کتاب التوحید لابن خزیمہ، باب 5، حدیث 12 |
ترجمہ، تحقیق و تخریج: حافظ معاذ بن زبیر علی زئی حفظہ اللہ 12: حَدَّثَنَا اَحْمَدُ بْنُ عَبْدَۃَ الضَّبِّیُّ، قَالَ: أَخْبَرَنَا حَمَّادُ یَعْنِی: ابْنَ زَیْدٍ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ، عَنْ اَبِیہِ، قَالَ: کُنَّا جُلُوسًا فِی الْمَسْجِدِ، فَدَخَلَ عَمَّارُ بْنُ یَاسِرٍ، فَصَلَّی صَلَاۃ اَخَفَّہَا فَمَرَّ بِنَا، فَقِیلَ لَہُ: یَا اَبَا الْیَقْظَانِ: خَفَّفْتَ الصَّلَاۃَ؟ فَقَالَ: اَوَخَفِیفَۃً رَاَیْتُمُوہَا؟ قُلْنَا: نَعَمْ، قَالَ: اَمَا إِنِّی قَدْ دَعَوْتُ فِیہَا بِدُعَاءٍ قَدْ سَمِعْتُہُ مِنْ رَسُولِ اللّٰہِ ﷺ، ثُمَّ مَضٰی۔ فَاتَّبَعَہُ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ — قَالَ عَطَاءٌ: یَرَوْنَہُ اَبِی، اتَّبَعَہُ، وَلَکِنَّہُ کَرِہَ اَنْ یَقُولَ اتَّبَعْتَہُ — فَسَاَلَہُ عَنِ الدُّعَاءِ، ثُمَّ رَجَعَ، فَاَخْبَرَہُمْ بِالدُّعَاءِ: ((اللّٰہُمَّ بِعِلْمِکَ الْغَیْبَ وَقُدْرَتِکَ عَلَی الْخَلْقِ، اَحْیِنِی مَا عَلِمْتَ الْحَیَاۃَ خَیْرًا لِیْ، وَتَوَفَّنِی اِذَا کَانَتِ الْوَفَاۃُ خَیْرًا لِیْ، اللّٰہُمَّ وَاَسْاَلُکَ خَشْیَتَکَ فِی الْغَیْبِ وَالشَّہَادَۃِ، وَکَلِمَۃَ الْحَقِّ، وَالْعَدْلِ فِی الْغَضَبِ وَالرِّضَا، وَاَسْاَلُکَ الْقَصْدَ فِی الْفَقْرِ وَالْغِنٰی، وَاَسْاَلُکَ نَعِیمًا لَا یَبِیدُ، وَاَسْاَلُکَ قُرَّۃَ عَیْنٍ لَا تَنْقَطِعُ، وَاَسْاَلُکَ الرِّضَا بَعْدَ الْقَضَاءِ، وَاَسْاَلُکَ بَرْدَ الْعَیْشِ بَعْدَ الْمَوْتِ، وَاَسْاَلُکَ لَذَّۃَ النَّظَرِ اِلَی وَجْہِکَ، وَاَسْاَلُکَ الشَّوْقَ اِلٰی لِقَائِکَ فِی غَیْرِ ضَرَّاءَ مُضِرَّۃٍ، وَلَا فِتْنَۃٍ مُضِلَّۃٍ، اللّٰہُمَّ زَیِّنَّا بِزِینَۃِ الْاِیمَانِ، وَاجْعَلْنَاہُ ہُدَاۃً مُہْتَدِینَ))۔ عطاء بن سائب اپنے والد سے بیان کرتے ہیں، وہ فرماتے ہیں کہ ہم مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے کہ عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ داخل ہوئے اور انھوں نے بہت ہی ہلکی نماز پڑھی، پھر وہ ہمارے پاس سے گزرے تو ان سے کہا گیا: اے ابو الیقظان! آپ نے نماز ہلکی کر دی؟ انھوں نے فرمایا: کیا یہ ہلکی نماز ہے جسے تم نے دیکھا ہے؟ ہم نے کہا: جی ہاں! انھوں نے فرمایا: یقیناً میں نے اس میں ایسی دعا پڑھی ہے جسے میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا تھا، پھر وہ چل دیئے۔ قوم میں سے ایک آدمی ان کے پیچھے چلا — عطاء کہتے ہیں کہ ان کا خیال تھا کہ میرے ابو ان کے پیچھے چلے۔ لیکن انھوں نے یہ بات ناپسند کی کہ وہ یہ کہتے کہ میں ان کے پیچھے چلا — اور ان سے دعا کے متعلق سوال کیا۔ پھر واپس لوٹ کر انھیں دعا بتائی: ’’اے اللہ! چونکہ تُو غیب کا علم جانتا ہے اور تمام مخلوقات پر قدرت رکھتا ہے، اس لئے (میں تجھ سے سوال کرتا ہوں کہ) تُو مجھے زندہ رکھ جب میرے لئے زندہ رہنا بہتر سمجھے اور مجھے موت دے دینا جب میرے لئے مر جانابہتر سمجھے اور اے اللہ! میں تجھ سے باطناً وظاہراً تیری خشیت (یعنی ڈر) کا سوال کرتا ہوں اور رضامندی و ناراضی ہر حال میں سچی اور انصاف والی بات کہنے کا سوال کرتا ہوں اور فقیری و امیری میں اعتدال (یعنی میانہ روی) اختیار کرنے کا سوال کرتا ہوں اور تجھ سے ایسی نعمتوں کا سوال کرتا ہوں جو کبھی ختم نہ ہوں اور ایسی آنکھ کی ٹھنڈک (خوشی و لذت) مانگتا ہوں جو کبھی منقطع نہ ہو اور تیرے فیصلے کے بعد تیری رضامندی کا سوال کرتا ہوں اور موت کے بعد پرسکون زندگی کا سوال کرتا ہوں اور تیرے چہرے کے دیدار کے مزے کا سوال کرتا ہوں اور تیری ملاقات کے شوق کا طلب گار ہوں، بغیر اس کے کہ کسی نقصان و مصیبت میں پھنسوں یا کسی گمراہ کن فتنے میں مبتلا ہو جاؤں۔ اے اللہ! ہمیں ایمان کی زینت سے آراستہ فرما اور ہمیں ہدایت یافتہ (اور گمراہوں کو) راہ دکھلانے والے بنا دے۔‘‘ تحقیق: إسنادہ حسن عطاء بن السائب اختلاط کا شکار ہوئے تھے لیکن حماد بن زید کا ان سے سماع اختلاط سے پہلے کا ہے۔ جیسا کہ امام نسائی رحمہ اللہ نے فرمایا: ’’ودخل عطاء بن السائب البصرۃ مرتین، فمن سمع منہ أول مرۃ فحدیثہ صحیح، ومن سمع منہ آخر مرۃ، ففي حدیثہ شيء، وحماد بن زید حدیثہ عنہ صحیح‘‘ (السنن الکبریٰ للنسائی: 9/ 94 تحت ح 9981، دوسرا نسخہ: ح 10052) امام بخاری رحمہ اللہ نے امام علی بن المدینی رحمہ اللہ کا قول نقل کیا کہ: ’’سماع خالد من عطاء بن السائب اخیرا وسماع حماد بن زید من عطاء صحیح‘‘ (التاریخ الکبیر للبخاری: 3/ 160 رقم: 550) نیز دیکھئے الکواکب النییرات (ص 78۔ 80، مع الشرح: ص 319 تا 335) تخریج: صحیح ابن حبان (الاحسان: 1971، الموارد: 509) عن ابن خزیمہ بہ۔ سنن النسائی (صغری: 1306، کبریٰ: 2/ 81 ح 1229، دوسرا نسخہ: ح 1228)، مستدرک حاکم (1/ 524 ح 1923)، الاسماء والصفات للبیہقی (227، دوسرا نسخہ: ح 237)، الرد علی الجہمیہ للدارمی (دار الکیان:92، الدار السلفیۃ: 188)، السنۃ لعبدللہ بن احمد بن حنبل (466)، مسند البزار (البحر الزخار: 4/ 230 ح 1393)، الدعاء للطبرانی (624)، التمہید لابن عبد البر (7/ 154) کلھم من حدیث حماد بن زید بہ۔ رجال الاسناد: 1: عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ آپ قدیم الاسلام ہیں، ان غریب صحابہ میں سے تھے جنھیں اسلام کے ابتدائی دنوں میں دردناک اذیتیں پہنچائی گئیں، اولین مہاجرین میں سے ہیں، غزوہ بدر سے لے کر بعد والے تمام غزوات میں شامل رہے۔ رسول اللہ ﷺ نے آپ کو ’’الطیب المطیب‘‘ یعنی ’’پاکیزہ اور پاک کیا ہوا‘‘ کے لقب سے نوازا۔ (سنن ابن ماجہ: 146، حسنہ ابی وشیخی زبیر علی زئی رحمہ اللہ) امام بغوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’المراد بالطیب: الطاھر‘‘ (شرح السنۃ: 14/ 154تحت ح 3951، [اضافہ: معاذ]) آپ سے امیر المومنین سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے حدیثیں بیان کیں۔ جنگ صفین میں 37ھ کو شہادت سے ہمکنار ہوئے۔ رضی اللہ عنہ تنبیہ: درج بالا فضائل ’’الاکمال فی اسماء الرجال‘‘ مطبوعہ آخر مشکوۃ المصابیح جلد سوم سے لئے گئے ہیں (ص700)۔ سیدنا عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’(جب میں نے اسلام قبول کیا تو) میں نے رسول اللہ ﷺ کو (اس حالت میں) دیکھا کہ آپ ﷺ کے ساتھ (ایمان لانے والے) صرف (آٹھ اشخاص تھے یعنی) پانچ غلام، دو عورتیں اور (امیر المومنین سیدنا) ابو بکر رضی اللہ عنہ تھے۔‘‘ (صحیح بخاری: 3857) ثقہ تابعی ابراہیم بن عبدالرحمٰن بن عوف رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں: ’’میں نے سیدنا عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کو جنگ صفین کے دن، جس دن آپ کی شہادت واقع ہوئی تھی، یہ پکارتے سنا: آج جنت (میرے) قریب کر دی گئی ہے اور موٹی آنکھوں والی حوروں سے (میرا) نکاح کر دیا گیا ہے۔ آج کے دن ہم اپنے (سب سے زیادہ) محبوب محمد ﷺ سے ملاقات کرنے والے ہیں، انھوں نے مجھے پختہ خبر دی تھی کہ دنیا میں میرا آخری کھانا پانی ملا دودھ ہوگا۔‘‘ (مستدرک حاکم: 3/ 439 ح 5668، سندہ حسن) سیدنا حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے پاس تھے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’میرا خیال ہے کہ میں تم میں زیادہ دیر تک نہیں رہوں گا، لہٰذا میرے بعد دو آدمیوں کی اقتدا کرنا۔‘‘ (راوی بیان کرتے ہیں کہ) آپ ﷺ نے ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما کی طرف اشارہ کیا۔ (پھر فرمایا:) ’’اور عمار بن یاسر (رضی اللہ عنہ) کا طریقہ اپنانا اور عبداللہ بن مسعود (رضی اللہ عنہ) جو کچھ تمھیں بتائیں اسے قبول کرنا۔‘‘ (صحیح ابن حبان، الاحسان: 6902، سندہ حسن، سالم المرادی: صدوق حسن الحدیث وثقہ الجمہور) تنبیہ: درج بالا روایات شیخ تنویر الحق الترمذی حفظہ اللہ کی تحقیق سے مطبوعہ کتاب ’’سیرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ‘‘ (ص 327) سے لئے گئے ہیں۔ 2: سائب بن مالک، ابو عطاء الثقفی الکوفی آپ کی توثیق درج ذیل ائمہ نے کی ہے: 1— ابن معین: ’’ثقۃ‘‘ (تاریخ ابن معین روایۃ الدارمی: 352) 2— عجلی: ’’بصري ثقۃ‘‘ (تاریخ الثقات: 509، ترجمہ: ’’السائب والد عطاء‘‘) نیز ایک نسخے میں عطاء بن السائب کے ترجمے میں فرمایا: ’’وأبوہ تابعي ثقۃ‘‘ (تاریخ الثقات: 2/ 136 رقم: 1237، طبع: مکتبۃ الدار بالمدینۃ المنورۃ) 3— ذہبی: ’’ثقۃ‘‘ (الکاشف: 1/ 406 رقم: 1788، طبع: دار الحدیث القاہرۃ) اور فرمایا: ’’فإن کان والد عطاء فھو ثقۃ‘‘ (میزان الاعتدال: 2/ 114 رقم: 3074) 4— ابن حجر عسقلانی: ’’ثقۃ‘‘ (تقریب التہذیب: 2201) 5— ترمذی: حسن حدیثہ (سنن الترمذی: ح 1855، وغیرہ) 6— ابن خزیمہ: روی لہ (صحیح ابن خزیمہ: 2/ 53 ح 901، وغیرہ) 7— ابن حبان: روی لہ (صحیح ابن حبان بترتیب ابن بلبان: 2/ 163 ح 419، وغیرہ) 8— حاکم: صحح حدیثہ (المستدرک:1/ 425 ح 1923، وغیرہ) 9— ضیاء المقدسی: روی لہ (الاحادیث المختارۃ: 2/ 88 ح 465، وغیرہ) 3: عطاء بن السائب بن مالک الثقفی، ابو زید الکوفی آپ 136ھ کو فوت ہوئے۔ آپ اختلاط کا شکار ہوئے تھے۔ جمہور کے نزدیک آپ سے شعبہ، سفیان ثوری اور حماد بن زیدکا سماع اختلاط سے پہلے کا ہے۔ آپ کی توثیق درج ذیل ائمہ نے کی ہے: 1— یحییٰ بن سعید القطان: ’’من سمع من عطاء بن السائب قدیمًا فسماعہ صحیح‘‘ (سنن الترمذی: تحت ح 2816، سندہ صحیح) اور فرمایا: ’’ما سمعت أحدا من الناس یقول في عطاء بن السائب شیئا في حدیثہ القدیم‘‘ (التاریخ الکبیر للبخاری: 465/6 رقم: 3000) 2— ابن معین: ’’وعطاء ثقۃ‘‘ (تاریخ ابن معین روایۃ الدارمی: 249) اور فرمایا: ’’فمن سمع منہ قدیما فھو صحیح‘‘ (الجرح والتعدیل: 6/ 334، سندہ صحیح، تاریخ ابن معین روایۃ الدوری: 3/ 328 رقم: 1577) 3— احمد بن حنبل: ’’ثقۃ ثقۃ رجل صالح‘‘ (الجرح والتعدیل: 6/ 334، سندہ صحیح) اور فرمایا: ’’رجل صالح‘‘ (العل ومعرفۃ الرجال: 3/ 309 رقم: 5374) اور فرمایا: ’’کان عطاء من خیار عباد اللّٰہ، زعموا‘‘ (سوالات ابی داود: 351) اور سوال کیا گیا: ’’عطاء بن السائب أحب إلیک أو حصین‘‘ تو فرمایا: ’’کلاھما ثبتان‘‘ (العلل ومعرفۃ الرجال روایۃ المروذی: 33) 4— یعقوب بن سفیان الفارسی: ’’ثقۃ حجۃ‘‘ (المعرفۃ والتاریخ: 3/ 369) 5— ابو حاتم رازی: ’’کان عطاء بن السائب محلہ الصدق قدیما قبل أن یختلط صالح مستقیم الحدیث‘‘ (الجرح والتعدیل: 6/ 334) 6— عجلی: ’’جائز الحدیث‘‘ (تاریخ الثقات: 1128) اور ایک مرتبہ فرمایا: ’’کان شیخا قدیمًا ثقۃ‘‘ (تاریخ الثقات: 1128) اور فرمایا: ’’من سمع من عطاء قدیمًا فھو صحیح الحدیث‘‘ (تاریخ الثقات: 1128) اور فرمایا: ’أن عطاء کان بآخرۃ یتلقن إذا لقنوہ في الحدیث، لأنہ کان کبر، صالح الکتاب‘‘ (تاریخ الثقات: 1128) اور فرمایا: ’’قلت واملاہ علی بن المدیني فیمن یسمی عطاء وھو ثقۃ‘‘ (تاریخ الثقات:1128) 7— ابن حبان: ذکرہ فی الثقات وقال: ’’وکان قد اختلط بآخرہ ولم یفحش خطاء ہ حتی یستحق أن یعدل بہ عن مسلک العدول بعد تقدم صحۃ ثباتہ في الروایات‘‘ (کتاب الثقات: 7/ 251) 8— نسائی: ’’ودخل عطاء بن السائب البصرۃ مرتین، فمن سمع منہ أول مرۃ فحدیثہ صحیح، ومن سمع منہ آخر مرۃ ففي حدیثہ شيء، وحماد بن زید حدیثہ عنہ صحیح‘‘ (السنن الکبریٰ للنسائی: 9/ 94 تحت ح 9981، دوسرا نسخہ: ح 10052) اور فرمایا: ’’اختلط في آخر عمرہ، فاحتج أھل العلم بروایۃ الأکابر عنہ، مثل: سفیان الثوري وشعبۃ؛ لأن سماعھم منہ کان في الصحۃ، وترکوا الاحتجاج بروایۃ من سمع منہ آخرا‘‘ (معرفۃ انواع علم الحدیث: ص 494، طبع: دار الکتب العلمیہ بیروت) 9— ذہبی: ’’الامام الحافظ محدث الکوفۃ …… وکان من کبار العلماء لکنہ ساء حفظہ في أواخر عمرہ‘‘ (سیر اعلام النبلاء: 6/ 110) اور فرمایا: ’’أحد الاعلام علی لین فیہ …… ثقۃ ساء حفظہ بآخرۃ‘‘ (الکاشف: 2/ 306 رقم: 3790، طبع: دار الحدیث القاہرۃ) اور فرمایا: ’’تابعي مشھور حسن الحدیث ساء حفظہ بآخرۃ‘‘ (المغنی فی الضعفاء: 59/2 رقم: 4121، طبع: دار الکتب العلمیہ بیروت) اور فرمایا: ’’أحد المشاھیر‘‘ (تاریخ الاسلام: 8/ 487) اور فرمایا: ’’الکوفي الصالح‘‘ (العبر