الحمدللّٰہ رب العالمین والصلٰوۃ والسلام علی رسولہ الأمین، أما بعد: دیوبندی ’’علماء‘‘ اپنے بارے میں یہ پروپیگنڈا کرتے رہتے ہیں کہ وہ اہل سنت ہیں اور حنفیت کے ٹھیکیدار ہیں، حالانکہ متعدد دلائل وبراہین سے ثابت ہے کہ دیوبندی حضرات نہ تو اہل سنت ہیں اور نہ حنفی ہیں بلکہ انگریزوں کے دور میں پیدا شدہ ایک جدید فرقہ ہے، جسے فرقہ دیوبندیہ کہتے ہیں۔ اس فرقے کی متعدد شاخیں ہیں، مثلاً مماتی دیوبندی، حیاتی دیوبندی، غلام خانی دیوبندی، پنج پیری دیوبندی، اشاعتی دیوبندی، تبلیغی دیوبندی، جھنگوی دیوبندی اور فضلی دیوبندی وغیرہ۔ دیوبندیوں کے اہل سنت اور حنفی نہ ہونے کی چند بنیادی وجوہ درج ذیل ہیں: 1- اللہ اور رسول کی گستاخیاں 2- سلف صالحین کی گستاخیاں 3- شرکیہ اور کفریہ عقائد 4- اکابرپرستی اور اس میں غلو 5- کتاب وسنت سے انکار 6- علماء دیوبند کی اندھی تقلید 7- وحدت الوجود کا پرچار 8- انگریز دوستی 9- ہندو دوستی 10- ختم نبوت کا انکار اب ان وجوہ کا مختصر تعارف اور بعض دلائل پیش خدمت ہیں: دیوبندی حضرات اور اللہ و رسول کی گستاخیاں دیوبندی حضرات اپنی تحریروں میں واضح طور پر اللہ اور رسول کی گستاخیوں کے مرتکب ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کی ذاتِ اقدس کے بارے میں دیوبندیوں کی چند گستاخیاں انھیں کی لکھی ہوئی کتابوں سے باحوالہ درج ذیل ہیں: 1) عاشق الٰہی میرٹھی نے اپنے ’’امام ربانی‘‘ رشید احمد گنگوہی کے بارے میں لکھا ہے: ’’جس زمانہ میں مسئلہ امکان کذب پر آپ کے مخالفین نے شور مچایا اور تکفیر کا فتویٰ شائع کیا ہے سائیں توکل شاہ صاحب انبالوی کی مجلس میں کسی مولوی نے امام ربانی قدس سرہ کا ذکر کیا اور کہا کہ امکان کذب باری کے قائل ہیں یہ سن کر سائیں توکل شاہ صاحب نے گردن جھکا لی اور تھوڑی دیر مراقب رہ کر مُنہ اُوپر اُٹھاکر اپنی پنجابی زبان میں یہ الفاظ فرمائے: لوگو تم کیا کہتے ہو میں مولانا رشید احمد صاحب کا قلم عرش کے پرے چلتا ہوا دیکھ رہاہوں۔‘‘ (تذکرۃ الرشید ج 2 ص 322) رشید احمد گنگوہی نے کہا: ’’الحاصل امکان کذب سے مراد دخول کذب تحت قدرت باری تعالیٰ ہے یعنی اللہ تعالیٰ نے جو وعدہ وعید فرمایا ہے اس کے خلاف پر قادر ہے اگرچہ وقوع اس کا نہ ہو امکان کو وقوع لازم نہیں بلکہ ہو سکتا ہے کہ کوئی شے ممکن بالذات ہو اور کسی وجہ خارجی سے اس کو استحالہ لاحق ہوا ہو۔‘‘ (تالیفاتِ رشیدیہ ص 98) اس عبارت سے معلوم ہوا کہ رشید احمد گنگوہی دیوبندی امکانِ کذبِ باری تعالیٰ کا عقیدہ رکھتے تھے۔ امکان کہتے ہیں ممکن ہونا اور کذب جھوٹ کوکہتے ہیں، یعنی دیوبندیوں کے نزدیک اس بات کا امکان ہے کہ اللہ تعالیٰ جھوٹ بول سکتا ہے۔ معاذاللہ ٭ تنبیہ: امکانِ کذبِ باری تعالیٰ کا عقیدہ دربارِ الٰہی کی گستاخی اور کفر ہے۔ 2) حاجی امداداللہ (دیوبندیوں کے روحانی بزرگ اور سیدالطائفہ) نے لکھا ہے: ’’اور اس کے بعد اس کو ہو ہو کے ذکر میں اس قدر منہمک ہو جانا چاہیے کہ خود مذکور یعنی (اللہ) ہو جائے اور فنا درفنا کے یہی معنی ہیں۔‘‘ (کلیات امدادیہ ص 18) 3) رشید احمد گنگوہی نے لکھا ہے: ’’یا اللہ معاف فرمانا کہ حضرت کے ارشاد سے تحریر ہوا ہے جھوٹا ہوں، کچھ نہیں ہوں، تیرا ہی ظل ہے، تیرا ہی وجود ہے۔ میں کیا ہوں، کچھ نہیں ہوں، اور وہ جو میں ہوں وہ تو ہے اور میں اور تو خود شرک در شرک ہے۔ استغفراللہ ……‘‘ (فضائل صدقات ص556 ومکاتیب رشیدیہ ص10) 4) نانوتوی، گنگوہی اورتھانوی کے پیر حاجی امداداللہ نے لکھا ہے: ’’اس مرتبہ میں خدا کا خلیفہ ہوکر لوگوں کو اس تک پہونچاتا ہے اور ظاہر میں بندہ اور باطن میں خدا ہو جاتا ہے اس مقام کو برزخ البرازخ کہتے ہیں۔‘‘ (کلیات امدادیہ /ضیاء القلوب ص35، 36) ٭ نبی کریم ﷺ کی ذات اقدس کے بارے میں دیوبندیوں کی گستاخیاں درج ذیل ہیں: 1: اشرفعلی تھانوی نے لکھا ہے: ’’آپ کی ذاتِ مقدسہ پر علمِ غیب کا حکم کیا جانا اگر بقولِ زید صحیح ہو تو دریافت طلب یہ امر ہے کہ اس غیب سے مراد بعض غیب ہے یا کل غیب؟ اگر بعض علوم غیبیہ مراد ہیں تو اس میں حضو ر ﷺ کی کیا تخصیص ہے ایسا علمِ غیب تو زیدو عمر وبلکہ ہر صبی و مجنون بلکہ جمیع حیوانات وبہائم کیلئے بھی حاصل ہے کیونکہ ہر شخص کو کسی نہ کسی ایسی بات کا علم ہوتا ہے جو دوسرے شخص سے مخفی ہے تو چاہیۓ کہ سب کو عالم الغیب کہا جاوے۔‘‘ (حفظ الایمان ص13، دوسرا نسخہ ص 116 نیز دیکھئے الشہاب الثاقب ص 98) حسین احمد مدنی دیوبندی نے لکھا ہے: ’’لفظ ایسا تو کلمہ تشبیہ ہے‘‘ (الشہاب الثاقب ص 103) معلوم ہوا کہ عبارتِ مذکورہ میں اشرفعلی تھانوی نے نبی ﷺ کے علم کو پاگلوں اور جانوروں سے تشبیہ دے دی ہے۔! 2: ایک صحیح حدیث کا مذاق اڑاتے ہوئے، نبی کریم ﷺ کے بارے میں امین اوکاڑوی دیوبندی لکھتا ہے: ’’لیکن آپؐ نماز پڑھاتے رہے اور کتیا سامنے کھیلتی رہی اور ساتھ گدھی بھی تھی، دونوں کی شرمگاہوں پر بھی نظر پڑتی رہی۔‘‘ (غیر مقلدین کی غیرمستندنماز ص 43 مجموعہ رسائل ج 3 ص 350 حوالہ نمبر 198 وتجلیات صفدر ج 5 ص 488) یادرہے کہ یہ طویل عبارت کاتب کی غلطی نہیں ہے اور ماسڑ امین کے دستخطوں والی کتاب تجلیات صفدر میں اس کے مرنے کے بعد بھی شائع ہوئی ہے۔ 