’’اخلاقیات، بھائی چارہ اور پڑوسیوں سے حسن سلوک‘‘ کے عنوان پر شیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ کا خطبہ جمعہ |
تقریر: محدث العصر حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ جمع و ترتیب: حافظ معاذ بن زبیر علی زئی حفظہ اللہ آج کے خطبہ جمعہ کا موضوع ’’اخلاقیات‘‘ ہے۔ ایک دوسرے سے کن اخلاق کے ساتھ پیش آنا چاہئے؟ مسلمانوں کو ایک دوسرے سے کیا تعلقات رکھنے چاہئیں؟ یہ آج کے اس خطبے کا موضوع ہے۔ میں نے آپ کے سامنے سورۃ الحجرات کی تین آیتیں تلاوت کی ہیں تاکہ ان کی تشریح، ان کا مفہوم بیان کروں۔ آپ کو بھی سمجھاؤں اور خود بھی ان آیات پر عمل کروں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں قرآن مجید اور نبی کریم ﷺ کی احادیثِ مبارکہ پر سلف صالحین کے متفقہ فہم کی روشنی میں عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اور ہر قسم کی غلطیوں سے، چاہے وہ گناہ ہیں، ان سے بچائے۔ چاہے وہ عقیدے کی غلطیاں ہیں، بدعات ہیں، شرک ہے، اور قسما قسم کی خامیاں ہیں، ہر قسم کی غلطیوں اور خامیوں سے اللہ رب العزت ہمیں بچائے۔ اسلام دین فطرت ہے، دین حق ہے۔ اللہ رب العزت نے اپنے رسول کو بھیجا تاکہ دین اسلام کو دنیا کے تمام مذاہب پر، تمام قوانین پر غالب کر دے، تاکہ اسلام کا جھنڈا سربلند ہو۔ اس کے لئے اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے نبی کریم ﷺ کے ذریعے سے مسلمانوں کی تربیت فرمائی۔ عقیدے بھی صحیح کئے۔ لوگوں کے دل میں اللہ پر ایمان پیدا کیا، کہ اللہ پر ایسا ایمان ہو کہ اس میں کسی قسم کا ذرا سا بھی شک نہ ہو۔ نبی کریم ﷺ اور آپ کے صحابہ کرام ایمان کے اُن اونچے درجوں پر تھے۔ سب سے بڑا درجہ تو رسول اللہ ﷺ کا ہے۔ پھر آپ کے بعد انبیاء ہیں۔ پھر ان کے بعد صحابہ کرام ہیں۔ اللہ نے انھیں بہت عظم ایمان نصیب فرمایا کہ اُن کے دلوں میں کسی قسم کا شک و شبہ پیدا نہیں ہوتا تھا۔ نبی کریم ﷺ کا ایک صحیح واقعہ صحیح بخاری اور حدیث کی دوسری کتابوں میں موجود ہے کہ ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ ایک سفر میں ایک درخت کے نیچے آرام فرما رہے تھے، لیٹے ہوئے تھے، سو رہے تھے۔ آپ ﷺ کی تلوار آپ کے پاس، آپ کے قریب موجود تھی۔ صحابہ کرام مختلف جگہوں پر آرام فرما رہے تھے۔ اتنے میں ایک کافر، ایک غیر مسلم آگیا۔ صحابہ کرام سوئے ہوئے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ بھی سوئے ہوئے ہیں۔ وہ آگیا۔ اُس نے آکر وہ تلوار اٹھا لی۔ جب نبی کریم ﷺ کی آنکھ کھلی تو دیکھا کہ سر کے قریب ایک کافر موجود ہے، کھڑا ہے اور اس کے ہاتھ میں تلوار ہے۔ تو اُس نے کہا کہ اے محمد ﷺ۔ یہ ہم اپنی طرف سے کہتے ہیں۔ اُس نے تو صرف آپ کا نام لیا تھا۔ کیونکہ ہم پر یہ ضروری ہے کہ ہمارے نبی پاک ﷺ کا جب نام لیا جائے تو آپ پر درود پڑھا جائے۔ وہ شخص بخیل ہے جو آپ کا نام سننے کے بعد اور آپ کا ذکر سننے کے بعد درود نہیں پڑھتا۔ اُس نے کہا کہ تجھے آج میرے ہاتھ سے کون بچائے گا؟ یہ انتہائی خوفناک صورت ہوتی ہے۔ جب انسان کو موت سامنے نظر آرہی ہو۔ کافر ہے، اُس کے ہاتھ میں ہتھیار موجود ہے، اسلحہ موجود ہے، حملہ کرنا چاہتا ہے۔ کہتا ہے کہ کون بچائے گا؟ نبی کریم ﷺ نے اطمینان سے فرمایا کہ ’’میرا اللہ‘‘۔ یہ سننا تھا کہ وہ اتنا ڈرا کہ تلوار رکھ دی۔ اُس پر ایسا خوف طاری ہوا۔ رسول اللہ ﷺ نے وہ تلوار اپنے ہاتھ میں لے لی، پھر فرمایا کہ اب میرے ہاتھ سے تجھے کون بچائے گا؟ تو اُس نے کہا کہ ’’أنت‘‘، کہ آپ ہی مجھے بچائیں گے۔ اگر آپ نے مارا تو مارا گیا۔ آپ نے چھوڑ دیا تو بچ جاؤں گا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: نہیں، تجھے اللہ بچائے گا۔ صحیح بخاری کی حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کے بعد وہ مسلمان ہوگیا۔ کیونکہ وہ واپس گیا اور کہنے لگا: ’’جِئتُکُمْ مِنْ عِنْدِ خَیْرِ النَّاسِ‘‘ میں اُس آدمی کے پاس سے آیا ہوں جو کہ سب سے بہترین انسان ہے۔ پھر اُس کے قبیلے والے بھی مسلمان ہوئے۔ [دیکھئے (صحیح بخاری: 2910، صحیح مسلم: 843، مختصراً) نیز دیکھئے (مسند احمد 3/ 390 ح 5190، صحیح ابن حبان، الاحسان: 2872 دوسرا نسخہ:2883 وھو حدیث صحیح) نیز ’’میں اس کے پاس سے آیا ہوں جو سب سے بہتر ہے‘‘ اس کے لئے دیکھئے (تجرید اسماء الصحابہ: ج 2 ص 3) نیز دیکھئے مشکوۃ المصابیح (5305) وغیرہ۔] تو میں عرض کر رہا تھا کہ نبی کریم ﷺ ایمان کے سب سے اعلیٰ درجے پر تھے۔ آپ کے بعد دوسرے پیغمبروں کا مقام ہے۔ پھر صحابہ کرام کا مقام ہے۔ آپ ﷺ نے ایمان کی تربیت بھی کی اور اخلاق کی بھی۔ لوگوں کے اخلاق بھی صحیح کئے۔ اخلاق کا خاص خیال رکھتے تھے۔ رسول اللہ ﷺ لوگوں کی تربیت کرتے تھے۔ رب العالمین فرماتا ہے کہ ((اِنَّمَا الْمُؤْمِنُـوْنَ اِخْوَةٌ)) عربی میں ’’اِنَّمَا‘‘ کو ’’کلمہ حصر‘‘ کہتے ہیں۔ اس کے بعد والا جملہ اسی میں مقید ہوتا ہے۔ اس کی مثال اس طرح ہے کہ۔ یعنی میں آپ کو اس کا مفہوم بیان کروں۔ کہ مومن بھائی ہیں۔ مراد یہ کہ مومن صرف اور صرف آپس میں ایک دسرے کے بھائی ہیں۔ اس میں ’’إنما‘‘ صرف کے معنے میں آتا ہے، کلمہ حصر کے معنے میں آتا ہے۔ یعنی یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی نہ ہو۔ پھر فرمایا کہ ((فَاَصْلِحُوْا بَيْنَ اَخَوَيْكُمْ)) اگر بھائیوں کے درمیان اختلاف ہو جائے۔ کوئی جھگڑا ہو جائے۔ اختلاف ہو جائے۔ تو صلح کراؤ۔ یہ سب سے بہترین طریقہ ہے۔ اللہ رب العزت نے اس کا حکم دیا ہے۔ وہ لوگ سب سے بُرے ہیں جو دو مسلمانوں کو آپس میں لڑا دیتے ہیں۔ صحیح مسلم کی حدیث ہے، نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ شیطان یعنی ابلیس سمندر میں ایک تخت پر بیٹھا ہوا ہے۔ یہ جو بڑا شیطان ہے، ابلیس، جس نے آدم علیہ السلام کو سجدہ نہیں کیا تھا، وہ سمندر میں ایک تخت پر بیٹھا ہوا ہے۔ دنیا میں اس کے شیطان، اس کی فوجیں، اس کا جو لشکر ہے وہ دنیا میں پھرتے ہیں اور لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں۔ پھر جو بڑے بڑے شیطان ہیں، مردۃ الشیاطین، وہ جاکر اُس کو رپورٹ دیتے ہیں۔ کوئی کہتا ہے کہ میں چوری کروا کر آیا ہوں، کوئی کہتا ہے کہ میں زنا کروا کر آیا ہوں، کوئی کہتا ہے کہ میں نے کسی کو سود کی لائن پر لگا دیا، فلاں نے ڈاکہ ڈال دیا، فلاں کام کردیا، جتنے بھی گناہ ہیں ان کی رپورٹیں اُس کو دیتے ہیں۔ وہ کہتا ہے: ٹھیک ہے، ٹھیک ہے۔ اور اس کے بعد ایک شیطان آتا ہے اور اُسے کہتا ہے کہ میں دو آدمیوں کو آپس میں لڑا کر آیا ہوں۔ میاں بیوی کو آپس میں لڑا دیا ہے۔ شوہر اور اس کی بیوی کے درمیان اختلاف پیدا کر دیا ہے۔ وہ اُٹھ کر اُس شیطان کو سینہ دے کر ملتا ہے۔ اتنا خوش ہوتا ہے کہ تُو نے اصل کام کیا ہے۔ [دیکھئے (صحیح مسلم: 2813) نیز دیکھئے (اضواء المصابیح: 1/ 106 ح 71) مردۃ الشیاطین کی تفصیل کے لئے دیکھئے فتاویٰ علمیہ المعروف توضیح الاحکام (2/ 137)] دو مسلمانوں کو آپس میں لڑا دینا، اختلاف پیدا کرنا، یہ بہت بڑا جرم ہے۔ اسی لئے حدیث میں آتا ہے، نبی ﷺ نے فرمایا: ’’لاَ يَدْخُلُ الْجَنَّةَ نَمَّامٌ‘‘ چغل خور جنت میں داخل نہیں ہوگا۔ چغل خور کا کام کیا ہے؟ دو مسلمانوں کو آپس میں لڑانا۔ ایک سے کوئی بات سنی، اُس میں نمک مرچ لگایا، مصالحہ لگایا اور دوسرے کو جا کر بتا دیا۔ [دیکھئے (صحیح مسلم: 105) نیز دیکھئے (صحیح بخاری: 6056)] تو رب العالمین فرمایا ہے کہ ((وَاَصْلِحُوْا ذَاتَ بَيْنِكُمْ)) ایک دوسرے کے درمیان صلح کرایا کرو۔ سب سے بہترین طریقہ یہی ہے۔ [دیکھئے (سورۃ الانفال، آیت: 1)] ((وَاتَّقُوا اللّـٰهَ)) اور اللہ سے ڈر جاؤ۔ ((لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُـوْنَ))تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔ [دیکھئے (سورۃ الحجرات، آیت: 10)] اب دنیا کے جس کونے میں بھی جو مسلمان ہے، جو صحیح العقیدہ مسلمان ہے، وہ دوسرے کا بھائی ہے۔ جو گمراہ ہے، جو قرآن و حدیث کو نہیں مانتے، جو کتاب و سنت کے مخالف ہیں، جو مشرکین ہیں، مبتدعین ہیں، وہ بھائی نہیں ہیں۔ وہ تو گمراہ ہیں۔ گمراہوں سے بغض رکھنا ایمان کی نشانی ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’کُلَّ بِدْعَۃٍ ضَلَالَۃٌ‘‘ ہر بدعت گمراہی ہے۔ بدعتی سے بغض رکھنا، یہ ایمان کی نشانی ہے۔ [دیکھئے (صحیح مسلم: 867)] ایک اور حدیث میں آتا ہے کہ ’’مَنْ وَقَّرَ صَاحِبَ بِدْعَۃٍ فَقَدْ أَعَانَ عَلَی ہَدْمِ الْإِسْلَامِ‘‘ جس نے کسی بدعتی کی عزت کی، اُس نے اسلام کو گرانے میں مدد دی۔ اس روایت کو شیخ البانی رحمہ اللہ ضعیف کہتے ہیں، لیکن میری تحقیق میں یہ روایت صحیح ہے۔ امام ابو بکر الآجری کی کتاب الشریعہ میں صحیح سند کے ساتھ یہ روایت موجود ہے۔ اور اس کے راوی عباس بن یوسف الشکلی مقبول الروایۃ ہیں، ان کی روایت قبول کی جاتی ہے جیسا کہ حافظ ذہبی نے تاریخ الاسلام میں فرمایا ہے۔ [دیکھئے (الشریعہ للآجری ص 962 ح 2040 وسندہ حسن) نیز دیکھئے (تاریخ الاسلام للذہبی: 23/ 479) نیز تفصیل کے لئے دیکھئے (اضواء المصابیح: 1/ 251 ح 189)] تو اللہ رب العزت فرماتا ہے کہ تم اللہ سے ڈر جاؤ تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔ اگلی آیتِ کریمہ (سورۃ الحجرات، آیت: 11) میں فرمایا: ((يَآ اَيُّـهَا الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا)) اے ایمان والو! اے پکے مسلمانو! اے سچے مسلمانو! ایمان والے وہ لوگ ہیں جو سچے مسلمان ہیں۔ اور یہ سارے ایک دوسرے کے بھائی ہیں۔ حدیث میں آتا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’الْمُسْلِمُ أَخُو الْمُسْلِمِ‘‘ مسلمان مسلمان کا بھائی ہوتا ہے۔ ’’لاَ يَظْلِمُهُ وَلاَ يُسْلِمُهُ‘‘ نہ تو اُس پر ظلم کرتا ہے اور اور نہ ظلم ہونے دیتا ہے۔ [دیکھئے (صحیح بخاری: 2442 وصحیح مسلم: 2580)] مسلمان مسلمان کا خیرخواہ ہوتا ہے۔ ’’الدِّیْنُ النَّصِیْحَۃُ‘‘ دین خیرخواہی کا نام ہے، کس کے لئے؟ اللہ کے لئے، اُس کے رسول کے لئے۔ اللہ کے لئے خیرخواہی کا مطلب یہ ہے کہ انسان توحید پر گامزن ہو۔ توحید کو اختیار کرے۔ خالص اللہ کی عبادت کرے۔ اُس کی عبادت میں کسی کو شریک نہ ٹھہرائے۔ اللہ کی کتاب پر عمل کرے۔ اللہ کے کلام پر عمل کرے۔ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ خیرخواہی کا مطلب یہ ہے کہ آدمی نبی ﷺ سے محبت کرے اور سچی محبت کرے۔ کیونکہ سچی محبت میں انسان اپنے محبوب کی اطاعت کرتا ہے۔ جو اپنے محبوب کی، اپنے پیارے کی اطاعت نہیں کرتا، اس کی بات نہیں مانتا، وہ شخص اپنی محبت میں سچا نہیں ہے، جھوٹا ہے۔ رسول اللہ ﷺ کی خیرخواہی یہ ہے کہ آپ سے سچی محبت کی جائے، آپ کی اطاعت کی جائے، آپ کی حدیثوں پر جو صحیح حدیثیں ہیں ان پر عمل کیا جائے۔ اسی طرح فرمایا: ((وَلِاَئِمَّۃِ الْمُسْلِمِیْنَ، وَعَامَّتِھِمْ)) اور عام مسلمانوں کے لئے خیر خواہی ہے۔ عام مسلمانوں کے لئے، کہ مسلمان کے ہاتھ سے، اس کی زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔ [دیکھئے (صحیح مسلم: 55)] ’’اَلْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُوْنَ مِنْ لِسَانِہِ وَیَدِہِ‘‘ مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔ [دیکھئے (صحیح بخاری: 10، صحیح مسلم: 40)] نبی کریم ﷺ نے صحابہ کرام کی تربیت کی۔ انھوں نے اخلاق سکھایا۔ اللہ رب العزت نے قرآن کریم میں اخلاق سکھایا۔ ان آیات میں اور دوسری آیات میں۔ یہ بنیادی مسائل ہیں۔ جن سے اسلام میں ایک وسرے سے محبت ہوتی ہے، بھائی چارہ ہوتا ہے۔ مجھے ایک حدیث یاد آگئی۔ امام بخاری نے الادب المفرد میں ایک حدیث بیان کی۔ آپ کو پتا ہے کہ اسلام میں پڑوسی کے بڑے حقوق ہیں۔ صحیح حدیث میں آتا ہے، نبی ﷺ نے فرمایا کہ جبریل علیہ السلام مجھے پڑوسی کے بارے میں بار بار تاکید فرماتے تھے، یعنی بار بار فرماتے تھے کہ پڑوسی کے ساتھ اچھا سلوک کرو، پڑوسی کا خیال رکھو، پڑوسی کا خیال رکھو۔ ’’حَتَّی ظَنَنْتُ أَنَّہُ سَیُوَرِّثُہُ‘‘ حتی کہ میرا یہ خیال تھا، میں یہ سمجھا کہ شاید اللہ تبارک و تعالیٰ پڑوسی کو وراثت میں بھی شریک کر دے گا۔ وارث بھی بنا دے گا۔ جس طرح کوئی آدمی مرتا ہے تو اس کے بیٹے وارث ہوتے ہیں، بیٹیاں وارث ہوتی ہیں، اس کی بیوی وارث ہوتی ہے، اس کے ماں باپ وارث ہوتے ہیں، شریعت میں جو حصے مقرر ہیں۔ تو میرا یہ خیال تھا کہ شاید پڑوسی بھی وارث بن جائے۔ کتنا خیال ہے! [دیکھئے (سنن ابی داود: 5152، سنن ترمذی:1943، مسند حمیدی:593، وسندہ صحیح)] اور حدیث میں یہ بھی آیا ہے کہ بہترین وہ انسان ہے جس کے شر سے پڑوسی محفوظ رہیں۔ [دیکھئے (صحیح مسلم: 46) نیز دیکھے (صحیح بخاری: 6016)] اور یہ بھی صحیح حدیث ہے، آپ نے فرمایا کہ تم میں سے جو آدمی قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے، اللہ پر ایمان رکھتا ہے، ’’فَلاَ یُؤْذِجَارَہٗ‘‘ تو اپنے پڑوسی کو تکلیف نہ دے۔ [دیکھئے (صحیح بخاری: 6018، صحیح مسلم: 47)] اُس زمانے میں ایک آدمی تھا جو اپنے پڑوسی کو تکلیف دیتا تھا۔ کوئی منافق ہوگا۔ منافقین کا یہی طریقہ ہے۔ تو ایک صحابی جس کا اُس کے ساتھ گھر تھا، وہ نبی کریم ﷺ کے پاس آیا اور آکر شکایت کی۔ کہا کہ یا رسول اللہ ﷺ! یہ میرا پڑوسی مجھے تنگ کرتا ہے۔ میں بہت ہی پریشان ہوں۔ یہ بڑا ہی بداخلاق ہے، مجھے تنگ کرتا ہے، میں بڑی تکلیف میں ہوں۔ اور اس طرح کے پڑوسی ہوتے ہیں، آج کل بھی ہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کسی کو ایسا پڑوسی نصیب نہ کرے۔ ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ وہ ساری رات گانے لگا کر سنتا رہے۔ ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں اور ہم دیکھتے ہیں کہ رات میں، جو لوگ اللہ سے ڈرنے والے ہیں، جو عشاء کے بعد جلدی سو جاتے ہیں، کہ رات کو جب اللہ نے موقع دیا تو تہجد کے لئے اٹھیں گے، پڑوسی نے رات کو گانے لگا رکھے ہیں، وہ ساری رات صبح کی اذان تک اس کو تکلیف دیتا رہے گا اور پھر سو جائے گا۔ نہ نماز اور نہ دیگر اُمور۔ نبی کریم ﷺ نے اس کی شکایت سنی اور فرمایا کہ تُو ایسا کر اپنے گھر کا سامان نکال کر باہر رکھ دے۔ دروازے کے باہر بیٹھ جا۔ اُس زمانے میں گھروں میں اتنا سامان نہیں ہوتا تھا۔ یعنی چارپائی، بستر وغیرہ نکال کر باہر رکھ دے۔ جو راہ گزر پوچھے تو کہہ دینا کہ میرا پڑوسی مجھے تنگ کرتا ہے۔ تو اُس نے یہی کام کیا۔ امام بخاری کی الادب المفرد میں یہ روایت موجود ہے۔ جو لوگ بھی وہاں سے گزرتے تو کہتے بھائی! آپ نے یہ سامان کیوں باہر نکالا ہوا ہے؟ کیا وجہ ہے؟ آج کل بھی اگر کوئی آدمی گھر سے بستر، چارپائی وغیرہ نکال کر باہر بیٹھ جائے تو لوگ پوچھیں گے کہ یہ آپ نے کیوں نکالا ہوا ہے؟ اُس نے کہا کہ مجھے یہ پڑوسی تنگ کرتا ہے اور نبی کریم ﷺ نے مجھے ایسا حکم دیا ہے۔ تو وہ راہ گزر آدمی کہتا کہ یا اللہ! اس ظالم پر لعنت کر، اسے ذلیل کر دے۔ لوگ اس کو بد دعائیاں دیتے ہوئے جاتے تھے۔ جب اس پڑوسی کو پتا چلا تو وہ بھاگتا ہوا آیا اور معافی مانگی اور کہا کہ یہ سامان اندر کرو۔ میں آیندہ کوئی تکلیف نہیں دوں گا۔ یعنی اسلام نے معاشرے کا کتنا خیال رکھا ہے۔ [دیکھئے (سنن ابی داود: 5153 وإسنادہ حسن)] تو اللہ رب العزت اپنے مومن بندوں سے فرماتا ہے، اے ایمان والو: ((لَا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِّنْ قَوْمٍ)) کوئی بھی گروہ، کوئی بھی جماعت، کسی جماعت کے ساتھ ٹھٹا مذاق نہ کرے۔ ٹھٹھا کرنا، مذاق کرنا، اس کی توہین کرنا، پھر قہقہے لگا لگا کر ہنسنا، یہ اسلام میں جائز نہیں ہے۔ کسی کی اِنسلٹ کرنا، بے عزتی کرنا، اور لوگ اس طرح کرتے ہیں۔ ((عَسٰٓى اَنْ يَّكُـوْنُـوْا خَيْـرًا مِّنْـهُـمْ)) ہو سکتا ہے کہ یہ جن کے ساتھ ٹھٹھا کر رہے ہیں، یہ جو ٹھٹھا کرنے والے لوگ ہیں، ان سے وہ بہتر ہو۔ دنیا میں یہ کوئی چوہدری ہوگا، خان ہوگا، ملک ہوگا، اپنے آپ کو بڑا سمجھتا ہوگا، اور وہ بے چارہ غریب جا رہا ہے، لیکن عین ممکن ہے کہ وہ اللہ کے دربار میں ان سے بہت بہتر ہو۔ اور ظاہر ہے کہ جو اللہ سے ڈرنے والا ہے، رسول سے محبت کرنے والا ہے، قرآن و حدیث پر عمل کرنے والا ہے، اگر وہ غریب آدمی ہے، چاہے وہ کسی قوم کا آدمی ہے، اللہ کے ہاں اس کا بہت بڑا مقام ہے۔ اور جو اللہ کا باغی ہے، اس کی حیثیت اللہ کے ہاں مچھر کے پَر کے برابر بھی نہیں۔ ((وَلَا نِسَآءٌ مِّنْ نِّسَآءٍ)) اور نہ عورتیں عورتوں کے ساتھ مذاق کریں۔ عام طور پر یہی ہوتا ہے۔ مرد مردوں کے ساتھ مذاق کرتے ہیں۔ کوئی جا رہا ہے۔ اور کئی ایسے بد نصیب ہیں کہ اگر کوئی صحیح العقیدہ شخص جا رہا ہے اور اگر اس کی شلوار ٹخنوں سے اوپر ہے تو بڑا مذق کرتے ہیں۔ کہتے ہیں: کیا بات ہے؟ پانی آگیا ہے کیا؟ وغیرہ وغیرہ۔ کبھی داڑھی کے ساتھ مذاق۔ کوئی ایسی باتیں صریحاً کفر ہوتی ہیں۔ مسلمانوں کے جو شعار ہیں، ان شعار میں سے کسی شعار کا جو مذاق اڑائے گا، وہ کفر میں گر جائے گا۔ اللہ رب العزت نے فرمایا: ((وَمَنْ يُّعَظِّمْ شَعَآئِرَ اللّـٰهِ فَاِنَّـهَا مِنْ تَقْوَى الْقُلُوْبِ)) جو اللہ کے شعار کی تعظیم کرے گا، عزت کرے گا، یہ تقوے کی بات ہے۔ [دیکھئے (سورۃ الحج، آیت: 32)] ((عَسٰٓى اَنْ يَّكُنَّ خَيْـرًا مِّنْهُنَّ)) قریب ہے کہ وہ جن کا مذاق اڑایا جا رہا ہے، وہ ان سے بہتر ہوں۔ ایک حدیث میں آتا ہے کہ نبی کریم ﷺ کی زوجات مطہرات میں سے ایک بیوی نے کسی دوسری کے بارے میں کہہ دیا تھا کہ ’’قَصِيرَةً‘‘ وہ چھوٹے قد کی ہے۔ رسول اللہ ﷺ اس پر بڑے ناراض ہوئے تھے۔ فرمایا تھا کہ تُو نے ایسی بات کی ہے کہ اگر یہ سمندر کے پانی میں ڈال دی جائے تو سارے پانی کو گندا کرے۔ [دیکھئے (سنن ابی داود: 4875 وإسنادہ صحیح)] کسی کی توہین کرنا، کسی کی غیبت کرنا۔ غیبت کا تو آگے ذکر آ رہا ہے۔ ((وَلَا تَلْمِزُوٓا اَنْفُسَكُمْ)) ایک دوسرے کو طعنے نہ دیا کرو۔ بعض اوقات ایک آدمی غریب خاندان سے ہوتا ہے، مثال کے طور پر کوئی نائی ہے، حجام کا کام کرتا ہے، اللہ نے اس کو دین کی توفیق دی ہے، اس نے دین کا علم سیکھ لیا، اب دین پر عمل کرتا ہے، تو کوئی آدمی اسے کہے کہ جاؤ! تم تو نائی ہو۔ نائی کے بیٹے ہو۔ اسی طرح اسے ذلیل سمجھنا، اسے بُرا کہنا، اللہ نے اس سے منع فرمایا ہے۔ ((وَلَا تَنَابَزُوْا بِالْاَلْقَابِ)) اور فرمایا کہ ایک دوسرے کے بُرے بُرے القاب نہ رکھا کرو۔ اس کی تشریح میں حدیث میں آیا ہے کہ مدینے کے جو لوگ تھے، اُن کا یہ رواج تھا، اُن کا یہ طریقہ تھا، کہ ایک دوسرے کے نام رکھے ہوئے تھے۔ مثلاً کسی کا ایک اصلی نام ہے، اور ایک نام ایسا ہے جس سے وہ ناراض ہوتا ہے۔ ہر آدمی کے دو نام تھے، تین نام تھے۔ مختلف نام رکھے ہوئے تھے۔ ہمارے ہاں بھی اس طرح ہوتا ہے۔ کوئی آدمی ہے، وہ جس بات سے ناراض ہو گا اس کا وہ نام رکھ دیا گیا۔ تو نبی کریم ﷺ جب مکے سے حجرت کر کے مدینے آئے تو بعض اوقات ایک آدمی کو۔ مثلاً ہمارے ہاں کسی کا نام ککڑ ہے، کسی کا کیا نام ہے۔ لوگوں نے مختلف نام رکھے ہوئے ہیں۔ اور میرا خیال ہے کہ ہمارے مدرسے کے بعض چھوٹے بچے بھی ایک دوسرے کے نام رکھتے ہیں۔ کسی کا نام ’’موٹا‘‘، کسی کا کیا نام، کسی کا کیا نام۔ پچھلے سال میں نے ایک دفعہ دیکھا تھا۔ تو کسی کا اس طرح کا نام تھا، نبی کریم ﷺ نے سنا تھا، آپ کو پتا نہیں تھا کہ یہ اس کا اصلی نام ہے یا اس کا دوسرا نام رکھا ہوا ہے۔ اور دوسرے نام پر وہ ناراض ہوتے تھے۔ تو نبی ﷺ نے اس کو دوسرے نام سے پکار دیا کہ فلاں آدمی! اِدھر آؤ۔ تو صحابیوں نے کہا کہ اللہ کے رسول! آپ یہ نہ کہیں۔ اس پر وہ ناراض ہوتا ہے۔ ظاہر ہے کہ اگر کسی کا نام جاوید ہے اور اس کو جیدی کہتے ہیں یا کوئی اور نام بنا لیتے ہیں تو وہ اس پر سخت ناراض ہوتا ہے۔ ہمارے گاؤں (پیرداد) میں ایک آدمی تھا، اللہ اس کی مغفرت کرے، اس کو ’’نزلہ‘‘ کہتے تھے۔ میں اس وقت چھوٹا بچہ تھا۔ جب کسی نے نزلہ کہہ دیا ہے تو وہ اتنی گالیاں دیتا تھا۔ اتنا ناراض ہوتا تھا کہ کچھ حساب نہیں۔ اور لوگوں نے اس کا یہ نام رکھا ہوا تھا۔ اور لوگ اس پر خوش ہوتے۔ اللہ رب العالمین فرماتا ہے: ((وَلَا تَنَابَزُوْا بِالْاَلْقَابِ)) ایک دوسرے کے غلط غلط نام نہ رکھو۔ اسے صحیح نام سے پکارو۔ اسے کہو: بھائی صاحب، جاوید صاحب، نعیم صاحب، فلاں صاحب۔ ((بِئْسَ الِاسْمُ الْفُسُوْقُ بَعْدَ الْاِيْمَانِ)) ایمان لانے کے بعد سب سے بُری بات فسق ہے، اللہ کی نافرمانی ہے۔ اللہ ان باتوں پر ناراض ہوتا ہے۔ اللہ رب العالمین نے ان باتوں سے منع فرمایا ہے۔ ((وَمَنْ لَّمْ يَتُبْ)) اور جو شخص توبہ نہیں کرے گا۔ ((فَاُولٰٓئِكَ هُـمُ الظَّالِمُوْنَ)) وہ لوگ ظالم ہیں۔ وہ اپنے آپ پر ظلم کرنے والے ہیں۔ [دیکھئے (سورۃ الحجرات، آیت: 11)] اس لئے کہ دنیا کی یہ زندگی ایک دن ختم ہو جائے گی۔ جو آدمی چاہے کتنا ہی امیر ہے، چاہے کتنی بڑی طاقت والا ہے، چاہے اس کی کتنی ہی اچھی صحت ہے، اس نے ایک دن اس دنیا سے روانہ ہونا ہے۔ چاہے جو مرضی کر لے، جتنا مرضی علاج کرا لے، جتنی مرضی دوائیاں کھا لے، اور جتنی مرضی ہے اعلیٰ سے اعلیٰ چیزیں کھا لے، ایک وقت آئے گا جو اللہ رب العزت نے مقرر کر رکھا ہے۔ ((فَاِذَا جَآءَ اَجَلُـهُـمْ لَا يَسْتَاْخِرُوْنَ سَاعَةً وَّلَا يَسْتَقْدِمُوْنَ)) نہ تو وہ ایک منٹ پیچھے ہوگا اور نہ ایک منٹ آگے ہوگا۔ [دیکھئے (سورۃ الاعراف، آیت: 34)] رب العالمین نے جو وقت مقرر کر رکھا ہے وہ وقت آنے والا ہے۔ اور اس وقت جب اللہ کے دربار میں پیش ہوگا تو یہ ظالموں میں سے ہوگا۔ اور ایسے ظالموں کے لئے رب العالمین نے ایسی ایسی سزائیں تیار کر رکھی ہیں، ایسا ایسا عذاب تیار کر رکھا ہے، جس کا تصور ہم نہیں کر سکتے۔ اس کے تصور سے بھی ڈر لگتا ہے۔ ایسی دھکتی ہوئی آگ جو سینوں تک پہنچ جائے گی۔ ایسی آگ جو جسم کی کھالوں کو جلائے گی۔ ((كُلَّمَا نَضِجَتْ جُلُوْدُهُـمْ بَدَّلْنَاهُـمْ جُلُوْدًا غَيْـرَهَا لِيَذُوْقُوا الْعَذَابَ)) رب العالمین فرماتا ہے کہ جب ان کی کھالیں جلیں گی تو ہم دوسری کھالیں پیدا کر دیں گے، اس کا چمڑا جلے گا تو دوسرا چمڑا پیدا ہو جائے گا۔ تاکہ مسلسل عذاب کا مزا چکھتے رہے۔ اور کافروں کے لئے یہ عذاب مسلسل جاری رہے گا۔ [دیکھئے (سورۃ النساء، آیت: 56)] جو صحیح العقیدہ مسلمان ہیں، جو کافر مشرک نہیں ہیں، ان کے لئے یہ ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ ایک دن جہنم سے نکالے گا۔ لیکن اس پر بے غم نہ ہو جائیے گا۔ کیونکہ حدیث میں آیا ہے کہ جس انسان کو جہنم میں ایک غوطہ دیا گیا۔ وہ دنیا میں ساری زندگی امیر آدمی تھا، کوئی تکلیف نہیں تھی، اسے ہر شے میسر تھی۔ مرنے کے بعد اس کو جہنم میں جب ایک غوطہ دیا جائے گا تو وہ کہے گا: میں نے کبھی بھی کوئی خیر دیکھی ہی نہیں۔ وہ ساری خوشیاں، سب چیزیں بھول جائے گا۔ [دیکھئے (صحیح مسلم: 2807)] تو ایسی جہنم، اگر اس کے اندر ایک سیکنڈ کے لئے، اگر کسی کو ایک منٹ کے لئے بھی غوطہ مل گیا تو اسے کوئی برداشت نہیں کر سکتا۔ تو موت کا وقت قریب ہے۔ اس سے پہلے پہلے ہمیں اپنی اصلاح کرنی چاہئے۔ ہمیں اپنے عقیدے صحیح کرنے چاہئیں۔ اپنا ایمان صحیح کرنا چاہئے۔ اپنے اخلاق صحیح کرنے چاہئیں۔ رب العالمین نے اور اس کے رسول ﷺ نے ہمیں جو فرمایا اس پر عمل کرنا چاہئے۔ اسلام نے اخلاق کی ہر قسم کی باتیں ہمیں سمجھائی ہیں۔ والدین کے ساتھ کیسا تعلق ہونا چاہئے یہ بھی بتا دیا ہے۔ بچوں کے ساتھ کیا ہونا چاہئے۔ دوسرے لوگوں کے ساتھ کیسے تعلقات ہونے چاہئیں۔ سب موجود ہے۔ نبی کریم ﷺ کی مشہور اور صحیح حدیث ہے، رسول اللہ ﷺ سے پوچھا گیا کہ ’’أي العمل أفضل؟‘‘ اعمال میں، کاموں میں سے سب سے بہتر کام کونسے ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اَلصَّلٰوۃُ لِوَقْتِھَا‘‘ وقت پر نماز پڑھنا۔ یہ بخاری مسلم کی حدیث ہے۔ [دیکھئے (صحیح بخاری: 527، صحیح مسلم: 85 واللفظ لہ)] اور صحیح ابن خزیمہ میں یہ الفاظ ہیں: ’’الصلاۃ في أول وقتھا‘‘ پہلے وقت نماز پڑھنا۔ [دیکھئے (صحیح ابن خزیمہ: 1/ 169 ح 327 وسندہ صحیح)] یہ سب سے بہترین طریقہ ہے کہ پہلے وقت نماز پڑھنا۔ کوئی پتا نہیں کہ موت کا فرشتہ کس وقت آپہنچے۔ وقت داخل ہوگیا تو پھر کیوں لیٹ پڑھنا؟ بلکہ اوّل وقت پڑھنا۔ جمعہ تو اتنا اوّل وقت ہے کہ صحابہ کرام جب جمعہ پڑھ کر گھروں کو جاتے تھے تو دیواروں کا سایہ نہیں ہوتا تھا۔ اللہ کے فضل سے اتنے اوّل وقت پڑھتے تھے۔ اب بھی سعودیہ میں ساڑھے بارہ بجے ہی، پونے ایک بجے ہی۔ میں نے پورے سعودی عرب میں ایک بجے سے لیٹ کبھی جمعہ دیکھا ہی نہیں۔ اور اللہ کے فضل سے ہم نے حضرو میں جو شروع کیا ہے، تیس سال ہوگئے، ساڑھے بارہ سے لے کر ایک بجے تک، لوگ آئیں یا نہ آئیں، ایک بجے اوّل وقت پڑھتے ہیں۔ باقی نمازیں بھی، جب نماز کا وقت داخل ہو جائے، کوئی پتا نہیں موت کا فرشتہ کس وقت آئے۔ میرا ایک دوست بتا رہا تھا، راولپنڈی کا واقعہ ہے، ایک آدمی بیمار ہوگیا۔ تو اس کو چارپائی پر ڈال کر ہسپتال لے کر جا رہے ہیں۔ لوگوں نے چارپائی اٹھائی ہوئی ہے۔ راستے میں اس کے کسی دوست نے چارپائی کو روک لیا۔ اس نے کہا: کدھر جا رہے ہو؟ اس نے کہا: بیمار ہے، ہسپتال لے کر جا رہے ہیں۔ اس نے کہا: اللہ اس کو شفا دے۔ اس نے کہا: دیکھو! یہ بیمار ہے اور میں صحت مند ہوں، کوئی پتا نہیں کہ میں پہلے مر جاؤں اور یہ بعد میں مرے۔ اس کے بعد بیمار آدمی کو ہسپتال لے گئے۔ اور یہ آدمی اوپر چڑھا۔ یہ آدمی شٹرنگ کا کام کرتا تھا۔ بڑا مستری تھا۔ چھت پر لنٹر ڈالنا تھا۔ چھت پر سریے وغیرہ ڈالے ہوئے تھے۔ تو سریے رکھے جا رہے تھے۔ اس کے مزدور کام کر رہے تھے۔ تو اس نے ایک سریہ پکڑ لیا۔ اس نے کہا کہ یہ سریہ صحیح نہیں رکھ رہے۔ اس نے اس طرح سریہ اٹھایا ہے، اوپر سے لوہے کے سریے کا ایک حصہ بجلی کی تار سے ٹکڑایا اور وہ اسی جگہ پر مر گیا۔ وہ جو بجلی کی موٹی تار ہوتی ہے۔ جس کا وولٹیج زیادہ ہوتا ہے۔ تو موت کا کوئی وقت پتا نہیں۔ ہمارے ساتھ کتنی چھوٹی عمر والے بچے، چھوٹی عمر والے لوگ دنیا سے چلے گئے ہیں۔ یہ نہ سمجھے گا۔ کیونکہ اللہ کے دربار میں پیش ہونا ہے۔ تو میں عرض کر رہا تھا کہ نماز اوّل وقت پڑھنا۔ پھر پوچھا کہ اس کے بعد کونسا عمل سب سے بہتر ہے؟ فرمایا کہ ’’بِرُّ الْوَالِدَینِ‘‘ والدین کے ساتھ نیکی کرنا۔ ماں باپ کے ساتھ نیکی کرنا۔ حدیث میں آتا ہے، نبی کریم ﷺ سے پوچھا گیا کہ میں کس کے ساتھ نیکی کروں؟ آپ نے فرمایا کہ اپنی ماں کے ساتھ۔ اپنی ماں کے ساتھ۔ اپنی ماں کے ساتھ۔ آپ نے تین دفعہ فرمایا۔ تین دفعہ ماں کا حق ہے۔ ’’ ثُمَّ اَبَاکَ‘‘ پھر باپ کا۔ [دیکھئے (صحیح بخاری: 5971، صحیح مسلم: 2548)] اللہ رب العزت نے قرآن کریم میں فرمایا کہ ((وَاِنْ جَاهَدَاكَ عَلٰٓى اَنْ تُشْرِكَ بِىْ مَا لَيْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْهُمَا)) اور اگر ماں اور باپ دونوں کوشش کریں گے کہ ہمارا بچہ مشرک ہو جائے تو ان کی بات نہ ماننا۔ ((وَصَاحِبْهُمَا فِى الـدُّنْيَا مَعْرُوْفًا)) پھر بھی دنیا میں اچھے طریقے سے ان کی خدمت کرنا۔ اگر ماں باپ کافر ہیں، مشرک ہیں، تو پھر بھی ان کی خدمت کرنی ہے۔ البتہ ان کی کفر والی بات نہیں ماننی۔ [دیکھئے (سورہ لقمان، آیت: 15)] اسی طرح ایک حدیث تھی جو میں آپ کو سنانا چاہتا تھا، جس کا اسی کے ساتھ تعلق تھا، سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، صحیح مسلم کی روایت ہے، ان شاء اللہ میرا خطبہ چالیس منٹ تک ختم ہو جائے گا، میں ایک منٹ اوپر نہیں لے کر جاؤں گا۔ بے فکر رہیے! رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’مَنْ نَّفَّسَ عَنْ مُّؤْمِنٍ کُرْبَۃً مِّنْ کُرَبِ الدُّنْیا‘‘ کہ جو آدمی کسی مسلمان کی دنیا میں مصیبت دُور کرے گا۔ ’’نَفَّسَ اللہُ عَنْہُ کُرْبَۃً مِّنْ کُرَبِ یوْمِ الْقِیمَۃِ‘‘ اللہ رب العزت قیامت کے دن اس کی سختیوں میں سے ایک سختی دُور کر دے گا۔ مسلمان تو مسلمان کے کام آتا ہے۔ ’’وَمَنْ یسَّرَ عَلٰی مُعْسِرٍ‘‘ اور جو کسی مصیبت میں پڑا ہے۔ کسی تنگی میں۔ کسی نے اس کی وہ مصیبت دُور کر دی۔ تنگی دُور کر دی۔ ’’یسَّرَ اللہُ عَلَیہِ فِی الدُّنْیا وَالْاٰخِرَۃِ‘‘ اللہ تعالیٰ دنیا اور آخرت میں اس کی مصیبتیں دُور کرے گا۔ [دیکھئے (صحیح مسلم :2699)] اللہ رب العزت اتنا مہربان ہے۔ کوئی مسلمان اپنے کسی مسلمان بھائی کے ساتھ مالی تعاون کرتا ہے، اس کو صدقہ دے دیتا ہے، اس کو اپنی زکوۃ میں سے دیتا ہے، اللہ کو راضی کرنے کے لئے ویسے کچھ دے دیتا ہے اگر وہ مصیبت میں پھنسا ہوا ہے۔ تو اللہ رب العزت اس کے بدلے میں اسے بہت زیادہ دے دیتا ہے۔ ’’مَا نَقَصَتْ صَدَقَۃٌ مِّنْ مَّالٍ‘‘ کبھی بھی صدقے کی وجہ سے مال میں کمی نہیں آئی۔ [دیکھئے (صحیح مسلم: 2588)] ’’وَمَنْ سَتَرَ مُسْلِمًا سَتَرَہُ اللہُ فِی الدُّنْیا وَالْاٰخِرَۃِ‘‘ اور جو کسی مسلمان پر پردہ ڈالے گا۔ کسی مسلمان بھائی سے کوئی غلطی ہوگئی، اس کوئی غلطی سرزد ہوگئی، اب اس نے وہ غلطی دیکھ لی ہے، تو پردہ ڈال دیا۔ ہمارے ہاں عام طور پر یہی ہوتا ہے کہ اگر کسی کو کسی کی کوئی غلطی پتا چل جائے پھر اس کو آرام ہی نہیں آتا جب تک سب لوگوں کو بتا نہ دے۔ جس سے بھی ملاقات ہوگی، اس سے کہے گا کہ فلاں آدمی نے ایسا کیا ہے، فلاں آدمی اس طرح کا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جو کسی مسلمان پر پردہ ڈالے گا، اللہ رب العزت دنیا اور آخرت میں اس پر پردہ ڈالے گا۔ ’’وَاللہُ فِیْ عَوْنِ الْعَبْدِ مَا کَانَ الْعَبْدُ فِیْ عَوْنِ اَخِیہِ‘‘ جب تک بندہ کسی مسلمان بھائی کے ساتھ تعاون کرتا ہے، اس کی مدد کرتا ہے۔ یہ مدد کرنا یہ ماتحت الاسباب ہے۔ ماتحت الاسباب ایک دوسرے سے تعاون کرنا قرآن سے ثابت ہے حدیث سے ثابت ہے۔ تو اللہ رب العزت اس کی مدد کرتا ہے۔ [دیکھئے (صحیح مسلم: 1893)] اور فرمایا: ’’وَمَنْ سَلَکَ طَرِیقًا یلْتَمِسُ فِیہِ عِلْمًا سَھَّلَ اللہُ لَہُ بِہٖ طَرِیقًا اِلَی الْجَنَّۃِ‘‘ جو آدمی علم حاصل کرنے کے لئے کسی راستے پر چلتا ہے، اللہ رب العزت اس کا جنت کی طرف راستہ آسان کر دیتا ہے۔ بچے جب علم حاصل کرنے کے لئے آتے ہیں، قرآن سیکھنے کے لئے آتے ہیں، مثلاً یہاں اس مدرسے میں آگئے یا دوسرے مدرسوں میں آگئے، دین سیکھنے کے لئے، قرآن و حدیث سیکھنے کے لئے، علم حاصل کرنے لئے۔ اسی طرح جمعے کے دن جمعے کا خطبہ سننے کے لئے بھی جو آتا ہے اللہ رب العزت اس کے لئے جنت کا راستہ آسان کر دیتا ہے۔ لیکن یاد رکھیں کہ جمعے کے دن خطبے کے لئے ڈیڑھ بجے نہیں آنا۔ جس وقت خطبہ شروع ہوتا ہے اس وقت آنا چاہئے۔ جب خطبہ شروع ہو جاتا ہے تو فرشتے رجسٹر لپیٹ لیتے ہیں۔ لوگوں کی یہ عادت ہے کہ وہ گھروں میں بیٹھے رہتے ہیں، فضول باتیں کرتے رہتے ہیں، اپنا ذاتی کام ہو تو اس کے لئے سب سے پہلے جاتے ہیں۔ اگر کسی عدالت میں حاضری ہے، کسی نے ایئرپورٹ پر جانا ہے، تو وہ اپنے وقت سے پہلے پہنچ جاتا ہے۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ کہ جو لوگ صبح کی نماز نہیں پڑھتے، سوئے رہتے ہیں، اگر ان کی کسی دن فلائیٹ ہو، مثلاً کل جانا ہے، تو پھر وہ صبح سویا ہوا نہیں ہوگا۔ تو پھر وہ وقت سے دو گھنٹے پہلے ہی اٹھ جائے گا۔ اصل میں دل میں اللہ کا ڈر اور جذبہ پیدا ہونا چاہئے۔ اطاعت کا جذبہ پیدا ہو تو اللہ رب العزت توفیق دیتا ہے۔ میں اپنا بتاؤں کہ ساری زندگی میں، میں جب بھی پروگرام بنا کر سوتا ہوں کہ میں اتنے بجے اٹھوں گا، چار بجے، پانچ بجے، جتنے بجے کی میں نیت کرتا ہوں، میں اسی وقت بغیر الارم کے اٹھتا ہوں۔ مجھے کسی الارم کی ضرورت نہیں ہوتی۔ آدمی اپنے دماغ میں، دل میں پکا یقین کر لے، تجربہ کر کے دیکھئے، اللہ رب العزت اس کو اس وقت اٹھا دیتا ہے۔ تو بھائیو! جو علم کے لئے آتا ہے، خاص طور پر وہ جمعے کے خطبے کے لئے پہلے آئے۔ جمعے کی اذان سے پہلے مسجد پہنچ جائیں۔ مسجد میں آکر دو رکعتیں پڑھیں اور بیٹھ جائیں۔ اگر اللہ توفیق دے اور وقت ہے تو زیادہ رکعتیں پڑھیں۔ عربوں میں یہ بڑا اچھا طریقہ ہے کہ وہاں لوگ ساڑھے دس بجے ہی مسجدوں میں پہنچنا شروع ہو جاتے ہیں۔ حرم میں تو جگہ ہی نہیں ملتی۔ جو لیٹ آتے ہیں کو تو پھر سڑکوں پر ہی نماز پڑھنی پڑتی ہے۔ پھر فرمایا: ’’وَ مَا اجْتَمَعَ قَوْم ٌ فِیْ بَیتٍ مِّنْ بُیوْتِ اللہِ یتْلُوْنَ کِتَابَ اللہِ‘‘ اور جو لوگ بھی مسجدوں میں سے کسی مسجد میں بیٹھ کر اللہ کی کتاب پڑھتے ہیں۔ یہ کون ہیں؟ یہ وہ لوگ ہیں جو قرآن یاد کرتے ہیں، ناظرہ پڑھتے ہیں، حفظ کرتے ہیں، یا قرآن کا ترجمہ پڑھتے ہیں، قرآن کی تفسیر پڑھتے ہیں، یہ سارے لوگ۔ اور حدیث بھی چونکہ کتاب اللہ میں سے ہی ہے، اس لئے حدیث پڑھنے والے بھی اس میں شامل ہیں۔ ’’وَیتَدَارَسُوْنَہُ بَینَھُمْ‘‘ اور ایک دوسرے کو پڑھتے پڑھاتے ہیں۔ ’’اِلَّا نَزَلَتْ عَلَیھِمُ السَّکِینَۃُ‘‘ اللہ رب العزت کی طرف سے ان پر سکون نازل ہوتا ہے۔ ’’وَغَشِیتْھُمُ الرَّحْمَۃُ‘‘ اور رحمت ان کو ڈھانپ لیتی ہے۔ اللہ کی طرف سے ان پر رحمت کی بارش شروع ہو جاتی ہے۔ ’’وَحَفَّتْھُمُ الْمَلٰئِکَۃُ‘‘ اور جو اللہ کے فرشتے ہیں، وہ ان کو ڈھانپ دیتے ہیں۔ ان کے لئے اپنے پَر بچھاتے ہیں۔ ’’وَذَکَرَھُمُ اللہُ فِیمَنْ عِنْدَہُ‘‘ اور اللہ تبارک و تعالیٰ اوپر، جو اللہ کے پاس فرشتے ہیں، ان کے سامنے ان کا ذکر کرتا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ہر جگہ نہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ سات آسمانوں سے اوپر اپنے عرش پر مستوی ہے جیسا کہ اس کی شان کے لائق ہے۔ کما یلیق بشانہ کما یلیق بجلالہ۔ اپنے علم اور قدرت کے ساتھ وہ ہر چیز کو گھیرے ہوئے ہے۔ وہ دُور نہیں وہ قریب ہے۔ اُس کے لئے فاصلے نہیں۔ یہ فاصلے مخلوق کے لئے ہیں۔ تو اللہ رب العزت اوپر آسمانوں پر اپنے فرشتوں کے سامنے اپنے ان بندوں کا ذکر کرتا ہے۔ کہ دیکھو میرے بندے مسجد میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ مدرسے میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ اللہ کے گھروں میں سے کسی گھر میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ اللہ کی کتاب پڑھ رہے ہیں، نبی کی حدیث پڑھ رہے ہیں۔ اور پھر فرمایا: ’’وَمَنْ بَطَّأَبِہٖ عَمَلُہُ لَمْ یسْرِعْ بِہٖ نَسَبُہُ‘‘ جس آدمی کے اعمال صحیح نہ ہوئے، بے اعمال آدمی، جس کے عمل تھوڑے ہوئے، عمل پیچھے رہ گئے، اس کا نسب اس کو آگے نہیں لے جائے گا۔ [دیکھئے (صحیح مسلم: 2699)] اس کا معنی یہ ہے کہ اگر کوئی سیّد ہے، اگر کوئی امام حسین کی اولاد میں سے ہے، کوئی امام حسن کی اولاد میں سے ہے، کوئی امام ابو بکر کی اولاد میں سے ہے، کوئی امام عمر کی اولاد میں سے ہے۔ رضی اللہ عنہم اجمعین۔ تو اگر اولاد میں سے ہے تو یہ نہ سمجھے کہ میں ان کی اولاد میں سے ہوں تو جنت چلا جاؤں گا۔ جنت میں اپنے اعمال کے ساتھ جانا ہے۔ کسی کی اولاد میں سے ہونا، نسب میں سے ہونا، کہ فلاں میرا دادا پردادا بڑا شیخ الحدیث تھا، بڑا عالم تھا۔ بس میں بخشا جاؤں گا۔ مجھے بچا لیں گے۔ قیامت کے دن کوئی کسی کو نہیں بچا سکے گا۔ ایسا ہولناک دن آنے والا ہے جب پیغمبر بھی ’’نَفْسِيْ نَفْسِيْ‘‘ کہیں گے۔ [دیکھئے (صحیح بخاری: 4712، صحیح مسلم: 194)] تو اس دن کوئی کسی کو نہیں بچا سکے گا۔ فرمایا کہ جس کے اعمال پیچھے رہے اس کو اس کا نسب نہیں بچا سکے گا۔ پھر قرآن کریم میں فرمایا: ((يَآ اَيُّـهَا الَّـذِيْنَ اٰمَنُوا)) اے ایمان والو! ((اجْتَنِبُوْا كَثِيْـرًا مِّنَ الظَّنِّ)) ایک دوسرے کے بارے میں بدگمانیاں چھوڑ دو۔ بہت سے لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ اپنے دوسرے بھائی کے بارے میں دل میں بدگمانی کرتے ہیں، اس نے یہ بات کی ہوگی، اس نے یہ کیا ہوگا، اس کو سننے کی کوشش کرتے ہیں، یا اس کی کوئی بات مل جائے تو اس میں اضافہ کرتے ہیں۔ بدگمانیاں کرتے ہیں۔ یہ بدگمانیاں چھوڑ دو۔ ((اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْـمٌ)) بعض بدگمانیاں، گناہ ہوتا ہے۔ مراد یہ کہ بڑا گناہ ہوتا ہے۔ ((وَّلَا تَجَسَّسُوْا)) اور ایک دوسرے کی جاسوسی نہ کرو۔ ((وَلَا يَغْتَبْ بَّعْضُكُمْ بَعْضًا)) ایک دوسرے کی غیبت نہ کرو۔ بھائیو! غیبت حرام ہے۔ اور غیبت کبیرہ گناہ ہے۔ فرمایا: ((اَيُحِبُّ اَحَدُكُمْ اَنْ يَّاْكُلَ لَحْـمَ اَخِيْهِ مَيْتًا فَكَرِهْتُمُوْهُ)) کیا تم یہ پسند کرتے ہو، کیا تم میں سے کوئی ایسا آدمی بھی ہے جو اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانا پسند کرتا ہے؟ ظاہر ہے کہ تم میں سے کوئی کھانا پسند نہیں کرتا ہے۔ کسی کا بھائی مر جائے۔ اس کے لئے اس کا رونا شروع ہوگیا۔ وہ تو بہت پریشان ہے۔ ہمارے گاؤں میں ایک دفعہ ایک آدمی بیمار ہوا، اس کو اچانک ہچکی لگ گئی، تو اس کی ہچکی کی آواز ہماری مسجد میں بھی آتی تھی، تقریباً صبح چار بجے کا وقت تھا، ہم نماز کی تیاری میں تھے، تو اس کی آواز کافی دُور سے، تقریباً دو سو گز ہوگی، یا سو گز ہوگی، کافی دُور سے آرہی تھی، تو اس کے بھائی کو پتا چلا، سگے بھائی کو، تو وہ گر کر بے ہوش ہو گیا۔ اس کو چارپائی پر اٹھا کر لے کر گئے۔ وہ اپنے بھائی کی تکلیف برداشت نہیں کرسکا۔ تو کوئی بھی انسان اپنے بھائی کی تکلیف برداشت نہیں کرسکتا۔ تو مثال بیان کی ہے کہ اگر کسی کا بھائی مر جائے تو کیا کوئی اس کا گوشت کھانا پسند کرتا ہے؟ یہ غیبت تو اس کا گوشت کھانا ہے۔ یہ تو ایسا جرم ہے کہ گویا کہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھایا جائے۔ ((وَاتَّقُوا اللّـٰهَ)) اور اللہ سے ڈر جاؤ۔ ((اِنَّ اللّـٰهَ تَوَّابٌ رَّحِـيْـمٌ)) بے شک اللہ رب العزت توبہ قبول کرنے والا ہے۔ [دیکھئے (سورۃ الحجرات، آیت: 12)] توبہ کرو۔ دین اسلام بار بار لوگوں کو توبہ کی طرف بلاتا ہے۔ ((تُوْبُـوٓا اِلَى اللّـٰهِ))۔ [دیکھئے (سورۃ التحریم، آیت: 8)] اللہ مہربان ہے۔ رحم کرنے والا ہے۔ وہ سارے گناہ معاف کر دے گا۔ سچی توبہ کرو۔ پھر اس گناہ کے قریب بھی نہ جاؤ۔ ((تَابُوْا وَاَصْلَحُوْا وَبَيَّنُـوْا)) توبہ کرو، اصلاح بھی کرو اور پھر اس کو بیان بھی کرو۔ [دیکھئے (سورۃ البقرۃ، آیت: 160)] بعض ایسے جرم ہوتے ہیں جو کسی نے لوگوں کے سامنے کوئی غلط بات کہی ہے۔ مثلاً اگر میں خطبے میں کوئی غلط بات کہہ دو، اللہ مجھے بچائے، تو پھر مجھے لوگوں کے سامنے علانیہ توبہ کرنی چاہئے۔ اور اگر کسی سے تنہائی میں کوئی غلطی ہوئی ہے، عام لوگوں کو پتا نہیں، تو لوگوں کو بتاتا نہ پھرے اور اللہ کے سامنے توبہ کرے۔ اللہ رب العزت غفور الرحیم ہے۔ اگلی آیت میں فرمایا: ((یيَآ اَيُّـهَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنَاكُمْ مِّنْ ذَكَرٍ وَّاُنْثٰى)) پہلی دونوں آیتیں تو ایمان والوں کے ساتھ ہیں۔ اے ایمان والو، اے ایمان والو۔ اب ساری دنیا کے لوگوں سے فرمایا جا رہا ہے۔ ((يَآ اَيُّـهَا النَّاسُ)) اسے ساری دنیا کے لوگو! بے شک ہم نے تمھیں ایک مرد سے اور ایک عورت سے پیدا کیا ہے۔ ایک مرد سے مراد آدم علیہ السلام ہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو اپنے دونوں ہاتھوں کےساتھ مٹی سے پیدا کیا۔ صحیح حدیث ہے کہ پھر آدم علیہ السلام کی پسلی سے اللہ تعالیٰ نے ان کی بیوی حوا علیہا السلام کو پیدا کیا۔ یہ دونوں مراد ہیں۔ [دیکھئے (صحیح البخاری:3331) نیز دیکھئے (فتح الباری: 6/ 368)] انگریزوں میں سے بعض کہتے ہیں کہ انسان بندروں سے بن گیا۔ ڈارون کی تھیوری۔ یہ بالکل جھوٹی بات ہے۔ یہ سارے مذہبوں کا انکار ہے۔ یہ اسلام کا بھی انکار ہے، یہودیت کا بھی، عیسائیت کا بھی۔ سارے مذہبوں کا انکار ہے۔ اور اس کی ان کے پاس کوئی ایک دلیل موجود نہیں ہے۔ اس زمین پر جتنے انسانوں کی لاشیں، ڈھانچے موجود ہیں۔ جسم کی ہڈیاں موجود ہیں۔ پوری زمین پر کوئی ایسا ثبوت نہیں ملا ہے۔ چاہے وہ کہیں کہ دس لاکھ سال پہلے کا بھی ہو۔ جس میں انسان اور بندر کے درمیان والا کوئی انسان مل جائے۔ یعنی کوئی انسان ہو اور اس کی دم بھی تھی۔ ایسا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ یہ پرویز جو منکر حدیث تھا، اس نے لکھا ہے کتاب ’’عالمگیر افسانے‘‘ میں۔ وہ کہتا ہے کہ مسلمان جو یہ کہتے ہیں کہ آدم علیہ السلام سے سارے انسان پیدا ہوئے ہیں، ’’یہ افسانہ ہے‘‘۔ وہ کہتا ہے کہ ’’انسانوں کی بنیاد جرثومہ ہے‘‘۔ ایک جرثیم تھا، جرثومہ تھا، اس سے سارے انسان پیدا ہوئے۔ کتنا ظلم ہے۔ یہ قرآن کا منکر ہے۔ اور کہتا ہے کہ ہم قرآن مانتے ہیں۔ آلِ قرآن۔ [دیکھئے (عالم گیر افسانے ص 5)] تو رب العالمین فرماتا ہے کہ ہم نے تمھیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا۔ یعنی آدم اور حوا سے۔ ((وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوْبًا وَّقَبَآئِلَ)) پھر تمھاری قومیں بنا دیں، تمھارے قبیلے بنا دیئے۔ یہ پٹھان ہے، یہ سندھی ہے، یہ پنجابی ہے، یہ بلوچ ہے، یہ پاکستان کا رہنے والا ہے، یہ افریقہ کا رہنے والا ہے، یہ فلاں ہے فلاں ہے۔ یہ جتنی بھی قومیں ہیں اور قبیلے ہیں۔ کس لئے بنائے ہیں؟ اللہ رب العالمین نے فرمایا: ((لِتَعَارَفُوْا)) تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو۔ یہ فلاں ہے، فلاں خاندان میں سے ہے۔ ((اِنَّ اَكْـرَمَكُمْ عِنْدَ اللّـٰهِ اَتْقَاكُمْ)) تم میں سے اللہ کے نزدیک عزت والے وہ لوگ ہیں جو زیادہ متقی ہیں۔ اللہ سے ڈرنے والے ہیں۔ ((اِنَّ اللّـٰهَ عَلِيْـمٌ خَبِيْـرٌ)) بے شک اللہ تبارک و تعالیٰ سب جاننے والا ہے۔ سب خبر رکھنے والا ہے۔ [دیکھئے (سورۃ الحجرات، آیت: 13)] بھائیو! اس آیت کی تشریح میں نبی ﷺ کی ایک حدیث ہے، آپ نے فرمایا: ’’یَا أَیُّہَا النَّاسُ‘‘ اے لوگو! ’’أَلَا إِنَّ رَبَّکُمْ وَاحِدٌ‘‘ تمھارا رب ایک ہے۔ تمھارا باپ ایک ہے۔ ’’أَلَا لَا فَضْلَ لِعَرَبِيٍّ عَلَی عَجَمِيٍّ‘‘ کسی عربی کو کسی عجمی پر کوئی فضیلت حاصل نہیں۔ کسی عجمی کو کسی عربی پر کوئی فضیلت حاصل نہیں۔ کسی سرخ رنگ والے کو کسی کالے رنگ والے پر کوئی فضیلت حاصل نہیں۔ نہ کسی کالے کو سرخ پر۔ سوائے تقوے کے۔ سارے انسان برابر ہیں۔ کسی کو کسی پر قوم کے لحاظ سے کوئی فضیلت نہیں۔ قوم کے لحاظ سے کوئی جنت میں نہیں جائے گا۔ سارے لوگ اعمال کی بنیاد پر جائیں گے۔ [دیکھئے (مسند احمد: 5/ 411 ح 23489 وسندہ صحیح)] اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ اللہ رب العزت ہمیں صحیح اعمال کرنے والا، صحیح عقیدے کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کی سچی اطاعت کرنے والا، اللہ رب العزت ہمیں بنائے۔ اور اللہ رب العزت ہمارے سارے گناہ معاف فرمائے۔ ظاہر ہے کہ ہر انسان سے غلطیاں ہوتی ہیں۔ کوئی انسان خطاؤں سے پاک نہیں سوائے پیغمبروں کے۔ پیغمبر معصوم ہوتے ہیں۔ تو اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ اللہ رب العزت میرے بھی اور آپ کے بھی گناہ معاف فرمائے۔ اللہ رب العزت ہمیں قرآن اور حدیث والے راستے پر، قرآن و سنت والے راستے پر، اس راستے پر جس پر اللہ کے رسول چلے ہیں، آپ کے صحابہ چلے ہیں، تابعین چلے ہیں، سلف صالحین چلے ہیں، اللہ کے نیک بندے اولیاء چلے ہیں، اس راستے پر ہمیں چلا۔ اور سب کا راستہ قرآن اور حدیث والا راستہ ہی ہے۔ بھائیو! اس کے علاوہ باقی جتنے راستے ہیں وہ دُور لے جانے والے ہیں، جہنم کی طرف لے جانے والے ہیں۔ وأقول قولي هذا واستغفر الله لي ولكم ولسائر المومنین۔ آمین یا رب العالمین ……… اصل ویڈیو ……… اصل ویڈیو ’’خطبۂ جمعہ: اخلاقیات، بھائی چارہ، پڑوسیوں سے حسن سلوک‘‘ کے عنوان سے اشاعۃ الحدیث موبائل ایپ میں ویڈیوز والے سیکشن میں موجود ہے۔ |
ہماری موبائل ایپ انسٹال کریں۔ تحقیقی مضامین اور تحقیقی کتابوں کی موجودہ وقت میں ان شاء اللہ سب سے بہترین ایپ ہے، والحمدللہ۔
دیگر بلاگ پوسٹس:
Android App --or-- iPhone/iPad App
IshaatulHadith Hazro © 2024