محدّث العَصر حَافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ |
حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ 25 جون 1957 کو صوبہ پنجاب ضلع اٹک کی ایک سرسبز وادی، وادی چھچھ میں پید۱ ہوئے۔ آپ لکھتے ہیں: ’’اصل نام محمد زبیر اور تحریر و تقریر کی دنیا میں عرفی نام زبیرعلی زئی ہے، تکمیلِ حفظِ قرآن کی سعادت کے بعد اب عرفی نام حافظ زبیر علی زئی ہے۔ والحمدللہ‘‘ دیکھئے تحقیقی و علمی مقالات جلد 4 صفحہ 541 ایک دوسرے مقام پر لکھتے ہیں: ’’اور حال یہ ہے کہ وہ میرے نام سے بالکل بے خبر ہیں۔ میرا نام محمد زبیر ہے اور قبیلہ علی زئی۔۔۔‘‘ دیکھئے تحقیقی و علمی مقالات جلد 2 صفحہ 336 جامعہ امام بخاری، مقام حیات سرگودھا میں سنن ابی داود کی ایک حدیث (738) کے درس کے دوران ایک کتاب کے بارے میں فرمایا کہ ’’ابو معاذ الشاشی کی کتاب ہے‘‘۔ مزید فرمایا کہ ’’میرا نام زبیر علی زئی ہے اور معاذ میرا بیٹا ہے۔ چھچھ ہمارا علاقہ ہے۔ حضرو کو اصل میں چھچھ کہتے ہیں۔‘‘ تعلیمآپ نے ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں پیرداد میں حاصل کی۔ بعد ازاں گورنمنٹ ڈگری کالج اٹک سے گریجوایشن کا امتحان اعلی نمبروں سے پاس کیا۔ آپ نے پنجاب یونیورسٹی لاہور سے اسلامیات اور عربی میں دو مرتبہ ماسٹرز کا امتحان پاس کیا۔ (حوالہ) آپ نے اسلامی تعلیم جامعہ محمدیہ گوجرانولہ اور وفاق المدارس السلفیہ فیصل آباد سے حاصل کی۔ (حوالہ) آپ تقریبا 90 دنوں میں قرآن حفظ کرچکے تھے۔ خاندانآپ کا تعلق ایک پٹھان خاندان "علی زئی" سے تھا۔ آپ کی شادی 1982 میں ہوئی تھی۔ آپ کے تین بیٹے اور چار بیٹیاں ہیں۔ بچے بترتیب طاہر، عبد اللہ ثاقب اور معاذ ہیں۔ (حوالہ) اردو تصانیفآپ نے "الحدیث" کے نام سے ایک رسالہ جون 2004 میں شروع کیا تھا۔ آپ کے سینکڑوں مضامیں رسالہ الحدیث میں شائع ہو چکے ہیں۔ رسالہ الحدیث آن لائن پڑھنے کے لئے یہاں کلک کریں۔ آپ کی اردو تصانیف: (حوالہ: نورالعینین صفحہ 14)
حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ کی عربی تصانیف کی لسٹ نورالعینین پر دیکھیں۔ (حوالہ: صفحہ 16) بعض اساتذہ
زبانیںآپ کی مادری زبان "ہندکو" تھی، تاہم آپ کو دیگر چھ (6) زبانوں پربھی عبور حاصل تھا۔ یونانی یا عبرانی واحد زبان تھی جو وہ صرف پڑھ لکھ سکتے تھے، باقی تمام زبانوں میں انھیں بولنے پر دسترس حاصل تھا۔ دیگر زبانیں جو آپ نے سیکھیں: عربی، پشتو، فارسی، انگریزی، یونانی یا عبرانی، اور پنجابی۔ علومآپ کو علم اسماء الرجال پر عبور حاصل تھا۔ آپ بلا شک و شبہ حافظِ قرآن کے ساتھ ساتھ حافظِ حدیث بھی تھے۔ زمانہ طالبعلمیآپ تقریبا 15 یا 16 سال کے تھے جب آپ کو آپ کے سگے چچا نے صحیح بخاری تحفہ دی۔ یہ اسلامی تعلیم کی طرف آپ کا پہلا قدم تھا۔ 1980 کے آخر میں جب آپ پاکستان واپس آئے تو دوستوں نے حاجی اللہ دتہ صاحب کے بارے میں بتایا۔ حاجی صاحب کامرہ ایئر بیس سے ہر جمعہ حضرو شہر میں درس دینے آتے تھے۔ حاجی صاحب آپ کے پہلے استاد تھے۔ آپ حاجی صاحب کے مناظروں میں شریک ہوتے، ان سے کتابوں کی صحت کے بارے سوالات کرتے، مسائل پوچھتے۔ غرض یہ کہ (بقول آپ کے) آ پ نے جن شیوخ میں سے سب سے زیادہ علمی فائدہ حاصل کیا، حاجی صاحب ان شیوخ میں سر فہرست تھے۔ (حوالہ: الحدیث 1 صفحہ نمبر 35) |
شمارہ | مضمون | صفحہ |
---|
Android App --or-- iPhone/iPad App
IshaatulHadith Hazro © 2024