3: دیوبندی تبلیغی جماعت کے بانی محمد الیاس نے اپنے خط میں لکھا ہے: ’’اگر اور حق تعالیٰ کسی کام کو لینا نہیں چاہتے ہیں تو چاہے انبیا بھی کتنی کوشش کرلیں تب بھی ذرہ نہیں ہل سکتا اور اگر کرنا چاہیں تو تم جیسے ضعیف سے بھی وہ کام لے لیں جو انبیاء سے بھی نہ ہوسکے۔‘‘ (مکاتیب شاہ محمد الیاس ص106، 107 دوسرانسخہ ص 107) 4: نبی کریم ﷺ سے ثابت ہے کہ آپ سری نماز (یعنی ظہر و عصر) میں بعض اوقات ایک دو آیتیں جہراً پڑھ دیتے تھے۔ دیکھئے صحیح البخاری (ح759، 762، 776، 778، 779) وصحیح مسلم (ح451) چونکہ یہ حدیث دیوبندی مذہب کے خلاف ہے، لہٰذا اس پر تبصرہ کرتے ہوئے اشرفعلی تھانوی نے کہا: ’’اور میرے نزدیک اصل وجہ یہ ہے کہ آپ پر ذوق وشوق کی حالت غالب ہوتی تھی جس میں یہ جہر واقع ہوجاتا تھا اور جب کہ آدمی پر غلبہ ہوتاہے تو پھر اس کو خبر نہیں رہتی کہ کیا کررہا ہے۔‘‘ (تقریر ترمذی از تھانوی ص71) سلف صالحین کی گستاخیاں 1: مشہور جلیل القدر صحابی سیدنا عبادہ بن الصامت البدری رضی اللہ عنہ کے بارے میں حسین احمد مدنی ٹانڈوی گاندھوی کہتے ہیں: ’’اس کو عبادہ بن الصامت معنعناً ذکر کرتے ہیں حالانکہ یہ مدلس ہیں اور مدلس کا عنعنہ معتبر نہیں۔‘‘ (توضیح الترمذی ج 1 ص 436، نیز دیکھئے ص437) 2: زکریا کاندھلوی تبلیغی دیوبندی نے کہا: ’’ان محدثین کا ظلم سنو!‘‘ (تقریر بخاری جلد سوم ص 104) 3: مصنف ابن ابی شیبہ (1/ 351 ح 3524) کی ایک (ضعیف سند والی) روایت کا ترجمہ کرتے ہوئے محمد امین اوکاڑوی لکھتا ہے: ’’اگر تو آج اس طرح ٹخنے ملائے تودیکھے گا کہ یہ لوگ (صحابہ وتابعین) بدکے ہوئے خچروں کہ طرح بھاگیں گے۔‘‘ (حاشیہ امین اوکاڑوی علی تفہیم البخاری ج 1 ص 370 ا، حاشیہ نمبر 2) بریکٹ والے الفاظ اوکاڑوی ہی کے ہیں۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بدکے ہوئے خچروں سے تشبیہ دینا اوکاڑوی دیوبندی جیسے لوگوں کا ہی کام ہے۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ضعیف حدیث میں بدکے ہوئے خچر اُن مجہول ومنکرین حدیث قسم کے لوگوں کو کہا گیا ہے جو قطعا ًاور یقینا صحابہ کرام ہرگز نہیں تھے، صحابۂ کرام تو قدم سے قدم اور کندھے سے کندھا ملاتے تھے۔ دیکھئے صحیح بخاری (کتاب الاذان باب الزاق المنکب بالمنکب …… ح 725) 4: رفع یدین کی مخالفت کرتے ہوئے قاری چن محمد دیوبندی غلام خانی نے کہا: ’’ابن عمر بچے تھے وائل بن حجر مسافر تھے غیر مقلدین یا تو مسافروں کی یا بچوں کی روایت پیش کرتے ہیں۔