کتاب التوحید لابن خزیمہ، باب 2، حدیث 5 |
ترجمہ، تحقیق و تخریج: حافظ معاذ بن زبیر علی زئی حفظہ اللہ 5: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْجَبَّارِ بْنُ الْعَلَاء الْعَطَّارُ، قَالَ: ثنا سُفْیَانُ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ، وَہُوَ مَوْلَی آلِ طَلْحَۃَ، عَنْ کُرَیْبٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضی اللہ عنہما، اَنَّ النَّبِیَّ ﷺ حِینَ خَرَجَ اِلَی صَلَاۃِ الصُّبْحِ وَجُوَیْرِیَۃُ جَالِسَۃٌ فِی الْمَسْجِدِ، فَرَجَعَ حِینَ تَعَالَی النَّہَارُ قَالَ: ’’لَمْ تَزَالِيْ جَالِسَۃً بَعْدِيْ؟‘‘ قَالَتْ: نَعَمْ قَالَ: ’’قَدْ قُلْتُ بَعْدَکِ اَرْبَعَ کَلِمَاتٍ لَوْ وُزِنَتْ بِہِنَّ لَوَزَنَتْہُنَّ: سُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہِ عَدَدَ خَلْقِہِ، وَمِدَادَ کَلِمَاتِہِ، وَرِضَی نَفْسِہِ، وَزِنَۃَ عَرْشِہِ‘‘۔ قَالَ اَبُو بَکْر: خَبَرُ شُعْبَۃَ عَنْ، مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ مِنْ ہَذَا الْبَابِ خَرَّجْتُہُ فِی کِتَابِ الدُّعَاءِ۔ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب صبح کی نماز کے لئے نکلے تو سیدہ جویرہ رضی اللہ عنہا اپنے مصلے پر بیٹھی ہوئی تھیں، پھر جب دن روشن ہوا تو آپ ﷺ واپس لوٹے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’کیا تم میرے بعد سے ابھی تک یہاں ہی بیٹھی ہوئی ہو؟‘‘ انھوں نے کہا: جی ہاں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’بلاشبہ میں نے تیرے بعد چار کلمے پڑھے ہیں، اگر ان کا وزن تمھارے تمام اذکار سے کیا جائے تو وہ بھاری ہیں: پاک ہے اللہ اپنی حمد کے ساتھ، جتنی اس کی مخلوق کی تعداد ہے اور اس کے کلمات لکھنے کی سیاہی کے برابر اور اس کی اپنی رضامندی کے برابر اور اس کے عرش کے وزن کے برابر۔‘‘ امام ابو بکر (ابن خزیمہ) رحمہ اللہ نے فرمایا: اس باب میں شعبہ نے محمد بن عبدالرحمٰن سے روایت کی ہے جسے میں نے کتاب الدعا میں بیان کیا ہے۔ تحقیق: إسنادہ صحیح سفیان بن عیینہ کے سماع کی صراحت مسند حمیدی (497) وغیرہ میں موجود ہے، نیز شعبہ نے ان کی متابعت بھی کر رکھی ہے (دیکھئے کتاب التوحید: ح 325، وغیرہ)۔ تخریج: صحیح مسلم (2726، 2140، من حدیث ابن عیینہ بہ) مسند حمیدی (497، من حدیث ابن عیینہ بہ وصرح بالسماع عندہ) سنن ابی داود (1503، من حدیث ابن عیینہ بہ) السنن الکبریٰ للنسائی (9/ 70 ح 9916، من حدیث ابن عیینہ بہ) الآحاد والمثانی لابن ابی عاصم (5/ 438 ح 3108، من حدیث ابن عیینہ بہ) الاسماء والصفات للبیہقی (425، نسخہ موسسہ الرسالہ ناشرون، من حدیث ابن عیینہ بہ) شرح مشکل الآثار للطحاوی (15/ 297، 298 ح6033، من حدیث ابن عیینہ بہ) الرد علی الجہمیۃ للدارمی (300، طبع دارالسلفیہ، دوسرا نسخہ: 148، طبع دارالکیان الریاض، من حدیث ابن عیینہ بہ)صحیح ابن خزیمہ (1/ 370، 371 ح 753، من حدیث ابن عیینہ بہ)صحیح ابن حبان (الاحسان: 2/ 99 ح 829، من حدیث ابن عیینہ بہ)۔ رجال الاسناد: 1: ابو العباس عبداللہ بن عباس بن عبدالمطلب القرشی المدنی رضی اللہ عنہ آپ جلیل القدر صحابی اور رسول اللہ ﷺ کے چچا زاد ہیں۔ آپ کی ولادت ہجرت سے تین سال پہلے ہوئی۔ رسول اللہ ﷺ کی وفات کے وقت آپ کی عمر پندرہ (15) سال تھی(مستدرک حاکم: 3/ 533 ح 6273۔6275، سندہ صحیح)۔ ایک دفعہ نبی کریم ﷺ نے آپ کو سینے سے لگایا اور دعا فرمائی: ’’اے اللہ! اسے الکتاب کا علم سکھا دے‘‘ ایک روایت میں ہے: ’’حکمت سکھادے‘‘ (صحیح بخاری: 75، 3756) یعنی اللہ تعالیٰ نے آپ کو کتاب وحکمت کا علم سکھادیا، والحمدللہ۔ رسول اللہﷺ نے دو مرتبہ آپ کے لئے (حکمت کی) دعا فرمائی (سنن الترمذی: 3823، سندہ حسن)۔ آپ ﷺ نے دعا فرمائی: ’’اے اللہ! اسے (ابن عباس رضی اللہ عنہکو) دین میں فقہ اور (قرآن کی) تفسیر سکھا دے۔‘‘ (مستدرک حاکم: 3/ 535 ح 6280، سندہ حسن وصححہ الحاکم ووافقہ الذہبی)۔ آپ نے کفار سے قتال بھی کیا (سیر اعلام النبلاء: 3/ 336)۔ آپ 69ھ یا 70ھ میں طائف میں فوت ہوئے۔ رضی اللہ عنہ نوٹ: سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے مختصر حالات زندگی والد محترم کی تحقیق سے مطبوعہ کتاب ’’الاربعین لابن تیمیہ‘‘ (ص 125) سے لئے گئے ہیں۔ 2: کریب بن ابی مسلم، ابو رشدین، الہاشمی الحجازی (مولی ابن عباس) آپ 98ھ کو مدینہ میں فوت ہوئے۔ آپ ابن عباس رضی اللہ عنہما کے آزاد کردہ غلام ہیں۔ آپ چاند کی روئیت والی مشہور حدیث کے راوی ہیں (صحیح مسلم: 1087)۔ آپ کی توثیق درج ذیل ائمہ نے کی ہے: 1- ابن معین: ’’ثقۃ‘‘ (الجرح والتعدیل: 7/ 168، ابو الفضل یعقوب بن اسحاق بن محمود الہروی [الفقیہ] الحافظ المحدث: ذکرہ الذہبی فی تاریخ الاسلام: 25/ 84، 28/ 98) 2- نسائی: ’’ثقۃ‘‘ (السنن الکبریٰ: 9/ 73 تحت ح 9920، دوسرا نسخہ: ح 9993) 3- ابن سعد: ’’وکان ثقۃ حسن الحدیث‘‘ (طبقات ابن سعد: 5/ 224، دوسرا نسخہ/ الخانجی: 7/ 188، شاملہ) 4- ذکرہ ابن حبان فی الثقات (5/ 339) 5- دارقطنی: ’’کلھم ثقات‘‘ (سنن دارقطنی: 1/ 388 ح 1435، نسخہ دارالکتب العلمیہ بیروت، دوسرا نسخہ: ح 1450، موسسہ الرسالہ) 6- ذہبی: ’’الإمام، الحجۃ‘‘ (سیر اعلام النبلاء: 4/ 479) اور فرمایا: ’’وکان کثیر العلم کبیر السن والقدر‘‘ (العبر فی خبر من غبر: 1/ 87) 7- ابن حجر عسقلانی: ’’ثقۃ‘‘ (تقریب التہذیب: 5638) 8- اسماعیلی: ’’وھو ثقہ مشھور‘‘ (فتح الباری لابن رجب: 7/ 397، شاملہ) 9- نووی: ’’واتفقوا علی توثیقہ‘‘ (تہذیب الاسماء واللغات: 2/ 66) 10- عبدالحئ بن العماد: ’’وکان کثیر العلم کنزا لہ، کبیر السن والقدر‘‘ (شذرات الذہب: 1/ 114، سنۃ ثمان وتسعین) 11- بخاری: روی لہ (صحیح بخاری:ح 181، وغیرہ) 12- مسلم: روی لہ (صحیح مسلم: ح 295 [دارالسلام: 286]، وغیرہ) 13- ابن خزیمہ: روی لہ (صحیح ابن خزیمہ: 1/ 370 ح 753، وغیرہ) 14- حاکم: صحح حدیثہ (مستدرک: 1/ 324 ح 1211، وغیرہ) 15- ابو عوانہ: روی لہ (المستخرج علی صحیح مسلم: 3/ 5 ح 809، وغیرہ) 16- ابو نعیم اصبہانی: روی لہ (المستخرج علی صحیح مسلم: 1/ 395 ح 788، وغیرہ) 17- ضیاء المقدسی: روی لہ (الاحادیث المختارۃ: 3/ 98 ح 900، وغیرہ) 18- بغوی: صحح حدیثہ (شرح السنۃ: 12/ 341 ح 3374) 3: محمد بن عبدالرحمٰن القرشی الکوفی، مولیٰ آل طلحۃ آپ کی توثیق درج ذیل ائمہ نے کی ہے: 1- شافعی: ’’وکان ثقۃ‘‘ (الام للشافعی: 5/ 44، ’’نکاح العدد ونکاح العیید‘‘) 2- ابن معین: ’’لیس بہ بأس‘‘ (تاریخ ابن معین، روایۃ الدارمی: 737، روایۃ الدوری: 288) اور فرمایا: ’’ثقۃ‘‘ (الجرح والتعدیل: 7/ 318، سندہ صحیح) 3- علی بن المدینی: ’’کان عندنا ثقۃ، وقد أنکرت علیہ احادیث‘‘ (سوالات ابن ابی شیبہ لابن المدینی: 111) 4- ترمذی: ’’مدیني ثقۃ‘‘ (سنن الترمذی: تحت ح 2311، 3555) 5- ابو زرعہ رازی: ’’صالح الحدیث‘‘ (الجرح والتعدیل: 7/ 318، ابو زرعہ رازی وجھودہ فی السنۃ النبویۃ: 3/ 931 رقم: 629) 6- ابو حاتم رازی: ’’صالح الحدیث‘‘ (الجرح والتعدیل: 7/ 318) 7- ذکرہ ابن حبان فی الثقات، وقال: ’’وکان من أعلم الناس بالعربیۃ‘‘ (کتاب الثقات: 7/ 365، 366، یہ راوی محمد بن عبداللہ بن عبید مولی آل طلحہ کی بجائے محمد بن عبدالرحمٰن بن عبید مولی آل طلحہ ہیں، مثلاً دیکھئے التاریخ الکبیر للبخاری وغیرہ) 8- ذکرہ ابن شاہین فی الثقات وقال: ’’لیس بہ باس قالہ یحیي‘‘ (تاریخ اسماء الثقات: 1194) 9- ابن حجر عسقلانی: ’’کوفي ثقۃ‘‘ (تقریب التہذیب: 6077) 10- سفیان ثوری: وثقہ کما قال البیہقي (الخلافیات للبیہقی: 6/ 424 تحت ح 4624، 4625) 11- ابن عیینہ: ’’وکان من اعلم من عندنا بالعربیۃ‘‘ (التاریخ الکبیر للبخاری: 1/ 146 رقم: 437، سندہ صحیح) اور فرمایا: ’’وکان بصیرا بالعربیۃ‘‘ (مسند حمیدی: 624) 12- مسلم: روی لہ (صحیح مسلم: ح 1471 [دارالسلام: 3659]، وغیرہ) 13- ابن خزیمہ: روی لہ (صحیح ابن خزیمہ: 1/ 370 ح 753، وغیرہ) 14- حاکم: صحح حدیثہ (مستدرک: 