کتاب التوحید لابن خزیمہ، باب 2، حدیث 7 اور 8 |
ترجمہ، تحقیق و تخریج: حافظ معاذ بن زبیر علی زئی حفظہ اللہ 7: حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ حَبِیْبِ الْحَارِثِیُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا خَالِدٌ یَعْنِی ابْنَ الْحَارِثِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَجْلَانَ۔ 8: وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ ؛ اَبُو کُرَیْبٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا اَبُو خَالِدٍ، عَنِ ابْنِ عَجْلَانَ، عَنْ اَبِیہِ، عَنْ اَبِيْ ہُرَیْرَۃَ رضی اللہ عنہ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ﷺ: ’’لَمَّا خَلَقَ اللّٰہُ الْخَلْقَ کَتَبَ بِیَدِہِ عَلٰی نَفْسِہِ اَنَّ رَحْمَتِيْ تَغْلِبُ غَضَبِيْ‘‘۔ قَالَ اَبُو بَکْر: فَاللّٰہُ جَلَّ وَعَلَا اَثْبَتَ فِيْ آيٍ مِنْ کِتَابِہِ اَنَّ لَہُ نَفْسًا، وَکَذَلِکَ قَدْ بَیَّنَ عَلَی لِسَانِ نَبِیِّہِ ﷺ اَنَّ لَہُ نَفْسًا، کَمَا اَثْبَتَ النَّفْسَ فِيْ کِتَابِہ۔ وَکَفَرَتُ الْجَہْمِیَّۃُ بِہٰذِہِ الْآيِ، وَہٰذِہِ السُّنَنِ، وَزَعَمَ بَعْضُ جَہَلَتِہِمْ اَنَّ اللّٰہَ تَعَالٰی اِنَّمَا اَضَافَ النَّفْسَ اِلَیْہِ عَلٰی مَعْنٰی اِضَافَۃِ الْخَلْقِ اِلَیْہِ، وَزَعَمَ اَنَّ نَفْسَہُ غَیْرُہُ، کَمَا اَنَّ خَلْقَہُ غَیْرُہُ۔ وَہَذَا لَا یَتَوَہَّمُہُ ذُو لُبٍّ وَعِلْمٍ، فَضْلًا عَنْ اَنْ یَتَکَلَّمَ بِہِ۔ قَدْ اَعْلَمَ اللّٰہُ فِيْ مُحْکَمِ تَنْزِیلِہِ اَنَّہُ کَتَبَ عَلٰی نَفْسِہِ الرَّحْمَۃ، اَفَیَتَوَہَّمُ مُسْلِمٌ اَنَّ اللّٰہَ تَعَالٰی کَتَبَ عَلَی غَیْرِہِ الرَّحْمَۃَ؟! وَحَذَّرَ اللّٰہُ الْعِبَادَ نَفْسَہُ، اَفَیَحِلُّ لِمُسْلِم اَنْ یَقُولَ: اَنَّ اللّٰہَ حَذَّرَ الْعِبَادَ غَیْرَہُ؟! اَوَ یَتَاَوَّلُ قَوْلَہُ لِکَلِیمِہِ، مُوسَی: ((وَاصْطَنَعْتُکَ لِنَفْسِی)) [طہ: 41]، فَیَقُولُ مَعْنَاہُ: وَاصْطَنَعْتُکَ لِغَیْرِي مِنَ الْمَخْلُوقِ۔ اَوْ یَقُولَ: اَرَادَ رُوحَ اللّٰہِ بِقَوْلِہِ: ((وَلَا اَعْلَمُ مَا فِيْ نَفْسِکَ)) [المائدۃ: 116] اَرَادَ: وَلَا اَعْلَمُ مَا فِی غَیْرِکَ؟ ہٰذَا لَا یَتَوَہَّمُہُ مُسْلِمٌ، وَلَا یَقُولُہُ اِلَّا مُعَطِّلٌ کَافِرٌ۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جب اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا کیا تو اپنے ہاتھ کے ساتھ اپنے نفس پر لکھا: بے شک میری رحمت میرے غضب (یعنی غصے) پر غالب آگئی۔