کیا ’’جزاک اللہ خیرًا‘‘ کہنا ثابت ہے؟ |
’’جزاک اللہ خیرًا‘‘کے مسنون ہونے میں کوئی شبہ نہیں اور ان کلمات کو موقع بر محل ادا کیا جا سکتا ہے۔ تحریر: الشیخ ابو محمد نصیر احمد کاشف حفظہ اللہ اسلام ایک مکمل دین اور ضابطۂ حیات ہے، جس میں ہراصولی و جزئی معاملے کے بارے میں رہنمائی موجود ہے۔ مسلمان تو اس کا دعویٰ کرتے ہی ہیں اور اپنے اس دعویٰ میں سچے بھی ہیں، تاہم اس بات کا اعتراف غیر مسلموں کو بھی ہے۔ سیدنا سلمان فارسی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم سے مشرکین نے کہا: ہم دیکھتے ہیں کہ تمھارے نبی (ﷺ) تمھیں ہر بات کی تعلیم دیتے ہیں۔ یہاں تک کہ قضائے حاجت (کے آداب) کی بھی، تو سلمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ہاں! بیشک انھوں نے ہمیں دائیں ہاتھ سے استنجا کرنے سے منع کیا ہے اور قضائے حاجت کے وقت قبلہ رخ ہونے سے منع کیا ہے اور گوبر اور ہڈی کے استعمال سے منع کیا ہے اور آپ ﷺ نے فرمایا: ’’کوئی تین پتھروں سے کم سے استنجا نہ کرے۔‘‘ (صحیح مسلم، کتاب الطھارۃ، باب الاستطابۃ، رقم الحدیث:۲۶۲ [۶۰۷]) یعنی اسلام کے ابتدائی ادوار ہی سے سب میں یہ بات معروف و مشہور ہے کہ اسلامی تعلیمات ہر مسئلے کا احاطہ کیے ہوئے ہیں۔ والحمد للہ آمد برسرِ مطلب:کچھ عرصے سے یہ بات زیر بحث ہے کہ کسی بھائی کے تعاون پر جب اُسے دعائیہ کلمات: جزاک اللہ خیرًا کہے جائیں تو بعض احباب اسے چند وجوہ کی بنا پر غیر صحیح قرار دیتے ہیں۔ اس سلسلے میں دلائل کے اعتبار سے راجح موقف کیا ہے؟ اس کی تفصیل حسبِ ذیل ہے: ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ انھوں نے سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا سے عاریتاً ہار لیا جو گم ہو گیا۔ رسول اللہ ﷺ نے ایک آدمی کو اس کی تلاش کے لیے بھیجا جسے وہ مل گیا۔ پھر نماز کا وقت ہو گیا اور لوگوں کے پاس پانی نہیں تھا، انھوں نے (بغیر وضو) نماز پڑھ لی۔ آپ ﷺسے شکایت کی گئی تو اللہ تعالیٰ نے تیمم کی آیت اتاری۔ (اس موقع پر) سیدنا اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہا: ’’جَزَاکِ اللہِ خَیْرًا ‘‘ اللہ تعالیٰ آپ کو بہترین بدلہ دے۔ واللہ! جب بھی آپ کے ساتھ کوئی ایسا معاملہ ہوا جو آپ کے لیے تکلیف کا باعث ہو تو اللہ تعالیٰ نے اس میں آپ کے لیے اور تمام مسلمانوں کے لیے خیر پیدا فرما دی۔ (صحیح البخاري، کتاب التیمم۔ باب إذا لم یجد ماءً ولا ترابًا، رقم الحدیث:۳۳۶، صحیح مسلم، کتاب الحیض، باب التیمم رقم الحدیث:۳۶۷/۱۰۹) اس حدیث سے روزِ روشن کی طرح واضح ہو گیا کہ ان کلمات کے ساتھ دعا دینا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ہاں عہدِ نبوت میں بھی معروف تھا۔ سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ جب میرے والد (خنجر سے) زخمی ہوئے، میں ان کے پاس گیا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی تعریف و توصیف بیان کرنے لگے اور کہا: ’’جَزَاکَ اللہُ خَیْرًا‘‘ اللہ تعالیٰ آپ کو بہترین بدلہ عطا فرمائے۔ تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: ’رَاغِبٌ و رَاھِبٌ……‘‘ مجھے اللہ تعالیٰ سے امید بھی ہے اور میں خوف زدہ بھی ہوں۔ (صحیح مسلم، کتاب الامارۃ، باب الاستخلاف و ترکہ رقم الحدیث:۱۸۲۳/۱۱) ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا ایک طویل حدیث بیان کرتی ہیں جس میں ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ایک اعرابی سے کھجوروں کے بدلے میں اونٹ خریدے۔ گھر میں کھجوریں دستیاب نہ ہوئیں، اعرابی کو بتایا تو وہ دھوکے کا واویلا کرنے لگا۔ اس پر آپ ﷺ نے سیدہ خولہ بنت حکیم رضی اللہ عنہاسے کھجوروں کا پوچھ کر اعرابی کو ان کے پاس بھیجا۔ بعد میں جب اعرابی رسول اللہ ﷺ کے پاس سے گزرا تو کہنے لگا: ’’جَزَاکَ اللہُ خَیْرًا فَقَدْ أَوْفَیْتَ وَ أَطْیَبْتَ۔‘‘ اللہ تعالیٰ آپ کو بہترین جزا دے، آپ نے پورا پورا اور خوب عمدہ ادا کر دیا۔ (مسند أحمد ۶/ ۲۶۸۔ ۲۶۹ و في نسخۃ ۴۳/ ۳۳۷۔ ۳۳۹، رقم الحدیث:۲۶۳۱۲، وسندہ حسن، محمد بن إسحاق صرح بالسماع عندہ) تعامل صحابہ اور تقریری حدیث سے مذکورہ مسئلہ صراحتاً ثابت ہوجاتا ہے۔ اسی سلسلے میں بڑی واضح اور صریح دلیل درج ذیل ہے: سیدنا جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ((جَزَاکُمُ اللہُ مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ خَیْرًا، وَ لاَ سِیَّمَا آلَ عَمْرِوبْنِ حَرَامٍ وَ سَعُدُ بْنُ عُبَادَۃَ ۔)) ’’اے انصار! اللہ تعالیٰ تمھیں جزائے خیر دے۔ خاص طور پر آل عمرو بن حرام اور سعد بن عبادہ کو۔ (السنن الکبریٰ للنسائی ۳۶۱/۷ رقم الحدیث:۸۲۲۳ و في نسخۃ:۸۲۸۱ وسندہ صحیح) علاوہ ازیں ان احادیث سے بھی ہمارا مطلوبہ مفہوم واضح ہوتا ہے: سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ((لاَ یَشْکُرُ اللہَ مَنْ لاَ یَشْکُرُ النَّاسَ۔)) ’’جو شخص لوگوں کا شکریہ ادا نہیں کرتا وہ اللہ تعالیٰ کا بھی شکر گزار نہیں ہوتا۔‘‘ (سنن أبي داود، کتاب الأدب، باب فی شکر المعروف، رقم الحدیث:۴۸۱۱، سنن الترمذي کتاب البر و الصلۃ۔ باب ماجاء فی الشکر لمن أحسن إلیک، رقم الحدیث:۱۹۵۷، و إسنادہ صحیح و صححہ ابن حبان:۳۴۰۷) جہاں تک ان کلمات کی ترغیب والی روایات کا ذکر ہے، ان کی مختصر تحقیق درج ذیل ہے:
ان روایات کے ضعف کی وجہ سے صرف ان کلمات کی بیان کردہ فضیلت ثابت نہیں ہوتی، تاہم ان کلمات کے مسنون ہونے میں کوئی شبہ نہیں اور انھیں موقع بر محل ادا کیا جا سکتا ہے۔ والحمد للہ تفصیل کے لئے دیکھئے ماہنامہ الحدیث 121 ص 33 |
ہماری موبائل ایپ انسٹال کریں۔ تحقیقی مضامین اور تحقیقی کتابوں کی موجودہ وقت میں ان شاء اللہ سب سے بہترین ایپ ہے، والحمدللہ۔
دیگر بلاگ پوسٹس:
Android App --or-- iPhone/iPad App
IshaatulHadith Hazro © 2024