فی خبر من غبر: 1/ 142) اور فرمایا: ’’من سمع منہ قدیمًا فھو صحیح‘‘ (دیوان الضعفاء: 2825) 10— ابن حجر عسقلانی: ’’صدوق اختلط‘‘ (تقریب التہذیب: 4592) اور فرمایا: ’’من مشاھیر الرواۃ الثقات إلا أنہ اختلط فضعفوہ بسبب ذلک وتحصل لي من مجموع کلام الائمۃ أن روایۃ شعبۃ وسفیان الثوري وزھیر بن معاویۃ وزائدۃ وأیوب وحماد بن زید عنہ قبل الإختلاط‘‘ (مقدمہ فتح الباری: 425/1) اور فرمایا: ’’أحد الائمۃ‘‘ (لسان المیزان: 7/ 305 رقم: 4040، شاملہ) 11— ابو القاسم الحنائی: ’’وعطاء بن السائب ثقۃ، إلا أنہ تغیر بآخرہ، وسماع القدماہ منہ صحیح نحو سماع سفیان الثوري وشعبۃ‘‘ (فوائد الحنائی، الحنائیات: 1/ 759 تحت ح 140) 12— صلاح الدین خلیل بن ایبک: ’’أحد المشاھیر‘‘ (الوافی بالوفیات: 20/ 79) 13— ہیثمی: روی لہ وقال: ’’وفیہ عطاء بن السائب، وھو ثقۃ، وقد اختلط‘‘ (مجمع الزوائد: 1/ 363 تحت ح 231) 14— شعبہ: روی عنہ وھو لا یروی إلا عن الثقۃ غالباً کما قال ابو حاتم رازی (الجرح والتعدیل: 8/ 424 تحت ترجمہ: ’’مشاش أبو ساسان‘‘) 15— بخاری: روی لہ (صحیح بخاری: ح 6578، متابعۃ) 16— ترمذی: حسن حدیثہ (سنن الترمذی: ح 1855، وغیرہ) 17— ابن خزیمہ: روی لہ (صحیح ابن خزیمہ:2/ 53 ح 901، وغیرہ) 18— ابو عوانہ: روی لہ (المستخرج علی صحیح مسلم:1/ 446 ح 288، وغیرہ) 19— حاکم: صحح حدیثہ وقال: ’’ھذا حدیث صحیح الاسناد، وقد استشھد البخاري بعطاء بن السائب‘‘ (المستدرک: 1/ 207 ح 749) اور فرمایا: ’’ھذا حدیث صحیح علی ما بینتہ من حال عطاء بن السائب‘‘ (المستدرک:1/ 489 ح 1799) 20— بغوی: صحح حدیثہ (شرح السنۃ: 13/ 169 ح 3592، وغیرہ) 21— ضیاء المقدسی: روی لہ (الاحادیث المختارۃ: 2/ 74 ح 451، وغیرہ) 22— ابن الجارود: روی لہ (المنتقی: ح 129، 461) 4: حماد بن زید بن درہم، ابو اسماعیل (مولی جریر بن حازم) آپ 179ھ کو فوت ہوئے۔ آپ کی توثیق درج ذیل ائمہ نے کی ہے: 1— ابن معین: ’’ثقۃ عن أیوب، أعلم الناس بأیوب، من خالفہ في أیوب فلیس یسوي فلسًا‘‘ (تاریخ ابن معین روایۃ ابن محرز:368، طبع: الفاروق الحدیثیہ للطباع والنشر) اور بصرہ کے ’’ثقات‘‘ کے متعلق پوچھا گیا تو فرمایا: ’’حماد بن زید‘‘ (تاریخ ابن معین روایۃ ابن محرز:503) اور فرمایا: ’’حماد بن زید أثبت من حماد بن سلمۃ‘‘ (تاریخ ابن معین روایۃ الدوری: 4/ 241 رقم: 4155) اور فرمایا: ’’حماد بن زید أثبت من عبد الوارث وابن علیۃ وعبد الوھاب الثقفي وابن عیینۃ‘‘ (الجرح والتعدیل: 3/ 138، سندہ صحیح) اور فرمایا: ’’لیس أحد في أیوب أثبت من حماد بن زید‘‘ (الجرح والتعدیل: 3/ 139، سندہ صحیح) سوال کیا گیا: ’’حماد بن سلمۃ أحب إلیک أو حماد بن زید؟