‘‘ (ماہنامہ الدین، کامرہ کینٹ ج 1 شمارہ: 2، اکتوبر 200ء ص 27) ان دونوں جلیل القدر صحابیوں کا ایسی حقارت سے ذکر کرنا دیوبندیوں کا ہی کام ہے۔ شرکیہ اور کفریہ عقائد 1: حاجی امداداللہ نے اپنے پیر نورمحمد جھنجھانوی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: ’’آسرادنیا میں ہے ازبس تمھاری ذات کا تم سوا اوروں سے ہرگز کچھ نہیں ہے التجا بلکہ دن محشر کے جس وقت قاضی ہو خدا آپ کا دامن پکڑ کر کہوں گا برملا اے شہ نورمحمد وقت ہے امداد کا‘‘ (شمائم امدادیہ ص 83، 84 وامدادالمشتاق ص 116 فقرہ: 288، دوسرا نسخہ ص 121، 122) 2: اشرفعلی تھانوی دیوبندی نے لکھا ہے: ’’میں (راوی ملفوظات) حضرت کی خدمت میں غذا ئے روح کا وہ سبق جو حضرت شاہ نورمحمد صاحب کی شان میں ہے، سنارہا تھا۔ جب اثر مزار شریف کا بیان آیا آپ نے فرمایا کہ میرے حضرت کا ایک جولاہا مرید تھا بعد انتقال حضرت کے مزار شریف پر عرض کیا کہ حضرت میں بہت پریشان اور روٹیوں کو محتاج ہوں کچھ دستگیری فرمائیے حکم ہوا کہ تم کو ہمارے مزار سے دو آنے یا آدھ آنہ روز ملا کرے گا۔ ایک مرتبہ میں زیارت مزار کوگیا وہ شخص بھی حاضر تھا اس نے کل کیفیت بیان کرکے کہا کہ مجھے ہر روز وظیفہ پائیں قبر سے ملاکرتا ہے (حاشیہ) قولہ: وظیفہ مقررہ، اقول: یہ منجملہ کرامات کے ہے 12۔‘‘ (امداد المشتاق ص 117 فقرہ: 290، دوسرانسخہ ص 123) 3: حاجی امداد اللہ نے سیدنا رسول اللہ ﷺ کے بارے میں لکھا ہے: ’’یارسول کبریا فریاد ہے یا محمدؐ مصطفی فریاد ہے آپ کی امداد ہو میرا یانبیؐ حال ابتر ہوا فریاد ہے سخت مشکل میں پھنسا ہو ں آج کل اے میرے مشکل کشا فریاد ہے‘‘ (کلیات امدادیہ ص 90، 91) 4: اشرفعلی تھانوی دیوبندی نے لکھا ہے: ’’دستگیری کیجئے میرے نبی کشمکش میں تم ہی ہو میرے نبی جُز تمھارے ہے کہاں میری پناہ فوج کلفت مجھ پہ آ غالب ہوئی ابن عبداللہ زمانہ ہے خلاف اے مرے مولا خبر لیجئے مری‘‘ (نشرالطیب فی ذکر النبی الحبیب ص 194) اکابرپرستی اور اس میں غلو 1) محمد الیاس دیوبندی تبلیغی کی نانی کے بارے میں دیوبندی حضرات نے لکھا ہے کہ ’’جس وقت انتقال ہوا تو ان کپڑوں میں کہ جن میں آپ کا پاخانہ لگ گیا تھا عجیب و غریب مہک تھی کہ آج تک کسی نے ایسی خوشبو نہیں سونگھی۔