کتاب التوحید لابن خزیمہ، باب 5، حدیث 20 |
ترجمہ، تحقیق و تخریج: حافظ معاذ بن زبیر علی زئی حفظہ اللہ 20: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ الْحَکَمِ بْنِ أَبِيْ زِیَادِ الْقَطَوَانِیُّ قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ یَعْنِی ابْنَ عُبَیْدٍ قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ، عَنْ یَزِیدَ بْنَ أَبِيْ حَبِیبٍ، عَنْ نَاعِمٍ مَوْلٰی اُمِّ سَلَمَۃَ۔ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ: حَجَجْنَا مَعَہُ، حَتّٰی إِذَا کُنَّا بِبَعْضِ طَرِیْقِ مَکَّۃَ، رَأَیْتُہُ یَتَیَمَّمُ — وَطُرِحَ شَيْءٌ لَہُ — فَجَلَسَ تَحْتَہَا، ثُمَّ قَالَ: رَأَیْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ﷺ تَحْتَ ہٰذِہِ الشَّجَرَۃِ، إِذْ أَقْبَلَ رَجُلٌ مِنْ ہٰذَا الشِّعْبِ، فَسَلَّمَ عَلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ﷺ، ثُمَّ قَالَ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! إِنِّی أُرِیْدُ الْجِہَادَ مَعَکَ، أَبْتَغِيْ بِذَلِکَ وَجْہَ اللّٰہِ وَالدَّارَ الْآخِرَۃِ؟ قَالَ: ((ہَلْ مِنْ أَبَوَیْکَ أَحَدٌ حَيٌّ؟)) قَالَ: نَعَمْ۔ یَا رَسُولَ اللّٰہِ! کِلَاہُمَا۔ قَالَ: ((ارْجِعْ فَابْرُرْ وَالِدَیْکَ)) قَالَ: فَوَلّٰی رَاجِعًا مِنْ حَیْثُ جَاءَ۔ ناعم مولیٰ اُم سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ہم نے اُن (یعنی سیدنا عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ) کے ساتھ حج کیا حتی کہ ہم مکہ کے بعض راستوں میں تھے، میں نے اُن کو دیکھا وہ قصد کیا کرتے تھے — اور ان پر کوئی چیز پیش کی جاتی — تو اس کے نیچے بیٹھ جاتے (یعنی درخت کے نیچے بیٹھ جاتے) پھر فرماتے: میں نے رسول اللہ ﷺ کو اس درخت کے نیچے دیکھا ہے، جب اس گھاٹی سے ایک آدمی آپ کی طرف متوجہ ہوا تھا (یعنی کوئی آپ کی طرف آیا تھا) اور اُس نے رسول اللہ ﷺ کو سلام کیا اور کہا: اے اللہ کے رسول! میرا ارادہ آپ کے ساتھ جہاد کرنے کا ہے۔ میں جہاد کے ذریعے سے اللہ کے چہرے (کا دیدار) اور آخرت کا گھر چاہتا ہوں۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا: ’’کیا تمھارے والدین میں سے کوئی زندہ ہے؟‘‘ اُس نے کہا: جی ہاں، اے اللہ کے رسول! دونوں (زندہ ہیں)۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’واپس چلے جاؤ اور اپنے والدین کے ساتھ نیکی کرو‘‘۔ راوی کہتے ہیں کہ وہ واپس اسی جگہ سے لوٹ گیا جہاں سے وہ آیا تھا۔ تحقیق: صحیح اس روایت میں ’’أَبْتَغِيْ بِذَلِکَ وَجْہَ اللّٰہِ وَالدَّارَ الْآخِرَۃِ‘‘ الفاظ ثابت نہیں ہیں۔ محمد بن اسحاق بن یسار مدلس ہیں اور ان الفاظ کے ساتھ سماع کی تصریح نہیں ملی۔ یہی روایت صحیح مسلم (2549، دار السلام: 6507) وغیرہ میں ’’أَبْتَغِيْ الْأَجْرَ مِنَ اللّٰہِ‘‘ کے الفاظ کے ساتھ موجود ہے۔ تخریج: مسند أحمد (2/ 163۔164 ح 6525)، الزھد لھناد بن السري (2/ 484 ح 991)، مسند ابن أبي شیبۃ (563، شاملہ) من حدیث محمد بن إسحاق بہ۔ ولہ شواھد في صحیح مسلم (2549، دار السلام: 6507) وغیرہ۔ رجال الاسناد: 1: عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ (ابو عبداللہ القرشی السہمی المکی) آپ مشہور صحابی ہیں، آپ حدیثیں لکھ لیا کرتے تھے، بلکہ نبی کریم ﷺ نے آپ کو حدیثیں لکھنے کی اجازت دی تھی۔ (سنن ابی داود: 3646، صححہ ابی وشیخی زبیر علی زئی رحمہ اللہ) آپ کا لکھا ہوا مجموعہ ’’عمرو بن شعیب عن أبیہ عن جدہ‘‘ کی سند سے ’’الصحیفۃ الصادقۃ‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔ آپ کی بیان کردہ احادیث کی تعداد تقریباً سات سو (700) ہے اور ان میں سے سات (7) حدیثیں صحیح بخاری ومسلم میں موجود ہیں۔ آپ غالباً 63ھ کو فوت ہوئے۔ رضی اللہ عنہ نیز دیکھئے والد محترم کی کتب: الاتحاف الباسم (ص 49۔ 50) اور الاربعین لابن تیمیہ (ص 37 تا 39)۔ 2: ناعم بن اجیل، ابو عبد اللہ الہمدانی المصری (مولیٰ اُم سلمہ) آپ غالباً 80ھ کو فوت ہوئے۔ آپ کی توثیق درج ذیل ائمہ نے کی ہے: 1– ابو زرعہ رازی: ’’ثقۃ‘‘ (الجرح والتعدیل: 8/ 508) 2– ابن یونس المصری: ’’کان ناعم من أھل بیت شرف من بیوت ھمدان، فأصابھم سِباء في الجاھلیۃ، فصار إلی أم سلمۃ، فأعتقتہ۔ وکان ناعم أحد الفقھاء‘‘ (تاریخ ابن یونس المصری: 1/ 491 رقم: 1341) 4– ذہبی: ’’وکان أحد الفقھاء بمصر‘‘ (تاریخ الاسلام: 5/ 530) 5– ابن حجر عسقلانی: ’’ثقۃ فقیہ‘‘(تقریب التہذیب: 7070) اور فرمایا: ’’وظاھرًا أن یکون صحابیًا، فذکرتہ في ھذا القسم للاحتمال۔ وقد وثقہ ابن سعد، ویعقوب بن سفیان، والنسائي‘‘ (الاصابہ فی تمیز الصحابہ: 6/ 318، طبع: دار الکتب العلمیہ بیروت) 6– مسلم: روی لہ (صحیح مسلم: ح2549 [دار السلام: 6507]، وغیرہ) 7– ابو عوانہ: روی لہ (المستخرج علی صحیح مسلم: 17/ 82 ح 9257، وغیرہ) 8– ہیثمی: ’’إن کان مولی أم سلمۃ ناعمًا، وھو الصحیح‘‘ (مجمع الزوائد: 16/ 473 ح 13423) 3: یزید بن ابی حبیب، ابو رجاء المصری (یزید بن سوید) آپ 128ھ کو فوت ہوئے۔ آپ کی توثیق درج ذیل ائمہ نے کی ہے: 1– ابو حاتم رازی: ’’قال عبد الرحمٰن: سألت أبي عن یزید بن أبي حبیب وموسٰی الجھني: أیھما أحب إلیک؟ قال: یزید أحب إلي‘‘ (الجرح والتعدیل: 9/ 267) 2– ابو زرعہ رازی: ’’مصري ثقۃ‘‘ (الجرح والتعدیل: 9/ 267) 3– ابن سعد: ’’وکان ثقۃ کثیر الحدیث‘‘ (طبقات ابن سعد: 7/ 513) 4– عجلی: ’’مصري، تابعي، ثقۃ‘‘ (تاریخ الثقات: 1837) 5– ابن حبان: ذکرہ فی الثقات (کتاب الثقات: 5/ 546) 6– ابن شاہین: ’’سلیمان بن أبي سلیمان، یروي عنہ یزید بن أبي حبیب، کلاھما ثقۃ۔ ذکرہ ابن ابي خیثمۃ‘‘ (تاریخ اسماء الثقات: 464) 7– ذہبی: ’’وکان حبشیًا، ثقۃ من العلماء الحکماء الاتقیاء‘‘ (الکاشف: 6285، طبع: دار الحدیث القاہرۃ) 8– ابن حجر عسقلانی: ’’ثقۃ فقیہ وکان یرسل‘‘ (تقریب التہذیب: 7701) 9– بخاری: روی لہ (صحیح بخاری: ح 28، وغیرہ) 10– مسلم: روی لہ (صحیح مسلم: ح 39 [دار السلام: 160]، وغیرہ) 11– ترمذی: حسن حدیثہ (سنن الترمذی: ح 1171، وغیرہ) 12– ابن الجارود: روی لہ (المنتقی: ح 132، وغیرہ) 13– ابن خزیمہ: روی لہ (صحیح ابن خزیمہ: ح 339، وغیرہ) 14– حاکم: صحح حدیثہ (المستدرک: 70/1 ح 233، وغیرہ) 15– ابو عوانہ: روی لہ (المستخرج علی صحیح مسلم: 1/ 119 ح 50، وغیرہ) 16– ابو نعیم اصبہانی: روی لہ (المستخرج علی صحیح مسلم: 1/ 130 ح 155، وغیرہ) 17– ضیاء المقدسی: روی لہ (الاحادیث المختارۃ: 1/ 362 ح 251، وغیرہ) 4: محمد بن اسحاق بن یسار، ابو عبداللہ المدنی آپ 150ھ یا 151ھ کو فوت ہوئے۔ والد محترم حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ نے پچاس سے زیادہ ائمہ کرام سے آپ کی توثیق نقل کی ہے اور فرمایا: ’’تشیع، قدریت اور تدلیس کے ساتھ موصوف ہونے کے باوجود جمہور کی توثیق کی وجہ سے صدوق حسن الحدیث تھے، بشرطیکہ کہ اُن کی بیان کردہ روایت میں سماع کی تصریح ہو اور روایت شاذ و معلول نہ ہو۔‘‘ (تحقیقی مقالات: ج 3 ص 278 تا 299) 5: محمد بن عبید الاحدب الطنافسی، ابو عبد اللہ الکوفی (نزیل بغداد) آپ 204ھ یا 205ھ کو فوت ہوئے۔ آپ کی توثیق درج ذیل ائمہ نے کی ہے: 1– ابن معین: ’’وما ذکرہ إلا بخیر‘‘ (تاریخ ابن معین روایۃ الدوری: 3/ 487 رقم: 2382) اور فرمایا: ’’ثقۃ‘‘ (الجرح والتعدیل: 8/ 11، یعقوب بن اسحاق بن محمود الہروی: [الفقیہ] الحافظ المحدث: ذکرہ الذہبی فی تاریخ الاسلام: 25/ 84، 28/ 98) 2– احمد بن حنبل: ’’رجلًا صدوقًا‘‘ (مسائل حرب: ص 459، الجرح والتعدیل: 8/ 11) اور توثیق کی۔ (العلل روایۃ المروذی: 294) 3– ابو حاتم رازی: ’’صدوق لیس بہ بأس‘‘ (الجرح والتعدیل: 8/ 11) 4– عجلی: ’’کوفي، ثقۃ، وکان عمانیًا، وکان حدیثہ أربعۃ آلاف یحفظھا‘‘ (تاریخ الثقات: 1482) 5– ابن سعد: ’’وکان ثقۃ کثیر الحدیث، وکان صاحب سنۃ وجماعۃ‘‘ (طبقات ابن سعد: 6/ 397) 6– ابن حبان: ذکرہ فی الثقات (کتاب الثقات: 7/ 441) 7– دارقطنی: ’’یعلی، ومحمد، وإدریس، وإبراھیم بنوا عبید الطنافسیون، کلھم ثقات‘‘ (سوالات البرقانی: 636، طبع الفاروق الحدیثیہ) 8– ذہبی: ’’صدوق مشھور‘‘ (المغنی: 5807، طبع: دار الکتب العلمیہ) 9– ابن حجر عسقلانی: ’’ثقۃ یحفظ‘‘ (تقریب التہذیب: 6114) 10– بخاری: روی لہ (صحیح بخاری: ح 4807) 11– ترمذی: حسن حدیثہ (سنن الترمذی: ح 1914) 12– ابن خزیمہ: روی لہ (صحیح ابن خزیمہ: ح 1416، وغیرہ) 13– حاکم: صحح حدیثہ (المستدرک: 2/ 466۔ 467 ح 3736، وغیرہ) 14– ابو عوانہ: روی لہ (المستخرج علی صحیح مسلم: 13/ 294 ح 6673، وغیرہ) 15– ضیاء المقدسی: روی لہ (الاحادیث المختارۃ: 2/ 327 ح 705، وغیرہ) 6: عبد اللہ بن الحکم بن ابی زیاد القطوانی، ابو عبد الرحمٰن الکوفی آپ 255ھ کو فوت ہوئے۔ آپ کی توثیق درج ذیل ائمہ نے کی ہے: 1– ابو حاتم رازی: ’’کوفي صدوق‘‘ (الجرح والتعدیل: 5/ 38) 2– عبدالرحمٰن بن ابی حاتم رازی: ’’وکان ثقۃ‘‘ (الجرح والتعدیل: 5/ 38) 3– ذہبی: ’’صدوق مشھور‘‘ (الکاشف: 2680) 4– ابن حجر عسقلانی: ’’صدوق‘‘ (تقریب التہذیب: 3280) 5– ابو زرعہ رازی: روی لہ وھو لا یروی إلا عن ثقۃ عندہ غالباً (قال ابن حجر عسقلاني في لسان المیزان [2/ 511، في ترجمۃ: داود بن حماد بن فرافصۃ البلخي]: ’’فمن عادۃ أبي زرعۃ أن لا یحدث إلا عن ثقۃ‘‘ وقال الذھبي في الثقات ممن لم یقع في الکتب الستۃ [4376، ترجمۃ: سعید بن أسد بن موسٰی]: ’’وروی عنہ أبو زرعۃ وھو لا یحدث إلا عن ثقۃ‘‘) 6– ترمذی: حسن حدیثہ (سنن الترمذی: ح 614، 983) 7– ابن خزیمہ: روی لہ (صحیح ابن خزیمہ: ح 1300، وغیرہ) 8– ہیثمی: ’’وھو ثقۃ‘‘ (مجمع الزوائد: 13/ 584 ح 10510) ……… نوٹ ……… اس مضمون کی نظر ثانی فضیلۃ الشیخ حبیب الرحمٰن ہزاروی حفظہ اللہ نے کی ہے۔ جزاہم اللہ احسن الجزاء یہ مضمون ’’اشاعۃ الحدیث‘‘ موبائل ایپ پر شیئر کیا گیا ہے، اور اس سے پہلے کہیں شائع نہیں ہوا۔ |
ہماری موبائل ایپ انسٹال کریں۔ تحقیقی مضامین اور تحقیقی کتابوں کی موجودہ وقت میں ان شاء اللہ سب سے بہترین ایپ ہے، والحمدللہ۔
دیگر بلاگ پوسٹس:
Android App --or-- iPhone/iPad App
IshaatulHadith Hazro © 2024