کتاب التوحید لابن خزیمہ، باب 5، حدیث 16 |
ترجمہ، تحقیق و تخریج: حافظ معاذ بن زبیر علی زئی حفظہ اللہ 16: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ یَحْیٰی، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُوْ الْمُغِیْرَۃِ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرٍ یَعْنِی ابْنَ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ أَبِيْ مَرْیَمَ الْغَسَّانِيَّ قَالَ: حَدَّثَنِی ضَمْرَۃُ بْنُ حَبِیْبٍ، عَنْ أَبِی الدَّرْدَاءِ رضی اللہ عنہ۔ عَنْ زَیْدِ بْنِ ثَابِتٍ رضی اللہ عنہ، أَنَّ النَّبِیَّ ﷺ عَلَّمَہُ وَأَمَرَہُ أَنْ یَتَعَاہَدَ أَہْلَہُ فِيْ کُلِّ صَبَاحٍ: ((لَبَّیْکَ اللّٰہُمَّ لَبَّیْکَ وَسَعْدَیْکَ، وَالْخَیْرُ فِيْ یَدَیْکَ، وَمِنْکَ وَإِلَیْکَ……)) الْحَدِیثَ بِتَمَامِہِ۔ وَفِی ہٰذَا الْحَدِیثِ: ((اللّٰہُم، إِنِّيْ أَسْأَلُکَ الرِّضَا بَعْدَ الْقَضَاءِ، أَبَرْدَ الْعَیْشِ بَعْدَ الْمَوْتِ، وَلَذَّۃَ النَّظَرِ إِلٰی وَجْہِکَ، وَشَوْقًا إِلٰی لِقَائِکَ فِيْ غَیْرِ ضَرَّاءَ مُضِرَّۃٍ، وَلَا فِتْنَۃٍ مُضِلَّۃٍ ……)) الْحَدِیثَ بِطُوْلِہِ۔ سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے انھیں سکھایا اور حکم دیا کہ وہ ہر صبح کو اپنے اہل و عیال کو (درج ذیل کلمات پڑھنے کا) پابند بنائے: ’’اے اللہ! میں حاضر ہوں، تیری خدمت کے لئے حاضر ہوں، اور خیر تیرے ہاتھ میں (ہی) ہے اور تجھ ہی سے ہے اور تیری طرف سے ہے ……‘‘ حدیث مکمل (بیان) کی۔ اور اس حدیث میں یہ بھی ہے: ’’اے اللہ! میں تجھ سے تیرے فیصلے کے بعد تیری رضامندی کا سوال کرتا ہوں، اور موت کے بعد کی زندگی کی ٹھنڈک (کا سوال کرتا ہوں) اور تیرے چہرے کی طرف دیکھنے کی لذت کا (سوال کرتا ہوں) اوربغیر کسی تکلیف کے اور بغیر کسی گمراہ کر دینے والے فتنے کے تجھ سے ملاقات کے شوق کا (سوال کرتا ہوں)۔‘‘ إلخ أَمْلَیْتُہُ فِيْ کِتَابِ الدُّعَاءِ۔ قَالَ أَبُوْ بَکْرٍ: وَہٰذَا الْخَبَرُ أَیْضْا دَاخِلٌ فِيْ إِثْبَاتِ الْیَدِ لِلّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ۔ سَتَأْتِيْ أَبْوَابُ إِثْبَاتِ الْیَدِ فِيْ مَوْضِعِہِ مِنْ ھٰذَا الْکِتَابِ۔ میں نے اسے کتاب الدعا ء میں لکھ دیا ہے۔ امام ابو بکر (ابن خزیمہ رحمہ اللہ) نے فرمایا: اور یہ حدیث اللہ تعالیٰ کے ہاتھ کے اثبات میں بھی داخل ہے۔ عنقریب ’’اثبات الید‘‘ کے ابواب اس کتاب میں اپنی جگہ پر آئیں گے۔ تحقیق: إسنادہ ضعیف اس سند میں دو علتیں ہیں: 1– ابوبکر بن عبداللہ بن ابی مریم الغسانی کو جمہور نے ضعیف قرار دیا ہے 2– ضمرہ بن حبیب کی سیدنا ابو الدرداء رضی اللہ عنہ سے ملاقات میں شبہ ہے علامہ البانی رحمہ اللہ السلسلۃ الضعیفۃ میں شبہ انقطاع کی طرف اشارہ کرتے ہیں: ’’لقد توفي زید بن ثابت سنۃ (48)، وتوفي ضمرۃ بن حبیب سنۃ (130) …… وھذا یعني أنہ ولد بعد وفاۃ (زید) رضي اللّٰہ عنہ، أو علی الأقل کان صغیرًا، ومثلہ یقال — وأولی — في روایتہ الأولی عن أبي الدرداء؛ لأن ھذا توفي في نحو سنۃ (35)، في خلافۃ عثمان رضي اللّٰہ عنہ‘‘ (السلسلۃ الضعیفۃ للالبانی: 14/ 517) مستدرک حاکم اور طبرانی وغیرہ میں ضمرہ بن حبیب سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے بغیر کسی واسطے کے روایت کرتے ہیں، ضمرہ بن حبیب کا سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے سماع ثابت نہیں، واللہ اعلم۔ تخریج: مسند أحمد (5/ 191 ح 21666)، الأسماء والصفات للبیھقي (343)، المعجم الکبیر للطبراني (4803، 4932، الدعاء: 320)، السنۃ لابن أبي عاصم (435 مختصراً، طبع: دار الصمیعي) کلھم من حدیث أبي المغیرۃ بہ۔ المستدرک للحاکم (1/ 516 ح 1900، وقال: ’’ھذا حدیث صحیح الإسناد‘‘ وردہ الذھبي بقولہ: ’’قلت: أبو بکر ضعیف، فأین الصحۃ؟!‘‘)، الدعوات الکبیر للبیہقی (1/ 99 ح 42، شاملہ)، معجم الصحابۃ للبغوي (842) کلھم من حدیث أبي بکر بن أبي مریم الغساني بہ۔ رجال الاسناد: 1: سیدنا زید بن ثابت الانصاری الکاتب رضی اللہ عنہ مشہور فقیہ صحابی ہیں، نبی کریم ﷺکے کاتبِ وحی تھے، ہجرت کے وقت مدینہ تشریف لائے، سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں قرآن مجید کو جمع کرنے والی کمیٹی کے اہم رکن تھے، سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے دور میں بھی یہ فریضہ سر انجام دیا، 45ھ کو مدینہ میں وفات پائی۔ رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’وأفرضھم زید بن ثابت‘‘ یعنی اس اُمت میں علم فرائض (میراث) کے سب سے بڑے عالم زید بن ثابت رضی اللہ عنہ ہیں۔ (مسند احمد: 281/3، صححہ ابی وشیخی زبیر علی زئی رحمہ اللہ) سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں چار افراد نے قرآن کو جمع کر لیا تھا: ابی بن کعب، معاذ بن جبل، زید بن ثابت اور ابو زید۔‘‘ (صحیح بخاری: 3810، صحیح مسلم: 2460) ثقہ تابعی امام مسروق رحمہ اللہ (متوفی 62ھ) فرماتے ہیں: ’’میں نے رسول اللہ ﷺ کے صحابہ کے علم کو پرکھا تو میں نے ان سب کے علم کی انتہاء چھ صحابہ میں پائی: وہ عمر، علی، عبداللہ (بن مسعود)، معاذ (بن جبل)، ابو الدرداء اور زید بن ثابت رضی اللہ عنہم ہیں۔‘‘ (طبقات ابن سعد: 2/ 349، صححہ ابی وشیخی زبیر علی زئی رحمہ اللہ) امام سعید بن عبد العزیز التنوخی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’کان العلماء بعد معاذ بن جبل: عبد اللّٰہ بن مسعود، وأبو الدرداء، وسلمان، وعبد اللّٰہ بن سلام، ثم کان العلماء بعد ھؤلاء: زید بن ثابت‘‘۔ (تاریخ ابو زرعہ الدمشقی: 926، سندہ صحیح، ابو مسہر ھو عبدالاعلیٰ بن مسہر الغسانی: وثقہ ابن معین وابو حاتم رازی والعجلی والخلیلی وغیرہم، روی لہ البخاری ومسلم) 2: سیدنا عویمر بن عامر الانصاری الخزرجی، ابو الدرداء رضی اللہ عنہ مشہور فقیہ صحابی ہیں، آپ کی بیٹی کا نام درداء تھا، ملک شام چلے گئے تھے اور وہیں پر 32ھ کو وفات پائی۔ رضی اللہ عنہ امام ابن عبدالبر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’والصحیح أنہ مات في خلافۃ عثمان، وإنما ولی القضاء لمعاویۃ في خلافۃ عثمان‘‘ (الاستعیاب فی معرفۃ الاصحاب: 4/ 1646 رقم: 2940، بحوالہ شاملہ) امام ابن الاثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’آپ غزوہ اُحد کے بعد والے غزوات میں شامل تھے۔‘‘ (اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابہ: 6/ 94 رقم: 5865، طبع: دار الکتب العلمیہ) ثقہ تابعی امام مسروق رحمہ اللہ (متوفی 62ھ) فرماتے ہیں: ’’میں نے رسول اللہ ﷺ کے صحابہ کے علم کو پرکھا تو میں نے ان سب کے علم کی انتہاء چھ صحابہ میں پائی: وہ عمر، علی، عبداللہ (بن مسعود)، معاذ (بن جبل)، ابو الدرداء اور زید بن ثابت رضی اللہ عنہم ہیں۔‘‘ (طبقات ابن سعد: 2/ 349، صححہ ابی وشیخی زبیر علی زئی رحمہ اللہ) امام قاسم بن عبدالرحمٰن رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’کان أبو الدرداء من الذین أوتوا العلم‘‘ (الزہد روایۃ عبداللہ بن احمد بن حنبل: ح 750، سندہ حسن، مستغفر البجلی: قال یعقوب بن سفیان الفارسی فیہ: ’’کوفی لا باس بہ‘‘ وذکرہ ابن حبان فی الثقات، قاسم بن عبد الرحمن الدمشقی: وثقہ الجمہور) امام سعید بن عبد العزیز التنوخی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’کان العلماء بعد معاذ بن جبل: عبد اللّٰہ بن مسعود، وأبو الدرداء، وسلمان، وعبد اللّٰہ بن سلام‘‘ (تاریخ ابو زرعہ الدمشقی: 926، سندہ صحیح، ابو مسہر ھو عبدالاعلیٰ بن مسہر الغسانی: وثقہ ابن معین وابو حاتم رازی والعجلی والخلیلی وغیرہم، روی لہ البخاری ومسلم) آپ کی وفات کے بعد جب سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے آپ کی بیوہ ام الدرداء کو شادی کا پیغام بھیجا تو انھوں نے فرمایا: ’’میں نے ابو الدرداء رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: عورت اپنے آخری شوہر کے ساتھ ہوگی۔‘‘ ام الدرداء فرماتی ہیں کہ ’’اور میں ابو الدرداء کے بدلے میں کسی اور کو نہیں چاہتی۔‘‘ (المطالب العالیہ: 1731، حسنہ ابی وشیخی زبیر علی زئی رحمہ اللہ، فتاویٰ علمیہ: 2/ 59) سیدنا ابو الدرداء رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’حبک الشيء یعمي ویصم‘‘ تیرا کسی چیز سے محبت کرنا اندھا اور بہرہ بنا دیتا ہے۔ (شعب الایمان للبیہقی: 1/ 368 ح 412، صححہ ابی وشیخی زبیر علی زئی رحمہ اللہ) 3: ضمرہ بن حبیب بن صہیب الزبیدی، ابو عتبہ الحمصی آپ کی توثیق درج ذیل ائمہ نے کی ہے: 1– ابن معین: ’’ثقۃ‘‘ (تاریخ ابن معین روایۃالدارمی: 440) 2– ابو حاتم رازی: ’’لا بأس بہ‘‘ (الجرح والتعدیل: 4/ 467) 3– ابن سعد: ’’کان ثقۃ ان شاء اللّٰہ‘‘ (طبقات: 7/ 464) 4– عجلی: ’’شامي تابعي ثقۃ‘‘ (تاریخ الثقات: 1/ 474 رقم: 781، نسخہ ہیثمی وسبکی) 5– ابن حبان: ذکرہ فی الثقات (کتاب الثقات: 4/ 388) اور فرمایا: ’’کان ثبتًا متقنًا‘‘ (مشاہیر علماء الامصار: 897) 6– ابن حجر عسقلانی: ’’ثقۃ‘‘ (تقریب التہذیب: 2986) 7– ترمذی: حسن حدیثہ (سنن الترمذی: ح 3579، وغیرہ) 8– حاکم: صحح حدیثہ (المستدرک: 4/ 126 ح 7159، وغیرہ) 9– ابو نعیم اصبہانی: روی لہ وقال: ’’وھذا حدیث جید من صحیح حدیث الشامین‘‘ (المستخرج علی صحیح مسلم: 35/1۔ 