‘‘ تو فرمایا: ’’حماد بن زید أحفظ، وحماد بن سلمۃ ثقۃ‘‘ (سوالات ابن الجنید: 171) 2— عبد الرحمن بن مہدی: ’’قال احمد بن حنبل: کان ابن مھدي إذا ذکر حماد بن زید، قال: قال شیخنا، وشیخنا، کان ثبتًا في السنۃ‘‘ (العلل ومعرفۃ الرجال: 365، طبع: الفاروق الحدیثیہ للطباعہ والنشر) اور فرمایا: ’’أئمۃ الناس في زمانھم أربعۃ، منھم حماد بن زید بالبصرۃ‘‘ (الجرح والتعدیل: 3/ 138، سندہ صحیح، ابو الفرج عبدالرحمٰن بن عمر بن یزید بن کثیر الزہری المدینی الاصبہانی ولقبہ رستہ: قال ابو حاتم رازی:’’صدوق‘‘ وروی عنہ ابو زرعہ رازی وھو لا یروی إلا عن الثقۃ) اور فرمایا: ’’لم أر أحدا قط أعلم بالسنۃ ولا بالحدیث الذي یدخل في السنۃ من حماد بن زید‘‘ (الجرح والتعدیل: 3/ 138، سندہ صحیح) اور فرمایا: ’’ما رأیت بالبصرۃ أفقہ من حماد بن زید‘‘ (الجرح والتعدیل: 3/ 139، سندہ صحیح) 3— علی بن عبداللہ المدینی: ’’لم یکن في أصحاب ثابت أثبت من حماد بن سلمۃ ثم بعدہ سلیمان بن المغیرۃ ثم بعدہ حماد بن زید وھي صحاح‘‘ (العلل لابن المدینی: 109 ص 72، شاملہ) 4— احمد بن حنبل: ’’حماد بن زید أحب إلینا من عبد الوارث، حماد بن زید من أئمۃ المسلمین من أھل الدین والإسلام، وھو أحب إلي من حماد بن سلمۃ‘‘ (العلل ومعرفۃ الرجال روایۃ ابنہ عبداللہ: 1/ 438 رقم: 977، الجرح والتعدیل: 3/ 138، سندہ صحیح واللفظ لہ) اور سوال کیا گیا کہ ’’من أکثر في أیوب؟‘‘ تو فرمایا: ’’ما عندي أحدٌ أعلم بحدیثہ من حماد، یعني ابن زید‘‘ (العلل ومعرفۃ الرجال: 415، طبع: الفاروق الحدیثیہ للطباعہ والنشر) 5— ابو زرعہ رازی: ’’حماد بن زید أثبت من حماد بن سلمۃ بکثیر۔ أصح حدیثا وأتقن‘‘ (الجرح والتعدیل: 3/ 139) 6— عجلی: ’’بصری ثقۃ ثبت في الحدیث‘‘ (تاریخ الثقات: 329) 7— ابن سعد: ’’وکان ثقۃ ثبتا حجۃ کثیر الحدیث‘‘ (طبقات ابن سعد: 7/ 286) 8— یزید بن زریع: ’’سئل: ما تقول في حماد بن زید وحماد بن سلمۃ أیھما أثبت في الحدیث؟ قال: حماد بن زید وکان الآخر رجلا صالحا‘‘ (الجرح والتعدیل: 3/ 137۔ 138، سندہ صحیح، محمد بن المنہال: صاحب یزید بن زریع، وھو ثقۃ حافظ بالاجماع) 9— وکیع: ’’وقیل لہ: حماد بن زید کان أحفظ أو حماد بن سلمۃ؟ فقال: حماد بن زید۔ ما کنا نشبہ حماد بن زید الا بسمعر‘‘ (الجرح والتعدیل: 3/ 138، سندہ صحیح، مقاتل بن محمد النصراباذی الرازی: وثقہ ابو حاتم رازی وابو زرعہ رازی) 10— نسائی: ’’وھو أعلم الناس بأیوب‘‘ (السنن الکبریٰ: 3/ 321 ح 3130، دوسرا نسخہ: ح 3142) اور فرمایا: ’’وأثبت أصحاب أیوب حماد بن زید‘‘ (رسائل فی علوم الحدیث: ص 47، شاملہ) 11— ابن حبان: ذکرہ فی الثقات وقال: ’’حماد بن زید کان أحفظ وأتقن وأضبط من حماد بن سلمۃ‘‘ (کتاب الثقات: 6/ 217۔ 218) اور فرمایا: ’’وکان من الحفاظ المتقنین وأھل الورع في الدین ممن کان یقرأ حدیثہ کلہ حفظا‘‘ (مشاہیر علماء الامصار: 1244) 12— ابو یعلیٰ الخلیلی: ’’ثقۃ، متفق علیہ، مخرج في الصحیحین، رضیہ الائمۃ …… والمعتمد في حدیث یرویہ حماد ویخالفہ غیرہ والرجوع إلیہ‘‘ (الارشاد للخلیلی: 2/ 497۔ 499) 13— ابن المستوفی: ’’وثقہ أھل الحدیث واثنوا علیہ‘‘ (تاریخ اربل: 2/ 387، الورقۃ 105 ب، شاملہ) 14— ابن عبدالبر: ’’وإن کان حماد بن زید قد انفرد بذلک فإنہ ثقۃ فیما نقل، وباللّٰہ التوفیق‘‘ (التمہید: 8/ 226) اور فرمایا: ’’لأن حماد بن زید— ھو أثبت الناس في أیوب‘‘ (الاستذکار: 1/ 500 تحت 180۔ 