‘‘ (تذکرہ مشائخ دیوبند، حاشیہ ص 96، تصنیف: عزیزالرحمن) اسی پاخانے کے بارے میں عاشق الٰہی میرٹھی دیوبندی نے لکھا ہے: ’’پوتڑے نکالے گئے جو نیچے رکھ دئیے جاتے تھے تو ان میں بد بو کی جگہ خوشبو اور ایسی نرالی مہک پھوٹتی تھی کہ ایک دوسرے کو سنگھاتا اور ہر مرد اور عورت تعجب کرتا تھا چنانچہ بغیر دھلوائے ان کو تبرک بناکررکھ دیا گیا۔‘‘ (تذکرۃ الخلیل ص 96، 97) 2) زکریا کاندھلوی تبلیغی دیوبندی نے کہا ہے: ’’لیکن مجھ جیسے کم علم کے لئے تو سب اہل حق معتمد علماء کا قول حجت ہے۔‘‘ (کتب فضائل پر اشکالات اور ان کے جوابات ص 134) 3) اشرفعلی تھانوی نے لکھا ہے: ’’اور دلیل نہی ہم مقلدوں کے لئے فقہاء کا فتویٰ ہے اور فقہاء کی دلیل تفتیش کرنے کا ہم کو حق حاصل نہیں۔‘‘ (امداد الفتاوی ج 5 ص 313، 314) 4) محمد عثمان نامی کوئی آدمی گزرا ہے، اس کے بارے میں عبدالحمید سواتی دیوبندی نے کسی کتاب فوائد عثمانی سے نقل کیا ہے: ’’حضرت خواجہ مشکل کشا سیدالاولیاء سندالاتقیاء زبدۃالفقہاء راس الفقہاء رئیس الفضلاء شیخ المحدثین قبلۃالسالکین امام العارفین برہان المعرفۃ شمس الحقیقہ فریدالعصر وحیدالزماں حاجی الحرمین الشریفین مظہرفیض الرحمن پیردستگیر حضرت مولانا محمدعثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ‘‘ (فیوضات حسینی /تحفہ ابراہمیہ ص 68) کتاب وسنت سے انکار 1) رشید احمد لدھیانوی دیوبندی نے لکھا ہے: ’’معہذا ہمارا فتویٰ اور عمل قول امام رحمۃ اللہ تعالیٰ کے مطابق ہی رہے گا۔ اس لئے کہ ہم امام رحمۃ اللہ تعالیٰ کے مقلد ہیں اور مقلد کے لئے قول امام حجت ہوتا ہے نہ کہ ادلۂ اربعہ کہ ان سے استدلال وظیفہ مجتہد ہے۔‘‘ (ارشادالقاری ص 412) 2) محمودحسن دیوبندی نے کہا: ’’لیکن سوائے امام اور کسی کے قول سے ہم پر حجت قائم کرنا بعید ازعقل ہے۔‘‘ (ایضاح الادلہ ص 276 طبع قدیم) 3) انورشاہ کشمیری دیوبندی نے ایک حدیث کو قوی تسلیم کرنے کے بعد، اس کا جواب سوچنے پر دس سال سے زیادہ کا عرصہ لگادیا۔ (دیکھئے فیض الباری ج 2 ص 275 والعرف الشذی ج 1 ص 107 ومعارف السنن ج 4 ص 264 ودرس ترمذی ج 2 ص 224) 4) محمودحسن دیو بندی نے محمد حسین بٹالوی رحمہ اللہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: ’’آپ ہم سے وجوبِ تقلید کی دلیل کے طالب ہیں۔ ہم آپ سے وجوب اتباع محمدی ﷺ، وجوب اتباع قرآنی کی سند کے طالب ہیں…‘‘ الخ (تسہیل: ادلہ کا ملہ ص 78) نیچے حاشیے میں سند کا معنی’’دلیل‘‘ لکھا ہوا ہے۔ معلوم ہوا کہ بٹالوی صاحب تقلید کا وجوب نہیں مانتے، اس لئے وہ وجوب کی دلیل مانگ رہے تھے۔ دوسری طرف محمود حسن دیوبندی وجوب اتباع محمدی اور وجوب اتباع قرآنی نہیں مانتے، اس لئے وہ وجوب کی دلیل مانگ رہے تھے۔! علماء دیوبند کی اندھی تقلید 1) ’’مفتی‘‘ محمد دیوبندی نے لکھا ہے: ’’عوام کے لئے دلائل طلب کرنا جائز نہیں۔ نہ آپس میں مسائل شرعیہ پر بحث کرنا جائز ہے بلکہ کسی مستند مفتی سے مسئلہ معلوم کرکے اس پر عمل کرناضروری ہے۔‘‘ (اخبار: ضرب مؤمن ج 3 شمارہ: 15، 9 تا 15۔ اپریل 1999 ص 6 آپ کے مسائل کا حل) اسی محمد دیوبندی نے لکھا ہے: ’’عوام کو علماء سے صرف مسئلہ پوچھنا چاہیۓ، مقلد کے لئے اپنے امام کا قول ہی سب سے بڑی دلیل ہے۔‘‘ (ضرب مؤمن ایضا ص 6 کالم نمبر 2) 2) زاہد الحسینی حیاتی دیوبندی نے کہا: ’’حالانکہ ہر مقلد کے لئے آخری دلیل مجتہد کا قول ہے۔‘‘ (مقدمہ: دفاع امام ابوحنیفہ ص 26) 3) رشید احمد لدھیانوی دیوبندی نے لکھا ہے: ’’رجوع الی الحدیث مقلد کا وظیفہ نہیں۔‘‘ (احسن الفتاویٰ ج 3 ص 55) 4) اللہ اور رسول کی گستاخیاں کرنے والے اور شرک وبدعت پھیلانے والے دیوبندی علماء کا اگر کفریہ وشرکیہ حوالہ کسی دیوبندی کو دکھایا جائے تو وہ کبھی ان پر کفر وشرک کا فتویٰ نہیں لگاتا اور اگر کسی بریلوی وغیر دیوبندی کا حوالہ دکھایا جائے تو فوراً فتویٰ لگا دیتا ہے۔ وحدت الوجود کا پرچار 1) حاجی امداداللہ نے کہا: ’’نکتہ شنا سا مسئلہ وحدت الوجود حق وصحیح ہے اس مسئلہ میں کوئی شک وشبہ نہیں ہے۔‘‘ (شمائم امدادیہ ص 32 وکلیات امدادیہ ص 218) 2) عبدالحمید سواتی دیوبندی نے کہا: ’’علماء دیوبند کے اکابر مولانا محمد قاسم نانوتوی (المتوفی 1297ھ) اور مولانا مدنی (المتوفی1377ھ) اور دیگر اکابر مسئلہ وحدۃ الوجود کے قائل تھے۔‘‘ (مقالات سواتی حصہ اول ص 375) 3) ضامن علی جلال آبادی نے ایک زانیہ عورت کو کہا: ’’بی تم شرماتی کیوں ہو؟ کرنے والا کون اور کرانے والاکون؟ وہ تو وہی ہے۔‘‘ (تذکرۃ الرشید ج 2 ص 242) اس گستاخ وحدت الوجودی کے بارے میں رشید احمد گنگوہی نے مسکراکر کہا: ’’ضامن علی جلال آبادی تو توحید ہی میں غرق تھے۔‘‘ (ایضا ص 242) 4) وحدت الوجود کے ایک پیر وکار حسین بن منصور الحلاج جسے کفر وزندیقیت کی وجہ سے باجماع علماء قتل کیاگیا تھا۔ اس کے بارے میں ظفر احمدتھانوی دیوبندی نے ایک کتاب لکھی ہے۔ ’’سیرت منصور حلاج‘‘! تنبیہ اول: وحدت الوجود کا مطلب یہ ہے: ’’تمام موجودات کو اللہ تعالیٰ کا وجود خیال کرنا۔‘‘ (حسن اللغات فارسی اردو ص 941، نیز دیکھئے علمی اردو لغت ص 1551) تنبیہ دوم: امداداللہ کے بارے میں اشرفعلی تھانوی نے لکھا ہے: ’’حضرت صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے وہی عقائد ہیں جو اہل حق کے ہیں۔