کتاب التوحید لابن خزیمہ، باب 11، حدیث 58 |
ترجمہ، تحقیق و تخریج: حافظ معاذ بن زبیر علی زئی حفظہ اللہ 58: حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ وَہْبٍ قَالَ: حَدَّثَنَا عَمِّيْ قَالَ: حَدَّثَنِيْ یُونُسُ بْنُ یَزِیْدَ، عَنِ ابْنِ شِہَابٍ قَالَ: حَدَّثَنِيْ عُرْوَۃُ بْنُ الزُّبَیْرِ، أَنَّ عَائِشَۃَ رضی اللہ عنہا زَوْجَ النَّبِيِّ ﷺ حَدَّثَتْہُ، أَنَّہَا قَالَتْ لِرَسُوْلِ اللّٰہِ ﷺ: ہَلْ أَتٰی عَلَیْکَ یَوْمٌ کَانَ أَشَدَّ مِنْ یَوْمِ أُحُدٍ؟ فَقَالَ: ((لَقَدْ لَقِیْتُ مِنْ قَوْمِکِ، وَکَانَ أَشَدَّ مَا لَقِیْتُ مِنْہُمْ یَوْمَ الْعَقَبَۃِ؛ إِذْ عَرَضْتُ نَفْسِيْ عَلَی ابْنِ عَبْدِ یَالِیْلَ بْنِ عَبْدِ کُلَالٍ، فَلَمْ یُجِبْنِيْ إِلٰی مَا أَرَدْتُ، فَانْطَلَقْتُ وَأَنَا مَہْمُوْمٌ عَلٰی وَجْہِيْ، فَلَمْ أَسْتَفِقْ إِلَّا وَأَنَا بِقَرْنِ الثَّعَالِبِ، فَرَفَعْتُ رَأْسِيْ، فَإِذَا بِسَحَابَۃٍ قَدْ أَظَلَّتْنِيْ، فَنَظَرْتُ، فَإِذَا فِیْہَا جِبْرِیْلُ علیہ السلام، فَنَادَانِيْ فَقَالَ: یَا مُحَمَّدُ! إِنَّ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ قَدْ سَمِعَ قَوْلَ قَوْمِکَ لَکَ، وَمَا رَدُّوْا عَلَیْکَ، وَقَدْ بَعَثَ اللّٰہُ مَلَکَ الْجِبَالِ لِتَأْمُرَہُ بِمَا شِئتَ فِیہِمْ))۔ قَالَ: ((فَنَادَانِيْ مَلَکُ الْجِبَالِ، فَسَلَّمَ عَلَيَّ، ثُمَّ قَالَ: یَا مُحَمَّدُ! إِنَّ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ قَدْ سَمِعَ قَوْلَ قَوْمِکَ لَکَ، وَأَنَا مَلَکُ الْجِبَالِ، وَقَدْ بَعَثَنِيْ رَبُّکَ إِلَیْکَ؛ لِتَأْمُرَنِيْ بِأَمْرِکَ، وَبِمَا شِئتَ؛ إِنْ شِئتَ أَنْ أُطْبِقَ عَلَیْہِمُ الْأَخْشَبَیْنِ فَعَلْتُ))۔ فَقَالَ لَہُ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ: ((بَلْ أَرْجُوْ أَنْ یُخْرِجَ اللّٰہُ مِنْ أَصْلَابِہِمْ مَنْ یَعْبُدُ اللّٰہَ وَحْدَہُ، لَا یُشْرِکُ بِہٖ شَیْئًا))۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انھوں نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا: کیا آپ پر کوئی ایسا دن بھی گزرا ہے جو اُحد کے دن سے بھی زیادہ سخت ہو؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا: ’’یقینا میں نے تمھاری قوم سے کتنی ہی تکلیفیں اُٹھائی ہیں اور مجھے اُن کی طرف سے عقبہ کے دن سب سے زیادہ تکلیفیں پہنچی ہیں، جب میں نے اپنے آپ کو کنانہ بن عبد یالیل بن عبد کلال کے ہاں پیش کیا، لیکن اُس نے میرے ارادہ کے مطابق میری دعوت کو قبول نہیں کیا، تو میں وہاں سے بہت مغموم حالت میں واپس لوٹا، حتی کہ میں قرن الثعالب (جو ایک جگہ کا نام ہے) پر پہنچا، تو میں نے اپنا سر اُٹھایا تو دیکھا کہ مجھ پر ایک بادل کا ٹکڑا سایہ کئے ہوئے ہے، پھر میں نے دیکھا کہ اُس میں جبرئیل علیہ السلام ہیں، انھوں نے مجھے آواز دی اور کہا: اے محمد! بے شک اللہ تعالیٰ نے وہ باتیں سُن لیں جو