‘‘ امام ابو بکر (ابن خزیمہ رحمہ اللہ) نے فرمایا: پس اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب کی آیات میں یہ ثابت کیا کہ اس کے لئے نفس ہے اور اسی طرح اس نے اپنے نبی ﷺ کی زبان مبارک سے بھی واضح کیا کہ اس کے لئے نفس ہے، (بالکل اسی طرح) جس طرح اس نے اپنی کتاب میں نفس کو ثابت کیا۔ اور جہمیہ نے ان آیات اور ان احادیث کا انکار کیا اور ان کے بعض جاہلوں نے یہ گمان کیا کہ اللہ تعالیٰ نے نفس کی جو اضافت کی ہے وہ اس کی طرف مخلوق کی اضافت کے معنی میں ہے، اور انھوں نے یہ گمان کیا کہ اس کا نفس اس کا غیر ہے، جس طرح اس کی مخلوق اس کا غیر ہے۔ یہ تصور کوئی عقل والا اور علم والا نہیں کرسکتا، یہ اس سے بالاتر ہے کہ اس کے بارے میں کلام بھی کیا جائے۔ یقینا اللہ تعالیٰ نے اپنی محکم تنزیل (یعنی کتاب) میں سکھا دیا کہ اس نے اپنے نفس پر رحمت لکھ دی ہے۔ کیا کوئی مسلمان یہ تصور کر سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت اپنے غیر پر لکھ دی ہے؟! اور اللہ نے اپنے بندوں کو اپنے نفس سے ڈرایا۔ کیا یہ مسلمان کے لئے حلال ہے کہ وہ کہے: اللہ نے اپنے بندوں کو اپنے غیر سے ڈرایا ہے؟! یا وہ اللہ تعالیٰ کے قول جو اس نے اپنے کلیم موسیٰ علیہ السلام سے کیا: ’’اور تجھے میں نے اپنے نفس کے لئے چن لیا‘‘ کی یہ تاویل کرے: اور تجھے میں نے مخلوق میں سے غیر کے لئے چن لیا؟ یا وہ کہے: روح اللہ (عیسی بن مریم ) نے اپنے قول کے ساتھ ارادہ کیا: ’’اور میں نہیں جانتا جو تیرے نفس میں ہے‘‘ ان کا یہ ارادہ تھا کہ اور میں نہیں جانتا جو تیرے غیر میں ہے؟ اس کا کوئی مسلمان تصور بھی نہیں کرسکتا اور نہ ایسا کہہ سکتا ہے مگر معطل کافر (یعنی اللہ کی صفات کا انکار کرنے والا)۔ تحقیق: إسنادہ حسن محمد بن عجلان کوجمہور نے ثقہ قرار دیا ہے اور انھوں نے مسند احمد وغیرہ میں سماع کی تصریح کر رکھی ہے، والحمدللہ۔ تنبیہ: ابو خالد الاحمر مدلس ہیں اور ان کی متابعت خالد بن الحارث نے کر رکھی ہے۔ تخریج: مسند احمد (2/ 433 ح 9597، عن یحییٰ عن ابن عجلان بہ و صرح بالسماع عندہ) سنن الترمذی (3543، من حدیث ابن عجلان بہ) سنن ابن ماجہ (4295، من حدیث ابی خالد الاحمر بہ) السنۃ لعبداللہ بن احمد بن حنبل (571، من حدیث ابن عجلان بہ و صرح بالسماع عندہ) مسند البزار (البحر الزخار: 15/ 96 ح 8371، من حدیث ابن عجلان بہ وصرح بالسماع عندہ) القدر للفریابی (93، من حدیث ابن عجلان بہ) مصنف ابن ابی شیبہ (13/ 180، دوسرا نسخہ: 7/ 83 ح 34188، عن ابی خالد الاحمر بہ، باب: ’’ما ذُکر في سعۃ رحمۃ اللّٰہ تعالٰی‘‘) صحیح ابن حبان (الاحسان: 8/ 6 ح 6112، من حدیث ابن عجلان بہ) وانظر الحدیث الآتی: 81 ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے یہ روایت عجلان کے علاوہ متعدد راویوں نے بیان کی ہے، مثلاً: صحیح بخاری (7404، من حدیث ابی صالح ذکوان بہ) صحیح مسلم (2751، دارالسلام: 