التوضیح لمبھمات الجامع الصحیح لابن العجمی |
کتاب کا مکمل نام: التوضیح لمبہمات الجامع الصحیح لابن العجمی مصنف کا نام: السبط ابن العجمی (متوفی 841ھ) مصنف کا نام ’’إبراہیم بن محمد بن خلیل سبط ابن العجمی الحلبی‘‘ ہے۔ کتاب کے بارے میں: صحیح بخاری میں جو مبہم راوی ہیں، التوضیح لمبہمات الجامع الصحیح میں ان مبہم راویوں کی وضاحت کی گئی ہے کہ وہ کون ہیں۔ (حافظ ابن حجر رحمہ اللہ بھی ’’فتح الباری‘‘ میں متعلقہ راوی کی توضیح کر دیتے ہیں) بعض اوقات سند یا متن میں ابہام ہوتا ہے۔ ’’أن رجل قال‘‘۔ ’’عن رجل‘‘۔ رجل کا نام معلوم کرنے کے لئے ’’التوضیح لمبھمات الجامع الصحیح‘‘ بہترین کتاب ہے۔ کچھ مثالیں: 1- امام بخاری نے امام مالک کی سند سے ایک روایت بیان کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ فتح کے سال مکہ میں داخل ہوئے اور آپ کے سر پرخود تھا۔ جب آپ نے خود اتارا تو ایک آدمی نے آکر کہا: اے اللہ کے رسول! ابن خطل (ایک کافر) کعبہ کے پردوں سے لٹکا (چمٹا) ہوا ہے؟ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اسے قتل کر دو۔ (صحیح بخاری: 1846، 3044، 4248، 5808) اب اس روایت میں ابن خطل کے بارے میں پوچھنے والے کا نام معلوم نہیں ہے۔ (التوضیح لمبہمات الجامع الصحیح لابن العجمی، قلمی ص 96) ہو سکتا ہے کہ وہ ابوبرزہ الاسلمی رضی اللہ عنہ ہوں۔ واللہ اعلم (دیکھئے فتح الباری 4/ 60) 2- امام بخاری ایک اور روایت لے کر آئے ہیں کہ (سیدنا) کعب بن مالک ( رضی اللہ عنہ) کی ایک لونڈی سلع (کے مقام) پر بکریاں چرا رہی تھی پھر ان میں سے ایک بکری مصیبت کا شکار (زخمی یا بیمار) ہوئی تو اس نے وہاں پہنچ کر اسے پتھر کے ساتھ ذبح کر دیا۔ پھر رسول اللہ ﷺ سے اس کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا: اس میں کوئی حرج نہیں ہے، پس تم اسے کھاؤ۔ (صحیح بخاری: 5505) امام بخاری یہ روایت امام مالک سے روایت کرتے ہیں اور اس کی سند اس طرح ہے: مَالِکٌ عَنْ نَافِعٍ عَنْ رَجُلٍ مِّنَ الأَنْصَارِ عَنْ مُعَاذِ بْنِ سَعْدٍ أوْ عَنْ سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ:
یعنی ’’رجل من الانصار‘‘ کا نام معلوم کرنے کے لئے آپ ’’التوضیح لمبھمات الجامع الصحیح‘‘ وغیرہ کتب دیکھ سکتے ہیں۔ 3- اسی طرح امام بخاری نے ایک اور روایت بیان کی ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ اہلِ نجد میں سے ایک آدمی رسول اللہ ﷺ سے ملنے آیا تھا اور اس کے سر کے بال بکھرے ہوئے تھے، وغیرہ۔ دیکھئے صحیح بخاری (56) اہلِ نجد میں سے آدمی کون تھا؟ حدیث میں اس کی صراحت نہیں ہے۔ ابن بطال وابن العجمی وغیرہما کا خیال ہے کہ وہ ضمام بن ثعلبہ رضی اللہ عنہ ہیں۔ (شرح ابن بطال 1/ 97 والتوضیح لمبہمات الجامع الصحیح لابن العجمی، قلمی ص 13) اور یہی بات راجح معلوم ہوتی ہے۔ 4- امام بخاری ایک اور روایت بیان کرتے ہیں کہ انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے تھے کہ ایک درزی نے کھانا تیار کر کے رسول اللہ ﷺ کو دعوت دی تو یہ کھانا کھانے کے لئے میں بھی رسول اللہ ﷺ کے ساتھ گیا، پھر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں جو کی روٹی اور شوربا پیش کیا گیا، جس میں کدو اور خشک گوشت کے ٹکڑے تھے تو میں نے دیکھا، رسول اللہ ﷺ (سالن کے) پیالے میں کدو تلاش کرتے تھے اور میں اس دن سے کدو پسند کرتا ہوں۔ (صحیح بخاری: 5379) اس حدیث میں مذکور درزی کا نام معلوم نہیں، لیکن یہ دوسری روایت میں آیا ہے کہ وہ نبی ﷺ کے غلاموں میں سے ایک تھا۔ دیکھئے فتح الباری (9/ 525 تحت ح 5379) اور ابن العجمی الحلبی کی کتاب: التوضیح لمبہمات الجامع الصحیح (قلمی ص 160/320) تنبیہ:سبط ابن العجمی کی ایک اور کتاب بھی ہے: ’’مختصر کتاب الغوامض والمبھمات فی الاسماء الواقعہ فی متون الاحادیث لابن بشکوال‘‘ اور اس کا مخطوطہ انٹرنیٹ پر مختلف ویب سائٹس میں موجود ہے۔ تنبیہ: یہ تمام حوالے محدث العصر الشیخ حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ کی کتاب ’’مقالات‘‘ وغیرہ سے لئے گئے ہیں۔ |
Android App --or-- iPhone/iPad App
IshaatulHadith Hazro © 2024