سیاہ خضاب کی شرعی حیثیتتحریر: فضیلۃ الشیخ حافظ ندیم ظہیر حفظہ اللہ |
الحمدللّٰہ رب العٰلمین والصلوٰۃ والسلام علٰی رسولہ الأمین، أما بعد: اسلاف کے متفقہ فہم سے کسی کو انکار نہیں کیونکہ قرآن و حدیث کا وہی مفہوم معتبر ہے جو سلف صالحین یعنی صحابہ کرام، تابعین اور ائمہ دین سے لیا جائے، لیکن ان کے فہم میں اگر اختلاف ہوجائے تو پھر درج ذیل باتیں ملحوظ رہنی چاہئیں: اختلاف کی صورت میں انھیں اسلاف کے موقف کو ترجیح ہوگی جن کے اقوال و افعال کتاب و سنت کی تفسیر و تشریح میں یا ان کے قریب تر ہوں گے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
واضح اور صریح دلائل کے خلاف اگر سلف صالحین میں سے کسی کا قول یا فعل ہوگا تو اسے ان کی لاعلمی پر محمول کیا جائے گا کیونکہ یہ لازم نہیں کہ ہر ایک کو ہر بات کا علم ہو۔ دیکھئے التمہید لابن عبد البر (1/ 159، 160) وغیرہ۔ حافظ ابوبکر الحازمی رحمہ اللہ (متوفی 584ھ) مرد کے لیے سونے کی حرمت ثابت کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
تنبیہ: ہمارے نزدیک سیّدنا براء رضی اللہ عنہ کا انگوٹھی پہننا، محمد بن مالک الجوزجانی ضعیف کی وجہ سے غیر ثابت ہے۔ (مسند احمد 4/ 294) ایک دو کے مقابلے میں جمہور کے فہم کو ترجیح ہوگی۔ اگر کسی مسئلے میں اسلاف کے دو طرح کے اقوال ہوں تو اپنے مقصود کو فہم سلف قرار دینا اور دوسرے کو یکسر نظر انداز کرنا یا اس کی تحقیر کرنا غیر مناسب ہے، بلکہ دونوں میں سے جو کتاب و سنت کے زیادہ قریب ہو اسی کو راجح قرار دینا چاہیے۔ کتاب و سنت کے صریح دلائل کے مقابلے میں سلف صالحین کے شاذ اقوال غیر مقبول ہیں، مثلاً: رکوع میں گھٹنوں پر ہاتھ نہ رکھنا وغیرہ۔ حافظ عثمان بن سعید الدارمی رحمہ اللہ (متوفی 280ھ) نے فرمایا:
قارئین کرام! اس تمہید کو ذہن نشین کرنے کے بعد سیاہ خضاب کی ممانعت کے دلائل، ان پر اعتراضات اور ان کے جوابات ملاحظہ کریں۔ سیاہ خضاب کی ممانعت کے دلائل: دلیل (1): سیّدنا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ فتح مکہ کے دن سیّدنا ابوقحافہ رضی اللہ عنہ کو لایا گیا، ان کے سر اور داڑھی کے بال سفیدی ثغامہ کی طرح تھے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اس (سفیدی) کو کسی چیز سے بدل دو اور سیاہ رنگ سے اجتناب کرو۔‘‘ (صحیح مسلم: 2102/78) اس حدیث پر علامہ نووی رحمہ اللہ نے بایں الفاظ باب قائم کیا ہے:
امام نسائی رحمہ اللہ نے اس حدیث پر یوں باب قائم کیا:
امام ابوعوانہ رحمہ اللہ نے ان الفاظ کے ساتھ باب قائم کیا:
امام ابن حبان رحمہ اللہ نے:
امام خطیب بغدادی رحمہ اللہ نے بھی اس سے:
درج بالا محدثین نے اس حدیث سے سیاہ خضاب کی ممانعت پر استدلال کیا ہے، اب اگر کوئی اس کے باوجود بھی اسے استحباب پر محمول سمجھے تو یہ فہم سلف سے اعراض نہیں تو کیا ہے؟ اعتراض: ’’اس حدیث میں دو باتوں کا حکم موجود ہے، ایک بالوں کو رنگنے کا اور دوسرے سیاہ خضاب سے بچنے کا۔ جس طرح بہت سے اسلاف بالوں کو نہیں رنگتے تھے اور ان کے فہم و عمل کی بنا پر بالوں کو رنگنا فرض نہیں، اسی طرح بہت سے اسلاف سیاہ خضاب لگاتے تھے اور اس کی اجازت بھی دیتے تھے، لہٰذا سلف کے فہم و عمل کی بنا پر سیاہ خضاب بھی حرام نہیں۔‘‘ ازالہ: یہ کہنا درست نہیں کہ محض اسلاف کے فہم و عمل کی بنا پر بالوں کو رنگنا فرض نہیں کیونکہ اس بارے میں علیحدہ سے مرفوع احادیث بھی موجود ہیں جن سے استدلال کی بنیاد پر بعض سلف صالحین نے بالوں کو رنگنا ترک کیا، جیسا کہ سیّدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے نبی ﷺ دس کاموں کو ناپسند کرتے تھے…… ان میں سے ایک ’’تَغیِیر الشَّیْبِ‘‘ بھی ہے، یعنی سفید بالوں کو رنگنا۔ دیکھئے سنن ابی داود: 4222، سنن النسائی: 5091 وسندہ حسن۔ اسی طرح امام ابن ماجہ رحمہ اللہ تین مرفوع احادیث سے استدلال کرتے ہوئے درج ذیل باب قائم کرتے ہیں:
جس سے واضح ہوجاتا ہے کہ بال نہ رنگنے کے علیحدہ سے دلائل موجود ہیں، جبکہ سیاہ خضاب لگانے کے بارے میں ایک بھی مرفوع حدیث نہیں، لہٰذا خلط مبحث کے ذریعے سے دو کو ایک حکم میں بدلنا مذموم عمل ہے۔ نیز ’’وَاجْتَنِبُوا السَّوَادَ‘‘ سے سلف صالحین نے سیاہ خضاب کی ممانعت ہی مراد لی ہے، جیسا کہ گزر چکا ہے۔ تنبیہ: بعض الناس نے بہت بڑا دعویٰ کیا ہے کہ ’’اسلافِ امت اور محدثین کرام میں سے کوئی بھی سیاہ خضاب کی ممانعت و حرمت کا قائل نہیں۔‘‘ اس دعویٰ کی حقیقت عیاں ہوچکی ہے، نیز آنے والے صفحات کا مطالعہ کیجیے۔ دلیل (2): سیّدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
اعتراض: ’’بعض لوگ اس حدیث پاک سے سیاہ خضاب کی ممانعت و حرمت پر دلیل لیتے ہیں، لیکن ان کا یہ استدلال کمزور ہے………… اہل علم نے اس حدیث کا یہ معنی و مفہوم بیان نہیں کیا۔‘‘ ازالہ: مطلق طور پر یہ کہنا کہ اہل علم نے اس حدیث سے سیاہ خضاب کی ممانعت مراد نہیں لی بالکل مردود ہے کیونکہ اہل علم کی ایک جماعت اسے سیاہ خضاب پر ممانعت کی دلیل سمجھتی ہے۔ امام ابن سعد رحمہ اللہ نے اس حدیث پر ان الفاظ کے ساتھ باب قائم کیا:
یعنی ابن سعد رحمہ اللہ اسے ممانعت کی دلیل سمجھتے ہیں۔ امام نسائی رحمہ اللہ نے بایں الفاظ باب باندھا:
جلیل القدر تابعی امام مجاہد بن جبر رحمہ اللہ نے فرمایا:
امام ابن ابی خیثمہ رحمہ اللہ یہ حدیث نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
امام منذری رحمہ اللہ نے بایں الفاظ باب قائم کیا ہے:
علاوہ ازیں جمہور محدثین کا اس حدیث کو ’’باب فی الخضاب‘‘ وغیرہ کے تحت بیان کرنا، اس بات کی دلیل ہے کہ ان سب کے نزدیک اس حدیث سے مقصود سیاہ خضاب کی ممانعت ہی ہے نہ کہ کسی قوم کی علامت بتانا۔ جیسا کہ امام ابوداود رحمہ اللہ نے اس حدیث پر: ’’مَا جَاءَ فِي خِضَابِ السَّوَادِ‘‘ کے الفاظ کے ساتھ باب قائم کیا ہے۔ (سنن أبی داود قبل حدیث: 4212) تنبیہ: جن بعض علماء و محدثین نے اس حدیث کو کتاب الفتن (السنن الواردۃ فی الفتن لأبی عمرو الدانی: 319) یا اشراط الساعۃ میں نقل کیا ہے، اس سے محض یہ مراد ہے کہ جوں جوں قیامت قریب آئے گی یہ معصیت عام اور زیادہ ہوتی چلی جائے گی، جیسا کہ ایک حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
