اللہ کی معیت و قربت سے کیا مراد ہے؟تحریر: محدث العصر حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ |
سوال:
الجواب: مقاتل بن حیان (النبطی المفسر) نے وھو معھم کی تشریح میں فرمایا:
ضحاک بن مزاحم المفسر نے فرمایا:
عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما (مفسر قرآن) سے مروی ہے:
ان روایات کے راوی بکیر بن معروف (مفسر)حسن الحدیث تھے۔ امام نسائی اور جمہور محدثین نے ان کی توثیق کی ہے، ان پر احمد بن حنبل کی طرف منسوب جرح تہذیب الکمال للمزی میں بے سند ہونے کی وجہ سے ثابت نہیں ہے، جبکہ خود امام احمد سے ان کی توثیق ثابت ہے۔ (دیکھئے معرفۃ العلل والرجال:2503) ابن المبارک کی طرف منسوب جرح عبد اللہ بن محمد بن سعدویہ اور احمد بن عبد اللہ بن بشیر المروزی کی وجہ سے ثابت نہیں ہے۔ دیکھئے کتاب الضعفاء للعقیلی (ج1 ص 152، 153) امام اہلِ سنت احمد بن حنبل نے ﴿ھو معھم أینما کانوا﴾ کی تشریح میں فرمایا:
سلف صالحین میں سے ان کا کوئی مخالف نہیں ہے، حافظ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے لکھا:
یہ ظاہر ہے کہ اجماع شرعی حجت ہے۔ تفصیل کے لئے امام شافعی کی کتاب الرسالۃ اور حافظ ابن حزم کی الاحکام دیکھیں۔ حافظ عبد اللہ محدث غازی پوری (1260ھ۔1337ھ)نے فرمایا:
اس پر حافظ صاحب نے خود ہی بطور حاشیہ لکھا ہے کہ
یاد رہے کہ ’’معکم‘‘ کا معنی ’’علمہ وقدرتہ‘‘ کرنا تاویل نہیں بلکہ اس کے لغوی معنوں میں سے ایک ہے جیسے کہا جاتا ہے: ’’اِذھب أنا معک‘‘ جاؤ میں تمھارے ساتھ ہوں۔ جو لوگ ’’معکم‘‘ کو علم و قدرت کے علاوہ کوئی علیحدہ صفت سمجھ بیٹھے ہیں ان کا قول اجماعِ صحابہ وتابعین ومن بعدھم کے خلاف ہونے کی وجہ سے مردود ہے۔ اصل مضمون کے لئے دیکھئے فتاویٰ علمیہ المعروف توضیح الاحکام (ج 1 ص 31۔32) |
ہماری موبائل ایپ انسٹال کریں۔ تحقیقی مضامین اور تحقیقی کتابوں کی موجودہ وقت میں ان شاء اللہ سب سے بہترین ایپ ہے، والحمدللہ۔
دیگر بلاگ پوسٹس:
Android App --or-- iPhone/iPad App
IshaatulHadith Hazro © 2024