‘‘ (امدادالفتاویٰ ج 5 ص 270) نیز دیکھئے خطبات حکیم الاسلام (ج 7 ص 206) انگریزدوستی 1) شاملی کے علاقے میں انگریزوں کی حمایت میں لڑنے والے نانوتوی، گنگوہی اور امداداللہ وغیرہم کے بارے میں عاشق الٰہی میرٹھی نے لکھا ہے: ’’اور جیسا کہ آپ حضرات اپنی مہربان سرکار کے دلی خیر خواہ تھے تازیست خیرخواہ ہی ثابت رہے۔‘‘ (تذکرۃ الرشید ج 1 ص 79) تذکرۃ الرشید کی عبارت کے سیاق وسبا ق سے صاف ثابت ہے کہ مہربان سرکار سے مراد انگریز ی سرکار ہے۔ نیز دیکھئے سوانح قاسمی (ج 2 ص 246، 247 حاشیہ) انفاس امدادیہ (ص 106، 90) 2) دیوبندیوں کے شاہ فضل الرحمن گنج مراد آبادی نے کہا: ’’لڑنے کا کیا فائدہ خضر کو تو میں انگریزوں کی صف میں پارہا ہوں۔‘‘ (حاشیہ سوانح قاسمی ج 2 ص 103، علماء ہند کا شاندار ماضی جلدچہارم ص 280 حاشیہ) 3) ایک دن، 31 جنوری 1875ء بروز یک شنبہ، ہندوستان میں انگریزوں کے لیفٹیننٹ گورنر کے ایک خفیہ معتمد انگریز پامر نے مدرسہ دیوبند کا دورہ کیا اور نہایت اچھے خیالات کا اظہار کیا، یہ انگریز لکھتا ہے: ’’یہ مدرسہ خلاف سرکار نہیں بلکہ موافق سرکار ممد معاون سرکار ہے۔‘‘ (کتاب: محمد احسن نانوتوی ص 217، فخرالعلماء ص 60) 4) محمد میاں دیوبندی نے لکھا ہے: ’’شاید اس سلسلہ میں سب سے زیادہ گراں قدر فیصلہ وہ فتویٰ ہے جو 1898ء میں مرحوم مولانا رشید احمد گنگوہی نے جاری کیا تھا۔ کیونکہ اس پر دوسرے علماء کے علاوہ مولانا محمود حسن کے بھی دستخط ہیں کہ مسلمان مذہبی طور سے پابند ہیں کہ حکومت برطانیہ کے وفادار رہیں۔ خواہ آخرالذکر سلطان ترکی سے ہی برسر جنگ کیوں نہ ہو۔‘‘ (تحریک شیخ الہند ص 305) تنبیہ: محمد میاں دیوبندی نے خیالی گھوڑے دوڑاتے ہوئے اس فتوے میں جرح اور تشکیک کی کوشش کی ہے جوکہ باطل ہے۔ ہندو دوستی 1) مدرسہ دیوبند کے قیام میں ہندوؤں نے خوب چندہ دیا تھا۔ چندہ دینے والوں کی فہرست میں منشی رام، رام سہائے، منشی ہردواری لال، لالہ بیجناتھ، پنڈت سری رام، منشی موتی لال، رام لال وغیرہ کے نام ملتے ہیں۔ (دیکھئے سوانح قاسمی ج 2 ص 317، نیز دیکھئے انوارقاسمی ص 414) 2) دیوبندیوں کے مولوی محمد علی (جوہر) نے کہا: ’’میں تو جیل میں ہوں۔ البتہ یہ جانتا ہوں کہ رسول اللہ ﷺ کے بعد میرے اوپر گاندھی جی کا حکم نافذ ہے۔