معلوم شد کہ شراب پینے اور زنا کا ارتکاب ہر دور میں ہوتا آیا ہے۔ حافظ محمد بن علی بن الحسن، الحکیم الترمذی رحمہ اللہ (متوفی 320ھ) نے اس حدیث کو اپنی کتاب ’’المنھیات‘‘ یعنی ممنوعاتِ شرعیہ میں بیان کیا ہے۔ (ص 199) اعتراض: ’’مشہور محدث، امام ابوبکر ابن ابی عاصم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اس حدیث میں سیاہ خضاب کی کراہت پر کوئی دلیل نہیں۔ اس میں تو ایک قوم کے بارے میں خبر دی گئی ہے، جن کی نشانی یہ ہوگی۔ (فتح الباری 10/ 354)‘‘ ازالہ: واضح نصوص اور سلف کے مفہوم کے بعد ہم یہ عرض کرنے کی جسارت کر رہے ہیں کہ ہمارے جیسے ادنیٰ طالب علموں کے لیے یہ تاویل کچھ ادھوری سی ہے! وہ اس طرح کہ قوم کی نشانی تو موجود ہے لیکن اس معصیت و نافرمانی کا ذکر نہیں جس وجہ سے وہ جنت کی خوشبو سے محروم ہوں گے……؟؟ علماء و طلباء پر قرآن و حدیث کا اسلوب واضح ہے کہ عموماً جب کسی قوم کو جنت کی نوید یا عذاب کی وعید سنائی جاتی ہے تو ساتھ ان افعالِ محمودہ یا مذمومہ کا ذکر بھی ہوتا ہے جس وجہ سے وہ ان کے مستحق ہوئے، تاکہ دیگر لوگ اس سے نصیحت حاصل کریں، مثلاً خارجیوں کی علامات کے ساتھ ساتھ ان کے قبیح اعمال کا تذکرہ بھی کتبِ احادیث میں موجود ہے، چنانچہ سابقہ صفحات پر مذکور دلائل سے یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ اس حدیث میں جس قوم کا ذکر ہے وہ کسی اور گناہ کی وجہ سے نہیں بلکہ سیاہ خضاب کی وجہ سے ہی جنت کی خوشبو سے محروم رہے گی۔ والعیاذ باللہ اعتراض: ’’مذکورہ حدیث میں موجود وعید سیاہ خضاب کی وجہ سے نہیں، ورنہ ’’آخری زمانے‘‘ کی قید کا کیا معنی؟ سیاہ خضاب کا استعمال کرنے والے تو صحابہ کرام سے لے کر ہر دور میں موجود رہے ہیں۔‘‘ ازالہ: یہ اعتراض طفل تسلی سے بڑھ کر اور کچھ نہیں۔ ہم یہ واضح کرچکے ہیں کہ آخری زمانے میں چونکہ اس فعل کی بہتات ہوگی، اس لیے اس کی نسبت آخری زمانے یا قربِ قیامت سے کی گئی ہے۔ اس کا یہ معنی قطعاً نہیں کہ پہلے ادوار میں اس فعل کا وجود سرے سے تھا ہی نہیں۔ سیّدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
