جنات کا وجود ایک حقیقت ہےتحریر: محدث العصر حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ |
ایک سائل نے سوال کیا:
محدّث العصر زبیر علی زئی رحمہ اللہ نے توضیح الاحکام میں جواب دیا:جنات ایک مستقل مخلوق ہے جس کا وجود انسانوں کے علاوہ ہے اور ان کی تخلیق آگ سے ہوئی ہے، جیسا کہ قرآن، حدیث اور اجماع سے ثابت ہے۔ شیخ الاسلام حافظ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے فرمایا:
جنات کے لڑکیوں پر عاشق ہونے کے عام قصے جھوٹ و افتراء پر مبنی ہوتے ہیں، بعض عورتوں کو ہسٹریا کی بیماری ہوتی ہے جس کے ہذیان میں وہ عجیب و غریب آوازیں اور دعاوی ظاہر کرتی ہیں، مقصد صرف معاشقہ یا اپنے مقاصد کی تکمیل ہوتی ہے۔ پِیروں وغیرہ کے ٹونے ٹوٹکے بھی فراڈ اور جادو وغیرہ پر مشتمل ہوتے ہیں جن سے کلی اجتناب واجب یعنی فرض ہے۔ ایسے معاملات کا وجود نبی آخرالزمان کے عہد مبارک میں کلیتاً نہیں ملتا اور نہ صحابہ یا تابعین کے دَور میں ایسا واقعہ ہوا ہے۔ بعض روایات میں جنات کا انسانی جسم میں داخل ہونے کا صراحتاً ذکر ہے لہٰذا ان کی اسنادی حیثیت پیشِ خدمت ہے:
فرقد راوی ضعیف ہے۔ دیکھئے تحفۃ الاقویاء فی تحقیق کتاب الضعفاء للبخاری (ص91ت 308) وعام کتب ضعفاء۔ ایوب السختیانی نے کہا: ’’لیس بشئ‘‘ یہ راوی کوئی چیز نہیں ہے (ایضاً)
اسماعیل بن عبدالملک جمہور محدثین کے نزدیک ضعیف راوی ہے۔ (تحفۃ الاقویاء ص13ت 18)
شواہد:
سلیمان الاعمش مدلس تھے اور روایت عن سے ہے۔
عبدالرحمٰن مذکور ’’لیس بالمشھور‘‘ تھا۔ (دیکھئے تعجیل المنفعۃ ص253) اگر اس سے مراد عبدالرحمٰن بن عبد العزیز بن عبداللہ بن عثمان بن حنیف الانصاری الامامی ہو تو یہ سند منقطع ہے کیونکہ وہ 162ھ میں فوت ہوئے اور ان کی عمر 70 سال سے زیادہ تھی یعنی 90ھ میں پیدا ہوئے تھے، یعلیٰ بن مرۃ رضی اللہ عنہ سے ان کی ملاقات کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔
ہند ام ابان کی توثیق نامعلوم ہے۔ المعجم الکبیر للطبرانی (ج 5 ص 275 ح 5314 عن ابی داود: 5225، واصلہ عند ابی داود 5225 ومجمع الزوائد 9/ 2، 3) میں ایک دوسری روایت بھی ہے جس کی راویہ ام ابان ہی ہے جو کہ مجہولۃ الحال ہے۔
یہ سند عثمان بن بسر کی جہالت کی وجہ سے ضعیف ہے۔ میرے پاس ان تمام روایات کی مفصل تحقیق کا وقت نہیں البتہ مختصراً عرض ہے کہ میرے علم کے مطابق اس سلسلے کی تمام روایات ضعیف ہیں تاہم یہ صحیح ہے کہ جب شیطان وسوسہ ڈالے تو ’’اُخرج عدو اللہ‘‘ اے اللہ کے دشمن! نکل جا، کہنا صحیح ہے جیسا کہ سنن ابن ماجہ (کتاب الطب باب الفزع والأرق و ما یتعوذبہ ح 3548وسندہ صحیح ولہ شاہد فی صحیح مسلم: 2203)سے ثابت ہے۔ اصل مضمون کے لئے دیکھئے فتاویٰ علمیہ المعروف توضیح الاحکام جلد 1 صفحہ نمبر 96 اور 97 |
ہماری موبائل ایپ انسٹال کریں۔ تحقیقی مضامین اور تحقیقی کتابوں کی موجودہ وقت میں ان شاء اللہ سب سے بہترین ایپ ہے، والحمدللہ۔
دیگر بلاگ پوسٹس:
Android App --or-- iPhone/iPad App
IshaatulHadith Hazro © 2024