حدیث کے مقابلے میں ’’اگر مگر‘‘؟ |
تقریر: محدث العصر حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ جمع و ترتیب: حافظ معاذ بن زبیر علی زئی حفظہ اللہ صحیح بخاری میں حدیث ہے کہ کسی نے پوچھا کہ آدمی جب طواف کر رہا ہوتا ہے تو حجرِ اسود کو چومنا چاہئے یا اشارہ کرنا چاہئے؟ إستلام کرنا چاہئے۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا:
إستلام بھی کرتے تھے۔ إستلام کے دو معنی ہو سکتے ہیں: ہاتھ لگانا بھی اور اشارہ کرنا بھی۔ یہ دونوں إستلام ہیں۔ وہ آدمی کہنے لگا:
اگر۔ اگر مگر۔ بعض لوگ حدیث کو رد کرنے کے لئے ’’اگر مگر‘‘ کرتے ہیں۔ تو سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:
یہ ’’اگر مگر‘‘ کو دفع کرو۔ اس کو یمن میں پھینک دو۔ یہاں اگر مگر نہیں چلے گا۔ حدیث کے مقابلے میں اگر مگر نہیں ہے۔
یہ ’’أَرَأَيْتَ‘‘ کو چھوڑو، یمن میں پھینک دو۔ یہ صحیح بخاری میں موجود ہے۔
یہ ہے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ایمان کا درجہ، ایمان کا جذبہ، اور یہی وجہ ہے کہ اللہ نے انھیں سرٹیفیکیٹ دیا ہے۔ ’’لَقَدْ رَضِيَ اللہُ عَنْھُم وَرَضُوْا عَنْہُ‘‘۔ اللہ اُن سے راضی وہ اللہ سے راضی۔ ……… حوالے ……… صحیح بخاری میں حدیث نمبر 1611 ہے۔ ……… اصل ویڈیو ……… اصل ویڈیو اسی عنوان سے اشاعۃ الحدیث موبائل ایپلیکیشن میں ویڈیوز والے سیکشن میں موجود ہے۔ |
ہماری موبائل ایپ انسٹال کریں۔ تحقیقی مضامین اور تحقیقی کتابوں کی موجودہ وقت میں ان شاء اللہ سب سے بہترین ایپ ہے، والحمدللہ۔
دیگر بلاگ پوسٹس:
Android App --or-- iPhone/iPad App
IshaatulHadith Hazro © 2024