6969، من حدیث الاعرج بہ) السنۃ لابن ابی عاصم (609، دوسرا نسخہ: 622، من حدیث عطاء بن یسار بہ) رجال الاسناد: سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے حالات کے لئے دیکھئے حدیث سابقہ: 1 1: عجلان، ابو محمد بن عجلان المدنی (مولی فاطمہ بنت عتبہ بن ربیعہ القرشی) آپ کی توثیق درج ذیل ائمہ نے کی ہے: 1- احمد بن حنبل: ’’صالح الحدیث‘‘ (العلل ومعرفۃ الرجال بروایۃ المیمونی: 508) 2- ابن حبان: ذکرہ فی الثقات (5/ 277، 278) 3- ذہبی: ’’فغالب ھذا الإسناد مسلسلٌ بالحفاظ، من أبي إسماعیل إلی عَجلان — رحمہ اللّٰہ‘‘ (سیر اعلام النبلاء: 10/ 68) اور ان کی حدیث کو صحیح کہا۔ ([تلخیص] مستدرک حاکم:2/ 486 ح 3805، المہذب فی اختصار السنن الکبیر: 2/ 1062 ح 4744، وغیرہ) 4- ابن حجر عسقلانی: ’’لا بأس بہ‘‘ (تقریب التہذیب: 4534) 5- نووی: ’’ھو تابعي مدني ثقۃ‘‘ (تہذیب الاسماء واللغات: 1/ 327) 6- مسلم: روی لہ (صحیح مسلم: 1662 [دارالسلام: 4316]) 7- ترمذی: حسن حدیثہ (سنن الترمذی: ح 1403، وغیرہ) 8- حاکم: صحح حدیثہ (مستدرک:2/ 486 ح 3805، وغیرہ) 9- ابن خزیمہ: روی لہ (صحیح ابن خزیمہ: 2/ 369 ح1482، وغیرہ) 10- ابو عوانہ: روی لہ (المستخرج علی صحیح مسلم: 13/ 168 ح 6508، وغیرہ) 11- ابو نعیم اصبہانی: روی لہ (المستخرج علی صحیح مسلم: 1/ 41 ح 12، وغیرہ) 2: محمد بن عجلان المدنی (مولی فاطمہ بنت عتبہ بن ربیعہ القرشی) آپ 148ھ کو فوت ہوئے۔ آپ مدلس ہیں (الفتح المبین: ص 117 رقم: 98/3)۔ آپ کی توثیق درج ذیل ائمہ نے کی ہے: 1- ابن عیینہ: ’’کان محمد بن عجلان ثقۃ مأمونا عالما بالحدیث‘‘ (سنن الترمذی: تحت 511، سندہ صحیح، المعرفۃ والتاریخ للفسوی: 1/ 698) اور فرمایا: ’’ثقۃ‘‘ (العلل ومعرفۃ الرجال: 194، 1848، الجرح والتعدیل: 8/ 49، سندہ صحیح) امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے فرمایا: ’’کان ابن عیینۃ یثني علی محمد بن عجلان‘‘ (العلل ومعرفۃ الرجال روایۃ عبداللہ بن احمد بن حنبل: 1407) 2- ابن معین: ’’ثقۃ‘‘ (تاریخ ابن معین روایۃ الدوری: 3/ 195 رقم: 894) نیز سوال کیا گیا کہ محمد بن عجلان کو پسند کرتے ہیں یا محمد بن عمرو کو؟ تو فرمایا: ’’سبحان، سبحان اللّٰہ، ما یشکَّ في ھذا أحد۔ أو کما قال یحیي: محمد بن عجلان، أوثق من محمد بن عمرو‘‘ (تاریخ ابن معین روایۃ الدوری: 3/ 225، 226 رقم: 1053) 3- احمد بن حنبل: ’’ثقۃ‘‘ (العلل ومعرفۃ الرجال بروایۃ المیمونی: 508، الجرح والتعدیل: 8/ 50، المعرفۃ والتاریخ: 2/ 163، وغیرہ) اور فرمایا: ’’لیس بہ بأس‘‘ (سوالات ابی داود: 150) 4- ابو حاتم رازی: ’’ثقۃ‘‘ (الجرح والتعدیل: 8/ 50، العلل لابن ابی حاتم: 2/ 263) 5- ابو زرعہ رازی: ’’محمد بن عجلان من