معترض کا اس حدیث کے بارے میں کیا خیال ہے؟ کیا یہ صرف آخری زمانے کے ساتھ خاص ہے؟ ہرگز نہیں، عہد نبوت کے بعد سے لے کر اب تک ہر دور میں ایسے کذاب آتے رہے جو روایتوں کو گھڑ کر لوگوں میں عام کرتے رہے ہیں اور یہ ایسی حقیقت ہے جس سے انکار ممکن نہیں، پھر سیاہ خضاب سے متعلق ’’یَکُوْنُ فِي آخِرِ الزَّمَانِ‘‘ کی بنا پر آخری زمانے کے ساتھ خاص ہو اور صحیح مسلم کی حدیث ’’یَکُوْنُ فِي آخِرِ الزَّمَانِ‘‘ کے باوجود عام کیوں؟ جب ان الفاظ کے باوجود یہ ہر دور کو محیط ہے تو سیاہ خضاب سے متعلق حدیث کو مقید کیوں کیا جارہا ہے؟ سلف صالحین اور سیاہ خضاب: جلیل القدر تابعی امام عطاء بن ابی رباح رحمہ اللہ نے نبی کریم ﷺ کے دو سو صحابہ کرام کو دیکھا ہے۔ (السنن الکبری للبیہقی 1/ 59 وسندہ حسن، خالد بن ابی ایوب حسن الحدیث ہیں، انھیں ابن حبان نے ثقہ کہا اور ابن خزیمہ، حاکم اور ذہبی نے ان کی حدیث کو صحیح قرار دیا ہے) انھوں نے عہدِ صحابہ میں جو مشاہدہ کیا اس کی روشنی میں فرماتے ہیں:
اعتراض: ’’امام عطاء بن ابی رباح رحمہ اللہ نے اپنے علم کے مطابق یہ بیان دیا ہے، جبکہ صحابہ کرام کی ایک جماعت سے سیاہ خضاب کا استعمال ثابت ہے۔ امام عطاء رحمہ اللہ نے ان صحابہ کرام کو نہیں دیکھا ہوگا جو سیاہ خضاب استعمال کرتے تھے۔‘‘ ازالہ: بالکل امام عطاء رحمہ اللہ نے اپنے علم اور مشاہدے کے مطابق ہی بیان دیا ہے جس سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ صحابہ کرام میں سیاہ خضاب کا رجحان نہیں تھا۔ حیرت ہے! تقریباً دو سو کے مقابلے میں تین کو جماعت قرار دے کر جلیل القدر تابعی کی گواہی کو کنارے لگایا جارہا ہے۔ جمہور صحابہ کرام کے مقابلے میں جن بعض صحابہ نے سیاہ خضاب استعمال کیا ہے ہم اسے لاعلمی پر محمول کریں گے کہ ممکن ہے ان تک اس کی ممانعت والی حدیث پہنچی ہی نہ ہو۔ واللہ اعلم جلیل القدر تابعی امام سعید بن جبیر رحمہ اللہ نے فرمایا:
اعتراض: ’’خضاب بالوں کو لگایا جاتا ہے، چہرے کو نہیں۔ مہندی اور کتم ملا کر خضاب لگایا جائے تو زرد سا رنگ نکلتا ہے اور یہ سنت سے بھی ثابت ہے۔ کیا کہا جاسکتا ہے کہ بندے نے نورانی چہرے کو زرد کرلیا؟…… لہٰذا یہ قول ناقابل التفات ہے۔‘‘ ازالہ: یہ اعتراض کسی اہل علم کو زیب نہیں دیتا کیونکہ قرآن و حدیث میں چہرے کو نمایاں حیثیت حاصل ہے اور جب نیکی بتانا مقصود ہو تو روشن چہرے سے تشبیہ دی جاتی ہے اور اگر برائی سے متعلق بتانا مقصود ہو تو سیاہ چہرے یا بے نور چہرے کی مثال دی جاتی ہے، چونکہ امام سعید بن جبیر رحمہ اللہ کے نزدیک سیاہ خضاب سے بچنا نیکی اور اسے استعمال کرنا گناہ ہے، لہٰذا انھوں نے قرآن و حدیث والا ہی اسلوب اختیار کیا ہے۔ قرآن مجید سے اس کی چند مثالیں پیشِ خدمت ہیں: ارشاد باری تعالیٰ ہے:
اسی طرح اللہ رب العزت نے فرمایا:
نیز فرمایا:
ان آیات میں غور و فکر کرنے سے امام سعید بن جبیر رحمہ اللہ کے قول کی حقیقت واضح ہوجائے گی۔ ان شاء اللہ باقی رہا معترض کا یہ کہنا کہ ’’مہندی اور کتم ملا کر خضاب لگایا جائے تو زرد سا رنگ نکلتا ہے اور یہ سنت سے بھی ثابت ہے۔ کیا کہا جاسکتا ہے کہ بندے نے نورانی چہرے کو زرد کرلیا؟‘‘ تو عرض ہے کہ قطعاً نہیں، کیونکہ معترض کو بھی تسلیم ہے کہ ’’یہ سنت سے بھی ثابت ہے‘‘ اور سنت کی پیروی تو روزِ قیامت چہرے روشن ہونے کا ذریعہ ہے نہ کہ زرد…… البتہ سیاہ خضاب سنت سے ثابت نہیں، لہٰذا امام سعید بن جبیر رحمہ اللہ کا قول قابلِ التفات ہی ہے۔ تدبر جداً جلیل القدر تابعی امام مجاہد بن جبر رحمہ اللہ نے فرمایا:
جلیل القدر تابعی امام مکحول رحمہ اللہ نے سیاہ خضاب کو مکروہ کہا ہے۔ (مصنف ابن ابی شیبۃ 8/ 438 ح 25519 وسندہ صحیح) امام ابوقلابہ رحمہ اللہ کا سیاہ خضاب سے رجوع: بعض الناس نے امام ابوقلابہ رحمہ اللہ کو ان تابعین میں شمار کیا ہے جو سیاہ خضاب لگاتے تھے، حالانکہ امام موصوف رحمہ اللہ کا سیاہ خضاب ترک کردینا ثابت ہے۔ امام خالد بن مہران الحذاء رحمہ اللہ نے فرمایا:
جلیل القدر تابعی رحمہ اللہ کا رجوع اس بات کی دلیل ہے کہ ان کے نزدیک سیاہ خضاب مسنون یا مستحب نہیں اور ممکن ہے کہ انھوں نے ممانعت والی حدیث پہنچنے کے بعد ہی اسے ترک کیا ہو۔ واللہ اعلم امام عبد العزیز بن ابی رواد رحمہ اللہ نے فرمایا:
اعتراض: ’’یہ شاذ قول ہے جس میں عبد العزیز کا کوئی سلف نہیں۔‘‘ ازالہ: یہ شاذ نہیں بلکہ واضح نصوص اور اسلاف کے مفہوم کی ترجمانی ہے کیونکہ ایمان و اسلام کی تعلیم صرف زرد و سرخ خضاب ہے اور سیاہ خضاب سے بچنے کا حکم ہے، چونکہ سیاہ خضاب استعمال کرنا معصیت و نافرمانی ہے اس لیے اس کی نسبت شیطان کی طرف کی گئی ہے۔ ایوب بن النجار کہتے ہیں: میں نے یحییٰ بن أبی کثیر (رحمہ اللہ) کو دیکھا انھوں نے اپنی داڑھی کو پکڑ کر فرمایا:
محمد بن احمد بن ابی موسیٰ الشریف البغدادی رحمہ اللہ (متوفی 428ھ) کے نزدیک بالوں کو سیاہ کرنا مکروہ ہے۔ (الإرشاد إلی سبیل الرشاد ص 534) سلف کے اقوال و افعال سے متعلق بعض غلط فہمیاں اور ان کا ازالہ غلط فہمی: ’’درج ذیل تابعین کرام بھی سیاہ خضاب لگاتے تھے: …… ابوبکر، محمد بن مسلم بن عبید اللہ بن عبد اللہ بن شہاب، زہری، مدنی (م: 125ھ) (جامع معمر بن راشد: 11/ 155 وسندہ صحیح)‘‘ ازالہ: اس روایت کی سند صحیح نہیں بلکہ ضعیف ہے کیونکہ عبد الرزاق اسے معمر سے بیان کر رہے ہیں اور عبد الرزاق مدلس ہیں، جبکہ انھوں نے سماع کی صراحت بھی نہیں کی، لہٰذا یہ روایت ضعیف ہے، اسے ’’وسندہ صحیح‘‘ کہنا اور اپنے موقف میں پیش کرنا درست نہیں۔ غلط فہمی: ’’ابوعبد اللہ، بکر بن عبد اللہ، مزنی بصری (م: 106ھ) الطبقات الکبریٰ لابن سعد 7/ 158 وسندہ صحیح‘‘ ازالہ: امام ابوبکر محمد بن واسع (ثقہ، عابد، کثیر المناقب) نے فرمایا:
اس اثر کے بعد دو باتیں واضح ہیں: 1- امام بکر بن عبد اللہ المزنی رحمہ اللہ نے سیاہ خضاب سے رجوع کرلیا تھا۔ 2- سیاہ خضاب کے راوی زیاد بن أبی مسلم مختلف فیہ بھی ہیں اور اپنے سے اوثق ابوبکر محمد بن واسع کی مخالفت بھی کر رہے ہیں، لہٰذا سیاہ خضاب والی روایت شاذ ہونے کی وجہ سے غیر مقبول ہے۔ غلط فہمی: ’’قاضی، محارب بن دثار، سدوسی کوفی (م: 116ھ) (مسند علی بن الجعد: 725 وسندہ حسن)‘‘ ازالہ: قاضی محارب بن دثار رحمہ اللہ بھی سیاہ خضاب لگانے سے رجوع کرچکے ہیں جس کی دو دلیلیں پیش خدمت ہیں: 1- مسند علی بن الجعد (726 وسندہ حسن) میں مذکورہ حوالے سے متصل بعد حسان بن ابراہیم ہی نے فرمایا: میں نے (محارب بن دثار رحمہ اللہ) کی مانگ والی جگہ میں مہندی لگی دیکھی ہے۔ 2- امام سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ نے فرمایا: میں نے محارب بن دثار کو عمر رسیدہ حالت میں کوفہ کی مسجد کے ایک کونے میں لوگوں کے درمیان فیصلہ کرتے دیکھا، آپ کی گھنی، لمبی (اور سفید) داڑھی تھی، آپ خضاب نہیں لگاتے تھے۔ (أخبار القضاۃ لأبی محمد بن خلف ص 507 وسندہ صحیح) تنبیہ: سفید داڑھی کے الفاظ ابن عیینہ کی دوسری روایت سے لیے ہیں۔ دیکھئے حوالہ مذکورہ۔ اس سے واضح ہوجاتا ہے کہ قاضی محارب بن دثار رحمہ اللہ نے سیاہ خضاب سے رجوع کرلیا تھا۔ غلط فہمی: ’’ابوخطاب، امام قتادہ بن دعامہ بن قتادہ، سدوسی بصری (م: بعد 110ھ) نے فرمایا: ’’عورتوں کے لیے بالوں کو سیاہ خضاب دینے میں رخصت ہے۔‘‘ (جامع معمر بن راشد: 20182 وسندہ صحیح)‘‘ ازالہ: رخصت اسی وقت رخصت ہوتی ہے جب عزیمت کا حکم باقی ہو ورنہ وہ رخصت نہیں بلکہ اصل حکم کی ناسخ ہوتی ہے، لہٰذا قائلین سیاہ خضاب کو یہ چنداں مفید نہیں کیونکہ امام قتادہ رحمہ اللہ سیاہ خضاب کی ممانعت تسلیم کرکے عورتوں کو رخصت دے رہے ہیں اور یہ رخصت بھی محل نظر ہے کیونکہ سیاہ خضاب مردوزن دونوں کے لیے یکساں ممنوع ہے جب تک عورتوں کے لیے علیحدہ سے کوئی خاص حکم نہ ہو۔ بعض علماء نے ریشم اور سونے پر قیاس کرتے ہوئے سیاہ خضاب عورتوں کے لیے جائز قرار دیا ہے لیکن یہ اجتہادی سہو ہے اور نصوص و دلائل کے مقابلے میں ہونے کی وجہ سے غیر مقبول ہے، نیز امام اسحاق بن راہویہ رحمہ اللہ کی رخصت کا بھی یہی جواب ہے۔ مزید دیکھئے آنے والے صفحات۔ غلط فہمی: ’’ابوسلمہ بن عبد الرحمن بن عوف قرشی (م: 94/ 104ھ) (الطبقات الکبریٰ لابن سعد 5/ 119 وسندہ صحیح)‘‘ ازالہ: دو علیحدہ علیحدہ گواہیوں سے معلوم ہوتا ہے کہ ابوسلمہ بن عبد الرحمن بن عوف رحمہ اللہ بھی سیاہ خضاب سے رجوع کرچکے تھے۔ 1- محمد بن ہلال کا بیان ہے: انھوں نے ابوسلمہ بن عبد الرحمن کو دیکھا کہ وہ مہندی لگاتے تھے۔ 2- محمد بن عمرو بن علقمہ وقاص اللیثی کا بیان ہے کہ ابوسلمہ (رحمہ اللہ) مہندی اور کتم (ملا کر اس) سے خضاب لگاتے تھے۔ (الطبقات لابن سعد 7/ 155 وسندہ حسن) ائمہ دین اور سیاہ خضاب: امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا:
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے سیاہ خضاب کے بارے میں فرمایا: اللہ کی قسم! مکروہ ہے۔ (الوقوف والترجل من مسائل الإمام احمد ص 138 وسندہ حسن، احمد بن محمد بن ابراہیم بن حازم صدوق کما قال الخطیب) عبد اللہ بن احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے فرمایا: میرے والد محترم نے اپنے سر اور داڑھی پر مہندی لگا رکھی تھی۔ (حلیۃ الأولیاء 9/ 162 وسندہ صحیح) امام احمد بن سنان الواسطی رحمہ اللہ نے فرمایا:
نبی کریم ﷺ کا انتخاب: قارئین کرام! ہم سابقہ سطور میں یہ واضح کرچکے ہیں کہ سیاہ خضاب کا استعمال جائز نہیں اور اس سے اجتناب ضروری ہے۔ اب ہم آپ کو اختصار کے ساتھ اس خضاب سے متعلق آگاہی دیں گے جسے نبی کریم ﷺ نے اپنی امت کے لیے پسند فرمایا اور صحابہ کرام نے اسے اختیار کیا۔ اللہ رب العزت ہر مسلمان کو اتباع رسول ﷺ کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
نبی کریم ﷺ کا عمل: عثمان بن عبد اللہ بن موہب رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ سیّدہ اُمّ سلمہ رضی اللہ عنہا نے ہمیں نبی ﷺ کے چند بال نکال کر دکھائے جن پر خضاب لگا ہوا تھا۔ (صحیح البخاری: 5897) ابن موہب رحمہ اللہ ہی سے مروی ہے کہ سیّدہ اُمّ سلمہ رضی اللہ عنہا نے انھیں نبی ﷺ کا بال دکھایا جو سرخ تھا۔ (صحیح البخاری: 5898) سیّدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا عمل: عقبہ بن وساج رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ سیّدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ کا عمل: سیّدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
سیّدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کا عمل: اسماعیل بن ابی خالد کہتے ہیں:
طوالت کے خوف سے اِنھیں آثار پر اکتفا کیا جاتا ہے کیونکہ جو نکتہ ہم قارئین کو سمجھانا چاہتے ہیں وہ اس سے واضح ہوجاتا ہے۔ والحمد للّٰہ آخری گزارش: قارئین کرام! ہم پورے شرح صدر سے لکھ رہے ہیں کہ احادیثِ صحیحہ اور فہم سلف صالحین سے سیاہ خضاب کی ممانعت ہی ثابت ہورہی ہے، لہٰذا اس سے اجتناب ضروری ہے۔ یاد رہے جو لوگ خود ایسی کشمکش کا شکار ہوں کہ سیاہ خضاب کی ممانعت کبھی ان کے نزدیک استحباب پر محمول ہو تو کبھی کراہت پر…… اُن کے ’’الحاصل‘‘ سے کچھ حاصل نہیں کیونکہ جو مستحب ہے وہ مکروہ نہیں اور جو مکروہ ہے وہ مستحب نہیں۔ ایک صاحب نے تقریباً بیس صفحات اس موضوع پر لکھے ہیں، بالآخر پورے مضمون کا نچوڑ آخری سطر میں یوں واضح کرتے ہیں: ’’سیاہ خضاب کو زیادہ سے زیادہ مکروہ کہا جاسکتا ہے‘‘!!!! تو عرض ہے کہ ممنوعات و مکروہات اگر اس لیے بیان کیے جائیں کہ لوگ انھیں پڑھ کر ان سے اپنا دامن بچائیں گے تو یہ لائق تحسین ہے، لیکن اگر ان کی تبلیغ شروع کردی جائے تو پھر ایسے حضرات کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ وما علینا الا البلاغ ---------- اصل مضمون ----------- اصل مضمون کے لئے دیکھئے ماہنامہ الحدیث حضرو (شمارہ 126 صفحہ 22 تا 39) للشیخ حافظ ندیم ظہیر حفظہ اللہ |
ہماری موبائل ایپ انسٹال کریں۔ تحقیقی مضامین اور تحقیقی کتابوں کی موجودہ وقت میں ان شاء اللہ سب سے بہترین ایپ ہے، والحمدللہ۔
دیگر بلاگ پوسٹس:
Android App --or-- iPhone/iPad App
IshaatulHadith Hazro © 2024