4/ 260 ح 7667، وغیرہ) 15- ابن الجارود: روی لہ (المنتقی:ح 736، وغیرہ) 16- ابو نعیم اصبہانی: روی لہ (المستخرج علی صحیح مسلم: 4/ 149 ح 3462، وغیرہ) 17- ابو عوانہ: روی لہ (المستخرج علی صحیح مسلم: 11/ 566 ح 4964، وغیرہ) 18- ضیاء المقدسی: روی لہ (الاحادیث المختارۃ: 3/ 98 ح 900، وغیرہ) 19- بغوی: صحح حدیثہ (شرح السنۃ: 12/ 341 ح 3374) 4: سفیان بن عیینہ بن ابی عمران الہلالی الکوفی، ابو محمد آپ 198ھ کو فوت ہوئے۔ آپ کی توثیق درج ذیل ائمہ نے کی ہے: 1- شافعی: ’’قال سفیانُ وکان ثقۃً‘‘ (الام للشافعی: 217/5 ’’عدۃ الأمۃ‘‘) اور فرمایا: ’’لولا مالک و سفیان لذھب علم الحجاز‘‘ (تقدمۃ الجرح والتعدیل: 1/ 32، سندہ صحیح) اور فرمایا: ’’ما رأیت احدا من الناس فیہ من آلۃ العلم، ما في سفیان بن عیینۃ، وما رأیت أحدا أکف عن الفتیا منہ، وما رأیت أحدا أحسن لتفسیر الحدیث منہ‘‘ (تقدمۃ الجرح والتعدیل: 1/ 32، سندہ حسن، حرملہ بن یحییٰ: روی لہ مسلم فی صحیحہ وثقہ الجمہور وھو صدوق حسن الحدیث) اور فرمایا: ’’أصول الأحکام نیف وخمس مئۃ حدیث، کلھا عند مالک إلا ثلاثین حدیثًا، وکلھا عند ابن عیینۃ إلا ستۃ أحادیث‘‘ (سیر اعلام النبلاء: 8/ 458، 459، وقال الذہبی: ’’رواتہ ثقات‘‘) 2- ابن معین: ’’سفیان بن عیینۃ اثبت من محمد بن مسلم الطائفي وھو اوثق وھو اثبت من داود العطار في عمرو بن دینار واحب إلي منہ‘‘ (الجرح والتعدیل: 4/ 227، سندہ صحیح) اور فرمایا: ’’ثقۃ‘‘ (الجرح والتعدیل: 4/ 227، سندہ صحیح) اور فرمایا: ’’اثبت الناس في الزھري مالک …… وابن عیینۃ، واثبت الناس في عمرو بن دینار سفیان بن عیینۃ …… سفیان بن عیینۃ أعلمھم بحدیث عمرو بن دینار‘‘ (الجرح والتعدیل: 4/ 226، سندہ صحیح) اور سوال کیا گیا کہ زہری سے روایت کرنے میں کون ’’اثبت‘‘ ہے؟ تو فرمایا: ’’…… وسفیان بن عیینۃ، وکل ھؤلاء ثقات …… سفیان لیس بہ بأس ……‘‘ (سوالات ابن الجنید: 147) 3- عبدالرحمٰن بن مہدی: ’’کان سفیان بن عیینۃ من اعلم الناس بحدیث الحجاز‘‘ (الجرح والتعدیل: 4/ 227، سندہ صحیح، داود بن عمرو بن زہیرالضبی: وثقہ الجمہور) 4- علی بن المدینی: ’’ما فی اصحاب الزھري اتقن من ابن عیینۃ‘‘ (تقدمہ الجرح والتعدیل: 1/ 52، سندہ صحیح، محمد بن یحییٰ: الذھلی، ثقۃ ثبت) 5- احمد بن حنبل: ’’ما رأیت أعلم بالسنن من سفیان بن عیینۃ‘‘ (مسائل احمد روایۃ ابنہ ابی الفضل صالح: 3/ 207 رقم: 1660) اور فرمایا: ’’ما رأیت أحدا کان أعلم من سفیان بن عیینۃ‘‘ (تقدمۃ الجرح والتعدیل: 1/ 33، سندہ صحیح) اور فرمایا: ’’ھو أثبت الناس في عمرو بن دینار‘‘ (العلل ومعرفۃ الرجال: 1/ 27، سوالات ابی