گیارہ رکعات قیامِ رمضان (تراویح) کا ثبوت اور دلائلتحریر: محدث العصر حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ |
اس مختصر مضمون میں گیارہ رکعات قیامِ رمضان (تراویح) کا ثبوت اور (بعض تحقیقی اور بعض الزامی) دلائل پیشِ خدمت ہیں: 1) سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ
اس حدیث پر امام بخاری اور محدث بیہقی رحمہمااللہ نے قیام رمضان (اور تراویح) کے عنوانات لکھے ہیں۔ (مثلاً دیکھئے السنن الکبریٰ للبیہقی 2/ 495۔496) نیز بہت سے حنفی وغیر حنفی علماء نے اس حدیث سے استدلال کر کے یہ ثابت کر دیا ہے کہ اس سے مراد قیامِ رمضان (تراویح) ہے۔ مثلاً دیکھئے نصب الرایہ للزیلعی (2/ 153) الدرایہ لابن حجر العسقلانی (1/ 203) عمدۃ القاری للعینی (11/ 128) فتح القدیر لابن ہمام (1/ 467) اور الحاوی للسیوطی (1/ 348) ایک حدیث میں آیا ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا:
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ گیارہ رکعات دو دو کر کے (2+2+2+2+2) اور آخر میں ایک وتر (کل 11) پڑھنا ثابت ہے۔ 2) سیدنا جابر بن عبد اللہ الانصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:
اس حدیث کے راوی عیسیٰ بن جاریہ رحمہ اللہ جمہور محدثین کے نزدیک ثقہ و صدوق ہونے کی وجہ سے حسن الحدیث ہیں۔ (دیکھئے تحقیقی مقالات ج 1 ص 525۔532) دوسری روایت میں آیا ہے کہ سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
3) سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ (خلیفۂ راشد و امیر المومنین) نے سیدنا ابی بن کعب اور سیدنا تمیم الداری (رضی اللہ عنہما) کو حکم دیا، لوگوں کو گیاہ رکعات پڑھائیں۔ (موطأ امام مالک روایۃ یحییٰ 1/ 114ح 249، السنن الکبریٰ للبیہقی 2/ 496) اس روایت کی سند صحیح ہے اور اس میں کسی قسم کا کوئی اضطراب نہیں بلکہ جب طحاوی نے اس روایت کو دو سندوں سے بیان کیا تو عینی حنفی نے کہا:
نیموی نے کہا: ’’و إسنادہ صحیح‘‘ (آثار السنن ص 250) ایک روایت میں آیا ہے کہ سیدنا سائب بن یزید رضی اللہ عنہ صحابی نے فرمایا:
دوسری روایت میں ہے کہ سیدنا اُبئ بن کعب اور سیدنا تمیم الداری رضی اللہ عنہما دونوں گیارہ رکعات پڑھاتے تھے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ 2/ 392 ح 7670 وسندہ صحیح) 4) طحطاوی حنفی اور محمد احسن نانوتوی نے لکھا ہے:
5) انور شاہ کاشمیری دیوبندی نے کہا:
انور شاہ صاحب نے مزید کہا:
نیز دیکھئے فیض الباری (ج 2 ص 420) 6) ابو بکر بن العربی المالکی (متوفی 543ھ) نے کہا:
7) خلیل احمد سہارنپوری دیوبندی نے لکھا ہے:
8) ابن ہمام حنفی نے کہا:
9) دیوبندیوں کے منظورِ نظر عبد الشکور لکھنوی نے لکھا ہے:
عرض ہے کہ صحیح حدیث اور آثارِ صحیحہ کے بعد اگر مگر کی کوئی ضرورت نہیں اور صحیح حدیث پر عمل میں ہی نجات ہے۔ 10) محمد یوسف بنوری دیوبندی نے تسلیم کیا:
11) امام شافعی رحمہ اللہ نے بیس رکعات کو پسند کرنے کے بعد فرمایا:
1: بعض آلِ تقلید نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ ’’بیس رکعتیں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے ثابت ہیں‘‘ لیکن یہ دعویٰ کسی صحیح دلیل سے ثابت نہیں، بلکہ ہماری پیش کردہ دلیل نمبر 3 کے خلاف ہونے کی وجہ سے مردود ہے۔ 2: بعض آلِ تقلید نے بس رکعات تراویح پر اجماع کا دعویٰ کیا ہے، حالانکہ اجماع کا یہ دعویٰ باطل ہے۔ (دیکھئے میری کتاب: تعداد رکعاتِ قیامِ رمضان کا تحقیقی جائزہ ص 84۔87) 3: درج ذیل حنفی اور دیوبندی علماء نے آٹھ رکعات تراویح کا سنت ہونا تسلیم کیا ہے: ابن ہمام، طحطاوی، ملا علی قاری، حسن بن عمار شرنبلانی۔ محمد احسن نانوتوی، عبدالشکور لکھنوی، عبدالحی لکھنوی، خلیل احمد سہارنپوری، احمدعلی سہارنپوری، انور شاہ کاشمیری اور محمد یوسف بنوری۔ تفصیل کے لئے دیکھئے میری کتاب: تعدادِ رکعاتِ قیامِ رمضان کا تحقیقی جائزہ ……………… اصل مضمون ……………… اصل مضمون کے لئے دیکھئے تحقیقی و علمی مقالات للشیخ حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ (جلد 5 صفحہ 167 تا 170) |
ہماری موبائل ایپ انسٹال کریں۔ تحقیقی مضامین اور تحقیقی کتابوں کی موجودہ وقت میں ان شاء اللہ سب سے بہترین ایپ ہے، والحمدللہ۔
دیگر بلاگ پوسٹس:
Android App --or-- iPhone/iPad App
IshaatulHadith Hazro © 2024