آپ کی قوم نے آپ سے کہیں اور جو اُنھوں نے آپ کو جواب دیا، اور بے شک اللہ تعالیٰ نے پہاڑوں کا فرشتہ بھیجا ہے تاکہ آپ اُس کو ان (لوگوں) کے متعلق جو چاہیں حکم دے دیں، تو آپ ﷺ نے فرمایا: ’’پس پہاڑوں کے فرشتے نے مجھے آواز دی اوراُس نے مجھے سلام کیا، پھر اس نے کہا: اے محمد! بے شک اللہ تعالیٰ نے وہ باتیں سُن لیں جو آپ کی قوم نے آپ سے کہیں، اور میں پہاڑوں کا فرشتہ ہوں، اور بے شک اللہ تعالیٰ نے مجھے آپ کی طرف بھیجا ہے، تاکہ آپ جو چاہیں مجھے حکم دیں، اگر آپ چاہیں تو میں ان دو پہاڑوں کو ان پر ملا دوں (تاکہ وہ ان پہاڑوں کے درمیان پِس جائیں) تو میں ایسا ہی کروں گا۔‘‘ تو رسول اللہ ﷺ نے اسے فرمایا: ’’مجھے اُمید ہے کہ اللہ تعالیٰ ان (طائف والوں) کی پُشتوں سے ایسے لوگ پیدا فرمائے گاجو اللہ اکیلے کی عبادت کریں گے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے۔‘‘ تحقیق: إسنادہ حسن یہ روایت متفق علیہ ہے۔ تخریج: صحیح البخاري (3231)، صحیح مسلم (1795)، السنن الکبریٰ للنسائي (7/ 144 ح 7659)، المستخرج لأبي عوانۃ (14/ 541 ح 7342)، صحیح ابن حبان (الاحسان: 14/ 517 ح 6561) وغیرہ من حدیث عبد اللّٰہ بن وھب بہ۔ رجال الاسناد: 1: سیدہ عائشہ صدیقہ بنت ابی بکر الصدیق رضی اللہ عنہما آپ دنیا اور آخرت میں رسول اللہ ﷺ کی بیوی اور تمام مسلمانوں کی روحانی ماں (ام المومنین) ہیں۔ آپ سیدنا ابو بکر الصدیق رضی اللہ عنہ کی بیٹی ہیں۔ آپ کے بعض فضائل ومناقب کے لیے دیکھئے استاد محترم فضیلۃ الشیخ ابو اسماعیل تنویر الحق الترمذی کی تحقیق سے مطبوعہ کتاب: سیرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ، صفحہ نمبر 290۔ آپ57ھ یا 58ھ کو فوت ہوئیں۔ رضی اللہ عنہا 2: عروہ بن الزبیر بن العوام، ابو عبداللہ القرشی آپ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے بھانجے ہیں، اور صحیحین کے راوی اور ثقہ ہیں۔ امام محمد بن سعد رحمہ اللہ نے فرمایا: ’’وکان ثقۃ، کثیر الحدیث، فقیھًا، عالیًا مأمونًا، ثبتًا‘‘ (الطبقات: 5/ 178) امام عجلی رحمہ اللہ نے فرمایا: ’’مدني، تابعي، ثقۃ، کان رجلًا صالحًا لم یدخل في شيء من الفتن‘‘ (تاریخ الثقات: 1121) آپ 94ھ کو فوت ہوئے۔ رحمہ اللہ 3: محمد بن مسلم بن عبیداللہ بن عبداللہ بن شہاب الزہری القرشی المدنی، ابوبکر آپ کی ثقاہت اور جلالت پر ائمہ محدثین کا اتفاق ہے۔ آپ کے فضائل بہت زیادہ ہیں، جیسا کہ حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’مناقب الزھري وأخبارہ تحتمل أربعین ورقۃ طول ذلک الحافظ ابن عساکر، وقد وقع لي من عوالیہ نحو سبعین حدیثا ……‘‘ (تذکرۃ الحفاظ: 1/ 113 رقم: 97، طبع: دار الاحیاء التراث العربی) آپ 124ھ یا 125ھ کو فوت ہوئے۔ آپ مدلس ہیں۔ (الفتح المبین: 102 /3) آپ کے حالات کے لیے دیکھئے حدیث سابق: 11 4: یونس بن یزید الایلی، ابو یزید القرشی آپ صحیحین اور سنن اربعہ کے راوی اور جمہور کے نزدیک ثقہ ہیں۔ آپ کو امام ابن حبان رحمہ اللہ نے ثقات میں ذکر کیا ہے (کتاب الثقات: 7/ 468) امام عجلی رحمہ اللہ اور امام دارقطنی رحمہ اللہ دونوں نے فرمایا: ’’ثقۃ‘‘ (تاریخ الثقات: 1886، سوالات حمزۃ السھمي: 356) امام عبد اللہ بن المبارک رحمہ اللہ اور امام عبد الرحمن بن مہدی رحمہ اللہ دونوں نے فرمایا: ’’کتابہ صحیح‘‘ (الجرح والتعدیل: 9/ 248، سندہ صحیح) امام ذہبی رحمہ اللہ نے فرمایا: ’’ثقۃ حجۃ‘‘ (میزان الاعتدال: 4/ 484 رقم: 9924) اور امام ابن حجر العسقلانی رحمہ اللہ نے فرمایا: ’’وثقہ الجمھور‘‘ (فتح الباري: 1/ 455) آپ 159ھ کو فوت ہوئے۔ رحمہ اللہ 5: عبداللہ بن وہب بن مسلم، ابو محمد الفہری المصری آپ صحیحین کے راوی اور زبردست ثقہ امام ہیں۔ محدثین کی ایک بڑی تعداد نے آپ کی توثیق کی ہے۔ امام ابو زرعہ رازی رحمہ اللہ نے فرمایا: ’’نظرت في نحو ثمانین ألف حدیث من حدیث ابن وھب بمصر فلا أعلم أني رأیت حدیثًا لہ لا أصل لہ، وھو ثقۃ‘‘ (الجرح والتعدیل: 5/ 190) راجح یہی ہے کہ امام عبداللہ بن وہب رحمہ اللہ ثقہ ہونے کے ساتھ مدلس بھی تھے، امام ابن سعد رحمہ اللہ نے فرمایا: ’’وکان کثیر العلم، ثقۃ فیما قال حدثنا، وکان یدلس‘‘ (الطبقات: 7/ 518) آپ 197ھ کو فوت ہوئے۔ رحمہ اللہ 6: احمد بن عبدالرحمٰن بن وہب المصری آپ امام مسلم بن الحجاج القشیری، امام ابن خزیمہ اور امام ابو عوانہ رحمہم اللہ وغیرہم کے استاد ہیں۔ جمہور نے توثیق کی ہے لہٰذا صدوق حسن الحدیث (في غیر ما أنکر علیہ) ہیں۔ آپ پر تغیر حفظ کا الزام بھی ثابت ہے۔ لیکن امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ کی روایات آپ سے مستقیم ہیں۔ دیکھئے المجروحین لابن حبان (1/ 149) امام بیہقی رحمہ اللہ نے آپ کی بیان کردہ روایت کے بارے میں فرمایا: ’’رواۃ ھذا الحدیث کلھم ثقات، مجمع علی عدالتھم‘‘ (الخلافیات: 1/ 187 ح 261) امام دارقطنی رحمہ اللہ نے آپ کی بیان کردہ روایت کے بارے میں فرمایا: ’’کلھم ثقات‘‘ (سنن الدارقطني: 3/ 21 ح 2844) امام ابن القطان الفاسی رحمہ اللہ نے فرمایا: ’’قد وثقہ أھل زمانہ‘‘ (بیان الوھم والإیھام: 5/ 265) امام ذہبی رحمہ اللہ نے فرمایا: ’’وقد روی ألوفا من الحدیث علی الصحۃ، فخمسۃ أحادیث منکرۃ في جنب ذلک لیست بموجبۃ لترکہ‘‘ (سیر أعلام النبلاء: 12/ 323) امام ذہبی رحمہ اللہ کے قول ’’فخمسۃ أحادیث منکرۃ‘‘ سے مراد وہ احادیث ہیں جنھیں ائمہ محدثین نے احمد بن عبدالرحمٰن بن وہب کی منکریات میں شمار کیا ہے۔ آپ 264ھ کو فوت ہوئے۔ رحمہ اللہ ……… نوٹ ……… اس مضمون کی نظر ثانی فضیلۃ الشیخ حبیب الرحمٰن ہزاروی حفظہ اللہ نے کی ہے۔ جزاہم اللہ احسن الجزاء یہ مضمون ’’اشاعۃ الحدیث‘‘ موبائل ایپ پر شیئر کیا گیا ہے، اور اس سے پہلے کہیں شائع نہیں ہوا۔ |
ہماری موبائل ایپ انسٹال کریں۔ تحقیقی مضامین اور تحقیقی کتابوں کی موجودہ وقت میں ان شاء اللہ سب سے بہترین ایپ ہے، والحمدللہ۔
دیگر بلاگ پوسٹس:
Android App --or-- iPhone/iPad App
IshaatulHadith Hazro © 2024