داود للامام احمد: ص 232) اور فرمایا: ’’سبحان اللّٰہ! ما أعلم ابن عیینۃ بعمرو بن دینار، أعلم الناس بہ ابن عیینۃ‘‘ (سوالات الاثرم لاحمد بن حنبل: 39) اور فرمایا: ’’ما رأینا مثلہ‘‘ (سوالات الاثرم لاحمد بن حنبل: 74) 6- بخاری: ’’سفیان بن عیینۃ أحفظ من حماد بن زید‘‘ (سنن الترمذی: تحت 1793) اور اپنی صحیح میں متعدد روایتیں بیان کی ہیں۔ (صحیح بخاری: ح 115، وغیرہ) 7- عجلی: ’’کوفي ثقۃ، ثبت فی الحدیث وکان بعض أھل الحدیث یقول ھو أثبت الناس في حدیث الزھري، وکان حسن الحدیث، وکان یُعد من حکماء أصحاب الحدیث‘‘ (تاریخ الثقات: 577) 8- ابو حاتم رازی: ’’سفیان بن عیینۃ امام ثقۃ، واثبت اصحاب الزھري مالک وابن عیینۃ، وکان اعلم بحدیث عمرو بن دینار من شعبۃ‘‘ (الجرح والتعدیل: 4/ 227) اور فرمایا: ’’وکان ابن عیینۃ اماما ثقۃ‘‘ (تقدمۃ الجرح والتعدیل: 1/ 52) 9- معمر: ’’ان صاحبک لثقۃ‘‘ (تقدمہ الجرح والتعدیل: 1/ 52، سندہ صحیح) 10- ابن سعد: ’’وکان ثقۃ ثبتًا کثیر الحدیث حجۃ‘‘ (طبقات ابن سعد: 5/ 497، 498) 11- نسائی: ’’وقد خالفھا مالک، وعبیداللّٰہ بن عمر وسفیان بن عیینۃ، وھؤلاء أثبت وأحفظ من سفیان بن حسین ومن جفر بن برقان‘‘ (السنن الکبریٰ: 3/ 368 تحت: 3295، دوسرا نسخہ: 3309) 12- ذکرہ ابن حبان فی الثقات، وقال: ’’وکان من الحفاظ المتقنین وأھل الورع والدین ممن علم کتاب اللّٰہ وکثر تلاوتہ لہ وشھر فیہ وحج نیفا وسبعین حجۃ‘‘ (6/ 403، 404) 13- مسلم: ’’ممن ذم الروایۃ عنھم ائمۃ أھل الحدیث مثل مالک بن أنس، وشعبۃ الحجاج، سفیان بن عیینۃ‘‘ (مقدمہ صحیح مسلم: 1/ 7، قبل باب وجوب الروایۃ عن الثقات……) اور اپنی صحیح میں متعدد روایتیں بیان کی ہیں۔ (صحیح مسلم: ح 36 [دار السلام: 154]، وغیرہ) 14- ذکرہ ابن شاہین فی الثقات (تاریخ اسماء الثقات: 496) 15- یحییٰ بن سعید (القطان): ’’ابن عیینۃ احب إلي في الزھري من معمر‘‘ (الجرح والتعدیل:1/ 51، 4/ 227، سندہ صحیح) 16- خطیب بغدادی: ’’فأما سفیان فکان لہ فی العلم قدر کبیر، ومحل خطیر، ادرک نیفا وثمانین نفسا من التابعین‘‘ (تاریخ بغداد: 9/ 174 رقم: 4764) 17- ذہبی: ’’وسفیان حجۃً مطلقًا‘‘ (سیر اعلام النبلاء: 8/ 466) اور فرمایا: ’’وکان سفیان رحمہ اللّٰہ صاحب سنۃ وإتّباع‘‘ (سیر اعلام النبلاء: 8/ 466) اور فرمایا: ’’الامام الکبیر حافظ العصر، شیخ الاسلام…… ولقد کان خلق من طلبۃ الحدیث یتکلَّفون الحج، وما المحرِّک لھم سوی لُقي سفیانَ بن عیینۃ، لإمامتہ وعلوِّ إسنادہ‘‘ (سیر اعلام النبلاء: 8/ 454) اور فرمایا: ’’إذا [کان] مثل ھذا الإمام یقول ھذہ المقالۃ في زمن التابعین، أو بعدھم بیسیر، وطلب