کلمۂ طیبہ کا ثبوتتحریر: محدث العصر حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ |
الجواب: امام ابوبکر احمد بن الحسین البیہقی رحمہ اللہ (متوفی 458ھ) نے فرمایا:
اس روایت کی سند حسن لذاتہ ہے۔ حاکم، اصم، محمد بن اسحاق الصغانی، زہری اور سعید بن المسیب سب اعلیٰ درجے کے ثقہ ہیں۔ 1: یحییٰ بن صالح الوحاظی صحیح بخاری و صحیح مسلم کے راوی اور جمہور محدثین کے نزدیک ثقہ تھے۔ امام ابو حاتم الرازی نے کہا: صدوق، امام یحییٰ بن معین نے کہا: ’’ثقۃ‘‘ (الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم 9/ 158 وسندہ صحیح) امام بخاری نے فرمایا: ویحي ثقۃ (کتاب الضعفاء الصغیر: 145، طبع ہندیہ) یحییٰ بن صالح پر درج ذیل علماء کی جرح ملتی ہے: 1) احمد بن حنبل 2) اسحاق بن منصور 3) عقیلی 4) ابو احمد الحاکم امام احمد کی جرح کی بنیاد ایک مجہول انسان ہے۔ دیکھئے الضعفاء للعقیلی (4/ 408) یہ جرح امام احمد کی توثیق سے معارض ہے۔ ابو زرعہ الدمشقی نے کہا:
اسحاق بن منصور کی جرح کا راوی عبداللہ بن علی ہے۔ (الضعفاء للعقیلی 4/ 409) عبداللہ بن علی کا ثقہ و صدوق ہونا ثابت نہیں ہے، لہٰذا یہ جرح ثابت ہی نہیں ہے۔ عقیلی کی جرح الضعفاء الکبیر میں نہیں ملی البتہ تاریخ دمشق (68/ 79) میں یہ جرح ضرور موجود ہے لیکن اس جرح کا راوی یوسف بن احمد غیر موثق (مجہول الحال) ہے لہٰذا یہ جرح بھی ثابت نہیں ہے۔ ابو احمد الحاکم (اور بشرطِ صحت احمد، اسحاق بن منصور اور عقیلی) کی جرح جمہور محدثین کی توثیق کے مقابلے میں مردود ہے۔ حافظ ذہبی نے کہا:
حافظ ابن حجر نے کہا: خالد (بن مخلد) اور یحییٰ بن صالح دونوں ثقہ ہیں۔ (فتح الباری ج 9 ص 524 تحت ح 5378 کتاب الأطعمۃ باب الأکل ممایلیہ) اور کہا: صدوق من أھل الرأي (تقریب التہذیب: 7568) تقریب التہذیب کے محققین نے لکھا ہے: ’’بل ثقۃ‘‘ بلکہ وہ ثقہ تھے۔ (التحریر ج 4 ص 88) خلاصۃ التحقیق: یحییٰ بن صالح ثقہ و صحیح الحدیث ہیں۔ 2: اسحاق بن یحییٰ بن علقمہ الکلبی الحمصی العوصی صحیح بخاری کے (شواہد کے) راوی ہیں۔ دیکھئے صحیح البخاری (682، 1355، 3299، 3443، 3927، 6647، 7000، 7171، 7382) حافظ ابن حبان نے انھیں کتاب الثقات (ج 6 ص 49) میں ذکر کیا اور صحیح ابن حبان (الاحسان: 6074) میں ان سے روایت لی ہے۔ دارقطنی نے کہا: ’’أحادیثہ صالحۃ والبخاري یستشھدہ ولا یعتمدہ فی الأصول‘‘ ان کی حدیثیں صالح (اچھی) ہیں، بخاری شواہد میں ان سے روایت لیتے ہیں اور اصول میں ان پر اعتماد نہیں کرتے۔ (سوالات الحاکم للدارقطنی: 280) تنبیہ: امام بخاری شواہد میں جس راوی سے روایت لیتے ہیں وہ ان کے نزدیک ثقہ ہوتا ہے۔ (اِلایہ کہ کسی خاص راوی کی تخصیص ثابت ہو جائے) دیکھئے شروط الأئمۃ الستۃ لمحمد بن طاہر المقدسی (ص 18دوسرا نسخہ ص 14) ابو عوانہ نے صحیح ابی عوانہ (المستخرج علیٰ صحیح مسلم) میں ان سے روایت لی ہے۔ (ج 2 ص 293) حافظ ابن حجر نے کہا: ’’صدوق، قیل: إنہ قتل أباہ‘‘ سچا ہے، کہا گیا ہے کہ اس نے اپنے باپ کو قتل کیا تھا۔ (تقریب التہذیب: 391) باپ کو قتل کرنے والا قصہ تہذیب الکمال (طبع مؤسستہ الرسالہ ج 1 ص 202) میں ادھوری (غیر مکمل) سند ’’أبو عوانۃ الأسفرائني عن أبي بکر الجذامي عن ابن عوف قال: یقال‘‘ سے مروی ہے۔ یہ قصہ کئی لحاظ سے مردود ہے: 1- ابو عوانہ تک سند غائب ہے۔ 2- ابوبکر الجذامی نامعلوم ہے۔ 3- یقال (کہا جاتا ہے) کا قائل نامعلوم ہے۔ صاحبِ تہذیب الکمال نے بغیر کسی سند کے محمد بن یحییٰ الذہلی رحمہ اللہ سے نقل کیا ہے کہ انھوں نے اسحاق بن یحییٰ کو طبقۂ ثانیہ میں ذکر کیا اور کہا: ’’مجہول: لم أعلم لہ روایۃً غیر یحیی بن صالح الوحاظي فإنہ أخرج إليّ لہ أجزاء من حدیث الزہري فوجد تھا مقاربۃ فلم أکتب منھا إلا شیئًا یسیرًا‘‘ مجہول ہے، میرے علم میں یحییٰ بن صالح الوحاظی کے سوا کسی نے اس سے روایت بیان نہیں کی۔ انھوں نے میرے سامنے اس کی زہری سے حدیثوں کے اجزاء پیش کئے تو میں نے دیکھا کہ یہ روایات مقارب (صحیح و مقبول اور ثقہ راویوں کے قریب قریب) ہیں۔ میں نے ان میں سے تھوڑی روایتیں ہی لکھی ہیں۔ (ج 1 ص 202) حافظ ابو بکر محمد بن موسیٰ الحازمی (متوفی 591ھ) نے امام زہری کے شاگردوں کے طبقۂ ثانیہ کے بارے میں کہا کہ وہ مسلم کی شرط پر ہیں۔ (شروط الائمۃ الخمسہ ص 57) معلوم ہوا کہ یہ راوی امام محمد بن یحییٰ الذہلی کے نزدیک مجہول ہونے کے ساتھ ثقہ و صدوق اور مقارب الحدیث ہے(!) بصورتِ دیگر یہ جرح جمہور محدثین کے مقابلے میں مردود ہے۔ خلاصۃ التحقیق: اسحاق بن یحییٰ الکلبی حسن الحدیث ہیں۔ فائدہ: لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ والی یہی روایت شعیب بن ابی حمزہ نے ’’عن الزہري عن سعید بن المسیب عن أبي ھریرۃ‘‘ کی سند سے بیان کر رکھی ہے۔ (کتاب الایمان لابن مندہ ج 1 ص 359 ح 99 وسندہ صحیح إلی شعیب بن ابی حمزہ) اس شاہد کے ساتھ اسحاق بن یحییٰ کی روایت مزید قوی ہو جاتی ہے۔ والحمد للہ دوسری دلیل: لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ پر مسلمانوں کا اجماع ہے۔ حافظ ابن حزم لکھتے ہیں:
حافظ ابن حزم مزید لکھتے ہیں:
معلوم ہوا کہ کلمۂ اخلاص: کلمۂ طیبہ لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ کا صحیح حدیث اور اجماع سے ثبوت موجود ہے۔ والحمدللّٰہ وصلی اللہ علٰی نبیہ وسلم تنبیہ: ’’مفتی‘‘ محمد اسماعیل طُورو دیوبندی نے ’’شش کلمے‘‘ کے تحت لکھا ہے:
یہ مکمل کلمہ نہ تو صحیح بخاری کی کسی حدیث میں لکھا ہوا ہے اور نہ صحیح مسلم کی کسی حدیث میں اس طرح موجود ہے۔ مفتی بنے ہوئے علماء کو اپنی تحریروں میں احتیاط کرنی چاہئے اور غلط حوالوں سے کلی اجتناب کرنا چاہئے۔ اصل مضمون کے لئے دیکھئے فتاویٰ علمیہ المعروف توضیح الاحکام (جلد 1 صفحہ 75 تا 80) للشیخ حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ |
ہماری موبائل ایپ انسٹال کریں۔ تحقیقی مضامین اور تحقیقی کتابوں کی موجودہ وقت میں ان شاء اللہ سب سے بہترین ایپ ہے، والحمدللہ۔
دیگر بلاگ پوسٹس:
Android App --or-- iPhone/iPad App
IshaatulHadith Hazro © 2024