‘‘ (حسین احمد مدنی از فرید الوحیدی ص 350 و تحریک خلافت ص 80) 3) رشید احمد گنگوہی سے کسی نے پوچھا کہ ’’ہندو تہوار ہولی یا دیوالی میں اپنے استاذ یا حاکم یا نوکر کو کھیلیں یا پوری یا اور کچھ کھانا بطور تحفہ بھیجتے ہیں ان چیزوں کا لینا اور کھانا استاد و حاکم و نوکر مسلمان کو درست ہے یا نہیں۔‘‘ گنگوہی نے جواب دیا: ’’درست ہے۔‘‘ (فتاویٰ رشیدیہ ص 561، تالیفات رشیدیہ ص 471) 4) دوآ بہہ ایک گاؤں کے بارے میں عاشق الٰہی نے لکھا ہے: ’’اس گاؤں کے باشندوں کو بھی حضرت کے ساتھ اس درجہ انس تھا کہ عام وخاص مردوزن مسلمان بلکہ ہندو تک گویا آپ کے عاشق تھے۔‘‘ (تذکرۃ الرشید ج 2 ص 38) تنبیہ اول: یہاں ’’حضرت‘‘ اور ’’آپ‘‘ سے مراد رشیداحمد گنگوہی ہیں۔ تنبیہ دوم: دیوبند کی صد سالہ تقریب میں اندراگاندھی کی تقریر کے لئے دیکھئے روئیداد صد سالہ جشن دیوبند ازجانباز مرزا ص 1 ختم نبوت کا انکار 1) محمد قاسم نانوتوی نے لکھا ہے: ’’بلکہ اگر بالفرض بعد زمانہ نبوی صلعم بھی کوئی نبی پیدا ہو تو پھر بھی خاتمیت محمدی میں کچھ فرق نہ آئے گا۔‘‘ (تحذیرالناس ص 34) 2) قاری محمد طیب دیوبندی نے کہا: ’’تو یہاں ختم نبوت کا یہ معنی لینا کہ نبوت کا دروازہ بند ہوگیا یہ دنیا کو دھوکہ دینا ہے نبوت مکمل ہوگئی‘ وہی کام دے گی قیامت تک‘ نہ یہ کہ منقطع ہو گئی اور‘ دنیا میں اندھیرا پھیل گیا‘‘ (خطبات حکیم الاسلام ج 1 ص 39) 3) کسی شخص نے قادیانیوں کو بُرا کہا تو اشرفعلی تھانوی نے کہا: ’’یہ زیادتی ہے توحید میں ہمارا ان کا کوئی اختلاف نہیں، اختلاف رسالت میں ہے اور اس کے بھی صرف ایک باب میں یعنی عقیدہ ختم رسالت میں بات کو بات کی جگہ پر رکھنا چاہئے۔ جو شخص ایک جرم کا مجرم ہے یہ تو ضرور نہیں کہ دوسرے جرائم کا بھی ہو۔‘‘ (سچی باتیں ازعبدالماجد دریاآبادی ص 213) 4) مفتی کفایت اللہ دھلوی دیوبندی ایک مرزائی کے بارے میں لکھا ہے: ’’اگر یہ شخص خود مرزائی عقیدہ اختیار کرنے والا ہے یعنی اس کے ماں باپ مرزائی نہ تھے تو یہ مرتد ہے اس کے ہاتھ کا ذبیحہ درست نہیں۔ لیکن اگر اس کے ماں باپ یا ان میں سے کوئی ایک مرزائی تھا تو یہ اہل کتاب کے حکم میں ہے اور اس کے ہاتھ کا ذبیحہ درست ہے۔‘‘ (کفایت المفتی ج 1 ص 313 جواب نمبر 349) قارئین کرام! یہ چند نمونے مشتے ازخروارے ہے۔ دیوبندی حضرات اپنے ان گندے اور کتاب وسنت کے خلاف عقائد کی وجہ سے اہل سنت سے بھی خارج ہیں اور حنفیت سے بھی خارج ہیں، لہٰذا ان کے پیچھے نماز نہیں ہوتی اور اگر کوئی شخص پڑھ لے تو اس پر اپنی نماز کا دوہرانا (اعادہ) واجب ہے۔ اصل مضمون کے لئے دیکھئے تحقیقی و علمی مقالات (ج 4 ص 426 تا 438) |