الحدیث مضبوطٌ بالاتفاق، والأخذ عن الأثبات الأئمۃ، فکیف لو رأی سفیان رحمہ اللّٰہ طلبۃَ الحدیث في وقتنا، وما ھم علیہ من الھنات والتخبیط، والأخذ عن جھلۃ بني آدم‘‘ (سیر اعلام النبلاء: 8/ 463، 464) 18- ابن حجر عسقلانی: ’’ثقۃ حافظ فقیہ إمام حجۃ…… ولکن عن الثقات من روؤس الطبقۃ الثامنۃ وکان أثبت الناس في عمرو بن دینار‘‘ (تقریب التہذیب: 2451) 19- حاکم: ’’وسفیان بن عیینۃ: حافظ ثقۃ ثبت، وقد خبّر وحفظ واعتمدنا علی حفظہ‘‘ (مستدرک حاکم: 1/ 109 ح370) 20- ابن عبدالبر: ’’وابن عیینۃ أحفظ إن شاء اللّٰہ‘‘ (التمہید: 2/ 219) اور ان کی حدیث کو صحیح کہا۔ (الاستذکار: 2/ 94، وغیرہ) 21- ابو نعیم اصبہانی: ’’یرویہ عنہ الثقات مثل ابن عیینۃ‘‘ (المستخرج علی صحیح مسلم: 1/ 80 رقم: 215) اور فرمایا: ’’ومنھم الإمام الأمین، ذو العقل الرّصین، والری الراجح الرکین، المستنبط للمعاني، والمرتبط للمباني، ابو محمد سفیان بن عیینۃ الھلالي، کان عالمًا ناقدا، وزاھدًا عابدا، علمہ مشھور، وزھدہ معمور‘‘ (حلیۃ الاولیاء: 7/ 270) اور ان کی احادیث کو صحیح کہا۔ (حلیۃ الاولیاء: 1/ 365، وغیرہ) 22- ابن کثیر: صحح حدیثہ وقال: ’’وإسنادہ من بعد ثقاتٌ‘‘ (البدایہ والنہایہ: 19/ 207، باب ’’ملخص سیرۃ الدجال‘‘) 23- سفیان ثوری: ’’علیک بزائدۃ بن قدامۃ و سفیان بن عیینۃ‘‘ (تقدمۃ الجرح والتعدیل: 1/ 33، سندہ صحیح) اور فرمایا: ’’ذاک احد الأحدین، یقول لیس لہ نظیر‘‘ (تقدمۃ الجرح والتعدیل: 1/ 33، سندہ صحیح) 24- عبداللہ بن وہب: ’’لا اعلم احدا اعلم بتفسیر القرآن من سفیان بن عیینۃ‘‘ (تقدمۃ الجرح والتعدیل: 1/ 33، سندہ صحیح) 25- نعیم بن حماد: ’’کان ابن عیینۃ من اعلم الناس بالقرآن، وما رأیت احدا اجمع لمتفرق من ابن عیینۃ‘‘ (تقدمۃ الجرح والتعدیل: 1/ 33، 34، سندہ صحیح) 26- عبدالرزاق: ’’ما رأیت بعد ابن جریج مثل ابن عیینۃ في حسن المنطق‘‘ (تقدمہ الجرح والتعدیل: 1/ 52، 53، سندہ صحیح) 27- بھز بن اسد: ’’ما رأیت مثل سفیان بن عیینۃ، فقیل لہ: ولا شعبۃ؟ قال: ولا شعبۃ، ما رأیت مثل ابن عیینۃ أجمع منہ‘‘ (الکامل فی ضعفاء الرجال لابن عدی: 1/ 183، عبد الله بن محمد بن عبد الله بن يونس: من اعیان المحدثین کما قال ابو عبداللہ الحاکم فی تاریخ نیسابور وثقہ الذہبی فی تاریخ الاسلام، و عبدالرحمٰن بن بشر بن الحکم: ثقۃ) 28- عبدالرحمٰن بن ابی حاتم رازی نے باب قائم کیا: ’’ومن العلماء الجھابذۃ النقاد بمکۃ سفیان بن عیینۃ‘‘ (تقدمہ الجرح والتعدیل: 1/ 32) 29- ترمذی: صحح حدیثہ (سنن الترمذی: ح 1793، 2609، وغیرہ) 30- ابن خزیمہ: روی لہ (صحیح ابن خزیمہ: ح 17، وغیرہ) 