی طرف نسبت۔ وَالْآخَرُ: إِضَافَۃُ الْخَلْقِ۔ اور دوسرا: خلق کی طرف نسبت۔ فَتَفَہَّمُوْا ہٰذَیْنِ الْمَعْنَیَیْنِ، لَا تَغَالَطُوْا۔ فَمَعْنَی الْخَبْرِ-إِنْ صَحَّ مِنْ طَرِیْقِ النَّقْلِ مُسْنَدًا-۔ پس یہ دونوں معنے سمجھ لو، تم مغالطہ نہ کھاؤ، اگرنقل کے اعتبار سے (سنداً) صحیح ثابت ہو جائے۔ فَإِنَّ ابْنَ آدَمَ خُلِقَ عَلٰی الصُّوْرَۃِ الَّتِيْ خَلَقَہَا الرَّحْمٰنُ حِیْنَ صَوَّرَ آدَمَ، ثُمَّ نَفَخَ فِیْہِ الرُّوْحَ، قَالَ اللّٰہُ جَلَّ وَعَلَا: ﴿وَلَقَدْ خَلَقْنَاکُمْ ثُمَّ صَوَّرْنَاکُمْ﴾ [7/ الأعراف: 11] پس بے شک ابن آدم کو اسی صورت پر پیدا کیا گیا ہے جس کو رحمن نے پیدا کیا اُس وقت جب آدم علیہ السلام کی شکل بنائی پھر اس میں روح پھونکی، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’اور بلاشبہ یقینا ہم نے تمھیں پیدا کیا، پھر ہم نے تمھاری صورت بنائی‘‘۔ ……… نوٹ ……… اس مضمون کی نظر ثانی فضیلۃ الشیخ حبیب الرحمٰن ہزاروی حفظہ اللہ نے کی ہے، ترجمے کی نظر ثانی پیارے دوست محترم قاری اسامہ نذیر حفظہ اللہ نے بھی کی ہے۔ جزاہم اللہ احسن الجزاء یہ مضمون ’’اشاعۃ الحدیث‘‘ موبائل ایپ پر شیئر کیا گیا ہے، اور اس سے پہلے کہیں شائع نہیں ہوا۔ |
ہماری موبائل ایپ انسٹال کریں۔ تحقیقی مضامین اور تحقیقی کتابوں کی موجودہ وقت میں ان شاء اللہ سب سے بہترین ایپ ہے، والحمدللہ۔
دیگر بلاگ پوسٹس:
Android App --or-- iPhone/iPad App
IshaatulHadith Hazro © 2024