181) 15— ابو سعد عبدالکریم التمیمی السمعانی: ’’حماد بن زید کان أحفظ وأتقن وأضبط من حماد بن سلمۃ‘‘ (الانساب للسعانی: 1/ 121 تحت ’’الازرق‘‘) 16— حاکم: ’’حماد بن زید أثبت من حماد بن سلمۃ‘‘ (المستدرک: 4/ 424 تحت ح 8304) 17— ذہبی: ’’العلامۃ الحافظ الثبت محدث الوقت …… أحد الاعلام …… قلت: لا أعلم بین العلماء نزاعًا، في أن حماد بن زید من أئمۃ السلف، ومن أتقن الحفاظ وأعدلھم، وأعدمھم غلطًا، علی سعۃ ما روی— رحمہ اللّٰہ‘‘ (سیر اعلام النبلاء: 7/ 456۔ 461) اور فرمایا: ’’الامام الحافظ المجود شیخ العراق‘‘ (تذکرۃ الحفاظ: 1/ 228 رقم: 213) اور فرمایا: ’’أحد الاعلام، أضرّ، وکان یحفظ حدیثہ کالماء‘‘ (الکاشف: 1/ 291 رقم: 1215، طبع: دار الحدیث القاہرۃ) 18— ابن حجر عسقلانی: ’’ثقۃ ثبت فقیہ، قیل إنہ کان ضریرا، ولعلہ طرأ علیہ، لأنہ صح أنہ کان یکتب‘‘ (تقریب التہذیب: 1498) 19— نووی: ’’وھو الإمام البارع المجمع علی جلالتہ‘‘ (تہذیب الاسماء واللغات: 1/ 167۔ 168) 20— بخاری: روی لہ (صحیح بخاری: ح 31، وغیرہ) 21— مسلم: روی لہ (صحیح مسلم: ح 17 [دار السلام: 115]، وغیرہ) 22— ترمذی: حسن حدیثہ (سنن الترمذی: ح6، وغیرہ) 23— ابن خزیمہ: روی لہ (صحیح ابن خزیمہ: 1/ 73 ح 142، وغیرہ) 24— ابو عوانہ: روی لہ (المستخرج علی صحیح مسلم: 1/ 332 ح 206، وغیرہ) 25— دار قطنی: روی لہ وقال: ’’کلھم ثقات‘‘ (سنن الدارقطنی: 1/ 147 ح 531، وغیرہ) 26— ابو نعیم الاصبہانی: روی لہ (المستخرج علی صحیح مسلم: 1/ 110 ح 103، وغیرہ) 27— بغوی: صحح حدیثہ (شرح السنۃ: 1/ 396 ح 203، وغیرہ) 28— ضیاء المقدسی: روی لہ (الاحادیث المختارۃ: 1/ 490 ح 363، وغیرہ) 29— ابن الجارود: روی لہ (المنتقی: ح 160، وغیرہ) 5: احمد بن عبدۃ الضبی، ابو عبداللہ البصری (ابن عبدۃ بن موسیٰ) آپ 245ھ کو فوت ہوئے۔ آپ کی توثیق درج ذیل ائمہ نے کی ہے: 1— ابو حاتم رازی: ’’بصري ثقۃ‘‘ (الجرح والتعدیل: 2/ 62) 2— نسائی: ’’لا بأس بہ‘‘ (تسمیۃ مشایخ النسائی الذین سمع منھم: ص 25 رقم: 58) 3— ابن حبان: ذکرہ فی الثقات (کتاب الثقات: 8/ 23) 4— ذہبی: ’’وکان ثقۃ نبیلا‘‘ (تاریخ الاسلام: 18/ 57۔ 58) اور فرمایا: ’’ثقۃ حجۃ‘‘ (ذکر اسماء من تکلم فیھم وھو موثق: 17) اور فرمایا: ’’حجۃ‘‘ (الکاشف: 1/ 58 رقم: 59، طبع: دار الحدیث القاہرۃ) اور فرمایا: ’’من ثقات البصرین احتج بہ مسلم وما علمت بہ بأسا إلا قول ابن خارش تکلم فیہ وھذا مردود‘‘ (الرواۃ الثقات المتکلم فیہم بمالا یوجب ردھم: ص 52، شاملہ) 5— صلاح الدین خلیل بن ایبک الصفدی: ’’کان ثقۃ نبیلا‘‘ (الوافی بالوفیات: 7/ 111) 6— ابن حجر عسقلانی: ’’ثقۃ رمي بالنصب‘‘ (تقریب التہذیب: 74) 7— ابو زرعہ رازی: روی عنہ وھو لا یروی الا عن الثقۃ (الجرح والتعدیل: 2/ 62) 8— مسلم: روی لہ (صحیح مسلم: ح 21 [دار السلام: 126]، وغیرہ) 9— ترمذی: حسن حدیثہ (سنن الترمذی: ح 6، وغیرہ) 10— ابن خزیمہ: روی لہ (صحیح ابن خزیمہ: 1/ 13 ح 17، وغیرہ) 11— ابو نعیم اصبہانی: روی لہ (المستخرج علی صحیح مسلم: 1/ 161 ح 250، وغیرہ) 12— بغوی: صحح حدیثہ (شرح السنۃ: 12/ 62 ح 3135، وغیرہ) 13— ضیاء المقدسی: روی لہ (الاحادیث المختارۃ: 5/ 296 ح 1940، وغیرہ) قَالَ اَبُو بَکْر: اَلَا یَعْقِلُ ذَوُو الْحِجَا — یَا طُلَّابَ الْعِلْمِ — اَنَّ النَّبِیَّ ﷺ لَا یَسْاَلُ رَبَّہُ مَا لَا یَجُوزُ کَوْنُہُ۔ فَفِیْ مَسْأَلَۃِ النَّبِیِّ ﷺ رَبَّہُ لَذَّۃَ النَّظَرِ اِلٰی وَجْہِہِ اَبْیَنُ الْبَیَانِ، وَاَوْضَحُ الْوُضُوحِ، اَنَّ لِلّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ وَجْہًا یَتَلَذَّذُ بِالنَّظَرِ اِلَیْہِ مَنْ مَنَّ اللّٰہُ جَلَّ وَعَلَا عَلَیْہِ، وَتَفَضَّلَ بِالنَّظَرِ اِلَی وَجْہِہِ۔ وَلِلْنَظَرِ اِلَی وَجْہِہِ یَوْمَ الْمَعَادِ بَابٌ سَیَاْتِی فِی مَوْضِعِہِ۔ مَنَّ اللّٰہُ بِہَذِہِ الْکَرَامَۃِ عَلَی مَنْ یَشَاءُ مِنْ عِبَادِہِ الْمُؤْمِنِینَ۔ قَدْ اَمْلَیْتُ اَخْبَارَ النَّبِیِّ ﷺ: ((مَنْ صَامَ یَوْمًا فِی سَبِیلِ اللّٰہِ، ابْتِغَاءَ وَجْہِ اللّٰہِ، بَاعَدَ اللّٰہُ وَجْہَہُ عَنِ النَّارِ سَبْعِینَ خَرِیفًا))۔ بَعْضَہُ فِيْ ’’کِتَابِ الصِّیَامِ‘‘، وَبَعْضَہُ فِيْ ’’کِتَابِ الْجِہَادِ‘‘، فَاَغْنٰی ذَلِکَ عَنْ تِکْرَارِہِ فِی ہَذَا الْمَوْضِعِ۔ امام ابو بکر (ابن خزیمہ رحمہ اللہ) فرماتے ہیں: کیا عقل نہیں رکھتا عقل والا — اے طلباء علم — بے شک نبی ﷺ اپنے رب سے سوال نہیں کرتے اس چیز کے بارے میں جس کا ہونا ہی جائز نہیں۔ نبی ﷺ کے سوال کرنے میں اپنے رب سے اس کے چہرے کو دیکھنے کی لذت کا، بہت ہی واضح بیان اور بہت ہی وضاحت والی چیز ہے، کہ بے شک اللہ کے لئے چہرہ ہے، لذت حاصل کرے گا وہ شخص جس پر اللہ نے احسان کیا اور اپنے چہرے کی طرف دیکھنے کا فضل کیا۔ یوم معاد کو اس کے چہرے کی طرف دیکھنا (اس بارے میں کتاب التوحید میں ہی) آگے اپنی جگہ پر باب آرہا ہے۔ اس عزت کے ساتھ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے احسان کرتا ہے۔ یقیناً میں (یعنی امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ) نے نبی کریم ﷺ کی حدیث بیان کی: ’’جس نے اللہ کی راہ میں روزہ رکھا تاکہ اللہ کے چہرے کو تلاش کرے تو اللہ اس کے چہرے کو آگ سے ستر سال کی مسافت پر دُور کر ے گا۔‘‘ (صحیح ابن خزیمہ:3/ 297 ح 2113، سندہ صحیح) اس کے بعض حصے کو ’’کتاب الصیام‘‘ میں اور بعض کو ’’کتاب الجہاد‘‘ میں (ذکر کیا ہے)۔ پس اس جگہ پر اس کے تکرار کی ضرورت نہیں۔ ……… نوٹ ……… اس مضمون کی نظر ثانی فضیلۃ الشیخ حبیب الرحمٰن ہزاروی حفظہ اللہ نے کی ہے۔ جزاہم اللہ احسن الجزاء یہ مضمون ’’اشاعۃ الحدیث‘‘ موبائل ایپ پر شیئر کیا گیا ہے، اور اس سے پہلے کہیں شائع نہیں ہوا۔ |
ہماری موبائل ایپ انسٹال کریں۔ تحقیقی مضامین اور تحقیقی کتابوں کی موجودہ وقت میں ان شاء اللہ سب سے بہترین ایپ ہے، والحمدللہ۔
دیگر بلاگ پوسٹس:
Android App --or-- iPhone/iPad App
IshaatulHadith Hazro © 2024