31- ابن الجارود: روی لہ (المنتقی:ح3، وغیرہ) 32- ابو عوانہ: روی لہ (المستخرج علی صحیح مسلم: ح 4، وغیرہ) 33- ضیاء المقدسی: روی لہ (الاحادیث المختارۃ: ح 101، وغیرہ) 34- بغوی: صحح حدیثہ (شرح السنۃ:3/ 438 ح 860، وغیرہ) 35- البزار: صحح حدیثہ (مسند البزار، البحر الزخار: 8/ 333 ح 3404، 3405) 36- بوصیری: صحح حدیثہ (مصباح الزجاجہ فی زوائد ابن ماجہ: 2/ 72، وغیرہ) 37- ابن بشران: صحح حدیثہ (الامالی لابن بشران: 2/ 42 ح 1037، وغیرہ) 38- ابو القاسم الحنائی: صحح حدیثہ (فوائد الحنائی، الحنائیات: 1/ 171 ح 13، وغیرہ) 5: عبدالجبار بن العلاء بن عبدالجبار العطار، ابوبکر المکی البصری آپ 248ھ کو فوت ہوئے۔ آپ کی توثیق درج ذیل ائمہ نے کی ہے: 1- ابو حاتم رازی: ’’مکي صالح‘‘ (الجرح والتعدیل: 6/ 32) 2- عجلی: ’’بصري ثقۃ سکن مکۃ‘‘ (تاریخ الثقات: 2/ 69 رقم: 1006، دوسرا نسخہ: 919) 3- نسائی: ’’لا باس بہ‘‘ (تسمیۃ مشایخ الذین سمع منھم: 30 رقم: 188) 4- بیہقی: ’’وھو ثقۃ‘‘ (السنن الکبریٰ للبیہقی:ح 1781، 10103) 5- ذکرہ ابن حبان فی الثقات، وقال: ’’وکان متقنا‘‘ (الثقات لابن حبان: 8/ 418) 6- حاکم: ’’ھذا إسناد صحیح، وعبدالجبار العطار ثقۃ‘‘ (مستدرک حاکم: 1/ 15 ح 163) 7- ذہبی: ’’ثقۃ سریع القراءۃ‘‘ (الکاشف: 2/ 173 رقم: 3079، نسخہ: دارالحدیث قاہرہ) اور فرمایا: ’’الامام المحدث الثقۃ‘‘ (سیر اعلام النبلاء: 11/ 401) اور فرمایا: ’’وکان [ثقۃ] صاحب حدیث‘‘ (العبر فی خبر من غبر: 1/ 355) اور فرمایا: ’’ثقۃ‘‘ (المہذب فی اختصار السنن الکبیر: 1/ 373) 8- ابن حجر عسقلانی: ’’لا باس بہ‘‘ (تقریب التہذیب: 3743) 9- مسلم: روی لہ (صحیح مسلم: ح 1935 [دارالسلام: 4999]، وغیرہ) 10- ترمذی: حسن حدیثہ (سنن الترمذی: ح 1935، وغیرہ) 11- ابن خزیمہ: روی لہ (صحیح ابن خزیمہ: 37، وغیرہ) 12- ابو عوانہ: روی لہ (المستخرج علی صحیح مسلم: ح 6004، وغیرہ) 13- ابو نعیم اصبہانی: روی لہ (المستخرج علی صحیح مسلم: 13/ 104 ح 71، وغیرہ) 14- بغوی: صحح حدیثہ (شرح السنۃ: 11/ 369، 370 ح 3032) 15- ضیاء المقدسی: روی لہ (الاحادیث المختارۃ: ح 314، وغیرہ) ……… نوٹ ……… اس مضمون کی نظر ثانی فضیلۃ الشیخ حبیب الرحمٰن ہزاروی حفظہ اللہ نے کی ہے۔ جزاہم اللہ احسن الجزاء یہ مضمون ’’اشاعۃ الحدیث‘‘ موبائل ایپ پر شیئر کیا گیا ہے، اور اس سے پہلے کہیں شائع نہیں ہوا۔ |
ہماری موبائل ایپ انسٹال کریں۔ تحقیقی مضامین اور تحقیقی کتابوں کی موجودہ وقت میں ان شاء اللہ سب سے بہترین ایپ ہے، والحمدللہ۔
دیگر بلاگ پوسٹس:
Android App --or-- iPhone/iPad App
IshaatulHadith Hazro © 2024