علم صحیح العقیدہ علماء سے حاصل کریںتحریر: الشیخ ابو الحسن تنویر الحق الترمذی حفظہ اللہ |
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ((البرکۃ مع أکابرکم)) خیر و برکت تمھارے بڑوں کے ساتھ ہے۔ (مستدرک حاکم 1/ 64 ح 210 وسندہ حسن لذاتہ، صحیح ابن حبان: 559، ، حلیۃ الاولیاء: 8/ 171، ت: عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ، تاریخ بغداد: 11/ 165، ت: عیسی بن عبد اللہ العسقلانی رحمہ اللہ) سیدنا ابو امیہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ((من أشراط الساعة ثلاثة إحداهن أن يلتمس العلم عند الأصاغر)) قیامت کی تین نشانیوں میں سے ایک یہ بھی ہےکہ علم اصاغرسے حاصل کیا جائے گا۔ (طبرانی کبیر 22/ 361، 362 ح 908 وسندہ حسن لذاتہ، کتاب الزہد والرقاق للامام عبد اللہ بن المبارک ص 64 ح 61 وسندہ حسن لذاتہ، الجامع لاخلاق الراوی وآداب السامع للامام ابوبکراحمد بن علی المعروف بالخطیب البغدادی ص: 218 مبحث فی ترک السماع من اہل الاہواء و البدع، جامع بیان العلم و فضلہ لابن عبد البر 1/ 495 ح 1051) ثقہ محدث ابو صالح محبوب بن موسی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’فسألت ابن المبارك:من الأصاغر؟قال: أهل البدع‘‘ میں نے عبد اللہ بن المباک رحمہ اللہ سے سوال کیا کہ اصاغر سے کیا مراد ہے؟ تو انھوں نے کہا: اس سےمراد اہل بدعات ہیں۔ (الجامع لاخلاق الراوی و آداب السامع ص 218 و اسنادہ صحیح) ثقہ و صدوق محدث نعیم بن حماد رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’قيل لابن المبارك من الأصاغر؟ قال: الذين يقولون برأيهم‘‘ امام عبد اللہ بن مبارک رحمہ اللہ سے کہا گیا کہ اصاغر سے کیا مرادہے؟ تو انھوں نے فرمایا: اس سے اہل الرائے مراد ہیں۔ (جوکہ قرآن وحدیث، اجماع ثابت اورآثارِ سلف کے بجائے رائے سے فتوے دیتے ہیں) (جامع بیان العلم و فضلہ 1/ 495، 496 ح 1052و سندہ حسن لذاتہ) سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’لایزال الناس بخیر ما أخذوا العلم عن أکابرہم وعن أمنائھم وعلمائھم، فإذا أخذوہ من صغارہم و شرارہم ہلکوا‘‘ لوگ اس وقت تک ہمیشہ خیر و بھلائی کے ساتھ رہیں گے، جب تک وہ علم اپنے اکابر، اپنے امانت دار و دیانت دارعلماء اور اپنے (صحیح العقیدہ ماہر فن) علماء سے حاصل کریں گے، اور جب وہ علم اپنے ذلیل و خوار (منہج سلف صالحین سے ہٹے ہوئے بدعتی اور اہل رائے) لوگوں سے اور اپنے شریر/ شرپسند علماء سے حاصل کریں گے تو وہ تباہ وبرباد ہوجائیں گے۔ (الفقیہ و المتفقہ للامام ابی بکر احمد بن علی بن ثابت المشہور بالخطیب البغدادی 2/ 155 ح 776 و سندہ حسن لذاتہ، المدخل الی السنن الکبری للبیہقی 1/ 246، جامع بیان العلم و فضلہ لابن عبدالبر 1/ 497 ح 1057، کتاب الزہد والرقاق للامام عبد اللہ بن المبارک: ص 247 ح 815) یہاں امام الذہبی رحمہ اللہ کی یہ بات سونے کے پانی سے لکھنے کے قابل ہے: ’’فواللہ لو لا الحفاظ الأکابر لخطبت الزنادقۃ علی المنابر ولئن خطب خاطب من أہل البدع، فإنما ہو بسیف الإسلام وبلسان الشریعۃ، وبجاہ السنۃ وبإظہار متابعۃ ما جاء بہ الرسول رحمہ اللہ ، فنعوذ باللہ من الخذلان‘‘ اللہ کی قسم! اگر یہ کبار حفاظ حدیث (ائمہ جرح وتعدیل) نہ ہوتے تو آج منبروں پر ضرور زندیق وبے دین قسم کے لوگ (ہی) خطبہ دے رہے ہوتے، اور اگراہل بدعات میں سے جو کوئی خطیب خطبہ میں (احادیث) بیان کر رہا ہوتا ہے تو یہ صرف اسلام کی تلوار (کے خوف) شریعت کی زبان، سنت کی عزت وتکریم کی وجہ سے اور رسول اللہ ﷺ کے ساتھ اپنی متابعت کے اظہار کے لیے ہی ہوتا ہے۔ ہم ان کے راستے سے جدا ہونے سے اللہ رب العزت کی پناہ میں آتے ہیں۔ (سیر اعلام النبلاء: 11/ 82) ------ اضافہ از معاذ علی زئی ------ امام شعبہ بن الحجاج رحمہ اللہ (متوفی 160ھ) فرماتے ہیں: ’’خذوا العلم من المشهورين‘‘ علم مشہور لوگوں (یعنی صحیح العقیدہ علماء) سے حاصل کرو۔ (الجرح والتعدیل: 2/ 28، سندہ حسن، [معاذ علی زئی]) |
ہماری موبائل ایپ انسٹال کریں۔ تحقیقی مضامین اور تحقیقی کتابوں کی موجودہ وقت میں ان شاء اللہ سب سے بہترین ایپ ہے، والحمدللہ۔
دیگر بلاگ پوسٹس:
Android App --or-- iPhone/iPad App
IshaatulHadith Hazro © 2024