امام نسائی رحمہ اللہ کی وفات کا قصہتحریر: محدث العصر حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ |
امام نسائی یعنی ابو عبدالرحمٰن احمد بن شعیب بن علی بن سنان بن بحر النسائی رحمہ اللہ (م303ھ) کا شمار حدیث کے مشہور اماموں میں ہوتا ہے اور ان کی کتاب: ’’سنن نسائی‘‘ کتب ستہ میں شامل ہے۔ امام نسائی کے بارے میں عوام و خواص میں یہ قصہ مشہور ہے کہ انھیں شام کے ناصبیوں نے بہت مارا تھا اور وہ اسی مار کی وجہ سے شہید ہوگئے تھے۔ اس قصے کی روایات کا مختصر اور جامع جائزہ درج ذیل ہے: 1- حاکم نیشاپوری نے فرمایا:
اس روایت کی سند میں ’’مشائخنا‘‘ سارے مشائخ مجہول ہیں، لہٰذا یہ سند ضعیف ہے اور اس پر حافظ ابن عساکر کا حاشیہ (تہذیب الکمال 1/ 45) بے فائدہ ہے۔ اس روایت کو حافظ ذہبی نے بغیر کسی سند کے ابن مندہ عن حمزہ العقبی المصری وغیرہ سے نقل کیا ہے۔ (سیر اعلام النبلاء 14/ 132) یہ روایت بے سند ہونے کی وجہ سے مردود ہے۔ 2- کہا جاتا ہے کہ حاکم نے امام ابو الحسن علی بن عمر الدارقطنی رحمہ اللہ سے نقل کیا:
اگر یہ روایت حاکم یا امام دارقطنی سے باسند صحیح ثابت ہو جائے تو عرض ہے کہ امام دارقطنی 306ھ یا 305 ھ میں پیدا ہوئے تھے اور امام نسائی 303ھ میں فوت ہو گئے تھے لہٰذا یہ روایت منقطع و مردود ہے۔ یہ وہ روایات ہیں جنھیں بعض علماء اور واعظین مزلے لے لے کر بیان کرتے ہیں۔ مثلاً شاہ عبد العزیز دہلوی نے امام نسائی کے بارے میں لکھا ہے:
یہ سارا بیان زیبِ داستان ہے اور باسند صحیح ہر گز ثابت نہیں۔ اگر کوئی شخص یہ کہے کہ امام نسائی کی وفات کہاں ہوئی تھی؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ امام نسائی کے شاگرد ابن یونس المصری (مورخ) نے لکھا ہے:
حافظ ذہبی نے اس قول کو ’’أصح‘‘ قرار دیا ہے۔ (النبلاء 14/ 133) سوال یہ ہے کہ امام نسائی کے شاگرد اور مورخِ تاریخ مصر نے اتنے اہم واقعے کا ذکر کیوں نہیں کیا (بشرطیکہ) اگر ایسا کوئی واقعہ رونما ہوا تھا؟! حافظ ذہبی نے بغیر کسی سند کے وزیر ابن حنزابہ (جعفر بن الفضل) سے نقل کیا ہے کہ میں نے محمد بن موسیٰ (بن یعقوب بن مامون) المامونی (الہاشمی، وثقہ الذہبی فی تاریخ الاسلام) صاحب النسائی سے سنا: ابو عبدالرحمٰن النسائی نے علی رضی اللہ عنہ کے خصائص (مناقب) پر جو کتاب لکھی، میں نے کچھ لوگوں کو اس کا انکار کرتے ہوئے سنا اور فضائلِ شیخین پر کتاب نہ لکھنے کا انکار کرتے ہوئے سنا تو میں نے اس بات کا ان (نسائی) سے ذکر کیا۔ پھر انھوں نے فرمایا: میں دمشق میں داخل ہوا، اور وہاں علی (رضی اللہ عنہ) کے مخالفین بہت زیادہ تھے تو میں نے کتاب الخصائص لکھی، مجھے یہ امید تھی کہ اللہ تعالیٰ انھیں اس کتاب کے ذریعے سے ہدایت دے گا۔ پھر اس کے بعد انھوں نے صحابہ کے فضائل پر کتاب لکھی تو میرے سامنے انھیں کہا گیا: آپ معاویہ رضی اللہ عنہ کے فضائل نہیں لکھتے؟ تو انھوں نے کہا: ان کے لئے میں کیا لکھوں؟ کیا وہ حدیث جس میں آیا ہے: ’’اللھم! لا تشبع بطنہ‘‘ اے اللہ! اس کے پیٹ کو سیر نہ کرنا؟ تو وہ سائل خاموش ہو گیا۔ (النبلاء 14/ 129) یہ قصہ بھی بے سند ہے اور اگر کہیں ثابت بھی ہو جائے تو کسی قسم کی مارکٹائی کا اس قصے میں نام و نشان تک نہیں۔ اگر کوئی شخص کہے کہ ان قصوں میں صحیح یا حسن سند کا ہونا ضروری نہیں تو عرض ہے کہ یہ اصول غلط ہے اور اس کے مختصر رد کے لئے دیکھئے میرا مضمون: امام مسلم رحمہ اللہ کی وفات کا سبب؟ (مقالات: ج 6 ص 269) اس تحقیق کا خلاصہ یہ ہے کہ امام نسائی کے بارے میں بستان المحدثین وغیرہ کا قصہ اصولِ محدثین کی رُو سے باسند صحیح ہرگز ثابت نہیں اور نہ امام نسائی کا شیعہ ہونا کہیں ثابت ہے، بلکہ وہ اہلِ سنت کے جلیل القدر اماموں میں سے تھے۔ رحمہ اللہ ……… اصل مضمون ……… اصل مضمون کے لئے دیکھئے تحقیقی و علمی مقالات (جلد 6 صفحہ 272 تا 275) للشیخ زبیر علی زئی رحمۃ اللہ علیہ |
ہماری موبائل ایپ انسٹال کریں۔ تحقیقی مضامین اور تحقیقی کتابوں کی موجودہ وقت میں ان شاء اللہ سب سے بہترین ایپ ہے، والحمدللہ۔
دیگر بلاگ پوسٹس:
Android App --or-- iPhone/iPad App
IshaatulHadith Hazro © 2024