36 ح 2) 10– بغوی: حسن حدیثہ (شرح السنۃ: 14/ 308 ح 4116) 11– ضیاء المقدسی: روی لہ (الاحادیث المختارۃ: 9/ 275 ح 238، 239) 12– ابن خلفون: ذکرہ فی الثقات وقال: ’’ھو من مشاھیر أھل الشام وعُبادھم‘‘ (بحوالہ اکمال تہذیب الکمال: 4/ 167، طبع: دار الکتب العلمیہ) 4: ابو بکر بن عبداللہ بن ابی مریم الغسانی 156ھ کو فوت ہوئے، ضعیف راوی ہیں، ان پر درج ذیل ائمہ نے جرح کی: 1– ابن معین: ’’لیس حدیثہ بشیء‘‘ (تاریخ ابن معین روایۃ الدوری: 4/ 437 رقم: 5173) نیز ضعیف قرار دیا۔ (الجرح والتعدیل: 2/ 405، سندہ صحیح) اور فرمایا: ’’ضعیف الحدیث، وھو أقوی من الأحوص‘‘ (سوالات ابن جنید: 160) 2– احمد بن حنبل: ’’ھو أبو بکر بن عبد اللّٰہ بن أبي مریم الغساني ضعیف الحدیث‘‘ (العلل ومعرفۃ الرجال: 4370) اور فرمایا: ’’ضعیف کان عیسٰی لا یرضاہ‘‘ (الجرح والتعدیل: 2/ 405، سندہ صحیح) 3– ابو حاتم رازی: ’’أبو بکر بن أبي مریم ضعیف الحدیث طرقتہ لصوص فأخذوا متاعہ فاختلط‘‘ (الجرح والتعدیل: 2/ 405) 4– ابو زرعہ رازی: ’’ضعیف الحدیث منکر الحدیث‘‘ (الجرح والتعدیل: 2/ 405) 5– ابن سعد: ’’کان کثیر الحدیث ضعیفًا، وقد رُوي عنہ روایۃً کثیرۃٌ‘‘ (طبقات ابن سعد: 7/ 467) 6– ابن حبان: ’’من خیر أھل الشام ولکنہ رديء الحفظ یحدث بالشيء ویھم فیہ، لم یفحش ذلک منہ حتی استحق الترک ولا سلک سنن الثقات حتی صار یحتج بہ۔ فھو عندي ساقط الاحتجاج بہ إذا انفرد۔‘‘ (کتاب المجروحین: 3/ 146، نسخہ: محمود ابراہیم زاید) 7– ابن عدی: ذکرہ فی ضعفاء الرجال وقال: ’’وأبو بکر بن أبي مریم في ھذا الاسناد، غیر محفوظ‘‘ (الکامل فی ضعفاء الرجال: 2/ 208 رقم: 277) اور فرمایا: ’’والغالب علی حدیثہ الغرائب، وقلَّ من یوافقہ علیہ من الثقات وأحادیثہ صالحۃ، وھو ممن لا یحتجُّ بحدیثہ [ولکن یکتب حدیثہ]‘‘ (الکامل فی ضعفاء الرجال: 2/ 213 رقم: 277) 8– بخاری: ذکرہ فی کتاب الضعفاء (الضعفاء الصغیر:1/ 176) 9– نسائی: ’’ضعیف‘‘ (الضعفاء والمتروکون: 668، دوسرا نسخہ: 699) 10– دار قطنی: ’’وأبو بکر بن أبي مریم ضعیف‘‘ (سنن الدارقطنی: 1/ 110تحت ح 358، 359، طبع: دار الکتب العلمیہ بیروت) 11– ابن عبدالبر: ’’لیس بالقوي عندھم‘‘ (الاستغناء: 1/ 411 رقم: 443) 12– ابن الجوزی: ذکرہ فی الضعفاء والمتروکین (1/ 152 رقم: 584) 13– ابن الملقن: ’’وھي حالہ واھیۃ، وھو کثیر الغلط‘‘ (البدر المنیر: 2/ 429) 14– ذہبی: ’’ولیس حدیثہ بصحیح‘‘ (دیوان الضعفاء: 4874) اور فرمایا: ’’ضعیف عندھم‘‘ (المغنی فی الضعفاء: 7341) 15– ابن حجر عسقلانی: ’’ضعیف وکان سُرِقَ بیتہ فاختلط‘‘ (تقریب التہذیب: 7974) 5: عبد القدوس بن الحجاج، ابو المغیرہ الحمصی الخولانی (صاحب الاوزاعی) آپ 212ھ کو فوت ہوئے۔ آپ کی توثیق درج ذیل ائمہ نے کی ہے: 1– ابو حاتم رازی: ’’صدوق …… یکتب حدیثہ‘‘ (الجرح والتعدیل: 6/ 56) 2– عجلی: ’’ثقۃ‘‘ (تاریخ الثقات: 1121، نسخہ: الہیثمی والسبکی) 3– ابن حبان: ذکرہ فی الثقات (8/ 419) 4– دارقطنی: ’’یروي عن الأوزاعي، ثقۃ‘‘ (سوالات البرقانی: 324) 5– ذہبی: ’’الامام المحدث الصادق‘‘ (سیر اعلام النبلاء: 10/ 223۔ 225) اور فرمایا: ’’ثقۃ‘‘ (الکاشف:2/ 246 رقم: 3415، طبع: دارالحدیث القاہرۃ) اور فرمایا: ’’محدث شام …… وکان من الثقات العلماء‘‘ (تذکرۃ الحفاظ: 1/ 386 رقم: 385، طبع: دار الباز) اور فرمایا: ’’وأخطأ في إیداعہ کتابَ الضعفاء بعضُ الجھلۃ‘‘ (میزان الاعتدال: 2/ 643 رقم: 5157) 6– ابن حجر عسقلانی: ’’ثقۃ‘‘ (تقریب التہذیب: 4145) 7– ابوبکر بن ابی عاصم: ’’حدثنا محمد بن مصطفی الحمصي، عن عبد القدوس بن الحجاج الخولاني، ثقۃ‘‘ (الجہاد لابن ابی عاصم: 1/ 133، طبع: مکتبہ العلوم والحکم، بحوالہ شاملہ) 8– احمد بن حنبل: روی لہ وھو لا یروی إلا عن ثقۃ عندہ (قال ابن حجر عسقلاني في التھذیب [540/3]: ’’وکلام النسائي فیہ غیر مقبول لأن أحمد وعلي بن المدیني لا یرویان إلا عن مقبول‘‘) 9– بخاری: روی لہ (صحیح بخاری: ح 1837، وغیرہ) 10– مسلم: روی لہ (صحیح مسلم: ح 758 [دار السلام: 1774]، وغیرہ) 11– ترمذی: حسن حدیثہ (سنن الترمذی: ح 1545، وغیرہ) 12– ابن خزیمہ: روی لہ (صحیح ابن خزیمہ:4/ 152۔ 153 ح 2572، وغیرہ) 13– حاکم: صحح حدیثہ (المستدرک:1/ 515 ح 1897، وغیرہ) 14– ابن الجارود: روی لہ (المنتقی: ح 74، وغیرہ) 15– ابو عوانہ: روی لہ (المستخرج علی صحیح مسلم: 3/ 288 ح 1082، وغیرہ) 16– ابو نعیم اصبہانی: روی لہ (المستخرج علی صحیح مسلم: 1/ 145 ح 201، وغیرہ) 17– ضیاء المقدسی: روی لہ (الاحادیث المختارۃ: 1/ 204 ح 106، وغیرہ) 18– ابو القاسم الحنائی: صحح حدیثہ (فوائد الحنائی، الحنائیات: 1/ 165 ح 12، وغیرہ) 19– بغوی: اخرج حدیثہ وقال: ’’وھذا حدیث حسن‘‘ (شرح السنۃ: 3/ 209 ح 701) 20– ابن خلفون: ذکرہ فی الثقات (بحوالہ اکمال تہذیب الکمال: 5/ 47 رقم: 3481) 6: محمد بن یحییٰ بن عبداللہ بن خالد بن فارس النیسابوری الذہلی، ابو عبداللہ آپ 258ھ کو فوت ہوئے۔ آپ کی توثیق ابو زرعہ رازی، ابو حاتم رازی، نسائی، ابن ابی حاتم رازی اور ابن حبان وغیرہ نے کی ہے۔ بخاری نے آپ سے روایتیں لی ہیں۔ مکمل حالات کے لئے دیکھئے حدیث سابقہ: 4 ……… نوٹ ……… اس مضمون کی نظر ثانی فضیلۃ الشیخ حبیب الرحمٰن ہزاروی حفظہ اللہ نے کی ہے۔ جزاہم اللہ احسن الجزاء یہ مضمون ’’اشاعۃ الحدیث‘‘ موبائل ایپ پر شیئر کیا گیا ہے، اور اس سے پہلے کہیں شائع نہیں ہوا۔ |
ہماری موبائل ایپ انسٹال کریں۔ تحقیقی مضامین اور تحقیقی کتابوں کی موجودہ وقت میں ان شاء اللہ سب سے بہترین ایپ ہے، والحمدللہ۔
دیگر بلاگ پوسٹس:
Android App --or-- iPhone/iPad App
IshaatulHadith Hazro © 2024