محدث العصر حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ کا سفرِ آخرتتحریر: فضیلۃ الشیخ حافظ ندیم ظہیر حفظہ اللہ |
محقق دوراں، ذہبی زماں، محدث العصر حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ کا سفرِ آخرت: اس دارفانی میں جو بھی آتا ہے بالآخر یہاں سے جانا اس کا مقدر ہے لیکن بعض لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جن کا خلا صدیوں میں پُر نہیں ہوتا، ان کی وفات سے بہار خزاں میں بدل جاتی ہے اور ان کے چلے جانے سے علم کا اٹھ جانا لازم آتا ہے۔
عزیزی، محبی، مکرمی واستاذی حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ رحمۃً واسعۃً کا شمار بھی ایسے ہی لوگوں میں ہوتا ہے جو دورِ حاضر کے عظیم محدث، مجتہد، مفتی اور غیور ناقد تھے۔ استاذ محترم وسیع النظر، وسیع المطالعہ اور کثیر الحافظہ تھے۔ حدیث، اصول حدیث، رجال اور اخبار و انساب کے امام تھے۔ آپ اخلاص و صداقت حق گوئی و حق پرستی اور جرأ ت و بے باکی کے جس درجے پر فائز تھے اس میں ریا و نفاق اور مصلحت اندیشی کا کہیں گزر نہیں تھا۔ دلائل و براہین کی وجہ سے اپنے خیالات و افکار میں اس قدر مضبوط تھے کہ اس میں ادنیٰ لچک بھی گوارہ نہ تھی۔ یہی وجہ ہے کہ کسی کاغذی جماعت کا حصہ بننے اور اس سے دنیاوی جاہ و منصب حاصل کرنے کے بجائے تنہا اپنی ذات میں انجمن کا کردار ادا کیا اور ہمیشہ دین حنیف کی خدمت میں اپنے لیل و نہار بسر کئے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو علم و فضل کے ساتھ فکر و نظر کی اصابت، استنباط مسائل کی قوت اور ملکہ اجتہاد میں سے وافر حصہ عطا کیا تھا جس بنا پر دُور دراز کے علاقوں سے سائل کھنچے چلے آتے اور اطمینان قلب کے بعد واپس جاتے تھے۔ ہمارے شیخ رحمہ اللہ نے اپنی ساری زندگی کتاب و سنت کی ترجمانی، دین اسلام کی برتری اور اہل حق کی علمبرداری میں گزاری ہے۔ تدریس، تقریر اور تحریر کے ذریعے سے احقاق حق اور ابطال باطل کا فریضہ خوب سر انجام دیا۔ پوری تندہی اور جذبے سے اپنے مشن کی تکمیل میں مصروف تھے کہ اچانک بیماری نے آلیا۔ تقریباً دو ماہ بیمار رہنے کے بعد وہ چشمۂ فیض خشک ہو گیا جس کی آبیاری سے دین و ملت کا چمن سیراب تھا۔ وہ مشفق مربی چلا گیا جس نے دلوں کی دنیا منور کی۔ وہ شمع بجھ گئی جو عرصہ دراز تک علم و فن کی ہر مجلس میں ضیا بار رہی۔ وہ تاجدار رخصت ہو گیا جس کا سکہ علم و فن کی پوری اقلیم میں رواں تھا۔ پیغام محمدی کا وہ شارح اور ترجمان خاموش ہو گیا جو فہم سلف صالحین کا پاسبان تھا۔ وہ محدث سفرِ آخرت کا مسافر بنا جو دفاع حدیث کے جذبے سے سر شار تھا۔ وہ پیکر علم و عمل روپوش ہو گیا جس کا دماغ نادر معلومات کا خزینہ اور سینہ علوم نبوی کا سفینہ تھا۔ احادیث و سنن کا وہ محافظ بچھڑ گیا جس کا قلم دشمنان اہل حق کی علمی خیانتوں اور عیاریوں کو بے نقاب کرتا اور دین اسلام کی حقانیت و صداقت کو آشکار کرتا تھا۔ اور وہ ماہر حاذق ہم سے جدا ہوا جس نے مہارت و فن کی ایسی یاد گاریں چھوڑیں جو مدتوں علمی دنیا کی رہنمائی کرتی رہیں گی۔ آہ!
25/ جون 1957ء کو حضرو کی سرزمین پر طلوع ہونے والا علم و آگہی کا یہ آفتاب 10 / نومبر 2013ء بمطابق 5/ محرم الحرام 1435ھ، بروز اتوار کو غروب ہو گیا۔
محدث دوراں حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ کی نماز جنازہ ممتاز عالم دین اور ان کے استاذ حافظ عبد الحمید ازہر نے آپ کے آبائی گاؤں میں پڑھائی اور آپ کو حضرو کے قبرستان میں ہزاروں لوگوں کی آہوں اور سسکیوں میں سپرد خاک کیا گیا۔
إنا للّٰہ و إنا إلیہ راجعون، اللّھم اغفرلہ وارحمہ۔ اصل مضمون کے لئے دیکھیں ماہنامہ الحدیث شمارہ 112 صفحہ 13 |
ہماری موبائل ایپ انسٹال کریں۔ تحقیقی مضامین اور تحقیقی کتابوں کی موجودہ وقت میں ان شاء اللہ سب سے بہترین ایپ ہے، والحمدللہ۔
دیگر بلاگ پوسٹس:
Android App --or-- iPhone/iPad App
IshaatulHadith Hazro © 2024