جشن ’’عید میلاد‘‘ اور بعض شبہات کا ازالہتحریر: فضیلۃ الشیخ حافظ ندیم ظہیر حفظہ اللہ |
اہل الحدیث پر بعض الناس کی طرف سے درج ذیل اعتراضات وارد کیے جاتے ہیں جو ترتیب وار مع ازالہ پیش خدمت ہیں:
ازالہ: میلاد النبی سے مراد نبی کریم ﷺ کی ولادت ہے اور اہل حدیث نبی کریم ﷺ کو افضل البشر مانتے ہیں اور بشر کی پیدائش کا کوئی سلیم الفطرت انکار نہیں کر سکتا، بلکہ میلاد النبی کے حقیقی منکر تو وہ حضرات ہیں جو نبی کریم ﷺ کو بشر کے بجائے "نور من نور الله" قرار دیتے ہیں۔
ازالہ: دنیا میں کوئی مسلمان ایسا نہیں ہو گا جسے نبی کریم ﷺ کے مبعوث ہونے کی خوشی نہ ہو اور ایک حقیقی مسلم کا کوئی لمحہ و لحظہ ایسا نہیں جس میں یہ احساس خوشی جا گزیں نہ ہو۔ پھر اہل حدیث پر یہ اعتراض کیوں؟ ہاں! اگر خوشی سے مراد ڈھول کی تھاپ پر رقص کرنا، آلات طرب کے ساتھ مشغول ہونا، بازاروں کو سجانا اور بے مقصد ان میں گھومنا، مرد و زن کا اختلاط شبیہے اور مجسمے بنانا ہے تو واقعی ہمیں مذکورہ چیزوں کے ذریعے سے کوئی خوشی نہیں ہو سکتی۔ کیونکہ نبی کریم ﷺ کی معصیت و نافرمانی میں کوئی مسلمان فرحت و خوشی محسوس نہیں کر سکتا بلکہ یہ امور دیکھ کر وہ پریشان ہو جاتا ہےاور حتیٰ الامکان روک تھام کی کوشش کرتا ہے۔ صحابہ کرام رضی اللّٰه عنہم تو نبی ﷺ کی مخالفت کرنے والے سے بائیکاٹ تک کر دیتے تھے۔
ازالہ: محبت کا معیار خود ساختہ اور خلاف شریعت امور نہیں بلکہ اتباع و اطاعت ہے۔ سورہ آل عمران میں یہی معیار بیان ہوا ہے۔ نبی کریم ﷺ سے محبت جزو ایمان ہے اس کے بغیر کوئی شخص حقیقی مسلم و مومن نہیں ہو سکتا۔ اہل حدیث ہمیشہ محبت کے اس معیار پر پورے اترتے رہے ہیں جو کتاب و سنت میں مذکور ہے اور ہمیشہ ان کے منبر و محراب سے اتباع سنت کی دعوت اور بدعات و خرافات سے دامن بچانے کی ہی صدا بلند ہوئی۔ ہم ان جشن منانے والوں سے پوچھتے ہیں:
--------------------------- ’’گیارہ باتیں جن کا جواب کسی مفتی کے پاس نہیں‘‘ ؟؟!! نمبر 1:
جواب: ہم اس طرح کے کسی جشن کو شرعی اعتبار سے درست نہیں سمجھتے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم جشن سعودیہ کے لیے چندہ اکٹھا کر کے ثواب دارین کی نوید سناتے ہیں اور نہ اس پر اعتراض کرنے والے کو ابلیسیت کا پروانہ تھماتے ہیں۔ یہ بھی یاد رہے کہ سعودیہ کی ملکی روایت تو ہو سکتی ہے دینی و مذہبی نہیں۔ نمبر 2 تا 5:
جواب: یہ سائل کی کج فہمی ہے وگرنہ قرآن و حدیث میں بیت الله کی تطہیر سے متعلق احکام موجود ہیں۔ دیکھئے سورہ حج (26) وغیرہ۔ اسی طرح غلافِ کعبہ کی تبدیلی کا ثبوت بھی صحیح البخاری (1592) وغیرہ میں موجود ہے۔ رہی بات غلافِ کعبہ پر آیات کا لکھنا تو اس سے محض حج اور عمرہ پر آنے والے لوگوں کی تذکیر مقصود ہے اور وعظ و نصیحت کے لیے کوئی سا بہترین طریقہ و اسلوب اختیار کیا جا سکتا ہے۔ جسے اذان تہجد کہا جاتا ہے وہ بھی حدیث سے ثابت ہے۔ دیکھئے صحیح البخاری (615) وغیرہ۔ یہ لوگ بس مغالطہ دینے کے لئے ایسے سوالات گھڑتے ہیں۔ نمبر 6:
جواب: اکثر مدارس میں تکمیل بخاری کے موقع پر طلباء و علماء اور دیگر سامعین کو وعظ و نصیحت کی جاتی ہے اور حصول علم کے لیے ابھارا جاتا ہے۔ اور اس عظیم کام کی تکمیل پر الله تعالیٰ کا شکر ادا کیا جاتا ہے شکر اور وعظ و نصیحت فضیلت والے امور میں سے ہیں۔ یہ بھی واضح رہے کہ یہ تدریسی طریقہ و اسلوب ہے کوئی دین کا جزو لاینفک نہیں۔ جن مدارس میں ایسا نہیں ہوتا انھیں قطعاً لعنت و ملامت کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ جبکہ میلادی حضرات تو مروجہ جشن میلاد نہ منانے والوں کو گستاخ، منکر و ابلیس وغیرہ بنا ڈالتے ہیں۔ تدبر وتفکر! نمبر 7:
جواب: یہ بھی کج فہمی ہے وگرنہ نبی کریم ﷺ کا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اجتماعات سے خطاب فرمانا روز روشن کی طرح واضح ہے۔ نمبر 9 اور 10:
جواب: واضح رہے کہ اہل حدیث نہ جشنِ اہل حدیث مناتے ہیں اور نہ تاریخ ولادت و وفات وغیرہ، لہٰذا یہ اہل حدیث پر محض ایک اعتراض ہے۔ نمبر 11:
جواب: یہ بالکل نئی ایجاد ہے۔۔۔۔۔۔ اگر کسی صحابی کے سامنے اس طرح کے کام ہوتے تو وہ ضرور منع کرتے۔ تنبیہ: سائل کے اسلوب سے واضح معلوم ہو رہا ہے کہ جشن میلاد کا قرآن و حدیث میں قطعاً کوئی ثبوت نہیں۔ |
ہماری موبائل ایپ انسٹال کریں۔ تحقیقی مضامین اور تحقیقی کتابوں کی موجودہ وقت میں ان شاء اللہ سب سے بہترین ایپ ہے، والحمدللہ۔
دیگر بلاگ پوسٹس:
Android App --or-- iPhone/iPad App
IshaatulHadith Hazro © 2024