دعوتِ حق کے لئے مناظرہ کرناتحریر: محدث العصر حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ |
سوال:
الجواب: لغت میں ’’المراء‘‘ کا مطلب ہے: ’’جھگڑا، کٹ حجتی، بحث‘‘ (القاموس الوحید ص 1546 ا) علامہ ابن الاثیر (متوفی606 ھ) لکھتے ہیں:
معلوم ہوا کہ حدیث ِ مذکور میں احکام و اختلافی مسائل پر دعوت و تحقیق کے لیے بحث و مباحثہ مراد نہیں ہے۔ علامہ ابن اثیر مزید لکھتے ہیں:
﴿وَجَادِلْھُمْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَن﴾ اور اچھے طریقے کے ساتھ ان لوگوں سے مجادلہ (بحث) کرو (النحل: 125)۔ جائز مناظرے کے جواز کی دلیل ہے۔ رسول اللہ ﷺ کاارشاد ہے کہ ((بلّغوا عني ولو آیۃ)) إلخ مجھ سے (دین لے کر) لوگوں تک پہنچا دو چاہے ایک آیت ہی کیوں نہ ہو۔ (صحیح البخاری: 3461) سیدنا ابراہیم علیہ السلام کا ایک کافر سے مناظرہ قرآن مجید میں مذکورہے۔ (سورۃ البقرۃ: 258) مستدرک الحاکم (2/ 593۔594 ح 4157) میں نجران کے عیسائیوں کا نبی ﷺ سے بحث و مباحثہ مذکور ہے۔ وصححہ الحاکم علی شرط مسلم ووافقہ الذہبی صحیح بخاری میں ایک فقہی مسئلے پر سیدنا عبداللہ بن مسعود اور سیدنا ابو موسیٰ الاشعری رضی اللہ عنہما کا مناظرہ موجودہے۔ (345، 346) عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کا خوارج سے مناظرہ کرنا ثابت ہے۔ (السنن الکبریٰ للبیہقی 8/ 179 وسندہ حسن) شیخ الاسلام ابن تیمیہ فرماتے ہیں:
معلوم ہوا کہ اہلِ باطل اور لاعلم لوگوں کو کتاب و سنت کے دلائل سنا کر حق واضح کرنا دین کی بہت بڑی خدمت ہے۔ اصل مضمون کے لئے دیکھئے توضیح الاحکام (ج 1 ص 107 تا 111) |
ہماری موبائل ایپ انسٹال کریں۔ تحقیقی مضامین اور تحقیقی کتابوں کی موجودہ وقت میں ان شاء اللہ سب سے بہترین ایپ ہے، والحمدللہ۔
دیگر بلاگ پوسٹس:
Android App --or-- iPhone/iPad App
IshaatulHadith Hazro © 2024