الثقات‘‘ (الجرح والتعدیل: 8/ 50، ابو زرعہ الرازی وجھودہ فی السنۃ النبویۃ: 3/ 932 رقم: 637) 6- نسائی: ’’وإبن عجلان ثقۃ واللّٰہ اعلم‘‘ (السنن الکبری: 9/ 40، 41 ح 9840، دوسرا نسخہ: ح 9920) 7- عجلی: ’’مدني ثقۃ‘‘ (تاریخ الثقات: 1484، دوسرا نسخہ:2/ 247 رقم: 1627) 8- ابن سعد: ’’وکان عابدًا ناسکًا فقیھًا، وکانت لہ حلقۃ في المسجد وکان یفتي‘‘ (طبقات ابن سعد، القسم المتمم التابعین: ص 354، نسخہ الخانجی: 7/ 525 رقم: 2089) 9- ابن حبان: ذکرہ فی الثقات (کتاب الثقات: 7/ 386) اور فرمایا: ’’من خیار أھل المدینۃ‘‘ (مشاہیر علماء الامصار: 1106) 10- ابن قطان الفاسی: ’’ابن عجلان عندي حجۃ‘‘ (بیان الوہم والایہام: 5/ 466 رقم: 2643) اور فرمایا: ’’وإن کان من روایۃ ابن عجلان ولا عیب فیہ بل ھو أحد الثقات‘‘ (بیان الوہم والایہام: 5/ 586 رقم: 2802) 11- عبدالغنی المقدسی: ’’کان عابدًا ناسکًا فقیھًا‘‘ (الکمال فی اسماء الرجال: 2/ 329) 12- نووی: ’’کان إمامًا، فقیھًا، عابدًا …… ویفتي، ولہ مذھب معروف، وھو تابعي صغیر‘‘ (تہذیب الاسماء واللغات: 1/ 87) 13- ذہبی: ’’الإمام، القدوۃ، الصادق، بقیۃ الأعلام …… وکان فقیھًا، مفتیًا، عابدًا، صدوقًا، کبیر الشأن‘‘ (سیر اعلام النبلاء: 6/ 317، 318) اور فرمایا: ’’وقد ذکرت ابن عجلان في ((المیزان)) فحدیثہ إن لم یبلغ رُتبۃ الصحیح، فلا ینحط عن رُتبۃ الحسن، واللّٰہ أعلم‘‘ (سیر اعلام النبلاء: 322/6) اور فرمایا: ’’قلت: وثق ابن عجلانَ: احمد بن حنبلٍ ویحیي بن معینٍ وحدث عنہ شعبۃ ومالک وھو حسن الحدیث، وأقوی من ابن اسحاق، ولکن ما ھو في قوۃ عبید اللّٰہ بن عمر، ونحوہ‘‘ (سیر اعلام النبلاء: 6/ 320) اور فرمایا: ’’الفقیہ الصالح‘‘ (الکاشف: 3/ 71 رقم: 5042، نسخہ دارالحدیث قاہرہ) اور فرمایا: ’’إمام مشھور …… وھو حسن الحدیث‘‘ (المغنی فی ضعفاء الرجال: 347/2 رقم: 5819، نسخہ دارالکتب العلمیہ) اور فرمایا: ’’صدوق‘‘ (دیوان الضعفاء والمتروکین:2/ 322 رقم: 3877، نسخہ دارالقلم) اور فرمایا: ’’الفقیہ أحد الأعلام …… وثقہ ابن عیینۃ وغیرہ، وکان أحد من جمع بین العلم والعمل‘‘ (تاریخ الاسلام: 9/ 280، نسخہ دارالکتاب العربی) اور فرمایا: ’’قال أبو عبداللّٰہ الحاکم: أخرج لہ مسلم في کتابہ ثلاثۃ عشر حدیثا، کلھا في الشواھد، وتکلم المتأخرون من أئمتنا في سوء حفظہ‘‘ (سیر اعلام النبلاء: 6/ 320) اور فرمایا: ’’وقَلَّما روی عنہ شعبۃ ومالک۔ وحدیثہ من قبیل الحسن‘‘ (تاریخ الاسلام: 9/ 282) 14- ابن حجر عسقلانی: ’’صدوق إلا أنہ اختلطت علیہ أحادیث أبي ھریرۃ‘‘ (تقریب التہذیب: 6136) 15- مالک بن انس المدنی: ’’أنہ ذکر إبن عجلان فذکر خیرًا‘‘ (التاریخ الکبیر للبخاری: 1/ 196، 197 رقم: 604، سندہ صحیح، ابن ابی الوزیر: ھو محمد بن عمر بن مطرف، وثقہ ابو حاتم رازی وابن حبان والحاکم و عبداللہ بن محمد المسندی وغیرہ) 16- صلاح الدین خلیل بن ایبک الصفدی: ’’أحد الأعلام …… کان أحد من جمع بین العلم والعمل …… وثقہ أحمد وابن معین وتکلم المتأخرون في سوء حفظہ‘‘ (الوافی بالوفیات: 4/ 68) 17- ابن الجوزی: ’’وکان ثقۃ کثیر الحدیث‘‘ (المنتظم فی تاریخ الملوک والأمم: 8/ 114 رقم: 790) 18- دارقطنی: ’’وروی ھذا الحدیث جماعۃ من الثقات عن العلاء بن عبدالرحمٰن منھم: …… وابن عجلان‘‘ (سنن دارقطنی: 309/1، 310 تحت ح 1186، نسخہ دارالکتب العلمیہ) 19- سخاوی: ’’والحق أن حدیثہ من قبیل الحسن‘‘ (التحفہ الطیفہ فی تاریخ المدینہ الشریفہ: 2/ 538، شاملہ) 20- مسلم: روی لہ (صحیح مسلم:ح 443 [دارالسلام: 997]، وغیرہ) 21- ترمذی: حسن حدیثہ (سنن الترمذی: ح 511، وغیرہ) 22- حاکم: صحح حدیثہ وقال: ’’ھذا حدیث صحیح علی ما ذکرناہ من روایۃ الائمۃ الثقات‘‘ (مستدرک:2/ 186 ح 2757، وغیرہ) 23- ابن خزیمہ: روی لہ (صحیح ابن خزیمہ: 2/ 369 ح1482، وغیرہ) 24- بیہقی: صحح حدیثہ (معرفۃ السنن والآثار: 6/ 160، 161 ح 4830) 25- ابو عوانہ: روی لہ (المستخرج علی صحیح مسلم: 13/ 169 ح 6509، وغیرہ) 26- ابو نعیم اصبہانی: روی لہ (المستخرج علی صحیح مسلم: 2/ 64 ح 988، وغیرہ) 27- ضیاء المقدسی: روی لہ (الاحادیث المختارۃ: 3/ 181 ح 974، وغیرہ) 28- بغوی: صحح حدیثہ (شرح السنۃ:9/ 341 ح 2403، وغیرہ) 3: ابو خالد الاحمر، سلیمان بن حیان الازدی الجعفری الکوفی آپ 189ھ کو فوت ہوئے۔ آپ مدلس ہیں (الفتح المبین:ص 218)۔ آپ کی توثیق درج ذیل ائمہ نے کی ہے: 1- ابن معین: ’’لیس بہ بأس ثقۃ ثقۃ‘‘ (تاریخ ابن معین روایۃ ابن محرز: 1/ 96، مطبوعات مجمع اللغۃ العربیۃ بدمشق) 2- علی بن المدینی: ’’ثقۃ‘‘ (الجرح والتعدیل: 4/ 106، 107، سندہ صحیح) 3- ابو حاتم رازی: ’’صدوق‘‘ (الجرح والتعدیل: 4/ 106، 107) 4- عجلی: ’’کوفي ثقۃ، وکان محترفا یؤاجر نفسہ‘‘ (تاریخ الثقات: 607، دوسرا نسخہ: 1/ 427 رقم: 663) 5- ابن سعد: ’’وکان ثقۃ کثیر الحدیث‘‘ (طبقات ابن سعد: 391/6، طبع دار بیروت) 6- ابن حبان: ذکرہ فی الثقات (کتاب الثقات: 6/ 395) اور فرمایا: ’’من متقني أھل کوفۃ، وکان ثبتًا‘‘ (مشاہیر علماء الامصار: 1361) اورصحیح ابن حبان میں ان سے روایتیں لی ہیں۔ (الاحسان: 1/ 197 ح171، وغیرہ) 7- ابن شاہین: ذکرہ فی الثقات: ’’لیس بہ بأس۔ وفي کتاب ابن ابي خیثمۃ۔ أبو خالد الأحمر الثقۃ المأمون‘‘ (تاریخ اسماء الثقات: 460) 8- ابن عدی: ’’وأبو خالد الأحمر لہ أحادیث صالحۃ‘‘ (الکامل فی ضعفاء الرجال: 4/ 282 رقم: 750، دوسرا نسخہ:3/ 1131) 9- ذہبی: ’’ثقۃ مشھور‘‘ (المغنی فی الضعفاء: 1/ 435 رقم: 2572، من تکلم فیہ وھو موثق: 143، الرواۃ الثقات المتکلم فیھم بمالا یوجب ردھم: 39) اور فرمایا: ’’الحافظ الصدوق …… ھو من مشاھیر المحدثین وغیرہ أثبت منہ‘‘ (تذکرۃ الحفاظ: 1/ 272 رقم: 258) اور فرمایا: ’’صاحب حدیث وحِفظ …… الرجل من رجال الکتب الستۃ، وھو مکثرٌ یَھِم کغیرہ‘‘ (میزان الاعتدال: 2/ 200 رقم: 3443) اور فرمایا: ’’الامام الحافظ …… کان موصوفًا بالخیر والدِّین …… وکان من ائمۃ الحدیث، مُنافرًا للکلام والرأي والجدال‘‘ (سیر اعلام النبلاء: 9/ 19) اور فرمایا: ’’الحافظ …… ووثقہ غیر واحد …… ابو خالد محتج بہ في الکتب، ولکن ما ھو في الثبت مثل یحیي القطان …… وکان مذکورًا بالخیر والدِّین‘‘ (تاریخ الاسلام: 12/ 173) 10- ابن حجر عسقلانی: ’’صدوق یخطیء‘‘ (تقریب التہذیب: 2547) 11- بخاری: روی لہ (صحیح بخاری:ح 1973، وغیرہ) 12- مسلم: روی لہ (صحیح مسلم: ح 16 [دارالسلام: 111] وغیرہ) 13- ترمذی: حسن حدیثہ (سنن الترمذی: ح 352، وغیرہ) 14- حاکم: صحح حدیثہ (مستدرک: 3/ 87 ح 4501، وغیرہ) 15- ابن خزیمہ: روی لہ (صحیح ابن خزیمہ:1/ 277 ح 551، وغیرہ) 16- ابو عوانہ: روی لہ (المستخرج علی صحیح مسلم: 8/ 109 ح3122، وغیرہ) 17- ابو نعیم اصبہانی: روی لہ (المستخرج علی صحیح مسلم: 1/ 198 ح 336، وغیرہ) اور فرمایا: ’’ومنھم الراوي الأنور، الموصي أصفیاء ہ بالحظ الأوفر، أبو خالد سلیمان ابن حیان الأحمر‘‘ (حلیۃ الاولیاء وطبقات الاصفیاء: 10/ 142) 18- ضیاء المقدسی: روی لہ (الاحادیث المختارۃ: 1/ 464 ح 338، وغیرہ) 19- بغوی: صحح حدیثہ (شرح السنۃ: 7/ 223 ح 1967، وغیرہ) 4: ابو عثمان خالد بن الحارث بن عبید بن مسلم الہجیمی البصری آپ 186ھ کو فوت ہوئے۔ آپ کی توثیق درج ذیل ائمہ نے کی ہے: 1- ابن معین سے پوچھا گیا کہ ’’من أثبت شیوخ البصریین؟‘‘ فرمایا: ’’خالد بن الحارث — مع جماعۃ سماھم‘‘ (الجرح والتعدیل: 3/ 325، سندہ صحیح، معاویہ بن صالح: وثقہ النسائی) نیز بصرہ کے ’’ثقات‘‘ کے بارے میں سوال کیا گیا تو فرمایا: ’’حماد بن زید وخالد بن الحارث …… ‘‘ (تاریخ ابن معین روایۃ ابن محرز: 1/ 108 رقم: 503) 2- احمد بن حنبل: ’’ھو أرفع من ھذا نشرا‘‘ (مسائل ابن ہانی: 2125) اور فرمایا: ’’کان خالد بن الحارث یجيء بالحدیث کما سمع‘‘ (العلل روایۃ المروذی: 29) اور بشر بن المفضل کے بارے میں سوال کیا گیا، پھر خالد بن الحارث کے بارے میں پوچھنے پر فرمایا: ’’خالد فوق‘‘ (المعرفۃ والتاریخ: 2/ 168، سندہ صحیح) اور فرمایا: ’’خالد بن الحارث إلیہ المنتھي في التثبیت بالبصرہ‘‘ (الجرح والتعدیل: 3/ 325، ابو بکر الاسدی ھو عاصم بن بہدلہ بن ابی النجود، وثقہ الجمہور وھو ثقۃ صدوق) 3- ابو حاتم رازی: ’’خالد بن الحارث امام ثقۃ‘‘ (الجرح والتعدیل: 3/ 325) 4- ابو زرعہ رازی: ’’کان یقال لہ خالد الصدق‘‘ (الجرح والتعدیل: 3/ 325) 5- ابن سعد: ’’وکان ثقۃ‘‘ (طبقات ابن سعد:7/ 291) 6- ترمذی: ’’ثقۃ مأمون‘‘ (سنن الترمذی، تحت ح 1899) اور ان کی حدیث کو حسن کہا۔ (سنن الترمذی: ح 506، وغیرہ) 7- نسائی: ’’خالد بن الحارث أثبت عندنا من المعتمر‘‘ (سنن الکبریٰ للنسائی: 3/ 27 ح 2271، دوسرا نسخہ: ح 2259) اور ان کی حدیث کو صحیح کہا۔ (سنن الکبریٰ للنسائی: 3/ 146 ح 2582، دوسرا نسخہ: ح 2570) 8- محمد بن المثنیٰ: ’’ما رأیت بالبصرۃ مثل خالد بن الحارث‘‘ (سنن الترمذی، تحت ح 1899، سندہ صحیح) 9- ابن حبان: ذکرہ فی الثقات، وقال: ’’فکان من عقلاء الناس ودھاتھم‘‘ (کتاب الثقات: 6/ 267) اور فرمایا: ’’وکان من عقلاء أھل البصرۃ وساداتھم غیر مدافع‘‘ (مشاہیر علماء الامصار: 1272) اور صحیح ابن حبان میں ان سے روایتیں لی ہیں۔ (الاحسان: 1/ 184 ح 80، وغیرہ) 10- بخاری: روی لہ (صحیح بخاری:ح393، وغیرہ) 11- مسلم: روی لہ (صحیح مسلم:ح 647 [دارالسلام: 1462]، وغیرہ) 12- حاکم: صحح حدیثہ (مستدرک: 1/ 57 ح189، وغیرہ) 13- ابن خزیمہ: روی لہ (صحیح ابن خزیمہ:1/ 94 ح 186، وغیرہ) 14- ابو عوانہ: روی لہ (المستخرج علی صحیح مسلم:3/ 178 ح 971، وغیرہ) 15- ابو نعیم اصبہانی: روی لہ (المستخرج علی صحیح مسلم: 2/ 189 ح 1311، وغیرہ) 16- ضیاء المقدسی: روی لہ (الاحادیث المختارۃ: 1/ 179 ح 87، وغیرہ) 17- بغوی: صحح حدیثہ (شرح السنۃ:2/ 240 ح 392، وغیرہ) 5: محمد بن العلاء بن کریب، ابو کریب الہمدانی الکوفی آپ 248ھ کو فوت ہوئے (التاریخ الکبیر للبخاری: 1/ 551 رقم: 644)۔ آپ کی توثیق درج ذیل ائمہ نے کی ہے: 1- ابو حاتم رازی: ’’صدوق‘‘ (الجرح والتعدیل: 8/ 52) 2- نسائی: ’’کوفي ثقۃ‘‘ (تسمیۃ مشایخ النسائی الذین سمع منھم: 24 رقم: 28) 3- ابن حبان: ذکرہ فی الثقات (کتاب الثقات: 9/ 105) اور صحیح ابن حبان میں ان سے متعدد روایتیں لی ہیں (الاحسان: ح 124، وغیرہ)۔ 4- ابو یعلیٰ الخلیلی: ’’ثقۃ‘‘ (الارشاد للخلیلی: 2/ 574) 5- ابن عبدالبر: ’’روی عنہ الناس کثیرًا وکان نبیلًا صدوقًا‘‘ (الاستغناء فی معرفۃ المشہورین من حملۃ العلم الکنیٰ: 2/ 672 رقم: 762) 6- ذہبی: ’’الحافظ، الثقۃ، الامام، شیخ المحدثین‘‘ (سیر اعلام النبلاء: 11/ 394) اور فرمایا: ’’الحافظ الثقۃ محدث الکوفۃ‘‘ (تذکرۃ الحفاظ: 2/ 62 رقم: 512) 7- ابن عبدالہادی: ’’الحافظ الثقۃ، محدث الکوفۃ‘‘ (طبقات علماء الحدیث: 2/ 165 رقم: 481) 8- صلاح الدین خلیل بن ایبک الصفدی: ’’الحافظ محدث الکوفۃ‘‘ (الوافی بالوفیات: 4/ 74) 9- ابن حجر عسقلانی: ’’ثقۃ حافظ‘‘ (تقریب التہذیب: 6204) اور فرمایا: ’’الحافظ أحد الاثبات المکثرین عن ھشیم‘‘ (لسان المیزان: 7/ 499 رقم: 5782، طبع موسسہ الاعلمی للمطبوعات بیروت [شاملہ]) 10- بخاری: روی لہ (صحیح بخاری:ح 79، وغیرہ) 11- مسلم: روی لہ (صحیح مسلم:ح 27 [دارالسلام: 139]، وغیرہ) 12- حاکم: صحح حدیثہ (مستدرک: 1/ 448 ح 1642، امام حاکم نے اپنے استاد ابو محمد السبیعی سے اس سند کے بارے میں مناظرہ بھی کیا تھا، لیکن مسئلہ ابو خالد سے اوپر والی سند میں تھا) اور فرمایا: ’’رواتہ عن آخرھم ثقات‘‘ (مستدرک:3/ 352 ح 5503) 13- ترمذی: حسن حدیثہ (سنن الترمذی: ح 324، وغیرہ) 14- ابن خزیمہ: روی لہ (صحیح ابن خزیمہ: 1/ 4 ح 2، وغیرہ) 15- ابو عوانہ: روی لہ (المستخرج علی صحیح مسلم: 16/ 506 ح 8860، وغیرہ) 16- ابو نعیم اصبہانی: روی لہ (المستخرج علی صحیح مسلم:1/ 292، 293 ح 541، وغیرہ) 17- ضیاء المقدسی: روی لہ (الاحادیث المختارۃ: 2/ 149 ح 522، وغیرہ) 18- بغوی: صحح حدیثہ (شرح السنۃ:4/ 17 ح 907، وغیرہ) 6: یحییٰ بن حبیب بن عربی، ابو زکریا البصری الشیبانی الحارثی آپ 248ھ کو فوت ہوئے۔ آپ امام مسلم، ترمذی، نسائی وغیرہ کے استاد ہیں۔ آپ کی توثیق درج ذیل ائمہ نے کی ہے: 1- ابو حاتم رازی: ’’صدوق‘‘ (الجرح والتعدیل: 9/ 137) 2- نسائی: ’’ثقۃ مأمون، قَلّ شیخٌ رأیتُ بالبصرۃ مثلہ‘‘ (تسمیۃ مشایخ النسائی الذین سمع منھم: 29 رقم: 153) 3- ابن حبان: ذکرہ فی الثقات (کتاب الثقات: 9/ 265) اور صحیح ابن حبان میں ان سے روایتیں لی ہیں (الاحسان: 1/ 276 ح 338، وغیرہ)۔ 4- ذہبی: ’’الامام، الحافظ، الثبت …… وقد وثقہ غیر واحد‘‘ (سیر اعلام النبلاء: 11/ 156) اور فرمایا: ’’حجّۃ نبیل‘‘ (الکاشف: 3/ 275 رقم: 6146) 5- ابن حجر عسقلانی: ’’ثقۃ‘‘ (تقریب التہذیب: 7526) 6- مسلم: روی لہ (صحیح مسلم:ح 51 [دارالسلام: 181]، وغیرہ) 7- ترمذی: حسن حدیثہ (سنن الترمذی: ح 3005، وغیرہ) 8- حاکم: صحح حدیثہ (مستدرک: 1/ 503 ح 1852، وغیرہ) 9- ابن خزیمہ: روی لہ (صحیح ابن خزیمہ: 1/ 73 ح 142، وغیرہ) 10- ابو عوانہ: روی لہ (المستخرج علی صحیح مسلم: 16/ 459 ح 8810، وغیرہ) 11- ابو نعیم اصبہانی: روی لہ (المستخرج علی صحیح مسلم: 3/ 370 ح 2970، وغیرہ) 12- ضیاء المقدسی: روی لہ (الاحادیث المختارۃ: 11/ 107 ح 98) 13- بغوی: صحح حدیثہ (شرح السنۃ: 11/ 320 ح 2882، وغیرہ) ……… نوٹ ……… اس مضمون کی نظر ثانی فضیلۃ الشیخ حبیب الرحمٰن ہزاروی حفظہ اللہ نے کی ہے۔ جزاہم اللہ احسن الجزاء یہ مضمون ’’اشاعۃ الحدیث‘‘ موبائل ایپ پر شیئر کیا گیا ہے، اور اس سے پہلے کہیں شائع نہیں ہوا۔ |
ہماری موبائل ایپ انسٹال کریں۔ تحقیقی مضامین اور تحقیقی کتابوں کی موجودہ وقت میں ان شاء اللہ سب سے بہترین ایپ ہے، والحمدللہ۔
دیگر بلاگ پوسٹس:
Android App --or-- iPhone/iPad App
IshaatulHadith Hazro © 2024